علامات عقل (پہلا مراسلہ)

علامات عقل کے عنوان سے پہلے مراسلے کا چوتھا حصہ ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ اس لیے کہ عقل کی علامات وہ ہیں جو حدیث شریف میں بیان کی گئی ہیں۔
حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے۔
التَّجَافِي ‌عَنْ ‌دَارِ ‌الْغُرُورِ، وَالإِنَابَةَ إِلَى دَارِ الْخُلُودِ، وَالتَّزَوُّدَ لِسُكْنَى الْقُبُورِ، وَالتَّأَهُّبَ لِيَوْمِ ‌النُّشُورِ
دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنا اور آخرت کی طرف متوجہ ہونا اور قبر میں رہنے کیلئے تو شہ کا انتظام کرنا اور قیامت کے دن کیلئے تیاری کرنا
لہذا عقلمندوہ شخص ہے جوحق اور باطل اور مفید اور مضر،اچھے اور برے میں تمیز کرتا ہے اور ہر فنا ہونے والی شے اگر چہ وہ زمانہ دراز تک قائم رہے ، بری ہے اور ہر باقی رہنے والی شے اگر چہ وہ نظروں سے غائب ہو ، اچھی ہے۔
بعض عارفین نے فرمایا ہے ۔ ایسے شخص پر بہت تعجب ہے جو دنیا سے مطمئن اور اس کی طرف سے مائل اور اس پر حریص ہے حالانکہ وہ دیکھ رہا ہے کہ دنیا جلد ختم ہو جاتی ہے اور وہ اہل دنیا سے اکثر بدل جاتی ہے اور اس کے حادثات اچانک آجاتے ہیں ۔ اس کو ایک عارف نے اشعار میں بیان فرمایا ہے۔
اَيْنَ الٌمَلُوْكُ وَاَبْنَاءُ الْمُلُوْكِ وَمَنْ كَانُوا إِذَا النَّاسُ قَامُوا هَيِّبةٌ جَلَسُوا
بادشاہ اور شہزادے اور وہ لوگ کہاں ہیں کہ جب وہ بیٹھتے تھے تو لوگ ان کی ہیبت اور خوف سے کھڑے رہتے تھے ۔
كَاَنَّهُمْ قَطُّ مَا كَانُوا وَلَا خُلِقُوا وَمَاتَ ذِكْرُهُمْ بَيْنَ الْوَرٰى وَنُسُوا
وہ اس طرح فنا ہو گئے گویا کہ وہ کبھی نہیں تھے اور پیدا ہی نہیں کیے گئے تھے اور مخلوق کے در میان ان کی یاد ختم ہوگئی اور وہ بھلا دیے گئے۔
حَطُّوا الْمَلَابِسَ لَمَّا اُلْبِسُوْا حُلَلًا مِنَ التُّرَابِ عَلَى أَجْسَادِهِمْ وَكُسُوا
انہوں نے اپنا بہترین لباس اتار دیا جبکہ ان کومٹی کا لباس پہنا کر مٹی میں چھپا دیا گیا۔
حکایت بہلول دانا
حضرت مالک بن دینار رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے : ۔ میں ایک روز قبرستان میں گیا۔ تو میں نے قبروں کے درمیان بہلول دیوانہ کو بیٹھا ہوا پایا۔ وہ بر ہنہ تھے صرف شرم گاہ ڈھانپے ہوئے تھے۔ میں ان کے پاس گیا تا کہ ان کی عجیب و غریب باتوں سے فائدہ حاصل کروں ۔ میں نے ان کو اس حال میں پایا کہ وہ کبھی آسمان کی طرف دیکھتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں اور کبھی زمین کی طرف دیکھتے اور نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ اورکبھی اپنی داہنی طرف دیکھتے اور ہنستے ہیں اور کبھی بائیں طرف دیکھتے اور روتے ہیں۔ میں نے ان کو سلام کیا انہوں نے میرے سلام کا جواب دیا ۔ میں نے جو حالت ان کی دیکھی تھی۔ اس کے متعلق ان سے دریافت کیا:۔ انہوں نے جواب دیا۔ اے مالک ! جب میں اپنا سرآسمان کی طرف اٹھاتا ہوں تو اللہ تعالیٰ کا یہ قول یاد کرتا ہوں ۔
وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَاتُو عَدُونَ اور تم لوگوں کی روزی اور جو کچھ تم سے وعدہ کیا گیا ہے، آسمان میں ہے ۔
لہذا میں خوش ہوتا ہوں۔ اور جب میں زمین کی طرف دیکھتا ہوں تو اللہ تعالیٰ کے اس قول کو یادکرتا ہوں
مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَانُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى ہم نے تم لوگوں کو زمین سے پیدا کیا ۔ اور ہم تم کو اسی میں لوٹا تے ہیں اور ہم تم کو دوبارہ اسی میں سے نکالیں گے ۔
پس اس سے میں نصیحت حاصل کرتا ہوں۔ اور جب میں اپنی دا ہنی طرف دیکھتا ہوں تو اللہ تعالیٰ کے اس قول کو یاد کرتا ہوں :-
وأَصْحَابُ الْيَمِينِ مَا أَصْحَابُ الْيَمِينِ اور دائیں طرف والے، دائیں والے کیا ہیں ۔
لہذا میں ہنستا ہوں ۔ اور جب میں اپنی بائیں طرف دیکھتا ہوں، تو اللہ تعالیٰ کے اس قول کو یاد کرتا ہوں:۔
وأَصْحَابُ الشِّمَالِ مَا أَصْحَابُ الشِّمَالِ اور بائیں طرف والے، بائیں طرف والے کیا ہیں ۔ تو میں روتا ہوں میں نے کہا :- اے بہلول ! بیشک آپ حکیم ہیں کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں آپ کیلئے ایک سوتی قمیص خرید لاؤں؟ انہوں نے کیا: ہاں خرید لائیے۔ لہذا میں فوراً بازار گیا اور ایک قمیص لے کر ان کے پاس آیا۔ انہوں نے اس قمیص کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔ پھر اس کو میری طرف پھینک دیا۔ اور فرمایا میں ایسی قمیص نہیں چاہتا ہوں۔ میں نے ان سے دریافت کیا ، آپ کیسی قمیص چاہتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا میں ایسی قمیص چاہتا ہوں، جو اخلاص سے بنی ہو، ہر برائی اور عیب سے پاک ہو، جس روئی کے سوت سے وہ بنی ہو اس روئی کا درخت حقائق کی زمین میں لگا یا گیا ہو، اور برائیوں اور خباثتوں سے اس کی حفاظت کی گئی ہو۔ حضرت جبریل علیہ السلام نے سلسبیل کے پانی سے اس کو سینچا ہو جس سے وہ درخت بڑا ہوا ہو اور اس میں روئی کا پھل لگا ہوں۔ پھر بزرگ اور مقبول فرشتوں نے سورہ الحمد اور سورہ بقرہ پڑھتے ہوئے اس پھل کو تو ڑا ہو ۔ پھر وفا کے ہاتھوں نے عزت اور صفائی کے ساتھ جفا کی آمیزش کے بغیر اس روٹی کو دھنا ہو ۔ پھر ایسے ناخنوں میں اس کو صاف کیا ہو جو انوار سے ملی ہوں اور حمد و ثناء کے چرخوں نے محبت اور توجہ کے ساتھ اس کو کا تا ہو ۔ اس کے بننے والے کی اجرت جنت مقرر کی گئی ہو اور وہ اپنے پہنے والے کیلئے دوزخ سے پردہ ہو۔ تو اے مالک! کیا آپ ایسی قمیص لاسکتے ہیں؟ میں نے ان سے کہا: ایسی قمیص وہی اللہ تعالیٰ لاسکتا ہے، جس نے آپ کو اپنے وصف کے ساتھ مخصوص فرمایا ہے اور جس نے آپ کو اپنا معائنہ اور کشف الہام فرمایا ہے پھر میں نے ان سے کہا: اے بہلول! آپ مجھے بتا دیئے کہ ایسی قمیص کون پہنا سکتا ہے؟ میں اسکو پہننا چاہتا ہوں۔ انہوں نے فرمایا: ایسی قمیض وہی شخص پہنا سکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے انوار کے ساتھ خاص کیا ہو اور اس کا نام اپنے صالح بندوں کے رجسٹر میں لکھا ہو اور اس کو اپنی سابق عنایت سے زندہ کیا ہو اور سچی عزیمت سے اس کو طاقتور کیا ہو ۔ لہذا اس کا جسم مخلوق کے درمیان چلتا ہو اور اس کا قلب ملکوت میں چرتا ہو (یعنی ملکوت سے فیض حاصل کرتا ہو ) اور وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے سوا کوئی لفظ نہ بولتا ہو ۔ اور غیر اللہ کی طرف ایک نظر بھی نہ دیکھتا ہو پھر وہ بہت زور سے چیخے اور یہ کہتے ہوئے کھڑے ہو گئے۔ اے میرے رب بھاگنے والے تیرے ہی طرف بھاگے ہیں اور طلب کرنے والے تیرا ہی ارادہ کیے ہوئے ہیں اور تو بہ کرنے والے تیرے ہی دروازے پر بیٹھے ہوئے ہیں ۔ اے میرے اللہ ہم تیرے ہی دروازے پر ٹھہرے ہوئے ہیں ۔ لہذا تو ہم کو اپنے دروازے سے نہ ہٹا اور ہم نے اپنی نسبت تیری بارگاہ قدس سے کی ہے لہذا تم ہم کو محروم نہ کر ۔ یا ارحم الراحمین۔ آمین ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں