طئ زمانی طئ مکانی-وقت اورفاصلوں کا سمٹنا

طئ زمانی طئ مکانی-وقت اورفاصلوں کا سمٹنا

Iعَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ خُفِّفَ عَلَی دَاوُدَ عَلَیْہِ السَّلَام الْقُرْآنُ فَکَانَ یَأْمُرُ بِدَوَابِّہِ فَتُسْرَجُ فَیَقْرَأُ الْقُرْآنَ قَبْلَ أَنْ تُسْرَجَ دَوَابُّہُ وَلَا یَأْکُلُ إِلَّا مِنْ عَمَلِ یَدِہِ

( بخاری کتاب الانبیاء باب قول اﷲ تعالیٰ واتینا داود زبورا)

 حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت داؤد علیہ السلام کے لئے (زبور) کی تلاوت بہت آسان کر دی گئی تھی حتیٰ کہ وہ اپنی سواری پر زین کسنے کا حکم دیتے تو اس پر زین کسی جاتی تو وہ زین کسنے سے پہلے پڑھ چکتے تھے اور اپنے ہاتھ سے کما کر کھاتے تھے۔

  حدیث سے گویہ واضح نہیں ہوتا کہ سواری کے جانور پر زین کسنے کا کام کتنے عرصہ میں مکمل ہوتا تھا ، لیکن یہ ثابت ہوا کہ وہ عرصہ بہرحال اتنا طویل نہیں ہوتا تھا جس میں پوری زبور کی تلاوت مکمل کرلینا عام طور پر ممکن ہوتا، یہ صرف حضرت داؤد علیہ السلام کا وصف تھا کہ وہ تھوڑے عرصہ میں زبور جیسی کتاب کی تلاوت کرلیتے تھے ۔ تبھی تو اس بات کا اس انداز میں ذکر کیا جارہا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کو یہ وصف فوق العادت کمال کے طور پر حاصل تھا ، اور اس خصوصی عطیہ خداوندی سے تعلق رکھتا تھا کہ رب کریم اپنے نیک اور مخصوص بندوں کے لئے زمانہ اور وقت کی طناب کھینچ بھی دیتا ہے اور ڈھیلی بھی کردیتا ہے ، کبھی ایک مختصر ساعرصہ ان بندگان خاص کے حق میں طویل عرصہ کے برابر ہوجاتا ہے اور کبھی ایک طویل عرصہ ایک مختصر عرصہ کے برابر کردیا جاتا ہے ۔جسے عام اصطلاح میں طی زمانی(صدیوں پر محیط وقت کا چند لمحوں میں سمٹ آنے کو طئی زمانی ) اور طی مکانی(لاکھوں کروڑوں میلوں کی وُسعتوں میں بکھری مسافتوں کا ایک جنبشِ قدم میں سِمٹ آنے کو طئی مکانی ) کہتے ہیں۔ جس کی مزید وضاحت سنن نسائی کی اس حدیث میں ہے

                حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا خرچہ کرنے اور خیرات کرنے والے شخص اور کنجوس آدمی کی مثال اس طرح سے ہے کہ دو آدمی جن پر کرتہ یا لوہے کی زرہ ہے جو کہ اس کے سینہ سے لے کر ہنسلی تک ہے جس وقت خرچہ کرنے والا خرچہ کرنا چاہتا ہے تو اس کی زرہ لمبی چوڑی ہو جاتی ہے اور اس کے قدم تک کو وہ ڈھانپ لیتی ہے اور اس کے چلنے کے نشان مٹ جاتے ہیں لیکن جس وقت کوئی کنجوس آدمی خرچہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ زرہ سمٹ جاتی ہے اور اس کا سر ایک چھلہ دوسرے چھلہ کو پکڑ لیتا ہے حتی کہ اس کی گردن یا ہنسلی کو پکڑ لیتی ہے۔ ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ نے کہا میں نے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اس کو کشادہ فرماتے اور وہ زرہ کشادہ نہیں ہوتی تھی۔ طاؤس بیان فرماتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ کو دونوں ہاتھوں سے اشارہ کر کے اس کو کشادہ فرماتے ہوئے (خود) دیکھا ہے۔ لیکن وہ کشادہ نہیں ہوتی تھی۔

                 اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ سخی انسان جب خدا کی خوشنودی کے لیے اپنا مال خرچ کرنے کا قصد کرتا ہے تو اس جذبہ صدق کی بنا پر اس کا سینہ کشادہ ہوتا ہے اور اس کے ہاتھ اس کے قلب و احساسات کے تابع ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ مال خرچ کرنے کے لیے دراز ہوتے ہیں اس کے برخلاف ایسے مواقع پر بخیل انسان کا سینہ تنگ ہوتا ہے اور اس کے ہاتھ سمٹ جاتے ہیں۔ اس مثال کا حاصل یہ ہے کہ جب سخی انسان خیر و بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو توفیق الٰہی اس کے شامل حال ہوتی ہے بایں طور کہ اس کے لیے خیر و بھلائی اور نیکی کا راستہ آسان کر دیا جاتا ہے اور بخیل کے لیے نیکی و بھلائی کا راستہ دشوار گزار ہو جاتا ہے۔اگرچہ چیز ایک ہے جو تنگی یا وسعت اختیار کرتی ہے ۔

قرآنِ حکیم میں طئی مکانی کا ذکر

                حضرت سلیمان علیہ السلام ملکۂ سبا بلقیس کے تخت کے بارے میں اپنے درباریوں سے سوال کرتے ہیں :

                اے دربار والو! تم میں سے کون اُس (ملکہ) کا تخت میرے پاس لا سکتا ہے۔ جبکہ بیت المقدس سے مآرب یمن کا فاصلہ ڈیڑھ ہزار میل کا ہے جسے دو طرفہ شمار کیا جائے تو تین ہزار میل بنتا ہے۔

                ایک جن نے کہامیں اُسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اِس کے کہ آپ اپنے مقام سے اُٹھیں ۔جبکہ آپ کے ایک صحابی آصف بن برخیا جس کے پاس کتابُ اﷲ کا علم تھاکہنے لگا أَنَا آتِیکَ بِہِ قَبْلَ أَن یَرْتَدَّ إِلَیْکَ طَرْفُک (النمل، 27 : 40)

                 میں اُسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اِس کے کہ آپ کی نگاہ آپ کی طرف پلٹے۔

                حضرت سلیمان علیہ السلام کا ایک برگزیدہ صحابی آنکھ جھپکنے سے پیشتر تختِ بلقیس اپنے نبی کے قدموں میں حاضر کر دیتا ہے۔ یہ طئی مکانی کی ایک نا قابلِ تردِید قرآنی مثال ہے کہ فاصلے سمٹ گئے، جسے قرآن حکیم نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے ایک اُمتی سے منسوب کیا ہے۔ جس کے پاس کتاب الٰہی کا علم تھا، اﷲ تعالیٰ نے کرامات اور اعجاز کے طور پر اسے یہ قدرت دے دی کہ پلک جھپکتے میں وہ تخت لے آیا۔

حدیث میں طئی مکانی کا ذکر

                 حدیث میں یوں ملتا ہے توبہ کی غرض سے سو قتل کرنے والا جب بیت المقدس کی طرف جا رہا تھا اسے موت آگئی تو اﷲ نے اس بستی (بیت المقدس کو) یہ حکم دیا کہ اے بستی (اس سے) نزدیک ہو جا اور اس بستی کو (جہاں اس نے گناہ کا ارتکاب کیا تھا) یہ حکم دیا کہ تو دور ہو جا اور (فرشتوں کو حکم دیا کہ) دونوں بستیوں کی مسافت ناپو (دیکھو یہ مردہ کس بستی کے قریب ہے چنانچہ) وہ مردہ اس بستی سے (جواولیاء اﷲ کا مسکن تھی) فاصلہ ناپتے وقت بالشت بھر نزدیک نکلی خدا نے اسے بخش دیا۔اس کا تفصیلی ذکر بخاری میں ہے

                 حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے (ایران کے صوبہ ہمدان کے جنوب میں واقع مقام نہاوندہ کو) جولشکر بھیجا تھا ) اس (کے ایک حصہ فوج ) کا سپہ سالار ساریہ نامی شخص کو بنایا تھا، (ایک دن) جب کہ فاروق اعظم (مسجد نبوی میں) خطبہ ارشاد فرما رہے تھے (اور حاضرین میں اکابر صحابہ حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کے علاوہ دوسرے صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین وتابعین عظام رحمہم اﷲ تعالیٰ علیہم بھی تھے ) تو انہوں نے (دوران خطبہ ) اچانک چلاچلا کر کہنا شروع کیا کہ ساریہ ! پہاڑ کی طرف جاؤ (یعنی میدان جنگ کا موجودہ مورچہ چھوڑ کر پہاڑ کے دامن میں چلے جاؤ اور پہاڑ کو پشت بنا کر کے نیا مورچہ بنا لو ) لوگوں کو یہ سن کر بڑا تعجب ہوا اور پھر جب (چند دنوں کے بعد ) لشکر سے ایک ایلچی آیا اور اس نے (میدان جنگ کے حالات سنا کر ) کہا کہ امیر المؤمنین !دشمن نے تو ہمیں آلیا تھا اور ہم شکست سے دوچار ہوا ہی چاہتے کہ اچانک (ہمارے کانوں میں ایک شخص کی آواز ) جو چلا چلا کر کہہ رہا تھا : ساریہ ! پہاڑ کی طرف جاؤ ” چنانچہ (یہ آواز سن کر ) ہم نے (اپنا وہ مورچہ چھوڑ دیا اور پہاڑ کی سمت جا کر ) پہاڑ کو اپنا پشت بان بنالیا اور پھر اﷲ تعالیٰ نے دشمنوں کو شکست دی (اس روایت کو بیہقی نے دلائل النبوۃ میں نقل کیا ہے ۔”

قرآنِ حکیم میں طئی زمانی کا ذکر

                 اَصحابِ کہف اور حضرت عزیر علیہ السلام کے واقعات طئی زمانی کی مثالیں ہیں۔ جن سے واضح ہوتا ہے کہ وقت تھم گیا اور مادّی اَجسام بھی محفوظ رہے اور صدیوں پر محیط عرصہ بھی بیت گیا۔

                 اصحابِ کہف تین سو نو سال تک ایک غار میں لیٹے رہے اور جب سو کر اٹھے تواُن میں سے ایک نے کہا : ہم یہاں کتنا عرصہ ٹھہرے ؟ سب نے کہا : ہم (یہاں) ایک دن یا اُس کا (بھی) کچھ حصہ ٹھہرے ہیں۔

                 309سال تک اصحابِ کہف اور اُن کا کتا غار میں مقیم رہے کھانے پینے سے بے نیاز قبر کی سی حالت میں رہے۔ سورج اُن کی خاطر اپنا راستہ بدلتا رہا تاکہ اُن کے جسم موسمی تغیرات سے محفوظ رہیں۔ اُن کے اَجسام تروتازہ رہے۔جبکہ وہ خود صدیوں پر محیط اُس مدت کو محض ایک آدھ دِن خیال کرتے رہے۔اﷲ تعالی نے سورج کے طلوع و غروب کے اُصول تک کو بدل ڈالا ۔

                خدائے رحمٰن و رحیم نے اپنی خصوصی رحمت سے اصحابِ کہف کو تھپکی دے کر پُرکیف نیند سلا دیا اور اُن پر عجیب سرشاری کی کیفیت طاری کردی۔ پھر اُنہیں ایک ایسے مشاہدۂ حق میں مگن کردیا کہ صدیاں ساعتوں میں تبدیل ہوتی محسوس ہوئیں۔ جیسا کہ قیامت کا دِن بھی طئی زمانی ہی کی ایک صورت میں برپا ہو گا، جس میں پچاس ہزار سال کا دِن اﷲ کے نیک بندوں پر عصر کی چار رکعتوں کی اَدائیگی جتنے وقت میں گزر جائے گا، جبکہ دیگر لوگوں پر وہ طویل دِن ناقابلِ بیان کرب و اَذیت کا حامل ہو گا۔تصوف کی اصطلاح میں مشاہدۂ حق کے اِستغراق میں وقت سمٹ جاتا ہے اور صدیاں لمحوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔

                حضرت عزیر علیہ السلام نے حصولِ حق الیقین کے لئے اﷲ تعالیٰ سے طئی زمانی کے بارے میں سوال کیا۔ اﷲ تعالیٰ نے اُن پر ایک سو سال کے لئے موت طاری کر دی ۔ پھر اُنہیں زندہ کیا۔ تو پوچھا : آپ یہاں کتنی دیر ٹھہرے رہے)؟ تو جواب میں کہنے لگے لَبِثْتُ یَوْمًا أَوْ بَعْضَ یَوْمٍ قَالَ بَل لَّبِثْتَ مِئَۃَ عَامٍ(البقرۃ: 259)

                میں ایک دن یا ایک دن کا (بھی) کچھ حصہ ٹھہرا ہوں۔ فرمایا : (نہیں) بلکہ تو سو برس پڑا رہا (ہے)۔

                سیدنا امیر المؤمنین حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ اپنی سواری کے ایک رکاب میں پیر رکھتے وقت قرآن کریم پڑھنا شروع کرتے اور دوسرے رکاب میں پیر ڈالنے تک پورے قرآن کی تلاوت ختم کرلیتے تھے ۔ اسے شواہد النبوت نے نقل کیا ہے۔

                علامہ قسطلانیؒ فرماتے ہیں مجھے برہان بن ابی شریف نے یہ بات بتائی کہ ابو طاہر المقدسی جو ان کے ہم عصرتھے وہ ایک دن رات میں قرآن پاک کے دس ختم فرماتے تھے ۔(الجامع الصغیر من حدیث البشیر النذیر امام جلال الدین السیوطی)

                امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ یہ بات ہم تک پہنچی ہے کہ کئی لوگ ایسے ہیں جو ایک رات میں چار قرآن پاک اور ایک رات میں چار قرآن کی تلاوت کرتے تھے اور ایسے حٖفاظ کرام بھی دیکھے جولیلۃ القدر کی رات وتر کی ہر رکعت میں قرآن پاک ختم کرتے گویا وتروں میں تین ختم تلاوت کر لیتے ۔(عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری)

                علامہ عبد الرحمان الجامی قدس اﷲ سرہ السامی اپنی کتاب ’’ نفحات الأنس فی حضرات القدس‘‘میں بعض مشائخ کا ذکر فرماتے ہیں کہ وہ دوران طواف حجر اسود سے لیکر باب کعبہ تک(چند گز کا فاصلہ ہے) پہنچتے پہنچتے قرآن پاک کا ختم مکمل کر لیتے۔ اسی طرح شیخ شہاب الدین السہروردی کے بیٹے فرماتے ہیں کہ میرے والد حضور بھی حجر اسود سے باب کعبہ تک ایک ایک کلمہ اور ایک ایک حرف کے ساتھ اول سے آخر تک تلاوت کر لیا کرتے تھے ( مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح)

طئی مکانی اور طئی زمانی کا امتزاج

                 خدائے قدیر و خبیر اپنے برگزیدہ انبیائے کرام اور اولیائے عظام میں سے کسی کو معجزہ اور کرامت کے طور پر طئی زمانی اور کسی کو طئی مکانی کے کمالات عطا کرتا ہے لیکن حضور رحمتِ عالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا سفرِ معراج معجزاتِ طئی زمانی اور طئی مکانی دونوں کی جامعیت کا مظہر ہے۔ جس میں زمانے اور فاصلے دونوں سمٹ گئے سفر کا ایک رخ اگر طئی زمانی کا آئینہ دار ہے تو اُس کا دوسرا رخ طئی مکانی پر محیط نظر آتا ہے۔ معراج النبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے دوران میں اِن معجزات کا صدور نصِ قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔

                ایسے واقعات اگرچہ خرق عادت ہیں تاہم موجودہ علوم نے ایسی باتوں کو بہت حد تک قریب الفہم بنادیا ہے۔ مثلاً یہی زمین جس پر ہم آباد ہیں سورج کے گرد سال بھر چکر کاٹتی ہے اور اس کی رفتار چھیاسٹھ ہزار چھ سو میل فی گھنٹہ بنتی ہے۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ اس قدر عظیم الجثہ کرہ زمین برق رفتاری کے ساتھ چکر کاٹ رہا ہے اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا اور یہ ایسی بات ہے کہ ہم ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں۔ اب اس زمین کی جسامت اور وزن کے مقابلہ میں ملکہ بلقیس کے تخت کی جسامت اور وزن دیکھئے اور مارب یمن سے بیت المقدس کا صرف ڈیرھ ہزار میل فاصلہ ذہن میں لاکر غور فرمائے گا کہ اگر پہی بات ممکن ہے تو دوسری کیوں ممکن نہیں ہوسکتی۔

                کرامت اور معجزہ نام ہی ایسے کاموں کا ہے جو ظاہری اسباب اور امور عادیہ کے یکسر خلاف ہوں اور وہ اﷲ تعالیٰ کی قدرت و مشیت سے ہی ظہور پذیر پاتے ہیں۔ اس لئے نہ شخصی قوت قابل تعجب ہے اور نہ اس علم کا سراغ لگانے کی ضرورت، جس کا ذکر یہاں ہے۔ کیونکہ یہ تو اس شخص کا تعارف ہے جس کے ذریعے سے یہ کام ظاہری طور پر انجام پایا، ورنہ حقیقت میں تو یہ مشیت الٰہی ہی کی کار فرمائی ہے جو چشم زدن میں، جو چاہے، کر سکتی ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام بھی اس حقیقت سے آگاہ تھے، اس لئے انہوں نے دیکھا کہ تخت موجود ہے تو اسے فضل ربی سے تعبیر کیا۔

                 طئی مکانی اور طئی زمانی کی بات ہم جسے کوتاہ فہم اور قاصر الادراک لوگوں کیلئے اگرچہ بہت بڑی بات ہے، لیکن جس قادر مطلق اور خالق و مالک کل کی قدرت مطلقہ کے اعتبار سے یہ کچھ بھی مشکل نہیں بھلا جس کی قدرت کے یہ عظیم الشان مظاہر اس دنیا میں موجود ہیں کہ اسکے ایک حکم و ارشاد سے حکمتوں اور عجائب بھری یہ کائنات وجود میں آگئی اور سورج و چاند اور ان سے بھی کہیں بڑے سیارے آن کی آن میں لاکھوں میل کا سفر طے کرتے ہیں اور جسکی قدرت کے انوکھے مظہر کاپرتو وہ انبیائے کرام اور اولیائے صالحین ہیں جن کو اﷲ تعالیٰ نے اپنی قربت کے ایسے راستے دکھائے جن پر چلنے والے ا ﷲ کی قربت کے حقدار بن جاتے ہیں اور سلوک نام ہی ان اﷲ کی قربتوں کا سفر کرنا ہے ۔اسی کا نام معرفت اور سلوک ہے جو اﷲ کے خاص فضل اور کسی کامل کی سچی غلامی کے صدقے میسر آتا ہے کہ تھوڑے سے زمانے میں اﷲ کی قربتوں کا سفر اس قدر طے ہو جاتا ہے کہ انسان کی عقل حیران و ششدر رہ جاتی ہے اور بہت سی برائیاں جو انسان کو چھوڑنا مشکل نظر آتی ہیں چند لمحے کسی کام کی صحبت میں بیٹھنے سے ہمیشہ کیلئے رخصت ہو جاتی ہیں ان میں بھی یہی طئی زمانی و مکانی کا عمل کار فرما ہوتا ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں