حج کی دو قسمیں ہیں۔ حج شریعت اور حج طریقت
حج شريعت :۔
یہ حج بیت الله شر یف سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے مخصوص ارکان اور شرائط ہیں۔ ان شرائط اور ارکان کو ادا کرنے سےحج کا ثواب ملتا ہے۔ اور جب کوئی شرط پوری نہ ہوسکے تو ثواب میں کمی آجاتی ہے ۔ کیونکہ رب قدوس کا حکم ہےحج مکمل کرو۔
وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ (البقرہ :196)اور پورا کر وحج اور عمرہ اللہ کی رضا کیلئے
حج شریعت کی شرائط میں سے اولاً احترام ہے۔ پھر مکہ میں دخول ہے ، پھر طواف قدوم، پھر وقوف عرفہ اور مزدلفہ پھر منی میں قربانی۔ اس کے بعد حرم پاک میں دوبارہ حاضری اور کعبۃ اللہ شریف کا سات چکروں میں طواف ہے۔ پھر حاجی زمزم کا پانی پیتے ہیں اور مقام ابراہیم علیہ السلام پر دو رکعت نفل نماز ادا کرتے ہیں۔ آخر میں احرام کھول دیا جاتا ہے اور اب شکار و غیرہ احرام کی صورت جو چیزیں اللہ تعالی نے حرام قرار دے دی تھیں حلال ہو جاتی ہیں۔ اس حج کا صلہ جہنم سے آزادی اورالله تعالی کی ناراضگی سے امن ہے۔ جیسا کہ کلام مجید سے ظاہر ہے۔
وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا (آل عمران :97 )اور جو بھی داخل ہو اس میں ہو جاتا ہے (ہر خطر ہ سے) محفوظ
طواف صدور کے بعد لوگ وطن لوٹتے ہیں۔
حج طریقت :۔
حج طریقت کی راہ میں زاد راہ اور سواری صاحب تلقین (مرشد کامل ( کی تلاش اور اس سے اخذ فیض ہے۔ یہی پہلا قدم ہے۔ اس کے بعد مسلسل ذکر باللسان اور اس کے معنی کو سامنے رکھنا ہے حتی کہ دل زندہ ہو جائے اس کے بعد باطنی ذکر کی باری آتی ہے یہاں تک کہ اسماء صفات کے مسلسل ورد سے من صاف ہو جائے۔ ایسے میں کعبہ سر(باطنی کعبہ) انوار صفات کے ذریعے سامنے آجاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کو حکم دیا تھا کہ سب سے پہلے کعبۃ اللہ کو صاف ستھرا کرو۔
وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ (البقرہ : 125)
اور ہم نے تاکید کر دی ابراہیم اور اسماعیل (علیہما السلام ( کو کہ خوب صاف ستھرارکھنا میراگھر طواف کرنے والوں کیلئے۔
کعبہ ظاہر اس لیے صاف کیا جاتا ہے کہ طواف کرنے والے لوگ آئیں گے جو کہ مخلوق ہیں جبکہ کعبہ باطن اللہ تعالی کیلئے صاف ہوتا ہے۔ باطن کے کعبہ(قلب مومن) کو غیر کے خیال سے صاف کرکے اسے اللہ تعالی کی تجلی(غیبی انوار جو دلوں پر منکشف ہوتے ہیں) کے قابل بنایا جاتا ہے۔ پھر روح قدسی(عالم لاہوت میں نور کا لباس ) کا احرام باندھا جاتا ہے۔ پھر دل کے کعبہ میں حاضری دی جاتی ہے۔ اسم ثانی اللہ اللہ کےورد سے طواف قدوم ہوتا ہے۔ عرفات قلب میں حاضری ہوتی ہے۔ جو کہ ہم کلامی خدا کا مقام ہے۔ یہاں تیسرے ھو ھو اور چوتھے حق حق اسم مسلسل ورد کر کے وقوف کیاجاتاہے۔پھرعارف جان کے مزدلفہ میں جاتا ہے۔ پانچویں اور چھٹےیا حی یا قیوم اسم کا اکٹھا ورد کرتا ہے۔ اس کے بعد منی سرّ“ کو جاتا ہے جو کہ دونوں حرموں کے درمیان واقع ہے۔ یہاں کچھ دیر کے لیے ٹھہر تا ہے پھر ساتویں اسم یا قہار کے ورد کے ساتھ نفس مطمئن کی قربانی دیتا ہے کیونکہ ساتواں اسم اسم فناء (بشریت کی صفات ذمیمہ کو الله تعالی کی صفات سے بدل دینا) ہے۔ کفر کے حجابات اٹھ جاتے ہیں۔ جیسا کہ حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔
الكُفْرُ والإيمانُ مقامَان مِنْ وَرَاءِ العَرْشِ،وهمَا حِجابَان بين العبدِ وبينَ الحقّ أحدُهُمَا أسوَدُ والثَّاني أَبْيَض کفر اور ایمان عرش سے آگے دو مقام ہیں۔ یہی حق اور بندے کے در میان دو حجاب ہیں۔ ان میں سے ایک کا رنگ سیاہ ہے اور دوسرے کا رنگ سفید اس کے بعد حج طريقت ادا کرنے والا آٹھویں اسم پر ملازمت اختیار کر کے روح کو صفات بشری سے صاف کر کے حلق کرواتا ہے۔ پھر نو یں اسم پرملازمت اختیارکرتا ہے اور حرم باطن میں داخل ہو جاتا ہے۔ پھر وہ اعتکاف کرنے والوں کو سامنے دیکھتا ہے۔ اور دسویں اسم کے مسلسل ورد سے بساط قربت وانس میں معتکف ہو جاتا ہے۔ پھر انسان جمال صمدیت کو بلا کیف و تشبیہ دیکھتا ہے۔ گیارہویں اسم کی ملازمت کے ساتھ سات چکر لگا کر طواف کرتا ہے۔ اس گیارہویں اسم کے ساتھ چھ فروعی اسماء بھی ہوتے ہیں۔ طواف کر چکنے کے بعد وہ دست قدرت(وہ قوت جو ممکنات کو عدم سے وجود میں لاتی ہے۔ اسے صفت ربوبیت
بھی کہتے ہیں) سے (خاص مشروب ( پیتا ہے جیسا کہ رب قدوس کا ارشاد ہے۔
وَسَقَاهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُورًا (الانسان :21)اور پائے گا انہیں ان کا پروردگار نہایت پاکیزہ شراب“
یہ شراب بارہویں اسم کے پیالے میں بھری ہو گی۔ اللہ تعالی اپنےچہرہ اقدس سے نقاب الٹ دیتا ہے اور انسان اس کے نور کے ساتھ اس کا دیدار کرتاہے۔یہی مفہوم ہے اس حدیث قدسی کا مَا لاَ عَيْنٌ رَأَت۔ ”نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہو گا ، یعنی ملاقات خداوندی کا منظر ’ ولا أُذُنٌ سَمِعَتْ’ نہ کسی کان نے سنا ہو گا۔ “ یعنی حرف و صوت کے واسطے کے بغیر کلام خداوندی۔ لا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَر” نہ کسی بشر کے دل میں اس کا خیال گزراہو گا ،یعنی دیدار اور ہم کلامی خدا کا ذوق۔ پھر اللہ تعالی کی حرام کردہ چیزیں حلال ہو جاتی ہیں۔ یعنی برائیاں نیکیوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ یہاں اسمائے توحید( اللہ تعالی کے اصلی نام سات ہیں۔ ان سات سے پھر چھ اور نام نکلتے ہیں۔ ان تمام اصلی اور فرعی اسماء کے مجموعے کو اسماء توحیدی کہتے ہیں۔ اصلی نام یہ ہیں۔ (لا الہ، الا الله ،هو،حی ، واحد، عزیز، ودود) فر عی چھ نام ۔ ( حق ،قھار، قیوم ، وھاب، مهیمن، باسط) کا تکرار ہو تا ہے جیسا کہ رب قدوس کا ارشاد ہے۔
إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ (الفرقان :70 )
مگر وہ جس نے توبہ کی اور ایمان لے آیا اور نیک عمل کیے تو یہ وہ لوگ ہیں بدل دے گا اللہ تعالی ان کی برائیوں کو نیکیوں سے۔
پھر انسان تصرفات نفسانی سے آزاد ہو جاتا ہے۔ اسے کسی چیز کا خوف اور کوئی حزن نہیں رہتا۔ جیسا کہ ارشاد الہی ہےاَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (یونس :62) سنو ! اولیاء اللہ کو نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے“
رزقنا الله وإياكم بفضله وكرمه
پھر تمام اسماء کا ورد کر کے طواف صدور کر تا ہے اور آخر میں اپنے اصلی وطن کی طرف لوٹ آتا ہے جو عالم القدسی میں ہے اور جہاں اسے معتدل صورت میں پیدا کیا گیا تھا۔ یہ عالم الیقین سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ تاویلات کلام و عقل کے دائرہ میں آنے والی ہیں۔ اس سے آگے کی خبر دینا ممکن نہیں۔ کیونکہ عقل و فہم اس کے ادراک سے عاجز ہیں۔ اور خیالات کی وہاں تک رسائی نہیں۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺکا ارشاد گرامی ہے۔ إِنَّ مِنَ الْعِلْمِ كَهَيْئَةِ الْمَكْنُونِ لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا الْعُلَمَاءُ بِاللَّهِ، فَإِذَا نَطَقُوا بِهِ أَنْكَرَهُ أَهْلُ الْغِرَّةِ بِاللَّهِ
ایک علم وہ بھی ہے جو چھپے ہوئے خزانے کی طرح ہے جس سے صرف علماء باللہ‘ ہی واقف ہیں۔ جب یہ علماء اس علم میں گفتگو کرتے ہیں تو کوئی انکار نہیں کر تاسوائے گم کردہ راہ لوگوں کے۔
عارف اس سے کم کی بات کر تا ہے اور عالم باللہ اس سے آگے کی بات کر تا ہے ۔ عارف کا علم سرِّ خداوندی ہے جسے صرف اللہ ہی جانتا ہے جیسا کہ فرمان الہی ہے۔ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ (البقرہ :255) اور وہ نہیں گھیر سکتے کسی چیز کو اس کے علم سے مگر جتنادہ چاہے“ فَإِنَّهُ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى (طہ : 8 )
وہ تو بلا شبہ جانتا ہے رازوں کو بھی اور دل کے بھیدوں کو بھی۔ اللہ (وہ ہے کہ ( کوئی عبادت کے لائق نہیں بغیر اس کے ۔ اس کے لیے بڑے خوبصورت نام ہیں“
سرالاسرار ،شیخ عبد القادر جیلانی صفحہ101 سلطان الفقر پبلیکیشنز لاہور