شریعت کی حرمت (دوسرا مراسلہ)

شریعت کی حرمت کے عنوان سے دوسرے مراسلے کا پہلا حصہ ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

شریعت کی حرمت کی حفاظت کے ساتھ حقیقت کے سمندر تک پہنچنے کے بیان میں

یہ دوسرا مکتوب بھی مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے بعض اصحاب کو لکھا چنانچہ حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے جو کچھ اپنے بعض اصحاب کو لکھا اس کو بیان فرمایا۔

میں (احمد بن محمد بن  العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ پہلا مکتوب سلوک اور اس کی ابتدا اور انتہا کے بیان میں ہے اور یہ دوسرا مکتوب شریعت کی حرمت کی حفاظت کے ساتھ حقیقت کے سمندر تک پہنچنے کے بیان میں ہے۔

اور اس کی دو طرفیں اور ایک وسط یعنی درمیان ہے ۔ کچھ لوگوں نے تفریط کی یعنی حد سے پیچھے رہ گئے اور کچھ لوگوں نے افراط کیا یعنی حد سے آگے بڑھ گئے ، اور کچھ لوگوں نے اعتدال اور جمع کواختیار کیا۔

مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے تقسیم کو مکمل کرنے کیلئے تینوں قسموں کو بیان فرمایا۔ چنانچہ تقسیم کی اصل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :-

إِن كَانَتْ عَيْنُ الْقَلْبِ تَنْظُرُ أنَّ اللهَ وَاحِدٌ فِى مِنَّتِهِ ، فَالشَّرِيعَةُ تَقْتَضِي اَنَّهُ لَا بُدَّ مِنْ  شُكْرِ خَلِيقَتِهِ اگر قلب کی آنکھ یہ دیکھتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے احسان میں واحد اور لاشریک ہے تو شریعت اس سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ اس کی مخلوق کا شکر ادا کرنا ضروری سمجھے

میں (احمد بن محمد بن  العجیبہ ) کہتا ہوں:- قلب کی آنکھ – بصیرت ہے اور اس کی شان یہ ہے کہ وہ صرف حقیقتوں کو دیکھتی ہے۔ محسوسات کو نہیں دیکھتی ہے جیسا کہ بصر ( ظاہری آنکھ ) صرف محسوسات کو دیکھتی ہے ۔ حقیقتوں کو نہیں دیکھتی ہے اور بصیرت اور بصر دونوں میں سے جو غالب ہوتی ہے ، اسی کا حکم چلتا ہے۔ لہذا جس شخص کی بصر اس کی بصیرت پر غالب ہوتی ہے وہ صرف محسوسات کو دیکھتا ہے اور وہ غافل ہے۔

اور جس شخص کی بصیرت اس کے بصر پر غالب ہوتی ہے وہ صرف حقائق کو دیکھتا ہے اور حقائق – توحید کی حقیقتیں، اور تفرید کے اسرار ہیں۔ لہذا بصیرت صرف اللہ تعالیٰ کا نور دیکھتی ہے۔ مخلوق کی ظلمت نہیں دیکھتی ہے۔ لیکن حکمت کا ثابت کرنا ضروری ہے۔ اور اس کے متعلق مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کا یہ قول پہلے گزر چکا ہے۔ ( مخلوقات اللہ تعالیٰ کے ثابت کرنے کے ساتھ ثابت ہیں اور اس کی احدیت کے ساتھ نیست و نابود ہیں )لہذا حکمت کے ساتھ قائم ہونے کی بناء پر ان کو ثابت کرنا اور وحدت کے ساتھ قائم ہونے کی بناء پر ان کی نفی کرنا ضروری ہے۔

لہذا اگر قلب کی آنکھ یہ دیکھتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے احسان میں واحد ہے بلکہ اپنی تمام تصرفات میں واحد ہے تو شریعت اور حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی مخلوق کا شکر ادا کرنا اس کیلئے ضروری ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔ اَنِ شْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ تم میرا اور اپنے والدین کا شکر یہ ادا کرو۔

لہذا جب اللہ تعالیٰ کسی وسیلے سے تم کو کوئی نعمت عطا فرمائے خواہ وہ دینی نعمت ہو یا دنیاوی ، تو اس میں تمہارے اوپر دو وظیفے واجب ہوتے ہیں۔ ایک وظیفہ قلبی ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ تم یہ اعتقاد رکھو کہ وہ نعمت تم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلا واسطہ ملی ہے ، اور یہ کہ اس کا ما سوا اس کے پہنچانے پرمجبور ہے۔ دوسرا وظیفہ زبانی ہے:۔ اور وہ یہ ہے کہ تم اس وسیلہ کیلئے دعا کروا در شریعت پر عمل کرنے کیلئے تم کا شکر ادا کرو۔

حضرت نعمان بن بشیر نے حضرت محمد ﷺ روایت فرمائی ہے ۔

مَنْ لَمْ يَشْكُرِ الْقَلِيلَ لَمْ يَشْكُرِ الْكَثِيرَ ، وَمَنْ لَّمْ يَشْكُرِ النَّاسَ لَمْ يَشْكُرِ الله جس شخص نے تھوڑی نعمت کا شکر نہیں ادا کیا ، اس نے زیادہ نعمت کا شکر نہیں ادا کیا اور جس نے انسان کا شکر نہیں ادا کیا ، اس نے اللہ تعالیٰ کا شکر نہیں ادا کیا اور اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنہ میں ایک اسم   شکور   ہے ۔ لہذا بندے کو اللہ تعالیٰ کے وصف سے موصوف ہونا چاہیئے ۔

اور واسطہ کے اعتبار کی تین حکمتیں ہیں :-

ایک حکمت :- یہ ہے کہ واسطہ اللہ تعالیٰ کے بھیجنے سے ہدیوں کو تمہاری   طرف پہنچاتا ہے ، لہذاقاصدوں کو بزرگی حاصل ہوتی ہے۔ دوسری حکمت :- یہ ہے کہ واسطہ ظرف ہے ( برتن ) ۔ جس میں تمہاری   طرف فوائد پہنچتے ہیں۔ لہذا حکمت یہ ہے کہ فوائد کے برتن یعنی واسطہ کا مرتبہ بلند کرنا ہے۔

تیسری حکمت :- یہ ہے کہ واسطہ رکھنے سے احسان کا وہم دور ہو جاتا ہے کیونکہ وہم تم کو اس شخص کی طرف مائل کرتا ہے جس نے تمہارے اوپر احسان کیا ہے لیکن جب تم نے زبان سے شکر ادا کر کے اس کا بدلہ چکا دیا تو تم اس کی غلامی سے آزاد ہو گئے ۔

پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے حقیقت کے اعتبار سے لوگوں کو دو طرف اور وسط میں تقسیم کیا ہے۔ جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ یعنی مفرط (حدسے پیچھے رہنے والے ) اور مفرط (حد سے آگے بڑھنے والے)اور متوسط (اعتدال اختیار کرنے والے )

چنانچہ فرمایا:

وَإِنَّ النَّاسَ فِي ذَالِكَ عَلَى أَقْسَامِ ثَلَاثَةٍ  اور اس معاملے میں لوگ تین قسم کے ہیں۔

پہلی قسم : ظاہر کے ساتھ ٹھہر نے والے اسباب پر نظر رکھنے والے ہیں ۔

دوسری قسم۔ ظاہر اور اسباب سے غائب ہونے والے لوگ ہیں ۔

تیسری قسم :- دونوں کے درمیان جمع کرنے والے ہیں۔

یا تم اس طرح کہو ۔ عام ، یا خاص یا خاص الخاص

پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے پہلی قسم کی طرف اشارہ فرمایا:-

غَافِلٌ مُنْهَمِكْ فِي غَفْلَتِهِ غافل جو اپنی غفلت میں منہمک (انتہائی کوشش کرنے والا) ہے

یعنی اپنی غفلت میں مست اور اپنی نیند میں ڈوبا ہوا ہے۔ نیند کی وجہ سے جو حالت پیدا ہوئی ہے اس کی پرواہ نہیں کرتا اور اپنی غفلت کی نیند سے بیدار نہیں ہوتا ہے۔

پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کی غفلت کی بنیاد بیان فرمائی :-

قَوِيَتْ دَائِرَةُ حِسِّهٖ اس کے ظاہر کا دائرہ طاقتور ہو گیا ہے

یعنی اس کے گھیر نے والے ظاہر کی کثافت مضبوط ہوگئی ۔ لہذا اس کا حجاب کثیف ہو گیا اور اس کی جہالت بڑھ گئی تو اس کی غفلت اور زیادہ ہو گئی ۔ اور اگر اس کے ظاہر کا دائر وفنا ہو جاتا تو اس کی روح عالم ملکوت یا جبروت کے قریب ہو جاتی ۔ پھر وہ صرف جمع کو دیکھتی یا عین فرق میں جمع کو ، اور عین جمع میں فرق کو دیکھتی۔ لیکن چونکہ اس کے ظاہر کا دائرہ مضبوط ہو گیا۔ اس لیے اس کی بصیرت کی روشنی بجھ گئی ۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا:-

وَانْطَمَسَتْ حَضْرَهُ قُدُسِهِ اس کی بارگاہ قدس غائب ہو گئی

یعنی اس سے وہ بارگاہ قدس جو ملکوتی حقیقتوں کا دیکھنا ہے اس کی بصیرت کے اندھی ہونے کی وجہ سے غائب ہو گئی ۔ کیونکہ ان حقیقتوں کو صرف بصیرت ہی محسوس کرتی ہے۔ لہذا جب اس کی بصیرت اس کے ظاہر کی کثافت مضبوط ہونے کی وجہ سے اندھی ہوگئی تو اس سے بارگاہ قدس کا نور غائب ہو گیا۔

پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے بارگا و قدس کے غائب ہونے کا انجام بیان فرمایا اور وہ  اللہ تعالیٰ کو ترک کر کے مخلوق کو دیکھنا ہے، چنانچہ فرمایا۔

فَنَظَرَ الْإِحْسَانَ مِنَ الْمَخْلُوقِينَ ، وَلَمْ يَشْهَدْہُ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ

پس اس نے احسان کو مخلوقات کی طرف سے دیکھا، اور اس نے اس کو رب العالمین کی طرف سے نہیں مشاہدہ کیا

میں (احمد بن محمد بن  العجیبہ ) کہتا ہوں : جو شخص اپنے ظاہر کے دائرے میں فنانہیں ہوا۔ اور اپنے رب کے شہود میں اپنے نفس کے شہود سے غائب نہیں ہوا ، خواہ اعتقاد کے طریقے پر ہو، یا استناد (پوشیدہ توجہ ) کے طریقے پر ۔ اس کو مخلوق کے احسان کی غلامی سے آزاد ہونے کی خواہش نہ کرنی چاہیئے  ، اگر چہ اس کا نفس توحید کی حفاظت کی کوشش کرتا ہو کیونکہ یہ ضروری ہے کہ طبیعت چرالی جائے۔ بخلاف اس شخص کے جس کی فنا ثابت ہو گئی ہے، اور وہ وحدت کے سمندر میں غرق ہو گیا ہے۔ کیونکہ اس کو کوئی شے نہیں چراسکتی ہے۔ اور اگر کبھی غفلت اس کو لاحق بھی ہو جاتی ہے تو وہ فورا ہوشیار ہو جاتا ہے۔ پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے احسان کو مخلوق کی طرف سے دیکھنے میں دونوں فریق کا حال بیان فرمایا ۔

إِمَّا اعْتِقَادًا فَشِرْكٌ جَلِيٌّ   یا اعتقاد کے طریقے پر اس نے احسان کو مخلوق کی طرف سے دیکھا۔ لہذا یہ شرک جلی ہے

یعنی وہ کوئی پوشیدہ مسئلہ نہیں ہے کہ جس شخص نے کسی فعل کو مستقل طور پر غیر اللہ کی طرف منسوب کیا ، وہ کافر ہے۔ ایمان سے خارج ہے۔ اگر چہ اس کے ظاہر پر شرعی وظائف کے آثار ظاہر ہوں، کیونکہ جس شخص نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی خالق یا رازق کا مستقل طور پر اعتقاد کیا ۔ وہ بالاجماع ( متفقہ طور پر ) کافر ہے۔ پھر دوسرے فریق کا حال بیان فرمایا :-

وَإِمَّا اسْتِنَادًا فَشِرْكٌ خَفِيٌّ یا استناد کے طریقے پر اس نے احسان کو مخلوق کی طرف سے دیکھا ۔ لہذا یہ شرک خفی ہے

میں (احمد بن محمد بن  العجیبہ ) کہتا ہوں – استناد – پوشیدہ توجہ اور میلان ہے۔ اس طرح کہ جب تم اس سے پوچھو۔ تم کو روزی کون دیتا ہے؟ تو وہ کہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ دیتا ہے۔ لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اس کا قلب خالق کے دیکھنے سے پہلے مخلوق کو دیکھتا ہے اور اکثر اوقات تو زبان حال یا زبان قال سے کہتا ہے ۔ اگر فلاں شخص    نہ ہوتا تو  یہ احسان مجھ کو نہ ملتا۔ یعنی اگر سبب نہ ہوتا تو مسبب نہ ہوتا ۔ لہذا اس کا اسباب کے ساتھ ٹھہر جانا ، اور مسبب الاسباب ( اسباب کے پیدا کرنے والے ) تک نہ پہنچتا، یہ اس کا شرک خفی ہے۔

اور اگر اس نے اسباب کو نظر انداز کر دیا اور اس کی بصیرت مسبب الاسباب کے مشاہد ے تک پہنچی ، تو شرک جلی اور خفی سے پاک ہو گیا، اور کامل اخلاص سے آراستہ ہو گیا۔

مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کی طرف اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا ہے۔

وَصَاحِبٌ حَقِيقَةٍ غَابَ عَنِ الْخَلْقِ بِشُهُودِ الْمَلِكِ الْحَقِّ وَفَنٰى عَنِ الْأَسْبَابِ بِشُهُوْدِ مُسَبِّبِ الْأَسْبَابِ

اور اہل حقیقت بادشاہ حق اللہ تعالیٰ کے شہود کے ساتھ مخلوق کے شہود سے غائب ہو گیا اورمسبب الاسباب کے شہود کے ساتھ اسباب کے شہودسے فنا ہو گیا


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں