اس بیان میں کہ عالم خلق اور عالم امر کے لطیفوں میں سے ہر ایک لطیفہ ظاہر(صورت)بھی رکھتا ہے اور باطن بھی اور یہ باطن عارف کے اسم قیوم سے ملا ہوا ہے اور اس بیان میں کہ عارف نزول کے وقت کلی طور پر ظاہر و باطن کے ساتھ دعوت و عبادت کی طرف متوجہ ہے۔ خواجہ ہاشم بدخشی کشمی کی طرف صادر فرمایا ہے:۔
عارف تام المعرفت کے عالم خلق و عالم امر دونوں اگر چہ اس اسم قیوم کی نسبت جو اس عارف کا وجہ خاص ہے اور درحقیقت عارف کا باطن اورحقیقت یہی ہے۔ ظاہر و صورت میں داخل ہیں۔ جیسے کہ اس کی تحقیق کسی مکتوب میں تحریر ہو چکی ہے لیکن جب اس ظا ہر صورت کو تیز نظر سے جو اللہ تعالیٰ نےمحض فضل سے بخشی ہے ملاحظہ کرتا ہوں۔ تو یہاں بھی ظاہر و باطن اور صورت و حقیقت پیدا ہو جاتے ہیں۔ نہ یہ کہ عالم خلق کو ظاہر پاتا ہوں اور عالم امر کو باطن جیسے کہ بعض لوگوں کا گمان ہے۔ بلکہ عالم خالق اور عالم امر کے لطائف میں ہر ایک لطیفہ کی صورت بھی ہے اور حقیقت بھی لیکن جس طرح عنصر خاک ظاہر رکھتا ہے اور باطن بھی۔ اسی طرح اخفٰی صورت بھی رکھتا ہے اور حقیقت بھی اور یہ باطن جو عالم خلق اور عالم امر سے تعلق رکھتا ہے۔
دن بدن اعمال صالحہ کے ذریعے بلکہ محض حق تعالیٰ کی بخشش سے تھوڑا تھوڑا اس باطن سے جو اسم قیوم پر وابستہ ہے ملتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس باطن کا کچھ اثر باقی نہیں رہتا اور سوائے ظاہر کے سب کچھ پوشیدہ ہو جاتا ہے۔ اس اسم قیوم کیساتھ اس باطن کے ملنے سے یہ مراد نہیں کہ یہ باطن اس اسم میں حلول کر جاتا ہے۔ یا اس اسم قیوم کے ساتھ اس باطن کےملنے سے یہ مرادنہیں کہ یہ باطن اس اسم میں حلول کر جاتا ہے۔ یا اس اسم کے ساتھ اتحاد پیدا کر لیتا ہے۔ کیونکہ یہ الحاد ہے۔ فسبحان من لا يتغير بذاته ولا بصفاته ولا باسمائه بحدوث ألأكوان (پاک ہے وہ ذات پاک جو موجودات کی حدوث سے اس کی ذات و اسماء و صفات میں تغیر نہیں آتا بلکہ اس باطن کو اس اسم کے ساتھ ایک مجہول الكفيت نسبت پیدا ہو جاتی ہے۔ جس سےحلول واتحادکا وہم گزرتا ہے۔ درحقیقت وہاں نہ اتحاد ہےنہ حلول کیونکہ اس سے حقیقت امکان کا حقیقت وجوب کے ساتھ بدلنا لازم آتا ہے۔ جومحال عقلی ہے اور شریعت میں زندقہ ہے اور وہ ظاہرمحض جو باقی رہ جاتا ہے۔ اگر چہ عالم شہادت سے ہے اور مشہود(مشاہدہ) مرئی (جس کو دیکھیں )ہے۔ لیکن باطن کے رنگ میں رنگا ہوا ہے۔ اگرچہ باطن شہود(مشاہدہ) و ادراک کے احاطہ سے باہر نکل چکا ہے اور غیب سے ملحق ہو کر بیچونی کا رنگ حاصل کر چکا ہے، کیونکہ چون(مثل) جب تک بیچون(بیچون) کا رنگ نہ پڑے اور چون کے احاطہ ادراک سے باہر نہ جائے اور شہادت سے غیب کی طرف اسباب نہ لے جائے۔ بیچون حقیقی سے کچھ حصہ حاصل نہیں کرتا اورغیب الغیب سے مطلع نہیں ہوتا۔
جاننا چاہیئے کہ اس ظاہر باقی ماندہ کی توجہ بالکل خلق کی طرف ہے اور طاعات و عبادات شرعیہ اسی کے متعلق ہیں اور دعوت و تکمیل کا معاملہ بھی ان پر وابستہ ہے اور اس عارف صاحب تکمیل کا باطن بھی خواه مراتب امکانی کیساتھ تعلق رکھے۔ خواہ مقامات وجوب کے ساتھ ظاہر کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور جس چیز کی طرف ظاہر توجہ رکھتا ہے۔ باطن بھی اسی کی طرف توجہ رکھتا ہے تا کہ عبادت کی تکمیل وتربیت کامل طور پر ہو۔ کیونکہ یہ داردارعمل ہے اور یہ مقام مقام دعوت شہود و مشاہدہ کی حقیقت آخرت میں ہے اور کشف و معائنہ کا معاملہ ابھی عاقبت میں ہے۔ اس مقام میں معبود کی عبادت معبود میں مستغرق ہونے سے بہتر ہے اور اس جگہ مطلوب کا انتظار کرنا جس کا باعث محبت ہو۔ مطلوب میں فانی ہونے سے اچھا ہے ارباب سکر(مستی) اس بات کا یقین کریں یانہ کریں۔ عارف صاحب تکمیل کی یہ ظاہری و باطنی توجہ جو اس کوخلق کی طرف پیداہوئی ہوئی ہے۔ موت کے وقت تک ہے جو مقام دعوت کا منتہا ہے جب موت آ جائے گی۔ موت کے پل پر سے گزر کر محبوب کے کوچے میں قدم رکھ لے گا اور کسی مزاحمت کے بغیروصل و اتصال کی دولت سے مشرف ہو جائے گا۔
ھَنِیئًا لأربَابِ النَعِیمِ ِنَعِيمُهَا وَلِلعَاشِقِ ِالمِسكِين ِمَا يَتَجَرَّعُ
ارباب نعمت کو یہ نعمت مبارک اور عاشقوں کو یہ رنج و حسرت مبارک
رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ یا اللہ ہمارے نور کو کامل کر اور ہم کو بخش۔ تو سب شے پر قادر ہے والصلوة والسلام والتحية والبركة على خير خلق الله و علی اخوانہ الكرام و أصحابه العظام إلى يوم القيام.
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ299ناشر ادارہ مجددیہ کراچی