علم ظاہر بارہ فنون پر مشتمل ہے۔ اسی طرح علم باطن کی بھی بارہ شاخیں ہیں۔ اس علم کو عوام، خواص اور اخص الخواص کی استعداد کا لحاظ رکھتے ہوئے تقسیم کیا گیا ہے۔
جملہ علوم چار اقسام ہیں
1۔ شریعت کا ظاہری علم مثلاً امر، نہی اور دوسرے احکام۔
2۔۔شریعت کا باطنی علم۔ اسے علم طریقت کہتے ہیں۔
3۔ علم طریقت کاباطن۔ اسے علم معرفت کہتے ہیں۔
4 باطنی علوم کاباطن اسے علم حقیقت کا نام دیا جاتا ہے۔
ان تمام علوم کا حصول ضروری ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺکا فرمان ہے۔ الشريعۃ شجرة والطريق أغصانها والمعرفة أوراقها والحقيقة ثمارها والقرآن جامع بجميعها بالدلالة والإشارة تفسيرا وتأويلا
شریعت ایک درخت ہے۔ طریقت اس کی ٹہنیاں ہیں، معرفت اس کے پتے ہیں اور حقیقت اس کا پھل ہے۔ قرآن تمام دلائل ، اشارات ،تفاسیراور تاویلات کا جامع ہے“
المجمع کے مصنف فرماتے ہیں کہ تفسیر عوام کے لیے ہے اور تاویل خواص کے لیے کیو نکہ خواص ہی رسوخ فی العلم کے حامل ہوتے ہیں۔ کیونکہ رسوخ کا معنی ہے علم میں ثبات ، استقرار اور استحکام جیسا کہ مضبوط تنے کابلند ترین درخت جس کی شاخیں آسمان تک جا پہنچی ہوں۔ رسوخ فی العلم کلمہ طیبہ کا نتیجہ ہے جو دل کی زمین کو پاک کر کے اس میں کاشت کیا جاتا ہے۔ ایک قول کے مطابق الراسخون في العلم‘ کا عطف الا الله“ پر ہے (آل عمران:7)
صاحب تفسیر کبیر (امام رازی رحمۃالله عليہ ( فرماتے ہیں کہ کہ اگر یہ(علم باطن) دروازہ کھل جائے توباطن کے سب دروازے کھل جاتے ہیں۔
انسان اللہ تعالی کے امر و نہی کا پابند ہے۔ اسے بارگاہ خداوندی سےیہ حکم مل چکا ہے کہ ان چار دائروں میں سے ہر ایک دائرہ میں نفس کی مخالفت کرے۔
نفس دائرہ شریعت میں مخالف شریعت کاموں کا وسوسہ ڈالتا ہے۔ دائرہ طریقت میں موافقات کی تلبیس(کسی شخص کا یہ گمان کرتا کہ میں نے استقامت، توحید اور اخلاص کا لباس پہن رکھا ہے لہذا میں اللہ کا ولی ہوں لیکن حقیقت میں وہ لباس شیطانی دھوکہ ہو۔ اسےتلبیس کہتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسے مدعی ولایت کے ہاتھ پر خرق عادت کا ظہور ہو جاتا ہے وہ کرامت نہیں ہوتی بلکہ اسے مخادعہ (استدراج) کہتے ہیں) کا وسوسہ ڈالتا ہے مثلا دعوی نبوت و ولایت اور دائرہ معرفت میں شرک خفی کا وسوسہ ڈالتا ہے جسے وہ اپنے تئیں نورانیات کے دائرے کی چیز سمجھ رہا ہوتا ہے مثلا وہ ربوبیت کے دعوی کے لیے وسوسہ اندازی کرتا ہے۔ جیسا کہ رب قدوس نے فرمایا
أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ (الجاثیہ :23 )ذرا اس کی طرف تو دیکھو جس نے بنا لیا ہے اپنا خدا اپنی خواہش کو“
رہا حقیقت کا دائرہ تو اس میں شیطان، نفس اور ملائکہ داخل نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ اس دائرے میں غیر خدا جل کر خاکستر ہو جاتا ہے۔ جبرائیل آمین نے بارگاہ نبوت میں عرض کی تھی۔
لو دنوت أنملة لاحترقت اگر میں انگلی کے پورے کے برابر بھی آگے بڑھا تو جل جاؤں گا“
اس مقام( اس سے مراد بندے کا دہ مرتبہ ہے جو وہ توبہ ، زهد ، عبادات ، ریاضات اور مجاہدات کے ذریے بارگاہ خداوندی میں حاصل کرتا ہے۔ جب تک وہ ایک مقام کے احکام پر پورا نہیں اتر تا دوسرے مقام کی طرف ترقی نہیں کر سکتا) پر پہنچ کر بندہ مؤمن اپنے دونوں دشمنوں، نفس اور شیطان سے چھٹکارا حاصل کر لیتا ہے۔ اور مخلص شمار ہونے لگتا ہے جیسا کہ رب قدوس کا فرمان مبارک ہے۔
قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ (ص:82-83 ) تیری عزت کی قسم! میں ضرور گمراہ کر دوں گا ان سب کو سوائے تیرے ان بندوں کے جنہیں ان میں سے تو نے چن لیا ہے اور جو بنده حقیقت کے دائرے تک نہیں پہنچ سکتاوہ مخلص نہیں کہلا سکتا۔ کیونکہ بشر ی صفات کی فناء(بشریت کی صفات ذمیمہ کو الله تعالی کی صفات سے بدل دینا) بجز تجلی(غیبی انوار جو دلوں پر منکشف ہوتے ہیں) ذات کے ممکن نہیں۔ اور جہولیت معرفت ذات سبحانہ کے بغیر مرتفع نہیں ہوسکتی۔ جب بندہ حقیقت کے دائرے میں پہنچ جاتا ہے توجہولیت مکمل ختم ہو جاتی ہے کیونکہ وہاں تو اللہ تعالی بندے کو علم لدنی سے نوازتا ہے۔ بغیر کسی واسطہ کے اپنی معرفت عطا کر تا ہے اور بندہ خضر علیہ السلام کی طرح اللہ تعالی کی تعلیم کے مطابق اس کی عبادت میں مشغول ہو جاتا ہے۔
یہی مقام مشاہدہ(دل کی آنکھ سے حق کو دیکھنا) ہے جہاں انسان ارواح قدسیہ (عالم لاہوت میں نور کا لباس ) کو دیکھتا ہے۔ اپنے محبوب نبی کریم محمد مصطفیﷺکو پہچانتا ہے۔ اس کی انتہاء ابتداء کے ساتھ منطبق ہو جاتی ہے۔ انبیاء علیہم السلام اسے ابدی وصال (اتصال بالحق کا دوسرا نام ہے وصال مخلوق سے انقطع کی قدر ہوتا ہے۔ ادنی وصال دل کی آنکھ سے مشاہدہ ہے۔ جب حجاب اٹھ جاتا ہے اورتجلی پڑتی ہے تو سالک کو اس وقت واصل کہاجاتا ہے )کی خوشخبری دیتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔
وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا (النساء: 69 )اور کیا ہی اچھے ہیں یہ ساتھی“
اور جو اس علم حقیقت(اس سے مراد علم ظاہری اور باطنی کا مجموعہ ہے۔ اس علم کا حصول ہر مرد اور عورت پر فرض ہے۔ اسی کو علم شریعت کہتے ہیں) تک نہیں پہنچاوہ حقیقت میں عالم ہی نہیں اگرچہ اس نے ہزاروں کتب پڑھی ہوں۔
جسمانیت جب ظاہری علوم پر عمل پیرا ہوتی ہے تو جزاء میں اسے صرف جنت ملتی ہے جہاں وہ تجلی صفات(بندے کا صفات خداوندی سے متصف ہونے کو قبول کر لیا بجلی صفات ہے) کاعکس پاتا ہے مگر وہ حریم قدس اور قربت(اسماء و صفات سے بندے کا علم و معرفت میں مستحکم ہو جانا اس طرح کہ کوئی چیز اسے مقصود سے دور نہ کر سکے) میں داخل نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ ظاہری علم کا کام نہیں ہے۔ حریم قدس اور قربت پرواز کا عالم ہے۔ پرندہ بغیر پروں کے اڑ نہیں سکتا۔ صرف وہی بندہ ان علوم تک پہنچ سکتا ہے جو علم ظاہر کی اور علم باطنی کے دونوں پر رکھتا ہو جیسا کہ حدیث قدسی ہے۔
یا عبدی اذا اردت ان تدخل حرمی فلا تلتفت الی الملک والملکوت والجبروت لان الملک شیطان العالم والملکوت شیطان العارف والجبروت شیطان الواقف من رضی باحدٍ منھا فھو مطرودعندی اے میرے بندے !جب تو میرے حرم میں داخل ہونے کا ارادہ کرے تو ملک ، ملکوت اور جبروت کی طرف متوجہ نہ ہو۔ کیونکہ ملک عالم کا شیطان ہے۔ ملکوت عارف کا شیطان ہے اور جبروت واقف کا جو ان میں سے کسی ایک عالم سے راضی ہو گیا تو وہ میرے نزدیک مردود ہے“
مقصد یہ ہے کہ اسے قربت حاصل نہیں ہو گی۔ ہاں وہ مطرود الدرجات نہیں ہو گا (یعنی ثواب سے محروم نہیں ہو گا) چھوٹی منزلوں پر قناعت کرنے والے قربت حاصل نہیں کر سکتے کیونکہ وہ مقصد کی پوری لگن نہیں رکھتے۔ گویاوہ ایک پر سے اڑنا چاہتے ہیں۔ (وہ ملک ، ملکوت اور جبروت کی نعمتیں بھی چاہتے ہیں) جب کہ اہل قربت کو تو وہاں تک رسائی ہوتی ہے جہاں وہ کچھ ہو تا ہے۔
مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ، وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ جونہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے۔ نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال گزرا ہے وہ جنت القربت ہے اس جنت میں نہ تو حورو قصور ہیں اور نہ شہد اور دودھ کی نہریں( انسان کو اپنی حیثیت پہچاننی چاہیئے۔ کسی ایسی چیز کا دعوی نہیں کرنا چاہیئے جس کا اسے حق نہیں پہنچتا۔
امیر المؤمنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
اللہ تعالی ایسے آدمی پر رحم فرمائے جس نے اپنی حیثیت کا اندازہ لگایا اور اپنی حیثیت سے آگے نہ بڑھا، اپنی زبان کی حفاظت کی اور اپنی عمر کو ضائع نہیں کیا
عالم کو چاہیئے کہ انسان حقیقی یعنی طفل معانی(انسان حقیقی ، عالم لاہوت میں روح کی پہلی صورت جس میں اللہ نے پیدا کیا) کا مطلب سمجھے اور اسمائے توحید( اللہ تعالی کے اصلی نام سات ہیں۔ ان سات سے پھر چھ اور نام نکلتے ہیں۔ ان تمام اصلی اور فرعی اسماء کے مجموعے کو اسماء توحیدی کہتے ہیں۔ اصلی نام یہ ہیں۔ (لا الہ، الا الله ،هو،حی ، واحد، عزیز، ودود) فر عی چھ نام ۔ ( حق ،قھار، قیوم ، وھاب، مهیمن، باسط)پر مواظبت اختیار کر کے اس کی تربیت کرے۔ اسے عالم جسمانیت سے نکل کر عالم روحانیت میں آنا چاہیئے۔ عالم روحانیت ، باطن کی دنیا ہے جہاں اللہ تعالی کے علاوہ کوئی نہیں رہتا۔ یہ دنیانور کا گویا ایک صحراء ہے جس کی کوئی انتہاء نہیں۔ اور طفل معانی اس میں محو پرواز ہے۔ اس کے عجائب و غرائب کو دیکھتا پھر رہا ہے اگر کسی کو خبر دینے کا امکان نہیں۔ یہ ان موحدین کا مقام ہے جو اپنی ذات کو عین وحدت میں فناء کر چکے ہوتے ہیں۔ ان کے باطن میں جمال خداوندی کا نور ہو تا ہے جسے وہ دیکھتے رہتے ہیں۔ گویا وہ صرف اللہ ہی کو دیکھتے ہیں۔
پس یوں سمجھیئے کہ جس طرح انسان سورج کو دیکھے تو دوسری کسی چیز کو نہیں دیکھ سکتا اسی طرح جب انسان مشاہدہ حق میں مستغرق ہو جاتا ہے تو جمال خداوندی کے مقابلے میں وہ کسی اور کو کیسے دیکھ سکتا ہے کیونکہ یہ وہ مقام ہے جہاں انسان اپنی ذات سے محو ہو جاتا ہے اور سراپا حیرت بن جاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت سیدنا عیسی ابن مریم علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا : .
انسان انسانوں کی بادشاہی میں اس وقت تک داخل نہیں ہو سکتا جب تک وہ پرندوں کی طرح دوسری مرتبہ پیدا نہیں ہوتا
یہاں دوسری پیدائش سے مراد طفل معانی کی پیدائش ہے۔ یہ پیدائش روحانی ہے اور یہ پیدائش انسان کی حقیقی قابلیت سے ہوتی ہے۔ اور وہ ہے انسان کا باطن طفل معانی کا وجود صرف اسی وقت ظاہر ہوتا ہے جب علم شریعت اور علم حقیقت یکجا ہوتے ہیں۔ کیونکہ بچہ والدین کے نطفوں کے اجتماع سے پیدا ہوتاہے جیسا کہ قرآن میں ہے۔
إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشَاجٍ (الدهر:2 )بلاشبہ ہم ہی نے انسان کو پیدا فرمایا ایک مخلوط نطفہ سے“
اس معنی کے ظہور کے بعد بنده عالم خلق سے عالم امر کی گہرائیوں تک پہنچ جاتا ہے۔ بلکہ تمام عالم عالم الروح کے سامنے ایسے ہی ہیں جیسے قطرہ سمندر کے سامنے۔ اس ظہور کے بعد علوم لدنی روحانی کا فیض با حرف و صوت پہنچتارہتاہے۔
سرالاسرار ،شیخ عبد القادر جیلانی صفحہ41 سلطان الفقر پبلیکیشنز لاہور