ظاہری وباطنی انوارکافرق ( باب  دہم)

ظاہری وباطنی انوارکافرق کے عنوان سے  باب  دہم میں  حکمت نمبر 104 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے ظاہری انوار، اور باطنی انوار کے درمیان فرق کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:

لِأَجْلِ ذَلِكَ أفَلَتْ أَنْوَارُ الظَّوَاهِرِ ، وَلَمْ تَأْفَلْ أَنْوَارُ القُلُوبِ وَالسَّرَائِرِ ؛

اس وجہ سے ظاہر کے انوار غروب ہو جاتے ہیں۔ اور قلوب اور ارواح کے انوار غروب نہیں ہوتے ہیں۔ یعنی اس وجہ سے کہ ظاہر کے انوار اثر کے انوار ہیں۔ اور اثر کی شان یہ ہے کہ وہ متاثر ہوتا ہے اور طلوع اور غروب کے ساتھ متغیر ہوتا ہے تو ختم ہو جاتا ہے۔ یعنی ظاہر کے انوار غروب ہو جاتے ہیں خواہ معلوم غروب کے ذریعہ خواہ قطعی ویقینی عدم کے ذریعہ اور قلوب کے انوار غروب نہیں ہوتے ہیں۔ اور قلوب کے انوار اسلام اور ایمان کے انوار ہیں۔ اور ارواح کے انوار احسان کے انوار ہیں۔ اور اسلام و ایمان کے انوار توجہ کے انوار ہیں۔اور احسان کے انوار مواجہت(روبرو) کے انوار ہیں۔

اورنور وہ یقین ہے جو عمل کی لذت کے نتیجہ میں قلب میں حاصل ہوتا ہے۔ تو جب یقین قوی ہوتا ہے۔ تو نور بھی قوی ہوتا ہے اور لذت بڑھ جاتی ہے۔ یہاں تک کہ مشاہدہ کی لذت سے مل جاتی ہے۔ پھر وہ عمل کی لذت پر غالب آجاتی ہے۔ اس لئے عارف کے جسمانی اعضاء کے عمل کم ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ مشاہدہ کی الفت ہرشے سے بے نیاز کر دیتی ہے۔ اور سنی ہوئی خبر ، آنکھ سے دیکھے ہوئے واقعہ کی طرح نہیں ہوتی ہے۔

حدیث شریف میں وارد ہے:

سئل رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  أيُّ الأَعْمَال أَفْضَلُ قال:العلْمُ بالله. قيلَ: يا رسُولَ الله سَأَلْنَاكَ عن العَمَل، فقال: العلمُ بالله، ثم قال صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إذا حَصَلَ العلمُ بالله ‌كَفَى ‌قلِيلُ ‌العَملِ

حضرت رسول اللہ ﷺ سے لوگوں نے سوال کیا کون ساعمل سب اعمال سے افضل ہے۔  آنحضرت ﷺنے فرمایا: اللہ کے ساتھ علم ہونا۔ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ ! ہم نے عمل کے متعلق  سوال کیا ہے۔ آپ نے دوبارہ فرمایا اللہ کے ساتھ علم ۔ پھر تیسری مرتبہ فرمایا علم اللہ کے ساتھ تھوڑ اعمل بھی کافی ہے  ۔

اور اصل میں نور کی حقیقت ایسی کیفیت ہے جو چاند ، اور سورج کی روشنی سے زیادہ انسان کے جسم پر پھیلتی ہے ۔ (روشن ہوتی ہے ) پھر آنکھ کے ذریعہ سے اس کے گرد کی چاروں طرف کی اشیاء واضح ہو جاتی ہیں۔ اور مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے علم اور یقین ، اور معرفت کی تشبیہ اس نور کے ساتھ اس لئے دی ہے کہ اشیاء کی حقیقت معلوم کرنے ، اور ان کی تمیز کرنے میں دونوں کے درمیان ایک قسم کی مشابہت ہے۔ اور ظاہری نور، اپنی اصل کے منقطع ہونے کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے۔ اور باطنی نور، یعنی قلب اور روح کا نور بھی ختم نہیں ہوتا ہے۔ اسی لئے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے ایک شعر تحریر فرمایا ہے۔ چنانچہ فرمایا:

إِنَّ شَمْسَ النَّهَارِ تَغْرُبُ باللَّيْلِ وَشَمسُ القُلُوبِ لَيْسَتْ تَغِيبُ.

دن کا سورج ، رات میں غروب ہو جاتا ہے لیکن قلب کا سورج کبھی غائب نہیں ہوتا

نوٹ :  کسی  دوسرے بزرگ کا شعر ہے

اور انشاء اللہ عن قریب مناجات کے ضمن میں کل اشعار بیان کئے جائیں گے۔

حضرت شیخ زروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: قلوب کا سورج کبھی غائب نہیں ہوتا وہ کبھی منقطع اور ختم نہیں ہوتا بلکہ وہ ہمیشہ باقی اور قائم رہتا ہے کیونکہ اس کی مدد ہمیشہ باقی رہتی اور پہنچتی رہتی ہے۔ اور وہ اوصاف ربانی کی حقیقتیں ہیں۔ اور اس کے مقامات ہمیشہ کے لئے قائم ہیں۔ اور وہ عالم روحانیت ہے۔ تو اس سے تعلق رکھنے والا ، ایسی حقیقت سے تعلق رکھتا ہے۔ جوکبھی ختم نہیں ہوتی ۔ اس وجہ سے صوفیائے کرام کی غناء اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوتی ہے۔ اسباب کے ساتھ نہیں ۔ اور ان کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوتا اس کے سوا کسی دوسری تھی کے ساتھ نہیں۔ یہاں دسواں باب ختم ہوا۔

دسویں باب کا خلاصہ

اس باب کا حاصل : اعمال پر صلہ کی کیفیت، اور صلہ طلب کرنے پر تنبیہ، اور اس کی بخشش اور محرومی میں معرفت حاصل کرنے ، اور اس کی توجہ، اور قبولیت حاصل کرنے میں ، نہ کہ خدمت میں،مشغول ہونے ، اور اس کے سامنے ہمیشہ عاجزی اور مجبوری ، اور اس کی نعمت کی محتاجی ، اختیار کرنے ، اور اس کی ہمیشہ انسیت کے ساتھ ، اس کی مخلوق سے نفرت کرنے کا بیان کرتا ہے۔

اور اللہ تعالیٰ کے اولیائے کرام کے قلوب پر، اور اس کے اصفیائے عظام کے اسرار وارواح پر، اللہ تعالیٰ کے انوار کا ظاہر ہونا ۔ اس کی طرف ان کی توجہ، اور اس کے سامنے ان کی عاجزی اور بے قراری کا صلہ ہے۔ تو جب اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ تحفہ عطا کیا اور اس چیز کے لئے جو اس مقام میں ہے ان کو آمادہ کیا تو ان کے لئے اس نے اپنی یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی:

أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ    کیا تم لوگ یہ سمجھتے ہو کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔ حالانکہ ابھی تمہارے اوپر ان لوگوں کی طرح آزمائشیں نہیں آئیں جو تم سے پہلے گزر چکے ۔ اور مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے گیارھواں باب کی ابتداء میں اس کو بیان فرمایا ہے ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں