اس بیان میں کہ علماء ظاہر کے نصیب کیا ہے اور صوفی علیہ کے حصہ میں کیا آیا ہے اور علمام راسخین جو انبیاء کے وارث ہیں، ان کے نصیب میں کیا ہے، مرزاشمس الدین کی طرف اس کے خط کے جواب میں لکھا ہے:
حمد و صلوة اورتبلیغ ودعوات کے بعد واضح ہو کہ آپ کا مبارک خط جواز روئے کرم صادر فرمایا تھا۔ برادر عزیز شیخ محمد طاہر نے پہنچایا اور خوش وقت کیا۔ آپ نے لکھا تھا کہ ملاقات کے حاصل ہونے تک ایسے مکتوبات کے ساتھ جونصیحتوں سے پرہوں، یادفرماتے رہیں۔
میرے مخدوم مکرم النصيحةھي الدين ومتابعة سيد المرسلين عليه من الصلوات افضلها ومن التحيات أکملھا (یعنی سب سے اعلی نصیحت یہی ہے کہ حضرت سید المرسلین کا دین اورمتابعت اختیار کریں
سید المرسلین کے دین اور متابعت سے علماءظاہر کا نصیب عقائد درست کرنے بعد شرائع و احکام کا علم اور اس کے موافق عمل ہے اور صوفیا علیا کا نصیب بمعداس چیز کے جو علماءرکھتے ہیں، احوال ومواجید اور علوم و معارف ہیں اور علماء راسخین کا نصیب جو انبیاء کے وارث ہیں، بمعہ اس چیز کے جو عالم رکھتے ہیں اوربمع اس چیز کے جس کے ساتھ صوفیہ ممتاز ہیں، وہ اسرار ودقائق ہیں جن کی نسبت متشابهات قرآنی میں رمزوواشارہ ہو چکا ہے اور تاویل کے طور پر درج ہو چکے ہیں۔ یہی لوگ متابعت میں کامل اور وراثت کے مستحق ہیں۔ یہ لوگ دراثت و تبعیت کے طور پر انبیا علیہم الصلوۃ والسلام کی خاص دولت میں شریک اور بارگاہ کے محرم ہیں۔
اسی واسطے عُلَمَاءُ أُمَّتِي كَأَنْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ (میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے پیغمبروں کی طرح ہیں) کی شرافت کرامت سے مشرف ہوئے ہیں۔ پس آپ کو بھی لازم ہے کہ علم وعمل وحال و وجد کی رو سے حضرت سید المرسلین اور حبیب رب العالمین علیه وعلی جمیع الانبياء والمرسلين والملائکۃ المقربین واھل طاعتہ اجمعین کی متابعت بجالائیں تا کہ اس وراثت کے حامل ہونے کاذریعہ ہو جو نہایت اعلی درجہ کی سعادت ہے۔ والسلام۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ58 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی