یہ اکیسویں دعا ہے کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ کی جوتالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
اکیسویں مناجات
إلٰهِي هَذَا ذُلِّى ظَاهِرٌ بَيْنَ يَدَيْكَ، وَهَذَا حَالِي لَا يَخْفَى عَلَيْكَ مِنْكَ أَطْلُبُ الْوُصُوْلَ إِلَيْكَ، وَبِكَ اَسْتَدِلُّ عَلَيْكَ لَا بِغَيْرِكَ ، فَاهْدِنِي بِنُورِكَ إِلَيْكَ، وَأَقِمُنِي بِصِدْقِ الْعُبُودِيَّةِ بَيْنَ يَدَيْكَ
اے میرے اللہ ! میری یہ ذلت تیرے سامنے ظاہر ہے۔ اور میری یہ خستہ حالی تجھ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ تیری طرف پہنچنے کی طلب میں تجھی سے کرتا ہوں۔ اور میں تجھی سے تیرے اوپر استدلال کرتا ہوں۔ تیرے غیر سے تیری ذات پر استدلال نہیں کرتا ہوں۔ لہذا تو اپنے نور کے ذریعے اپنی طرف مجھ کو ہدایت عطا فرما۔ اور اپنے سامنے عبودیت کی سچائی کے ساتھ مجھ کو قائم رکھ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ یہ حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ کی طرف سے انتہائی عاجزی وانکساری اور سخت محتاجی اور مجبوری کا اعتراف ہے۔ اور اپنی عاجز کی ظاہر کرنے اور اپنی شکایت پیش کرنے کے لئے اپنے مولائے حقیقی کے چوکھٹ پرپڑار بنا ہے۔ پھر اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اللہ رب العزت نے ان کو عزت اور بزرگی کا لباس پہنایا۔ اور اپنی مخلوق کے درمیان ان کو ظاہر اور مشہور کر کے ان کی قیمت بڑھا دی۔ یہاں تک کہ ان کا کلام ایسا ہو گیا کہ قلوب اور کان اس سے آراستہ ہوتے ہیں ۔ اور اس کے ذریعے بڑے اثرات اور فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اور یہ اللہ عزیز و حکیم وغنی و کریم کے سامنے ان کی ذلت و عاجزی کا نتیجہ ہے جیسا کہ ایک عارف نے فرمایا ہے
تذَلَّلْ لِمَنْ تَهْوَى لِتَكُسِبَ عِزَّةٌ فَكُمْ عِزَّةٍ قَدْ نَالَهَا الْمَرْءُ بِالذُّلِّ
تم اپنے محبوب کے سامنے ذلت اور عاجزی اختیار کرو۔ تا کہ تم عزت حاصل کرو ۔ کیونکہ بہت سی عزت ایسی ہے جس کو انسان نے ذلت اور عاجزی سے حاصل کیا۔
اور ایک دوسرے عارف نے فرمایا ہے:
تذَلَّلْ لِمَنْ تَهْوَى فَلَيْسَ الْهَوَى سَهْلٌ إِذَا رَضِيَ الْمَحْبُوبُ صَحَّ لَكَ الْوَصْلُ
تم اس کے سامنے ذلت اور عاجزی اختیار کرو جس سے تم محبت کرتے ہو۔ کیونکہ محبت آسان نہیں ہے جب محبوب راضی ہو جائے گا تو تمہارے لئے وصل درست ہو جائے گا۔
تَذَلَّلْ لَهُ تَحْظٰى بِرُؤیَا جَمَالِه ٖ فَفِي وَجْهِ مَنْ تَهْوَى الفَرَائِضُ وَالنَّفْلُ
تم اس کے سامنے ذلت اور عاجزی اختیار کرو۔ تو تم اس کے جمال کے دیدار کا لطف حاصل کروگے ۔ کیونکہ جس سے تم محبت کرتے ہو، اسی کے سامنے فرائض اور نوافل ہیں ۔
حضرت ذوالنون مصری رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ نے اس بندے کو اس عزت سے جو اس کے نزدیک زیادہ عزیز ہے کتنی عزت عطا فرمائی۔ جس کو اس کے نفس کی ذلت پر ذلیل کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس بندے کو اس ذلت سے جو اس کے نزدیک زیادہ ذلیل ہے، کتنا ذلیل کیا۔ جس کو اس کے نفس کی ذلت سے روک دیتا ہے۔اور وہ حال جو اسکے مولائے حقیقی سے پوشیدہ نہیں ہے وہ کمزوری اور مجبوری اور ذلت اور عاجزی کا حال ہے۔ اور یہ حال معرفت اور وصال کے ثابت ہونے ہی سے ظاہر ہوتا ہے۔
اس وجہ سے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کو اپنے اس قول سے ملا دیا ہے: تیری طرف پہنچنا میں تجھی سے طلب کرتا ہوں ، ، تیرے غیر سے نہیں کرتا ہوں نہ تیرےغیر کے ذریعے کرتا ہوں ۔ نہ تیرے غیر کی طرف کرتا ہوں ۔ بلکہ ہماری روحوں کو اپنے ہاتھ سے قبض کر کے اپنی بارگاہ میں پہنچانے کا متولی تو ہے۔ اور ہمارے اور اپنے غیر کے درمیان تو ہی حائل ہے۔ اور مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کے اس قول کا یہی مفہوم ہے اور میں تجھی سے تیری ذات پر استدلال کرتا ہوں۔ تیرے غیر سے تیری ذات پر استدلال نہیں کرتا ہوں، کیونکہ در حقیقت تیرے ساتھ تیرے غیر کا وجود نہیں ہے۔ اور اس سے پہلے ایک عارف کا یہ قول گزر چکا ہے۔ ان سے دریافت کیا گیا۔ آپ نے اپنے رب کو کس کے ذریعے پہچانا ؟ انہوں نے جواب دیا۔ میں نے اپنے رب کو اپنے رب کے ذریعے پہنچانا۔ اور اگر میرا رب نہ ہوتا تو میں اپنے رب کو نہ پہچانتا
حضرت احمد ابن ابو الحواری رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ پر اس کے سوا کوئی شے دلیل نہیں ہے۔ اور علم صرف خدمت کی ادب کے لئے حاصل کیا جاتا ہے۔ اور جس طرح اس کے اوپر اس کے سوا کوئی شے دلیل نہیں ہے۔ اسی طرح اس کی طرف اس کے سوا کوئی کی ہدایت کرنے والی نہیں ہے۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا: لہذا تو اپنے نور کے ذریعے اپنی طرف مجھ کو ہدایت عطا فرما۔
یعنی میری سیر کی حالت میں اپنی توجہ کے نور کے ذریعے اپنی طرف میری رہنمائی فرما۔ اوراپنے پاس پہنچنے کے بعد اپنی مواجہت کے نور کے ذریعے اپنی طرف میری رہنمائی فرما۔ اور اپنے سامنے معبودیت کی سچائی کے ساتھ مجھ کو قائم رکھے۔ تا کہ ہم تیری طرف اصول پر ثابت قدمی سے قائم رہیں۔ پھر ہم عبودیت کے وظیفے کی طرف ربوبیت کے انوار کے عین شہود میں رجوع کریں۔ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظيم) اور اللہ تعالیٰ بڑے فعل کا مالک ہے ۔
اس وقت علم لدنی اور اسرار ربانی کا فیضان ہوتا ہے۔