عالم ارواح کی طرف ترقی (سترھواں باب)

عالم ارواح کی طرف ترقی کے عنوان سے سترھویں باب میں  حکمت نمبر 163 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
سچے ولی کی مخلوق کے نزدیک کچھ قدرومنزلت نہیں ہوتی ہے۔ اور نہ ان کے نزدیک مخلوق کی کچھ قدرو منزلت ہوتی ہے۔ لہذا جتنا ان کا مرتبہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑھتا جاتا ہے۔ اتنا ان کا مرتبہ لوگوں سے پوشیدہ ہوتا جاتا ہے۔ اور اللہ کے دیکھنے کو کافی سمجھ کر مخلوق کے دیکھنے سے غائب ہونا ، صرف ہرشے کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی معرفت، ہرشے میں اس کے مشاہدہ کرنے سے ثابت اور قائم ہونا ہے۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کو اپنے اس قول میں واضح فرمایا ہے :-
163) مَنْ عَرَفَ الحَقَّ شَهِدَهُ فِي كُلِّ شَيْءٍ ، وَمَنْ فَنِيَ بِهِ غَابَ عَنْ كُلِّ شَيْءٍ ، وَمَنْ أَحَبَّهُ لَمْ يُؤْثِرْ عَلَيْهِ شَيْئاً.
جو شخص اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کر لیتا ہے۔ وہ ہرشے میں اس کا مشاہدہ کرتا ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ میں فنا ہو جاتا ہے وہ ہرشے سے غائب ہو جاتا ہے۔ اور جو اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہے وہ کسی شے کو اس کے او پر ترجیح نہیں دیتا۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں : اللہ تعالیٰ کی معرفت :- اس کی عبودیت کے مظاہر میں اس کی ربوبیت کا مشاہدہ کرنا ہے۔ یا تم اس طرح کہو :- احدیت کے مشاہدے میں غیریت سے غائب ہونا ہے۔ یا اس طرح کہو :- وہ عالم اجسام کے مشاہدہ سے، عالم ارواح کے مشاہدہ کی طرف ترقی کرتا ہے۔ لہذا تمہارا جسم اجسام کے ساتھ ہوتا ہے اور تمہاری روح ارواح کے ساتھ ہوتی ہے۔ مباحث میں فرمایا ہے۔۔
وَاسْتَشْعَرُوا شَيْئًا سِوَى الْأَبْدَانِ يَدْعُونَهُ بِالْعَالَمِ الرُّوحَانِي
انہوں نے اجسام کے سوا ایک شے کو پہچانا ہے۔ جس کو وہ عالم روحانی کہتے ہیں۔
ثُمَّ أَقَامَ الْعَالَمُ الْمَعْقُولُ مَعَارِفَ تُلْغَزُ بِالْمَنْقُولِ
عالم معقول نے ایسے معارف قائم کیا۔ جو منقول کے ساتھ بطور معما کے کہے جاتے ہیں ۔
اور اللہ تعالیٰ میں فنا یہ ہے کہ تمہارے سامنے اس کی عظمت اس طرح ظاہر ہو کہ تم کو ہرشے بھلا دے اور اس اللہ واحد کے سوا جن کے مثل کوئی شے نہیں ہے اور نہ اس کے ساتھ کوئی شے ہے ہرشے سے تم کو غائب کر دے۔ یا تم اس طرح کہو ۔ وہ بغیر مخلوق کے مشاہدے کے اللہ تعالیٰ کا مشاہدہ کرتا ہے۔
جیسا کہ بقا اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخلوق کا مشاہدہ کرنا ہے۔
اور محبت :- یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے جس بندے سے محبت کریں ، اس کے قلب کو اس طرح اپنے قبضے میں لے لے ، کہ اس کو اپنی ذات کی خبر نہ ہو۔ اور نہ اس کو اپنے محبوب کے سوا کسی کے ساتھ قرار و سکون ہو اور اس تعریف کے علاوہ دوسری تعریف بھی بیان کی گئی ہے۔ لہذا جو شخص اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کر لیتا ہے۔ وہ ہرشے میں اس کا مشاہدہ کرتا ہے اور اس کے ساتھ کسی شے کو نہیں دیکھتا ہے۔ اس لئے کہ اس کی بصیرت عالم اجسام کے مشاہدے سے عالم ارواح کے مشاہدے کی طرف اور عالم ملک کے مشاہدے سے فضائے ملکوت کے مشاہدے کی طرف ترقی کر جاتی ہے۔ اور جو شخص اللہ تعالیٰ میں فنا ہو جاتا ہے اور اس کی بارگاہ کی طرف جذب ہو جاتا ہے (کھینچ جاتا ہے )۔ وہ اس کے نور کے مشاہدہ میں ہرشے سے غائب ہو جاتا ہے۔
اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی شے کو ثابت نہیں کرتا ہے۔
اور فانی فی اللہ اور عارف باللہ کے درمیان یہ فرق ہے :۔ عارف باللہ ، اشیاء کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ثابت کرتا ہے۔ اور فانی فی اللہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی بھی کو ثابت نہیں کرتا ہے۔ عارف ، قدرت اور حکمت کو ثابت کرتا ہے اور فانی ،قدرت کے سوا کچھ نہیں دیکھتا ہے۔ مخلوق میں اللہ تعالیٰ کو دیکھتا ہے۔ جیسا کہ بعض عارفین کا قول ہے:۔
مَا رَأَيْتُ شَيْئًا إِلَّا رَأَيْتُ اللَّهِ فِيهِ میں نے کسی شے کو نہیں دیکھا مگر اس میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا اور فانی ، اللہ تعالیٰ کے سوا کچھ نہیں
دیکھتا ہے۔ وہ کہتا ہے۔ مَا رَأَيْتُ شَيْئًا إِلَّا رَأَيْتُ اللَّهَ قَبْلَهُ میں نے کسی شے کو نہیں دیکھا۔ مگر اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کو دیکھا۔ عارف، بقا کے مقام میں ہے۔ اور فانی فنا کے مقام میں مجذوب ہے۔ فانی سایر (سیر کرنے والا) ہے۔ عارف متمکن ، واصل (اللہ تعالیٰ تک پہنچا ہوا) ہوتا ہے۔ اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہے۔ وہ اس کے اوپر اپنے فوائد اور اپنے نفس کی خواہش سے کسی شے کو ترجیح نہیں دیتا۔ اگر چہ اس میں اس کی موت واقع ہو جائے ۔
جیسا کہ ایک شاعر نے فرمایا ہے:۔
قَالَتْ وَ قَدْ سَالَتْ عَنْ حَالٍ عَاشِقِهَا بِاللَّهِ صِفَهُ وَلَا تَنْقُصُ وَلَا تَزِدِ
اس نے کہا اور اپنے عاشق کا حال پوچھا۔ تم اس کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ موصوف کرو اورنہ کم کرونہ زیادہ
فَقُلْتُ لَوْ كَانَ رَهْنَ الْمَوْتِ مِنْ ظَمَاٍ وَقُلْت قِفْ عَنْ وُرُودِ الْمَاءِ لَمْ يَرِد
پس میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں کہ اگر وہ پیاس سے موت کے ہاتھ میں گرو ی ہو جائے ۔ لیکن اگر تم کہو ۔ پانی کے پاس نہ جاؤ ۔ تو وہ نہ جائے ۔
اور محبت کی تشریح بہت لمبی ہے۔ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کی تعریف اپنی کتاب لطائف المنن میں بہترین جملوں کے ساتھ فرمائی ہے۔ اور مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کا کلام نزول کے مقام میں ہے۔ لہذا معرفت : تمام مقامات سے اعلی درجے کا مقام ہے اور اس کے پہلے فنا کا مقام ہے اور فنا کو محبت بھی کہا جاتا ہے۔ یعنی معرفت کی ابتدا۔
تو اپنے جس بندے کو اللہ تعالیٰ اپنی بارگاہ کے لئے منتخب کرنا اور اپنی معرفت اس کو عطا کرنا چاہتا ہے۔ تو پہلے اس کے قلب میں اپنی محبت پیدا کرتا ہے۔ پھر بندہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہتا ہے۔ اور اپنے جسم کے اعضا کو اس کی خدمت میں تکلیف دیتا ہے اور اس کی معرفت کا پیاسا ہوتا ہے۔ پھر وہ برابر نوافل عبادتوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے تو اس کو اس کے نفس سے فنا کر دیتا ہے۔ اور اس کو اس کی حس سے غائب کر دیتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اس کا کان اور اس کی آنکھ اور اس کا ہاتھ اور اس کا سب ( جسم وروح ) ہو جاتا ہے۔ پھر اس کو اس کی طرف لوٹا تا ہے۔ اور اس کو اپنے ساتھ باقی رکھتا ہے۔ پھر وہ ہرشے میں اللہ تعالیٰ کو پہچانتا ہے ۔ اور اس کو ہرشے کے ساتھ قائم اور ہرشے میں ظاہر دیکھتا ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے جو علامات بیان فرمائی ہیں۔ وہ انہیں مقامات کے ثابت ہونے کی دلیل ہیں۔ لہذا جو شخص اپنے اندر یہ علامات پائے ۔ اس کا دعوی ان مقامات کے لئے یا اس کے بعض کے لئے درست ہے اور جو شخص یہ علامات اپنے اندر نہ پائے اس کا ان مقامات کے حاصل ہونے کا دعوی کرنا جھوٹ ہے اور اس کی رسوائی کا سبب ہے۔ اس کو اپنا مقام پہچاننا اور اپنی حد سے آگے نہ بڑھنا چاہیئےو باللہ التوفیق


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں