شریعت , طریقت, معرفت  حقیقت

 راہ سلوک کے مسافر کے لیے شریعت , طریقت, معرفت  حقیقت چار درجوں کو سمجھنا اور ان تک پہنچنا انتہائی ضروری ہے چونکہ انہیں سمجھے بغیر اللہ تک پہنچنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے .

 عشق الہی اور تصوف کا پہلا درجہ شریعت ہے اس کا عالم ناسوت  ہے عالم ناسوت کو عالم حیواناتی کہتے ہیں کیونکہ اس کا فعل حواس خمسہ سے ہے جیسے کھانا ،پینا ،سونا، سونگھنا ،دیکھنا ،سننا وغیرہ جبکہ شریعت کے علم کو علم  شریعت کہتے ہیں کیونکہ شریعت سے اوامر و نواہی ،حلال اور حرام فرض ،واجب، مستحب، مکروہ، جائز اور ناجائز اور سزا و جزا کا ایک جامعہ نظام استوار ہوتا ہے اور شریعت ثواب و عذاب، حساب و کتاب کا علم ہے اور شریعت کے اعمال دین کے اندر ظاہری ڈھانچے اور جسم کی حیثیت رکھتے ہیں جبکہ مقام شریعت میں جو طالب یا کوئی انسان ہوتا ہے اس کے روح کو روح جسمانی کا نام دیا جاتا ہے اور شریعت کے اس مقام میں کثرت ذکر سے طالب کے روح پر جو تجلیات نازل ہوتی ہیں انہیں آثار کہتے ہیں۔

 طالب جب شریعت میں ترقی کرتا ہے تو طریقت میں وہ منتقل ہو جاتا ہے  طریقت  کا عالم ملکوت ہے عالم ملکوت یہ عالم مثال مختص ہے ملائکہ، ارواح اور نفوس قدسیہ کے لیے اور یہ عالم ناسوت سے ترقی کے بعد آتا ہے اور اس کا علم طریقت ہے ۔ طریقت کا علم شریعت کے علم سے اگلا درجہ ہے کیونکہ شریعت کے علم میں سالک اپنے ظاہر کو سنوارتا ہے مگر علم طریقت میں سالک اپنے باطن پر خصوصی توجہ دیتا ہے جیسا کہ صبر و شکر ،رضا و تسلیم ،تفویض و توکل، نفس کی پاکیزگی اور اخلاص وغیرہ

کچھ لوگ شریعت اور طریقت کو جدا جدا اور ان کے درمیان اختلاف سمجھتے ہیں ، شریعت اور طریقت متضاد نہیں بلکہ دونوں ایک دوسرے کے معاونت کا باعث بنتے ہیں جبکہ ایک کی تکمیل دوسرے سے ہوتی ہے اب طریقت میں سالک کا روح   جسےروح نورانی کہتے ہیں یعنی وہ جسمانی سے ترقی کر کے نورانی بن جاتا ہے اور اس مقام میں  روح پر تجلیات پڑتی ہیں انہیں تجلی افعال کہتے ہیں۔

سالک کے قلب پر غیب سے جو انوار منکشف ہوتے ہیں اس کو تجلی کہتے ہیں اگر تجلی کا سرچشمہ ذات الہی ہو اور صفات الہیہ میں سے کسی صفت کا واسطہ بیج نہ ہو تو اسے تجلی ذات کہتے ہیں اور اگر تجلی کا منبع حق تعالی کی صفات میں سے کوئی ایک صفت ہو تو اسے تجلیات صفات کہتے ہیں اور اگر تجلی کی اصل افعال الہی میں سے کوئی فعل ہو تو اسے تجلی افعال کہا جاتا ہے ۔

طریقت سے اگلا مقام معرفت ہے اسے عالم جبروت کہتے ہیں عالم جبروت عالم ارواح ہے اور اس کا فعل صفات حمیدہ ہے جیسے ذوق ،شوق ،طلب، وجد  سکر سہو اور محو وغیرہ یہ مرتبہ وحدت اور مرتبہ صفات ہے جبکہ مقام معرفت کا علم معرفت ہے یہاں پہنچ کر طالب صرف یہ پہچان کرتا ہے کہ میں کیا ہوں؟ کون ہوں ؟میرا رب کون ہے ؟یعنی یہاں انسان اپنی ذات میں غور و فکر کا علم سیکھتا ہے اور باقی ہر علم کو وہ خیر باد کہہ دیتا ہے جبکہ یہاں روح کو روح سلطانی کا نام دیا جاتا ہے اور اس مقام پر جو روح پر تجلی پڑتی ہے اسے تجلی صفات کہتے ہیں یعنی یہاں روح پر اللہ تعالی کی صفاتی نام کی تجلی وارد ہوتی ہے

اگلا مقام  حقیقت کا ہے حقیقت سب سے بھاری اور اہم مقام ہے اس کا  عالم لاہوت ہے  عالم لاہوت بے نشان ہے اپنے آپ سے قطع تعلق کرتا ہے کیونکہ اس کا تعلق عالم امر سے ہے اور اسی کو لامکان بھی کہتے ہیں یہاں پر نہ گفتگو ہے اور نہ ہی جستجو ہے نہ ہجر ہے نہ فراق ہے نہ منزل ہے نہ مقصد ہے نہ دن ہے نہ رات ہے اور نہ ہی یہاں موت ہے اور نہ ہی یہاں حیات ہے فرمان الہی ہے

وَ اَنَّ اِلٰى رَبِّكَ الْمُنْتَهٰى  اور یہ کہ بے شک تمہارے رب ہی کی طرف انتہا ہے

 یہاں انسان کامل کے علاوہ کوئی داخل نہیں ہو سکتا جبکہ اس کے علم کو علم حقیقت کہتے ہیں کیونکہ اس علم کا تعلق حق الیقین سے ہے یہاں پر فنا کا نہیں بقا اور حقیقت کا تذکرہ ہوتا ہے جبکہ مقام حقیقت میں جب طالب پہنچتا ہے تو اس کی روح کو روح قدسی کا نام دیا جاتا ہے کیونکہ اس روح کا وطن عالم لاہوت ہے اور اسے حقیقت انسانیہ بھی کہا جاتا ہے اس مقام پر روح بلاواسطہ  حق تعالی کی ذات کی تجلیات وصول کرتی ہے جو ما سوائے اللہ ہر چیز کو جلا کر راکھ کر دیتی ہیں

 ایک طالب اپنے رفیق یعنی مرشد کامل کے علاوہ ان چاروں مقامات تک پہنچنا تو دور ان کو سمجھ بھی نہیں سکتا اس کے ذہن میں یہ چاروں مقامات آ بھی نہیں سکتے کیونکہ ان چاروں مقامات کی تہہ تک پہنچنے کا تعلق علم سے ہے  جو مرشد کامل کے پاس ہوتا ہے دراصل مرشد کامل طالب کو پہلے مقام میں پہنچانے کے لیے زبان سے علم پہنچاتا ہے کیونکہ شریعت کا علم زبان سے حاصل ہوتا ہے پھر طالب ریاضت  کرتا ہے جبکہ طریقت کا علم یہ مرشد طالب کو نظر سے پہنچاتا ہے کیونکہ طریقت نظر سے حاصل ہوتی ہے اور جو مقام حقیقت ہے اس کی سمجھ اور اس کا علم مرشد طالب کو قلب سے طے کرواتا ہے یعنی قلب میں تاثیر اور قرار منتقل کر کے پھر اسے ذکر قلب عطا کرتا ہے اور پھر قلب کے ذریعے ہی وہ طریقت کا علم سیکھتا ہے اور اس کی تہہ تک پہنچتا ہے جبکہ معرفت کا علم اس کا مغز اور اس کی تہہ مرشد کامل طالب کو روح کے ذریعے پہنچاتا ہے کیونکہ اس کا تعلق روح سے حاصل ہوتا ہے

اس وجہ سے کہا گیا کہ شریعت درخت کی مثل ہے طریقت اس کی شاخیں ہیں معرفت اس کے پتے ہیں اور حقیقت اس کا پھل ہے ۔ علم شریعت ایک شرف ہے طریقت ایک حرف ہے جس میں مشاہدہ حق ہے اور معرفت مرتبہ حق الیقین ہے

 شریعت دارالسلطنت شاہ ہے، طریقت کو شریعت سے ہی راہ ہے اور حقیقت کی طریقت سے ہی حق پر نگاہ ہے اور معرفت برائے حقیقت محرم سر اسرار الہ ہے ۔

 ان چاروں درجوں کا جو بادشاہ ہے اسے شریعت کہتے ہیں کیونکہ شریعت سے ہی طریقت حقیقت اور معرفت کے فیض پھوٹتے ہیں اور طالب حق کو پہلے مقام شریعت پر خاص توجہ مرکوز رکھنی چاہیے اور سستی نہیں کرنی چاہیے

 جو آدمی شریعت کے دائرے سے باہر قدم رکھتا ہے وہ استدراج کا شکار ہو جاتا ہے ۔ استدراج ایک نفسانی اور شیطانی علم ہے جس میں طالب کو کشف و کرامات دکھائے جاتے ہیں  یہ سراسر گناہ ہے کیونکہ باطن کی ہر راہ اور ہر مقام شریعت سے ہی نکلتا ہے  اور شریعت میں ہی واپس آتا ہے جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ انتہا ابتدا کی طرف لوٹ آنے کا نام ہے اور شریعت کا شرف قرآن سے ہے اور قرآن کا شرف اسم اللہ ہے لہذا کوئی بھی چیز شریعت اور قرآن اور اس میں اللہ سے باہر نہیں ہے

 جان لے شریعت قال ہے طریقت افعال ہے حقیقت احوال ہے اور معرفت  وصال ہے

 ہر مقام سے دوسرے مقام پر پہنچنے کے لیے طالب مولا کو ہزاروں حجابات سے گزرنا پڑتا ہے اور ان چاروں مقامات کے درمیان جو حجابات ہیں  شریعت اور طریقت کے درمیان غیر ماسوا اللہ کے 70 ہزار حجابات اکبر ہیں جن میں سب سے بڑا حجاب وہ علم ہے جو تکبر اور ہوا کا سرچشمہ ہے

 انسان جب تک تکبر اور ہوا سے پاک نہیں ہو جاتا وہ مقام طریقت تک نہیں پہنچ سکتا اسی طرح طریقت اور حقیقت کے درمیان بھی کشف و کرامات کے 70 ہزار حجابات اکبر ہیں کاش کہ یہ ان لوگوں کو علم ہو جائے جو کشف و کرامات میں دلچسپی رکھتے ہیں یا اس مرشد کی تلاش میں رہتے ہیں جو کشف و کرامات والا ہوتا ہے

جب تک انسان کشف اور کرامات سے دستبردار نہیں ہو جاتا وہ حقیقت حق تک ہرگز نہیں پہنچ سکتا اور اسی طرح حقیقت اور معرفت کے درمیان 70 ہزار صفاتی حجابات اکبر ہیں اور جب تک عارف عارفیت لباس معرفت سے جان چھڑا نہیں لیتا وہ ہرگز مقام غرق نور اللہ میں نہیں پہنچ سکتا اور مقام غرق نور اللہ اور مقام حی القیوم اللہ کے درمیان 70 ہزار حجابات اکبر ہیں لہذا جب تک انسان اپنے جسم کو اسم اللہ کے تصور اور تصرف میں غرق نہیں کر دیتا وہ ہرگز بقا باللہ نہیں ہو سکتا اور نہ ہی وہ حیات دو جہاں سے سرفراز ہو سکتا ہے کیونکہ اس مقام کو نعمت الہیہ کا مقام کہا گیا ہے جس کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ صراط الذین انعمت علیہم ان لوگوں کی راہ پر چلا جن پر تیرا انعام نازل ہوا

 جب طالب مولا مقام شریعت پر ہو تو اس کے لیے شرائط یہ ہیں کہ وہ شیطان کے شر کے خلاف چلے معرفت کا حکم دے اللہ تعالی کی نافرمانی کرنے سے شرم کرے حلال کھائے سچ بولے صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرے علم دانش حاصل کرے اور اپنے ارد گرد فرض واجب سنت اور مستحب کے چار حصار قائم کرے اور اس قلعے کے درمیان اللہ تعالی کی توفیق کو اپنا ساتھی بنا کر عبادت کرے اور جب وہ ترقی کر کے مقام طریقت پر پہنچ جائے تو اس کے لیے شرط شطاری ہے اس سے مراد تیز رفتاری ہے یعنی جس طرح شہباز کی پرواز کہ ادھر اڑا اور ادھر اپنے مطلوب کو حاصل کر لیا

 مقام حقیقت میں شرط دلداری ہے اللہ کے سوا کچھ موجود نہیں جو کچھ ہو رہا ہے اسی کی طرف سے ہے کہ خیر اور شر اللہ ہی کی طرف سے ہے اللہ کی مخلوق کے لیے خیر حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں اور شر شیطان ہے اگے انسان پر منحصر ہے کہ وہ کس کی خواہش رکھتا ہے اور مقام معرفت میں غم خواری ہے معرفت کی شرط یہ ہے کہ جو جتنا بڑا عارف ہوتا ہے وہ اتنا ہی بڑا عاجز ہوتا ہے

 جو آدمی ان چاروں مقامات کی حقیقت نہیں جانتا وہ بیل اور گدھے کی مثل ہے اور وہ فقر اور تصوف سے بے خبر ہے۔

 اللہ تعالی تک پہنچنے کے سفر میں جب طالب ابتدائی زینہ پر قدم رکھتا ہے تو اسے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا ہے لیکن وہ اس کی ذات اور صفات سے قطعی طور پر لاعلم ہوتا ہے پھر وہ ظاہری عبادات کے ذریعے اس کی صفات کے متعلق جاننا شروع کر دیتا ہے جب طالب شریعت پر ذوق و شوق سے عمل کر کے ترقی کرتے ہوئے مقام طریقت پر پہنچتا ہے تو اس میں اسے بے حد حسین ذات کے قرب اور دیدار کی طلب پیدا ہوتی ہے اور وہ اس کی جانب بے اختیاربڑھتا ہے آگے بڑھتے بڑھتے جب وہ حقیقت اور معرفت کے مقام پر آتا ہے تو طالب بظاہر اس دنیا میں ہوتا ہے لیکن باطن میں وہ ہر وقت محبوب حقیقی کی یاد میں مگن رہتا ہے جس کی وجہ سے باقی خیالات اور تمام تصاویریں دھندلی ہونے لگتی ہیں اور محبوب کی تصویر واضح ہونے لگتی ہے ۔

 اللہ تعالی کے پسندیدہ لوگوں میں شامل ہونے کے لیے اور اللہ تعالی کا قرب اور وصال پانے کے لیے شریعت طریقت حقیقت اور معرفت کی تمام منازل کو طے کرنا ضروری ہے کسی ایک مقام پر ٹھہر جانا نقصان دہ ہے  جس طرح پانی اگر ایک جگہ ٹھہر جائے تو گندا اور بدبودار ہو جاتا ہے اسی طرح روح بھی اگر کسی ایک مقام پر رک جائے تو نفس اور شیطان کے شکنجے میں پھنس جاتی ہے آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو شریعت طریقت معرفت اور حقیقت کی سمجھ اور اس کی تہہ تک پہنچنے کی توفیق عطا فرمائے 


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں