اس بیان میں کہ فضولیات سے عنان(لگام) پھیر کر ضروریات دین میں مشغول ہونا چاہئیے۔ محمد تقی کی طرف اس کے خط کے جواب میں لکھا ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (الله تعالیٰ کا حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو) آپ کے صحیفہ شریف کے مطالعہ سے مشرف ہوا۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت کی حقیقت میں دوصدر اول یعنی خیر القرون کے معتبر اجتماع سے ثابت ہے اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی افضلیت کے بارہ میں جو ان کی خلافت کی ترتیب پر مترتب ہے اور حضرت خیر البشر علیہ الصلوۃ والسلام کے اصحاب کی لڑائی جھگڑوں میں خاموشی اختیار کرنے کے باب میں جو جو دلائل آپ نے لکھے ہیں، ان کو پڑھ کر بہت ہی خوشی ہوئی۔ بحث امامت میں ہی اعتقاد کافی ہے اور اہل سنت و جماعت شکراللہ سعیہم کے موافق ہے۔
اے شفقت کے نشان والے مخدوم ، امامت کی بحث دین کے فروع میں سے ہے۔ نہ شریعت کے اصول سے۔ ضروریات دینی اور ہیں جو اعتقادوعمل کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جن کا متکفل علم کلام اور علم فقہ ہے۔ ضروریات کو چھوڑ کر فضولیات میں مشغول ہونا اپنی عمر کو بیہودہ باتوں میں صرف کرنا ہے اور اعراض کی علامت میں آیا ہے کہ عَلَامَةُ إعْرَاضِ اللَّهِ تَعَالَى عَنْ عَبْدِهِ اشْتِغَالُهُ بِمَا لَا يَعْنِيهِبندہ کا بیہودہ باتوں میں مشغول ہونا بندہ کی طرف سے حق تعالیٰ کے منہ پھیرنے کی علامت ہے۔
اگر امامت کی بحث دین کی ضروریات اور شریعت کے اصول سے ہوتی ہے کہ شیعہ نے گمان کیا ہے تو چاہیئے تھا کہ الله تعالیٰ اپنی کتاب مجید میں استخلاف کا تعین فرما کر خلیفہ کی تشخیص فرماتا اور حضرت پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام بھی کسی ایک کی خلافت کا امر فرما جاتے اور تنصیص اور تصریح کے طور پر ایک کو خلیفہ کرتے جب کتاب و سنت میں اس امر کا اہتمام مفہوم نہیں ہوتا تو معلوم ہوا کہ امامت کی بحث دین کے فضول سے ہے نہ کہ دین کے اصول سے۔ وہ شخص فضول ہی ہو گا جو اس قسم کی فضول باتوں میں مشغول ہوگا۔ دین کی ضروریات اس قدر درپیش ہیں کہ فضول تک نوبت ہی نہیں ہوتی۔
اول اس اعتقاد کا درست کرنا ضروری ہے۔ جوحق تعالیٰ کی ذات و صفات و افعال سے تعلق رکھتا ہے اور پھر اعتقاد کرنا چاہیئے کہ جو کچھ پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام حق تعالیٰ کی طرف سے لائے ہیں اور ضرورت و تواتر کے طور پر دین سے معلوم ہوا ہے لیکن حشر ونشر و آخرت کا دائمی عذاب و ثواب اور سب سنی سنائی باتیں حق ہیں۔ ان میں خلاف کا احتمال نہیں۔ اگر یہ اعتقادنہ ہوگا نجات بھی نہ ہوگی۔
دوسرے احکام فقہیہ یعنی فرض و وا جب وسنت مستحب وغیرہ کا بجا لانا ضروری ہے۔ شرعی حلال وحرمت کو اچھی طرح مد نظر رکھنا چاہیئے اور حدود شرعی میں بڑی احتیاط کرنی چاہیئے تا کہ آخرت کے عذاب سے نجات و فلاح حاصل ہو سکے۔ جب یہ اعتقادو عمل درست ہو جائیں پھر طریق صوفیاء کی نوبت آتی ہے اور کمالات ولایت کے امیدوار ہو جاتے ہیں۔ امامت کی بحث ضروریات دین کے مقابلہ میں کالمطروح في الطريق یعنی راستہ میں پھینکے ہوئے کوڑے کرکٹ کی طرح ہے۔ چونکہ مخالفوں نے اس بارہ میں بڑا غلو و مبالغہ کیا ہوا ہے اور حضرت خیر البشر علیہ الصلوۃ والسلام کے اصحاب پر زبان طعن دراز کی ہے۔ اس لیے ان کے رد میں طول طویل مقدمات لکھے جاتے ہیں کیونکہ دین متین سے فساد کو رفع کرنا بھی دین کی ضروریات سے ہے۔ والسلام
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ220ناشر ادارہ مجددیہ کراچی