شریعت وطریقت کے جامع (دوسرا مراسلہ)

شریعت وطریقت کے جامع کے عنوان سے دوسرے مراسلے کا چوتھا حصہ ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے مخلوق کے ثابت کرنے پر قرآن اور سنت سے استدلال کیا، چنانچہ فرمایا:۔

وَقَدْ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى : أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، تم میرا اور اپنے والدین کا شکر ادا کرو

تو پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنا شکر ادا کرنے کا حکم دیا۔ کیونکہ وہ پیدا کرنے کی نعمت کا متولی ہے۔ پھر بعد میں ان کا شکر ادا کرنے کا حکم دیا جن کے ذریعے پیدا کرنے کی نعمت ظاہر ہوئی۔ لہذا واسطہ اللہ تعالیٰ کے ثابت کرنے کے ساتھ ثابت ہے۔ اور اس کی ذات کی وحدانیت کے

ساتھ نیست و نابود ہے اور واسطہ کے ثابت کرنے میں ادب کے اعتبار سے آیت واضح ہے ۔ اور واسطہ سے غائب ہونا توحید کی بنا پر عہد ہے۔

پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے سنت کی دلیل بیان کرتے ہوئے فرمایا:

وَقَالَ صَلَوَاتُ اللهِ وَسَلَامُهُ عَلَيْهِ – لَا يَشْكُرِ اللَّهَ مَنْ لَّا يَشْكُرِ النَّاسَ حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے ۔ جو شخص آدمیوں کا شکر ادا نہیں کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کاشکر بھی ادا نہیں کرتا ہے

میں (احمد بن محمد بن  العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ اس حدیث شریف میں اسم پاک اللہ تعالیٰ کو فاعل ہونے کی حیثیت میں پیش، اور مفعول ہونے کی حیثیت میں زبر، پڑھنا دونوں طرح صحیح ہے۔

لہذا اللہ کو پیش پڑھنے کی صورت میں یہ معنی ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ اس شخص کے کسی فعل کا شکر نہیں کرتا ہے، یعنی اس کے فعل کو پسند نہیں کرتا ہے، جو انسان کا شکر ادا نہیں کرتا ہے۔

اور اللہ کو زبر پڑھنے کی صورت میں یہ معنی ہوگا ۔ جو شخص انسان کا شکر نہیں ادا کرتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کا شکر بھی نہیں ادا کرتا ہے۔ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کا شکر گزار نہیں کہا جاتا ہے۔ اور اس سلسلے میں حضرت نعمان بن بشیر کی روایت کردہ حدیث شریف پہلے گزر چکی ہے۔ مَنْ لَمْ يَشْكُرِ الْقَلِيلَ لَمْ يَشْكُرِ الْكَثِيرَ ، وَمَنْ لَّمْ يَشْكُرِ النَّاسَ لَمْ يَشْكُرِ الله جس شخص نے کم کا شکر نہیں ادا کیا اس نے زیادہ کا شکر ادا نہیں کیا ، اور جس شخص نے انسان کاشکر نہیں ادا کیا اس نے اللہ تعالیٰ کا شکر نہیں ادا کیا

پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس وقت حضرت عائشہ صدیقہ کے واسطہ (حضرت رسول اللہ ﷺ ) کا شکر ادا کرنے سے انکار پر جو اعتراض وارد ہوتا ہے۔ اس کو جواب بیان کرتے ہوئے فرمایا ۔

وَكَانَتْ فِي ذَالِكَ الْوَقْتِ مُصطَلِمَةٌ عَنْ شَاهِدِهَا اور حضرت عائشہ صدیقہ اس وقت اپنے حاضر سے ( حال سے ) غائب تھیں۔

یعنی حضرت عائشہ صدیقہ اس وقت اپنے حال سے غائب ، اور اپنے ظاہر سےفانی تھیں۔ جیسا کہ جذب کا حال ہوتا ہے۔ اور مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس وقت اس لیے کہا کہ ان کی یہ حالت ہمیشہ نہیں رہیں ، اور وہ طاقتور واردالہٰی تھا۔ جس نے ان کو اچانک حس سے اچک لیا تھا۔ جیسا کہ یہ وارد حضرت ابراہیم خلیل اللہ کو اس وقت لاحق ہوا، جب حضرت جبریل ان کے سامنے تشریف لائے اور فرمایا۔ کیا آپ کو کچھ حاجت ہے؟ حضرت ابراہیم نے جواب دیا ۔ اگر آپ سے تو میری کوئی حاجت نہیں ہے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ سے تو میری حاجت ہے۔ پس  وہ واسطہ کی طرف متوجہ  نہیں ہوئے تو حضرت جبریل نے کہا۔ آپ اللہ تعالیٰ سے مانگیئے ۔ حضرت ابراہیم نے جواب دیا :- میرے حال پر اللہ تعالیٰ کا علم، میرے مانگنے سے زیادہ میرے لیے کافی ہے۔ اور جیسا کہ حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے:۔

لِي وَقْتُ لَّا يَسَعُنِي فِيهَا غَيْرَ رَبِّي میرے لیے ایک وقت ایسا ہے کہ اس وقت میرے قریب میرے رب کے سوا کسی کی گنجائش نہیں ہوتی ہے۔

لہذا حضرت عائشہ صدیقہ اس وقت اس حال میں تھیں ۔

غَائِبَةٌ عَنِ الْآثَارِ ، فَلَمْ يَشْهَدُ إِلَّا لِوَاحِدِ الْقَهَّارِ وہ آثار یعنی مخلوقات سے غائب تھیں۔ لہذا انہوں نے اللہ تعالیٰ واحد قہار کے سوا کچھ نہیں دیکھا

میں (احمد بن محمد بن  العجیبہ ) کہتا ہوں ۔ تنہا اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے بارے میں حضرت عائشہ صدیقہ   کے عذر کو حضرت نبی کریم ﷺ کا یہ قول تقویت دیتا ہے :- يَا عَائِشَةُ أَشْكَرِى اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَدْ بَرَاكِ

اے عائشہ! اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تم کو بہتان سے بری یعنی پاک فرمایا

لہذا یہ قول اپنا شکر نہ ادا کرنے پر حضرت نبی کریم ﷺ کے حکم کی دلیل ہے ۔ جیسا کہ حضرت ابن ابی جمرہ نے بیان کیا ہے۔ لیکن اس ضمیمہ کے ساتھ جو مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے بیان فرمایا ہے ۔ زیادہ کامل مقام میں صحو( ہوش )کی حالت میں واسطوں کا ترک کرنا درست نہیں ہے۔

یہ حضرت شیخ زروق   نے بیان فرمایا ہے ۔

یہاں دوسرا مکتوب ختم ہوا ، جو مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے بعض اصحاب کے پاس روانہ فرمایا۔

یہ مکتوب مضبوطی اور کمال کی انتہا کے بیان میں ہے۔

پس اگر اس کتاب میں اس مکتوب اور پہلے مکتوب کے سوا کچھ نہ ہوتا تو بھی کافی ہوتا۔ لہذا اللہ تعالیٰ حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کو اہل طریقت کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں