شکر کو ناشکری سے بدلنا (باب ہفتم)

شکر کو ناشکری سے بدلنا کے عنوان سے  باب  ہفتم میں  حکمت نمبر65 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
پھر بندہ اگر نعمتوں کے شکر سے غافل ہو جائے ۔ لیکن ان نعمتوں کی صورت اس کے نزدیک برابر موجود ہے تو اس سے وہ دھوکا نہ کھائے ۔ کیونکہ یہ بھی استدراج کے طور پر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے قول میں اس طرف اشارہ فرمایا:
65) خَفْ مِنْ وُجُودِ إِحْسَانِهِ إِلَيْكَ وَدَوَامِ إِسَاءَتِكَ مَعَهُ أَنْ يَكُونَ ذَلِكَ اسْتِدْرَاجاً لَكَ ﴿سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ .
تمہارا ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے باوجود تمہارے ساتھ اس کے احسان کے موجود ہونے سے تم خوف کرو ممکن ہے یہ استدراج ہو ۔ بہت جلد ہم ان سے ایک ایک نعمت اس طرح چھین لیں گے کہ وہ سمجھ بھی نہ ملیں گے۔
استدراج کے معنی احسان کی شکل میں مشقت اور تکلیف کا پوشیدہ ہونا ہے۔ مستدرج:-وہ شخص ہے جس سے ایک ایک کر کے نعمتیں چھین لی جاتی ہیں۔ اور اس کو احساس بھی نہیں ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ( سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ) یعنی ہم انہیں نعمتوں کے ذریعہ پکڑیں گے اور ان کو بھینچ کر عذاب تک پہنچا دیں گے۔ اس طریقہ پر کہ وہ سمجھ بھی نہ سکیں گے۔ یہ حضرت شیخ زروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:۔
پس اے مرید ! تم اپنے ساتھ تندرستی، اور فراغت اور روزی کی وسعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ہمیشہ احسان کرنے ، اور ہمیشہ ظاہری اور باطنی مدد کرنے سے، باوجود یکہ تم غفلت اور کوتاہی کے ساتھ ہمیشہ اس کی نافرمانی اور ناشکری کرتے ہو۔ ڈرو کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے استدراج نہ ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ) ہم عنقریب انہیں اس حیثیت سے پکڑیں گے کہ وہ سمجھ نہ سکیں گے
حضرت سہل بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:۔ اس آیہ کریمہ کا مفہوم یہ ہے ۔ ہم ان کو نعمتوں کے ساتھ بڑھاتے ہیں۔ اور ان نعمتوں پر شکر ادا کرنے سے غافل کر دیتے ہیں۔ تو جب نعمت کی طرف مائل ہو کر نعمت دینے والے سے حجاب میں ہو جاتے ہیں ۔ تو پکڑ لئے جاتے ہیں۔
حضرت ابن عطار رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ کوئی خطا کرتے ہیں۔ تو ہم ان کو نئی نعمت عطا کرتے ہیں۔ اور ہم ان کو اس خطا پر استغفار کرنے سے غافل کردیتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:- (وَأَمْلِى لَهُم) ہم ان کو ڈھیل دیتے ہیں ۔ یعنی عافیتوں اور نعمتوں میں ان کو بڑھاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اچانک ان کو پکڑ لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا
فَلَمَّا نَسُوا مَا ذَكَرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ آبْوَابَ كُلَّ شَيْءٍ حَتَّى إِذَا فَرِحُوا بِمَا ا أَخَذْنَا هُمْ بَغْتَةً فَإِذَا هُمْ مُبْلِسُونَ
جب وہ لوگ غافل ہو گئے اس عذاب سے جس کی یاد دلائی گئی تھی ۔ تو ہم نے ان کے اوپر نعمتوں کے دروازے کھول دیئے۔ اور ان کے اوپراپنی روزیوں کو کشادہ کر دیا۔ یہاں تک کہ جو نعمتیں ان کو دی گئیں ۔ اس سے خوش ہوئے ۔ اور اپنے کو ان نعمتوں کا مالک سمجھ کر مضبوطی سے قائم ہو گئے۔ تو ہم نے اچانک ان کو ہلاکت کے ساتھ پکڑلیا۔ پس اب وہ لوگ ہر بھلائی سے مایوس ہیں۔ اور اپنی مخلوق کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی یہی عاد ت ہے:۔ کہ ان کی طرف ایک ایسا شخص بھیجتا ہے جو ان کو اللہ تعالیٰ کی یاد دلاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے۔ اور جب وہ لوگ اس سے منہ پھیر لیتے ، اور اس کی بات کو رد کر دیتے تو ان کے اوپر ظاہری نعمتوں کو کشادہ کر دیتا ہے ۔ تو جب وہ مطمئن ہو جاتے ، اور انہی نعمتوں کی خوشی میں مگن ہو جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اچانک ان کو پکڑ لیتا ہے اور ہلاک کر دیتا ہے اور یہ سز اسب سزا ؤں میں بہت سخت ہوتی ہے۔ ایک شاعر نے کہا ہے:
(وَأَعْظَمُ شَيْءٍ حِيْنَ يَفْجَؤكَ الْبَغْتُ) سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ عذاب تمہارے پاس اچانک آ جائے
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوا إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لَا نُفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُوا إِثْمًا وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ
کا فرلوگ یہ نہ خیال کریں۔ کہ ہم ان کو جو مہلت دیتے ہیں۔ وہ ان کے لئے بہتر ہے۔ ہم انہیں اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ وہ گناہ میں اور بڑھ جائیں ۔ اور ان کے لئے ذلیل کرنے والاعذاب ہے ۔
پس انسان پر واجب ہے کہ جب کوئی نعمت ظاہری ہو یا باطنی حسی ہو یا معنوی محسوس کرے۔تو اس کا حق پہنچانے ۔ اور بیان اور اعتقاد، اور عمل سے اس کا شکر ادا کرنے میں جلدی کرے۔
پس بیان کا شکر : زبان سے حمد اور شکر کرنا ہے۔ اور اعتقاد کا شکر نعمت میں نعمت دینے والے کا مشاہدہ کرنا اور نعمت کی نسبت اس کی طرف کرنا اور زبان سے شکر کرتے ہوئے قلب کا واسطہ سے غائب ہوتا ہے۔ (مَنْ لَّمْ يَشْكُرِ النَّاسَ لَمْ يَشْكُرِ الله) جس نے انسان کا شکر ادا نہیں کیا۔ اس نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کیا۔ (اشْكُرُكُمْ لِلنَّاسِ اشْكُرُكُمُ الله تم میں سے انسان کا زیادہ شکر ادا کرنے والا ء اللہ تعالٰی کا بھی زیادہ شکر ادا کرنے والا ہے ۔ تو جب انسان سے کہا: جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرَ الْجَزَا ۔ اللہ تعالیٰ تم کو بہتر جزا دے تو اس نے اس کا شکر ادا کیا۔
اور عمل کا شکر :۔ اس نعمت کا اللہ تعالیٰ کی طاعت میں صرف کرنا ہے جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ تو اگر اس واجب پر قائم نہیں ہوا۔ تو اس کے لئے نعمت کے چھن جانے ، اور سزا میں گرفتار ہونے کا خطرہ ہے اور یہ بہت برا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ شکر نعمت دینے والے کے ساتھ ، اور اس کے ساتھ ، جس کے ہاتھوں سے نعمت ملی ہے۔ ادب کے ساتھ پیش آنا ہے ۔ تو اگر وہ ادب کو خراب کرتا ہے تو ادب سکھایا جاتا ہے اور کبھی اس کو باطن میں ادب سکھایا جاتا ہے اور اس کو اس کا علم نہیں ہوتا۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں