(سالک کا ایک مقام سے نکل کرتنہا ہو جانے نفس و شیطان سے خلاصی پانے اور مقام حضور مدنظر رکھنے کو تجرید کہتے ہیں)
طہارت معرفت کی دو قسمیں ہیں۔ معرفۃ الصفات کی طہارت اور معرفۃالذات کی طہارت۔
معرفت صفات کی طہارت :۔
یہ طہارت صرف تلقین مرشد اور اسماء کے(دائمی ذکر) ذریعے دل کے آئینے کو نفوس بشری اور حیوانی سے پاک کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ پس جب دل صاف ہو جاتا ہے اور اللہ تعالی کے نور سے دل کی آنکھ بینا ہو جاتی ہے تو انسان دل کے آئینے میں جمال خداوندی کے عکس کو صفات کے نور سے دیکھنے لگتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺکا ارشاد گرامی ہے۔
المُؤْمؤنُ يَنْظُرُ بِنُورِ اللهِ مومن اللہ تعالی کے نور سے دیکھتا ہے ۔
المُؤْمِنُ مِرْآةُ المُؤمِن مؤمن مؤمن کا آئینہ ہے۔
کسی شخص کا قول ہےاَلْعَالِمُ يُنَقِّشُ وَالْعَارِفُ يُصَقِّلُ ”عالم نقش بڑھاتا ہے اور عارف صیقل کر تا ہے“
جب اسماء کے مسلسل ورد سے(قلب کے آئینے کا) تصفیہ مکمل ہو جاتا ہے تو صفات کی معرفت مکمل ہو جاتی ہے کیونکہ ان صفات کا انسان دل کے آئینے میں مشاہدہ کر تا ہے۔
معرفت ذات کی طہارت :۔
یہ طہارت فی السرّ ہے۔ اسے حاصل کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ انسان باره اسماء و توحید( اللہ تعالی کے اصلی نام سات ہیں۔ ان سات سے پھر چھ اور نام نکلتے ہیں۔ ان تمام اصلی اور فرعی اسماء کے مجموعے کو اسماء توحیدی کہتے ہیں۔ اصلی نام یہ ہیں۔ (لا الہ، الا الله ،هو،حی ، واحد، عزیز، ودود) فر عی چھ نام ۔ ( حق ،قھار، قیوم ، وھاب، مهیمن، باسط) میں سے آخری تین اسماء توحید کو نور توحید سے باطن کی آنکھ سے مسلسل ملاحظہ کرے پس جب انوار ذات کی تجلی(غیبی انوار جو دلوں پر منکشف ہوتے ہیں) ہو گی توبشریت پگھل جائے گی اور مکمل فناء(بشریت کی صفات ذمیمہ کو الله تعالی کی صفات سے بدل دینا) ہو جائے گی۔ یہ مقام( اس سے مراد بندے کا دہ مرتبہ ہے جو وہ توبہ ، زهد ، عبادات ، ریاضات اور مجاہدات کے ذریے بارگاہ خداوندی میں حاصل کرتا ہے۔ جب تک وہ ایک مقام کے احکام پر پورا نہیں اتر تا دوسرے مقام کی طرف ترقی نہیں کر سکتا) استہلاک اور فناء الفناء ہے۔ یہ تجلی تمام انوار کو مٹادیتی ہے جیسا کہ اللہ کریم کا ارشاد ہے۔
كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إلّا وَجْهَهُ(القصص : 88)ہر چیزہلاک ہونے والی ہے سوائے اس کی ذات کے“
جب سب کچھ فناء ہو جاتا ہے تو نور قدس کے ساتھ صرف روح قدسی(عالم لاہوت میں نور کا لباس ) باقی رہ جاتی ہے اور ہمیشہ دیدار میں مشغول رہتی ہے۔ یہ روح اسی کے ساتھ اس سے اس کی طرف دیکھنے والی ہوتی ہے۔ پس وہ بلاکیف و تشبیہ اس روح کی رہنمائی کرتا ہے۔ کیونکہ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ(الشورى : 11)نہیں ہے اس کی مانند کوئی چیز ۔
پس محض نور مطلق باقی رہ جاتا ہے۔ اس سے آگے(کے معاملہ) کی کوئی خبر نہیں دے سکتا۔ کیونکہ وہ عالم محو ہے۔ وہاں عقل نہیں رہ سکتی کہ کچھ خبر دے اور نہ وہاں غیر اللہ کی رسائی ہو سکتی ہے جیسار سول اللہ ﷺکا ارشاد پاک ہے۔
لِي مَعَ اللهِ وَقْتٌ لاَ يَسَعُ فيهِ مَلَكٌ مُقَرَّبٌ وَلاَ نَبِيٌّ مُرْسَلٌ اللہ تعالی کی معیت میں میرے لیے ایک ایسا وقت بھی مخصوص کیا گیا ہے جس میں نہ کسی مقرب فرشتے کی گنجائش ہے اور نہ ہی نبی مرسل کی“
یہ عالم تجرید (اس خیال سے کہ اللہ تعالی کا حق ادا کرنا واجب ہے انسان کا اپنے دل کو
اغراض دین اور حال و مستقبل کی مصلحتوں سے پاک کر لینا تجرید ہے)ہے۔ وہاں کوئی غیر نہیں ہو تا۔ جیسا کہ حدیث قدسی تَجَرَّدْ تَصِلْ ( صفات بشری سے تجرد حاصل کر (مقصود تک) پہنچ جائے گا، تجرد سے مراد صفات بشری سے مکمل فناء ہونا ہے۔ پس وہ عالم تجرید میں خدائی صفات سے متصف ہو گا جیسا کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا۔
تَخَلَّقُوا بِأَخْلاَقِ اللهِ خدائی اخلاق کو اپنالو“ یعنی صفات خداوندی سے متصف ہو جاؤ۔
سرالاسرار ،شیخ عبد القادر جیلانی صفحہ93 سلطان الفقر پبلیکیشنز لاہور