اس بیان میں کہ جو ظہور ہوتا ہے، ظلیت کی آمیزش کے بغیر نہیں ہوتا۔ برخلاف اس ظہور کے جوعرش پر واقع ہو اور جب قلب اپنی نہایت کمال تک پہنچ جاتا ہے تو انوار عرش سے نور اقتباس کر لیتا ہے۔ حقائق آگاه برادرحقیقی میاں محمد مودود کی طرف صادرکیا ہے۔
شیخ بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر عرش اور جو کچھ عرش میں ہے، سب عارف کے دل کے گوشہ میں رکھ دیں تو عارف کو قلب کی فراخی کے باعث کچھ محسوس نہ ہو۔
شیخ جنید رحمتہ اللہ علیہ اس بات کی تائید کرتے ہیں اور دلیل کے ساتھ ثابت کرتے اور کہتے ہیں کہ جب حادث قدیم کے ساتھ مل جاتا ہے تو اس کا اپنا اثر کچھ باقی نہیں رہتایعنی عرش ومافيها حادث ہے اور عارف کا قلب جو انوار قدم کے ظہور کامحل ہے، جب اس حادث کو اس قلب کے ساتھ ملنے کا اتفاق ہوتا ہے تو مضمحل اور لاشے یعنی فانی و نا چیز ہو جاتا ہے۔ پھر کس طرح محسوس ہو سکے۔
بڑے تعجب کی بات ہے کہ جب صوفیہ کےرئیس یعنی سلطان العارفین اور سید الطائفہ(جنید) اس طرح کہیں اور عرش مجید کا قلب عارف کے مقابلہ میں کچھ اعتبار نہ کریں اور عرش کو انوار قدم کے ظہورات سے خالی جان کر حادث کہہ دیں اور قلب کو انوار قدم کے ظہورات کے باعث قدیم بیان کریں تو پھر اوروں کا کیا ذکر ہے۔
اس فقیر کے نزدیک جو جذبات الہی سے تربیت یافتہ ہے، یہ ہے کہ عارف کا قلب جب اپنی خاص استعداد کے موافق نہایت النہایت تک جاتا ہے اور وہ کمال حاصل کر لیتا ہے جس سے بڑھ کر اور کمال متصور ہیں تو اس بات کی قابلیت پیدا کر لیتا ہے کہ انوار عرش کے ظہور کے بے نہایت لمعات میں سے ایک لمعہ(نور) اس پر فائض ہو۔ اس لمعہ کوان لمعات کے ساتھ وہ نسبت ہوتی ہے جو قطرے کو دریائے محیط کے ساتھ ہوتی ہے بلکہ اس سے بھی کم ہوتی ہے۔ عرش وہ ہے جس کو الله تعالی عرش عظیم فرماتا ہے اور جس پر استواء کا سرثابت کرتا ہے۔ قلب عارف کو جامعیت کے باعث تشبیہ اور تمثیل کے طور پرعرش اللہ کہتے ہیں یعنی جس طرح عرش مجید عالم کبیر میں عالم خلق اور عالم امر کے درمیان برزخ ہے اور خلق وامر کی دونوں طرفوں کا جامع ہے۔ اسی طرح قلب بھی عالم صغیر میں عالم خلق اور عالم امر کے درمیان برزخ ہے اور اس عالم کے خلق وامر کی دونوں طرفوں کا جامع ہے۔ پس قلب کو بھی تشبیہ کے طور پرعرش کہہ سکتے ہیں۔
جاننا چاہئے اور غور سے سننا چاہئے کہ انوار قدم کے ظہور کی قابلیت جو ظلیت کی ملاوٹ سے منزہ اور مبرا ہے، عرش مجید کے ساتھ مخصوص ہے۔ یہ قابلیت عرش مجید کے سوانہ عالم خلق رکھتا ہے اور عالم امرنہ عالم کبیر نہ عالم صغیر۔
عارف کامل کا قلب بھی جامعیت اور بر زخیت کے تعلق کے باعث ان انوار سے نور اقتباس کر لیتا ہے اور دریا سے ایک چلو بھر لیتا ہے۔ عرش اور کامل معرفت والے عارف کے دل کے سوا اور جس قدرظہور ہیں، سب پر ظلیت کا داغ ہے اور کسی میں اصل کی بو نہیں۔ بایزید رحمۃ الله علیہ اگر سکر(مستی) کے باعث اس طرح کہہ دیں تو مناسب ہے لیکن جنید سے جوصحو(ہوشیاری)کا مدعی ہے، اس قسم کی کلام کا صادر ہونا نہایت ہی ناخوش اور نامناسب ہے لیکن کیا کریں۔ وہ حقیقت معاملہ سے واقف نہیں ہوئے اور دریائےظلیت کے نور سے کنارہ تک نہیں پہنچے۔ یہ بات اگر چه اکثر خلق کی نظر میں آج بعید اور عجیب دکھائی دیتی ہے لیکن آج کے آگے کل نزدیک ہے۔ جلدی نہ کریں۔ أَتَى أَمْرُ اللَّهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ الله تعالی کا امر آ گیا ہے۔ جلدی نہ کرو) سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ (اللہ تعالی شرک کی باتوں سے پاک ہے) والسلام على من اتبع الهدى والتزم متابعة المصطفى عليه وعلى اله الصلوات والتسلیماث العلئ وعلى جميع الأنبياء والمرسلين وعلى الملكۃالمقربين وعلى سائر الصالحين على المومنين والمؤمنات أجمعین (سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت اختیار کی اور حضرت محمد مصطفے کی متابعت کو لازم پکڑا۔)
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ47 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی