شیخ عبد العزیز جونپوری کے ان تشکیکات و سوالات کے جواب میں جو مکتوب اول میں جو اس کے نام پر ہے، کیے گئے ہیں ۔ مولانا محمد طاہر بدخشی کی طرف ارسال فرمایا ہے۔
حمد و صلوة اورتبلیغ دعوات کے بعد واضح ہو کہ آپ کا مکتوب شريف جو آپ نے بڑی مدت کے بعد ارسال کیا تھا، پہنچا۔ بڑی خوشی ہوئی حضرت حق سبحانہ تعالی آپ کو ظاہری باطنی جمعیت (دل کو طمینان حاصل ہونا) کے ساتھ آراستہ پیراستہ رکھے۔ فقیر نے اس مدت میں تین مکتوب آپ کی طرف بھیجے ہیں جن میں سے صرف ایک مکتوب آپ کوملا ہے۔ دور دراز فاصلہ کے باعث امید ہے کہ معذور فرمائیں گے۔
مشیخت مآب شخ عبدالعزیز کا مکتوب بھی آپ کے مکتوب کے ساتھ پہنچا اور جو کچھ اس میں لکھا ہوا تھا۔ واضح ہوا۔
سوال: وہاں درج تھا کہ اگرممکنات کے حقائق جوصور عملیہ ہیں، عد مات ہوں جو صفات کے اضداد ہیں تو لازم آتا ہے کہ حق تعالی کی ذات میں عدمات حاصل ہیں۔ حالانکہ حق تعالی ان باتوں سے منزه و برتر ہے۔
جواب: عجب شبہ و اعتراض ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ حضرت حق سبحانہ وتعالی تمام شریف اور كثيف اشیاء کو جانتا ہے مگر حق تعالی کی ذات میں ان میں سے کسی کا حصول نہیں اور ان میں سے کسی کے ساتھ متصف نہیں تو اس صورت میں حصول کہاں سے پیدا ہو جائے گا۔
سوال دوم: وہاں درج تھا کہ ممکنات کے حقائق وجودی اور ثبوت ہونے چاہئیں نہ کہ عدمی کیونکہ حقائق سے مرادممکنات کے ارواح ونفوس ہیں۔
جواب: ہاں وجود ثبوت علمی رکھتے ہیں جوحقائق میں درکار ہیں۔ یہ اعتراض پہلے شیخ محی الدین ابن عربی پہ کرنا چاہیئے تھا جس نے کہا ہےالاعيان ماشمت رائحة الوجود (اعیان نے وجود کی بو بھی نہیں سونگھی)عجب معاملہ ہے کہ یہاں حقائق سے ارواح ونفوس مراد لیتے ہیں اور اعیان ثابتہ اور معلومات اللہ پر چھوڑ دیا ہے۔
سوال سوم : اس میں درج تھا کہ انبیا علیہم الصلوة والسلام اور اولیاءعلیہم الرضوان اور تمام افراد انسان جوممکنات سے ہیں، اگر ان سب کے حقائق عد مات ہوں تو اس گروہ بلند سے شرف وکرامت مسلوب ومعدوم ہوگی۔
. جواب : کیوں مسلوب و معدوم ہوگی۔ جب کہ حق تعالی نے اپنی حکمت بالغہ اور قدرت کاملہ سے ان مقدمات کو اپنے حسن تربیت کے ساتھ اپنے اسماء و صفات کے عکسوں کا آئینہ بنا کر نبوت و ولایت کے شرف سے مشرف کیا ہے اور اپنے کمالات کے ظلال سے آراستہ کر کے معزز ومکرم فرمایا ہے جس طرح کہ انسان کو ماءمھین یعنی ناپاک پانی سے پیدا کر کے اعلی درجہ تک پہنچایا۔ بڑے تعجب کی بات ہے کہ آپ انسان کی شرف و کرامت کو نظر میں لے آئے ہیں اور حق تعالی کی تنزیہ و تقدیس کو ہاتھ سے دے کر کہتے ہیں کہ ہمہ اوست(سب کچھ وہی ہے) اشیاء رذیلہ و خسیسہ کو حق تعالی کا عین کہنے سے کنارہ نہیں کرتے اور انسان کے لیے حقائق عدمیہ کے تجویز کرنے سے ڈرتے ہیں ۔ حق تعالی آپ کو انصاف دے۔
سوال چہارم: لکھا تھا کہ سخن اجماعی یعنی ہمہ اوست کوسخن ابداع یعنی ہمہ از وست (ہر شے کا وجود حق(اللہ) سے ہے)سے رفع نہیں کر سکتے۔
جواب: سخن مبدع یعنی نئی بات ہم مقولہ ہمہ اوست کو جانتے ہیں ۔ مقولہ ہمہ از وست پر تمام علماء کا اتفاق و اجماع ہے۔ اب تک جوملامت و شناعت جوصاحب فصوص پر ہوتی چلی آئی ہے، صرف اسی ایک مقولہ ہمہ اوست کے باعث ہے اور فقیر نے جس قدر معارف لکھے ہیں ، ان کا حاصل ہمہ از وست ہے جو شرع وعقل کے نزدیک مقبول ہے بھلا کیونکر مقبول نہ ہو جب کہ کشف و الہام سے بھی اس کی تائید ہوتی ہو۔
شیخ مشار الیہ (عبد العزیز)نے اعتراضات کو ذکر کر کے شفقت کے مقام میں آ کر لکھا ہے کہ اگر ممکنات کے حقائق سے مراد ارواح انسانی ہوں تو جمہور کے موافق ہے۔ معلوم نہیں جمہور سے کونسا گروہ مراد ہے اور نہ آج تک سنا گیا ہے کہ حقائق ممکنات کو کسی نے ارواح انسانی کہا ہو۔ افسوس صد افسوس شیخ نے کیا خیال کیا ہے کہ ہر ایک شخص صرف قیاس تخمینہ سے بات کہتا ہے اور اس کے تفکر تخیل میں جو کچھ آئے بکواس کر دیتا ہے، ہرگز ہرگز ایسا نہیں۔
وہ معارف جو کشف و الہام کے بغیر کہے اور لکھے جائیں یا شہود(مشاہدہ) و مشاہدہ کے بغیر تحریر تقریر میں آئیں، سراسر بہتان وافترا ہیں۔ خاص کر جبکہ قوم کے مخالف ہوں ۔ معلوم نہیں شیخ مشار الیہ کا کیا اعتقاد ہے اور ان معارف کو کیا کہتے ہیں۔ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَیا اللہ توہمارے گناہوں کو اور امور میں ہمارے اسراف کو معاف فرما اور ہمارے قدموں کو ثابت رکھ اور کافروں پرہمیں مدددے ۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ89 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی