اس بیان میں کہ ماسواکانسیان اس طریق کا پہلا قدم ہے۔ کوشش کریں تا کہ اس میں کوتاہی نہ ہو۔ خواجہ محمد گدا کی طرف صادر فرمایا ہے۔
نحمدہ و نصلى على نبيه ونسلم عليه وعلى اله الكرام الله تعالیٰ کے لیے حمد ہے اور اس کے نبی اور ان کی آل بزرگ و صلوۃ وسلام ہو۔
سب سے بہترنصیحت جواخی خواجہ محمد گدا کو کی جاتی ہے، یہ ہے کہ عقائد کلامیہ کے درست کرنے اور فقہیہ احکام کے بجا لانے کے بعد ہمیشہ ذکر الہی جل شانہ میں مشغول رہیں جس طرح کہ آپ نے سیکھا ہے۔ یہ ذکر اس قدر غالب آجائے کہ باطن میں مذکور کے سوا کچھ نہ چھوڑے اور مذکور کے سوا تمام چیزوں کا علمی اورحبی تعلق دور ہو جائے۔ اس وقت دل کو ماسوی کانسیان حاصل ہو جاتا ہے اور غیر کی دید و دانش سے فارغ ہو جاتا ہے۔ اگر تکلف و بناوٹ
سے بھی اس کو اشیاء یاد دلائیں تو اس کویاد نہیں آتیں اور ان کو پہچان نہیں سکتا۔ ہمیشہ مطلوب میں فانی اور مستغرق رہتا ہے۔ جب معاملہ یہاں تک پہنچ جاتا ہے۔ اس راستہ میں ایک قدم طے ہوتا ہے۔ کوشش کریں کہ اس ایک قدم میں بھی کوتاہی واقع نہ ہو اور غیر کی دید و دانش ہی میں گرفتار نہ رہیں۔ شعر
گوئے توفیق و سعادت در میان افگنده اند کس بمیدان درنمے آید سواراں راچہ شد ترجمہ: گوۓ توفیق و سعادت درمیاں میں ہے پڑا کوئی میدان میں نہیں آتا کہاں ہیں اب سوار
آپ کے تعلقات بظاہر نظر آتے ہیں مگر آپ شوق سے تعلق والوں کے ساتھ تعلق پا لیتے ہیں۔الراضی بالضرر لا يستحق النظر (ضررکا راضی نظر کا مستحق نہیں) مسئلہ مقررہ ہے۔ والسلام۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ179ناشر ادارہ مجددیہ کراچی