ظلمانی اور نورانی حجابات
(حجابات ظلمانی:طالب اور مطلوب کے در میان حائل پر دے۔ در اصل یہ شہوات و لذات جیسی جسم کی ظلمتوں کا دوسرا نام ہے۔
حجابات نورانی :یہ بھی طالب و مطلوب کے در میان پردے ہیں یعنی ان کا تعلق محرکات باطنیہ سے ہے مثلا عقل، سِرّ روح خفی جیسے نور روح کے پردے)
اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔ وَ مَن كَانَ فِي هَذِهِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الأَخِرَةِ أَعْمَى وَأَضَلُّ سَبِيلاً (الاسراء:72(
اور جو شخص بنارہا اس دنیا میں اندھا وہ آخرت میں بھی اندھا ہو گا اوربڑاگم کردہ راہ ہو گا“
یہاں اندھے پن سے مراد دل کا اندھا پن ہے جیسا کہ ایک دوسری آیت سے واقع ہے۔
فَإِنَّهَا لاَ تَعْمَى الأَبْصَارُ وَلَكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ(الحج:46)
حقیقت تو یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں“
دل کے اندھا ہونے کا سبب حجابات کی ظلمت، غفلت اور نسیان ہے۔ کیونکہ رب قدوس سے کیے گئے وعدہ(اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ) کو ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے۔ غفلت کا سبب امرالہٰی کی حقیقت سے ناواقفیت ہے اور جہالت اس لیے ہے کہ دل پر ظلماتی صفات چھا گئی ہیں۔ مثلا تکبر ، کینہ، حسد، بخل، غضب ، غیبت، چغلی، جھوٹ اور اس قسم کی کئی دوسری بری چیزیں۔ یہی صفات انسان کے بدترین حالت کی طرف لوٹنے کا سبب بنی ہیں۔
ان صفات مذمومہ کے ازالے کی واحد صورت یہ ہے کہ دل کے آیئنے کو توحید کی ’’ریتی‘‘(ذکر) کے ساتھ صیقل کیا جائے اور علم، عمل اور ظاہر وباطن میں سخت مجاہدہ اپنا کر دل کو صاف کیا جائے۔ اگر اس طریقہ کو اپنایا جائے تو دل اسماء و صفات(الہیہ) کے نور(توحید) سے ایک نئی زندگی حاصل کر لے گا اور اسے اپنا وطن اصلی(عالم لاہوت) یاد آجائے گا۔ پھر یہ دل اپنے وطن کے لیے مشتاق ہو گا۔ وہاں لوٹنے کے لیے بے تاب ہو گا اور اللہ رحمن اوررحیم کی عنایت سے اپنی منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ حجابات ظلمانیہ کے ازالے کے بعد نورانیت باقی رہ جائے گی اب روح کی آنکھ بینا ہو جائے گی۔ اسماء و صفات کے نور سے باطن میں روشنی پھیل جائے گی۔ پھر ایک وقت وہ بھی آئے گا کہ نورانی حجابات بھی اٹھتے جائیں گے اور دل نور ذات سے منور ہو جائے گا۔
یاد رکھئے باطن میں دل کی دو آنکھیں ہیں۔ ایک چھوٹی آنکھ ہے اور دوسری بڑی آنکھ۔
چھوٹی آنکھ :۔ یہ آنکھ اسماء و صفات کے نور سے تجلیات (غیبی انوار جو دلوں پر منکشف ہوتے ہیں)صفات کا انتہائے عالم درجات تک مشاہدہ کرتی ہے۔
بڑی آنکھ :۔ یہ آنکھ عالم لاہوت(روحوں کا پہلا وطن جہاں وہ تخلیق ہو گئیں۔ اسی عالم میں محو فناء ہے۔ کیونکہ فانی کو اس عالم میں قرب خداوندی حاصل ہو تا ہے۔ اس عالم تک ملا ئکہ نہیں پہنچ سکتے) میں انوار ذات کی تجلی کا مشاہدہ کرتی ہے۔ اس سے مراد نور توحید احدیت( اللہ تعالی کی ذات یکتا) کے ذریعے قربت(اسماء و صفات سے بندے کا علم و معرفت میں مستحکم ہو جانا اس طرح کہ کوئی چیز اسے مقصود سے دور نہ کر سکے) ہے۔ یہ وہ مر تبہ ہے جیسے انسان موت کے بعد حاصل کر تا ہے یا موت سے پہلے بشری نفسانی صفات کو فناء کر کے حاصل کر تا ہے۔ جوں جوں وہ بشری صفات سے منقطع ہو تا جائے گا اسی قدر وہ اس عالم تک رسائی حاصل کر تا جائے گا۔
وصول الى اللہ کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ انسان کا جسم (نعوذ باللہ) اللہ تک پہنچ جائے جیسے ایک جسم دوسرے جم تک علم معلوم تک ، عقل معقول تک یا و ہم موہوم تک پہنچتا ہے۔ بلکہ اللہ تک پہنچنے کا مفہوم یہ ہے بلا قرب وبعد ، جہت و مقابلہ اور اتصال و انفصال کے بغیر اللہ تک رسائی حاصل کی جائے۔ جس قدر غیر سے انقطاع ہوگا اسی قدر اللہ تعالی سے وصال (اتصال بالحق کا دوسرا نام ہے وصال مخلوق سے انقطع کی قدر ہوتا ہے۔ ادنی وصال دل کی آنکھ سے مشاہدہ ہے۔ جب حجاب اٹھ جاتا ہے اورتجلی پڑتی ہے تو سالک کو اس وقت واصل کہاجاتا ہے ) ہو گا۔ اللہ تعالی پاک ہے جس کے ظہور و خفاءتجلی و استتار اور جس کی معرفت میں عظیم حکمت پوشیدہ ہے۔
جسے یہ مقام( اس سے مراد بندے کاوہ مرتبہ ہے جو وہ توبہ ، زهد ، عبادات ، ریاضات اور مجاہدات کے ذریے بارگاہ خداوندی میں حاصل کرتا ہے۔ جب تک وہ ایک مقام کے احکام پر پورا نہیں اتر تا دوسرے مقام کی طرف ترقی نہیں کر سکتا) دنیا میں مل گیا اور اس نے احتساب سے پہلے اپنا احتساب کر لیا تو وہ دونوں جہان میں کامیاب ہوا۔ ورنہ اسے عذاب قبر وحشر اور عذاب حساب و میزان اور شدائد پل صراط کا سامنا کرنا ہو گا۔
سرالاسرار ،شیخ عبد القادر جیلانی صفحہ74 سلطان الفقر پبلیکیشنز لاہور