اسی استفسار کے جواب میں کہ اگر عبادت کروں تو نفس کو استغنا حاصل ہو جاتا ہے اور اگر کوئی لغزش اور خلاف شرع کار مجھ سے صادر ہوتو شکستگی اور ندامت پیدا ہوتی ہے۔ گردونواح کے مشائخ کی طرف لکھا ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (اللہ تعالیٰ کے لیے حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو۔
آپ نے پوچھا تھا کہ اگر میں اپنے آپ کو ریاضت و عبادت میں مشغول کرتا ہوں تو نفس میں استغنا پیدا ہوتی ہے اور جانتا ہے کہ میرے جیسا کوئی نیک نہیں اور اگر کوئی خلاف شرع امر صادر ہوتا ہے تو اپنے آپ کو عاجز محتاج خیال کرتا ہے، اس کا علاج کیا ہے۔
اے توفیق کے نشان والے شق ثانی میں احتیاج و فروتنی کا پیدا ہوتا جو ندامت کی خبر دیتا ہے۔ نعمت عظیم ہے اور اگر خلاف شرع کر چکنے کے بعد ندامت بھی جو توبہ کی شاخ ہے، پیدانہ ہو اور گناہ کرلینے سے متلذذ ومحظوظ ہوتو اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ کیونکہ گناہ کی لذت حاصل کرنا گناہ پر اصرار کرنا ہے اور گناہ صغیرہ پر اصرار کرتا کبیرہ تک پہنچا دیتا ہے اور کبیرہ پر اصرار کرنا کفر کی دہلیز ہے۔ اس نعمت کا شکر ادا کرنا چاہئیے تاکہ زیادہ زیادہ ندامت پیدا ہو اور خلاف شریعت کرنے سے ہٹا دے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ اگرتم شکر کرو گے تو زیادہ دوں گا۔
شق اول کا حاصل اعمال صالحہ کے بجالانے سے عجب و تکبر کا حاصل ہونا ہے۔ یہ ایسا زہر قاتل اور مرض مہلک ہے جوعمل صالحہ کو نیست و نابود کر دیتا ہے۔ جیسے کہ آگ ایندھن کو جلا کر راکھ بنا دیتی ہے، عجب و تکبر کا باعث یہ ہے کہ اعمال صالحہ عامل کی نظر میں زیبا و پسندیده دکھائی دیتے ہیں ۔ فالمعالجة بالاضداد (علاج ضد کے ساتھ ہوتا ہے یعنی اپنی نیکیوں کو . مہتم یعنی تہمت زدہ معلوم کرے اور نیکیوں کی پوشیده قباحتوں کو نظر میں لائے تا کہ اپنے آپ کو اور اپنے اعمال کو قاصر و کوتاہ جانے بلکہ لعنت اور رد ہونے کے لائق خیال کرے ۔ رسول خداﷺنے فرمایا۔ ۔ رُبَّ تَالٍ لِلْقُرْآنِ وَالْقُرْآَنُ يَلْعَنُهُبعض لوگ قرآن اس طرح پڑھتے ہیں کہ قرآن ان پر لعنت کرتا ہے۔ حدیث مشہور ہے كَمْ مِنْ صَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ صِيَامِهِ إِلَاّ الظَّمَأُ بعض روزہ دار ایسے ہیں کہ سوائے بھوک اور پیاس کے اور کچھ ان کے نصیب نہیں ہوتا ۔
یہ خیال نہ کریں کہ آپ کی نیکیوں میں کوئی برائی نہیں۔ اگر آپ تھوڑی سی توجہ سے بھی کام لیں گے تو آپ کو اللہ تعالیٰ کی عنایت سے معلوم ہو جائے گا کہ آپ کی تمام نیکیاں برائیاں ہی برائیاں ہیں اور ان میں کسی قسم کی حسن وخوبی نہیں ۔ پھر عجب و استغنا کہاں بلکہ اپنے اعمال کو قاصر د یکھنا اس قدر غالب آئے گا کہ آپ نیکیوں کو بجا لانے سے شرمندہ اور نادم ہوں گے نہ کہ متکبر ومغرور۔ جب اعمال میں دید قصور پیدا ہو جائے اعمال کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور قبولیت کے لائق ہو جاتے ہیں، کوشش کریں کہ یہ دید پیدا ہو جائے تا کہ عجب و تکبر دور ہو جائے۔ وَبِدُونِهَا خَرْطُ الْقَتَادِ إلا أن يشاء ربى شيئا ( اور اس کے سوا بے فائد ه رنج و تکلیف ہے ہاں اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو مشکل نہیں)بعض لوگ جن کو یہ دیدقصور کامل طور پر حاصل ہو جاتی ہے، ایسا خیال کرتے ہیں کہ دائیں ہاتھ یعنی نیکیوں کا لکھنے والا معطل اور بیکار ہے اور کوئی نیکی نہیں جواس کے لکھنے کے لائق ہو اور بائیں ہاتھ یعنی برائیوں کا لکھنے والا ہمیشہ اپنے کام میں ہے کیونکہ جو کچھ اس سے سرزد ہوتا ہے اس کی نظر میں برا ئی دکھائی دیتا ہے۔ جب عارف کا معاملہ یہاں تک پہنچ جا تا ہے تو اس کے ساتھ ہوتا ہے جو ہوتا ہے۔
قلم ایں جا رسید و سر بشکست ترجمہ: یہاں آ کر قلم کا کٹ گیا سر
وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت اختیارکی۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ189ناشر ادارہ مجددیہ کراچی