فوق عرشی کے ظہور کی بعض خصوصیتوں اور آیت کریمہ الله نور السموت کے تادیلی معنوں اور انسان کے بعض خاص کمالوں اور جزو ارضی کی فضیلتوں کے بیان میں حقائق و معارف آ گاہ مظہر فیض الہی مجد الدین خواجہ محمد معصوم کی طرف صادر فرمایا ہے۔
نحمده ونصلى على نبيه ونسلم عليه وعلى اله الكرام (ہم اللہ تعالی کی حمد کرتے ہیں اور اس کے نبی اور اس کی آل بزرگ پر صلوۃ و سلام بھیجتے ہیں۔
عالم کبیر باوجود وسعت اورتفصیل کے چونکہ ہیئت وحدانی(تمام لطائف اورجسم) نہیں رکھتا۔ اس لیے بسیط حقیقی (جو تمام نسبتوں اور اعتباروں سے مجرد(خالی) اور شیون و صفات کی تفصیلوں سے معراہے) کے ظہور کی قابلیت نہیں رکھتا۔ عالم کبیر کے اجزاء میں سے اشرف جزو حضرت رحمن کا عرش ہے جو حضرت ذات جامع صفات جل شانہ کے انوار کے ظہور کا مقام ہے۔ عرش مجید کے سوا باقی جو کچھ کہ عالم کبیر میں سے ہے۔ سب کے ظہورات ظلیت کی آمیزش سے خالی نہیں۔ اسی واسطے رب العالمین نے استواء کے سر کو عالم کبیر کے اجزاء میں سے عرش مجید کے ساتھ جو اس کی اجزاء میں سے افضل و اشرف ہے مخصوص کیا ہے کیونکہ ظلال میں سے کسی ظل کا ظہور در حقیقت حق تعالی کا ظہورنہیں تا کہ استواء کی عبارت میں ادا کیا جائے۔ نیز وہ ظہور جو وہاں ہے، دائمی ہے اور کوئی پردہ درمیان حائل نہیں۔ اگر چہ زمیں و آسمان کا نور الله تعالی ہی ہے لیکن وہ نور ظلال کے پردوں سے ملا ہوا ہے اور ظلیت کے واسطہ کے بغیر ان میں ظہور نہیں فرمایا۔ یہ سب ظہورات ظہور عرش کے انوار سے مقتبس ہیں جنہوں نے ظلال میں سے کسی ظل کے پردہ میں پوشیدہ ہو کر ظہور فرمایا ہے جس طرح کہ دریائے محیط سے برتنوں کے ذریعے پانی ہر جگہ لے جائیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں یا ایک بڑے مشعل سے چھوٹے چھوٹے چراغوں کو جلا کر اطراف و اکناف کوان چراغوں سے روشن کر لیں۔
آیت کریمہ: ٱللَّهُ نُورُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضِۚ مَثَلُ نُورِهِۦ كَمِشۡكَوٰةٖ فِيهَا مِصۡبَاحٌۖ ٱلۡمِصۡبَاحُ فِي زُجَاجَةٍۖ ٱلزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوۡكَب دُرِّيّ يُوقَدُ مِن شَجَرَةٖ مُّبَٰرَكَةٖ زَيۡتُونَةٖ لَّا شَرۡقِيَّةٖ وَلَا غَرۡبِيَّةٖ يَكَادُ زَيۡتُهَا يُضِيٓءُ وَلَوۡ لَمۡ تَمۡسَسۡهُ نَار نُّورٌ عَلَىٰ نُورٖ
اللہ تعالی آسمانوں اور زمیں کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چراغ دان ہو اور اس کے اندر چراغ ہو اور چراغ ایک شیشے میں ہو۔ وہ شیشہ گویا ایک چمکدار ستارہ ہے جو زیتون کے مبارک درخت سے روشن کیا گیا ہو۔ نہ شر قی ہو نہ غربی اور اس کا تیل آگ کے بغیر ہی روشنی دیتا ہو اور بہت روشن ہو) میں انہی معارف کی طرف اشارہ ہے۔
کیونکہ آیت کریمہ میں تمثیل کو اسی واسطے اختیار کیا ہے تا کہ ان میں اس نور کے ظہور کو بلاواسطہ نہ سمجھ لیں اور ظل کو اصل سے مشتبہ نہ کریں اور نورظل کونور اصل سےمقتبس اور روشن شدہ خیال کریں۔ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ (اپنے نور کی طرف جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ آیت کریمہ اللہ تعالی کی مراد پرمحمول ہے لیکن ہم اس کی تاویل کرتے ہیں جو ہم پر کشف ہوئی ہے جس کو ہم اللہ تعالی کی مدد اور حسن توفیق سے بیان کرتے اور کہتے ہیں۔ اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ اللہ تعالی حجاب نہیں ہے۔ صفات کا ذات کے لیے حجاب ہوتا ظہورات ظلیہ کے ساتھ مخصوص ہے کیونکہ ظہورات ظلیہ مرتبہ علم میں ہیں اور ظہور اصل مقام عین میں علم میں صفات ذات کاحجاب ہیں نہ عین میں۔ مثلا زید کو جب تو مرتبہ علم میں تعقل وتصور کرے تو اس کا ظہور علم میں صفات کے ساتھ ہوگا یعنی دراز قد ہے یا پست قد۔ عالم ہے یا جاہل۔ چھوٹا ہے یا بڑا۔ شاعر ہے یا کاتب۔ یہ سب صفات جن کا تو نے تصور کیا، اس کی ذات کا حجاب ہوں گے اور یہ سب تقیدات کلیہ اس کے تشخص کے لیے مفید نہ ہوں گے لیکن جب زید علم سے عین میں آجائے گا اور باوجود صفات کے مشہود ہو جائے گا اور معاملہ ظلیت سے اصالت تک پہنچ جائے گا کیونکہ زید کی عملی صورت زید موجود خارجی کے لیے جو اس کا اصل ہے ظل کی طرح ہے تو یہاں صفات اس کی ذات کا حجاب نہ ہوں گے۔ صفات کا جامع شخص محسوس ہوگا۔
اسی طرح مراتب ظلال اور تصورات مثال میں حق تعالی کے صفات اس کی ذات سے جدا دکھائی دیتے ہیں لیکن جب اصل تک وصول میسر ہو جاۓ تو صفات کوذات سے الگ نہ پائیں گے اور ذات کاشہود صفات کے شہود(مشاہدہ) سے الگ نہ ہوگا۔ تجلی صفات کو جوتجلی ذات سے جدا کرتے ہیں اور تجلی افعال کو الگ جانتے ہیں، سب مقامات ظلال میں ہے۔ اصل تک حصول کے بعد ایک ہی تجلی ہے جو تجلییات (غیبی انوار دلوں پر ظاہر ہونا) ثلثہ کو شامل ہے۔ مثلا زید کو جب دیکھتے ہیں تو اس کی ذات کا شہود(مشاہدہ) اس کی صفات کے شہود سے جدا نہیں۔ اسی وقت میں کہ جب زید کو دیکھتے ہیں۔ معلوم کرتے ہیں کہ عالم و فاضل ہے۔ علم وفضل جس طرح اس کی رویت کا حجاب نہیں۔ اسی طرح اس سے جدابھی نہیں۔ ہاں اگر زید کو تصور کریں اور ظلی صورتوں میں اس کا ادراک کریں تو اس صورت میں صفات اس کی ذات سے الگ ہوں گی اور ذات کا حجاب بن جائیں گی جیسے کہ گزر چکا۔
کیا نہیں جانتے کہ آخرت میں مرئی وہ ذات ہے جو جامع صفات ہے۔ وہ ذات جو اسماء و صفات سے معرا ہے کیونکہ وہ مجرد اعتبارہی اعتبار ہے۔ اس لیے کہ ذات ہرگز صفات سے مجرد ہیں اور صفات ذات سے ہرگز الگ نہیں ہیں۔ الگ اس اعتبار سے کہتے ہیں کہ عارف پر جب حق تعالی کی ذات کی گرفتاری غالب آجاتی ہے اس کی نظر سے اسماء وصفات کا ملاحظہ ساقط ہو جاتا ہے اور ذات احدیت کے سوا اس کے مشاہدہ میں کچھ نہیں آتا۔ پس ذات کا صفات سے الگ ہونا عارف کی نظر کے اعتبار سے ہے۔ (آسمانوں اور زمیں کا نور) نوردہ ہے جس سے چیزیں روشن ہوتی ہیں۔ آسمان اور زمیں حق تعالی کے ساتھ روشن ہوئے ہیں کیونکہ حق تعالی نے ان کو عدم کے اندھیرے سے نکالا ہے اور وجود اور اس کے توابع کےظلال کے ساتھ متصف کر کے منور کیا ہے۔ آسمانوں اور زمیں کو جو اس نور سے روشن ہوئے ہیں، مشکوۃ کی طرح تصور کرنا چاہئے اور اس نور کو چراغ کی مانند جاننا چاہئے جو اس مشکوۃ میں رکھا ہوا ہے۔ مشکوۃ پر کاف تمثیل کا آنا مصباح پر مشکوة کے شامل ہونے کے لیے ہے اور زجاجہ سے اسماء و صفات کا پردہ ملاحظہ کرنا چاہئے کیونکہ وہ نور اسماء و صفات کے ساتھ ملا ہوا ہے اور شیون و اعتبارات سے معرانہیں اور حق تعالی کی صفات کا زجاجہ حسن وجوب اور جمال قدم میں ستاره روشن کی طرح ہے اور وہ مصباح جواس مشکوۃ میں رکھا ہے، زیتون کے مبارک درخت سے روشن ہوا ہے جو عرش کے اس ظہور جامع سے مراد ہے جس ظہور کی رمزوں میں سے استوار ایک رمز ہے کیونکہ دوسرے ظہورات جو آسمانوں اور زمینوں سے تعلق رکھتے ہیں، اس ظہور جامع کے اجزاء کی طرح ہیں۔ وہ ظہور جامع چونکہ لامکانی اور بے جہت ہے، اس واسطے اس کو لَا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ کہہ سکتے ہیں۔ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ میں اس مبارک درخت کی تعریف اور اس درخت کے تیل کی صفائی اور روشنی کا بیان ہے جس کے ساتھ اس کو تمثیل دی گئی ہے۔ نُورٌ عَلَى نُورٍ یعنی اس پرده زجاجہ نے اپنی صفائی اور چمک دمک کے باعث اس نور کو زیادہ کر دیا ہے اور اس کے حسن و جمال کو بڑھا دیا ہے کیونکہ کمالات صفات کمالات ذات کے ساتھ جمع ہوگئے ہیں اور صفات کا حسن ذات کے حسن کے ساتھ مل گیا ہے۔ باوجود نور کی زیادتی اور کمال ظہور کے يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ (جس کو چاہتا ہے الله تعالی اپنے نور کی طرف ہدایت دیتا ہے) ہاں چ ہے۔ وَمَنْ لَمْ يَجْعَلِ اللَّهُ لَهُ نُورًا فَمَا لَهُ مِنْ نُورٍ جس کو الله تعالی نے نورنہیں دیا، اس کے لیے کوئی نورنہیں
یہ ظہور جامع جوعرش سے منسوب ہے، تمام مشاہدات و معاینات و مکاشفات کامنتہی اور تمام تجليات وظہورات کا انتہاء ہے، خواہ تجلی ذاتی ہو اور خواہ تجلی صفاتی۔ اس کے بعد معاملہ جہل کے ساتھ آ پڑتا ہے۔ چنانچہ اس کا تھوڑا سا حال بیان کیا جائے گا۔ انشاء اللہ تعالی۔
یہ ظہور جامع اگر چه صفات کے ساتھ ملا ہوا ہے لیکن صفات اس مقام میں ذات کے نہ کہ خارج اورنفس الامر کے اعتبار سے جیسے کہ اس کی تحقیق انشاء الله تعالی آگے آئے گی نیز یہ ظہور جامع مثال کی تصویروں کامنتہی ہے بعدازاں جو کمال ظاہر ہوتا ہے۔ مثال کے آئینہ میں اس کی تصویر نہیں پا سکتے کیونکہ مثال میں اس امر کی تصویر دکھاتے ہیں جو خارج کے ساتھ مناسبت و مشابہت رکھتا ہو اگرچہ وہ مشابہت اسم میں ہولیکن وہ امر جو خارج میں کسی چیز کے ساتھ کی طرح مشابہت نہیں رکھتا، اس کی تصویرمثال میں محال ہے۔ اس سے اوپر کے کمالات سب اسی قسم کے ہیں کہ وہ کسی چیز کے ساتھ کسی طرح بھی مشا بہ نہیں تاکہ مثال میں ان کی تصویر ظاہر کی جائے۔
یہی وجہ ہے کہ اس مقام میں ہر وقت جہل دامن گیر ہے اور ادراک کا نہ ہونا ادراک کا نشان ہے۔ اگر چہ اس جہان میں اس مقام سے سواے جہل باعلم کے اور کوئی امر حاصل نہیں ہوا لیکن امید ہے کہ آخرت میں ایسی قوت بخشیں گے اور ایسادل دیں گے جو نور کی چمک میں متلاشی اورنا چیز نہ ہوگا اور معاملے کی اصلیت سے آگا ہوگا۔ بیت
تو مرا دل دہ و دلیری بہ بیں رودبہ خویش خوان و شیری بیں
ترجمہ: دل مجھے دے کے پھردلیری دیکھ اپنی روبہ بنا کے شیریں رکھے
آگاہ ہو کر فوق العرش کا ظہور تجھے وہم میں نہ ڈالے کہ حضرت حق سبحانہ وتعالی کا مقام و قرار عرش کے اوپر ہے اور جہت و مکان اس کے لیے ثابت ہے۔ تعالى الله عن ذلک وعما لا يليق بجناب قدسه تعالى اللہ تعالی کی پاک جناب ایسی باتوں سے جو اس کے لائق نہیں ہیں، برتر اور بلند ہے۔
آئینے میں زید کی صورت کے ظاہر ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ زید آئینے میں ٹھہرا ہوا ہے۔ ایسا وہم شاید کسی بے وقوف کو ہی ہوگا۔ وَلِلَّهِ الْمَثَلُ الْأَعْلَى اعلی مثال الله تعالی کے لیے ہے۔
مومن آخرت میں حق تعالی کو بہشت میں دیکھیں گے۔ حالانکہ بہشت اور غیر بہشت سب الله تعالی کے نزدیک برابر اور اس کی مخلوق ہیں اور وہ تجلی جو کوہ طور پر واقع ہوئی تھی حالیت ومحلیت کی آمیزش سے پاک تھی۔
حاصل کلام یہ کبھی جگہیں ظہور کی قابلیت رکھتی ہیں اور بعض میں یہ قابلیت نہیں ہوتی۔ آئینہ صورتوں کے ظہور کی قابلیت رکھتا ہے اور گھوڑوں کی نعت میں یہ قابلیت نہیں۔ حالانکہ یہ دونوں لوہے سے بنے ہیں۔ پس فرق مظہر میں ہے نہ ظاہر میں۔ ظاہریعنی ظہور کرنے والے کی نسبت سب مظہر برابر ہیں۔ قابل بھی اور نا قابل بھی اور ایسے ہی وہ الفاظ جن سے کلیت یا جزئیت اور حالت و محلیت کا وہم پایا جاتا ہے۔ وہ ظاہر سے مصروف اور تاول کے لائق ہیں۔ ایسے الفاظ حق تعالی کی بارگاہ کے مناسب نہیں عبارت کی تنگی کے باعثاس قسم کے الفاظ کو اختیار کیا جاتا ہے۔ بیت
این قاعده یا دوار کانجا که خداست نہ جزنہ کل نہ ظرف نہ مظروف است
ترجمہ: یادرکھو جس جاده خداوندز میں ہے ظرف و مظروف وکل و جز نہیں ہے
چونکہ قلب عالم صغیر کا عرش ہے اور عالم کبیر کے ان کے مشابہ ہے۔ جہان کی تجی میں ظلیت کی آمیزش نہیں۔ اس لیے اس ظلیت کی آمیزش سے خالی تجلی کا ایک لمحہ اس قلب کا حصہ ہے۔ اگرچہ آسمانوں اور زمیں کو بھی اسی تجلی کی چمک پہنچی ہے لیکن ظلال میں سےظل کے پردہ میں ہے۔ سوائے قلب کے جوعرش کی طرح ظلیت کی ملاوٹ سے پاک ہے اگر چہ ظہور چھوٹا بڑا ہونے کے اعتبار سے متفاوت ہے
بقدر آئینہ حسن تومے نماید او ترجمہ: بقدر آئینہ پاتا ہے ترا حسن ظہور
پس ظلیت کی آمیزش سے خالی تجلی عرش مجید کے بعد کاملین کے قلب کا حصہ ہے۔ دوسروں کے لیے ظلیت دامن گیر ہے۔
جاننا چاہئے کہ ظہور عرشی اگر چہ ظلیت کی آمیزش سے پاک ہے لیکن وہاں صفات ذات کے ساتھ ملی ہوئی ہیں اور شیون و اعتبارات ذات میں ثابت ہیں۔ اگر چہ صفات و عیون اس مرتبہ بھی ذات کا حجاب نہیں ہیں لیکن دید و دانش میں مشارکت اور محبت وگرفتاری میں برابر مشترک ہیں۔ احدیت مجردہ کی محبت کے گرفتار کسی امر کی شرکت پرراضی نہیں ہیں۔ أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ دین خالص اللہ تعالی ہی کے لیے ہے)کے موافق دین خالص کو چاہتے ہیں۔ صفات کا شریک نہ کرنا انسان کے قلب کی ہیت وحدانی اور انسان کے جزاء ارضی کے نصیب ہے۔ ان سب سے بڑھ کر ایک اور انسان کی ہیئت وحدانی(تمام لطائف اورجسم) ہے جس نے اس کی جزاء ارضی کا رنگ اور اس کاحکم اختیار کر لیا ہے۔ غرض اس معاملہ میں عمده اور بہتر جزاء ارضی ہے۔ دوسرے امور زائد تحسین وخوبی کی طرح ہیں۔
انسان میں جو چیزیں ایسی ہیں جو رش میں نہیں ہیں اور نہ ہی عالم کیر کو ان کا کچھ حصہ ملا ہے۔ انسان میں ایک جزء ارضی ہے جوش میں نہیں اور دوسری بیت وحدانی ہے جو عالم کیر میں نہیں اور وہ شعور جو ہیئت وحدانی(تمام لطائف اورجسم) سے تعلق رکھتا ہے۔”نور علی نور ہے جو عام اصغر کے ساتھ مخصوس ہے۔ ہر انسان ایک عجوبہ ہے جس نے قلات کی لیاقت پیدا کر لی ہے اور بار امانت کو اٹھالیا ہے۔
انسان کی عجیب وغریب خصوصیتوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس کا معاملہ یہاں تک پہنچ جاتا ہے کہ حضرت احدیت مجردہ کے آئینہ بننے کی قابلیت پیدا کر لیتا ہے اور صفات وشیون کے ملنے کے بر ذات احد کا مظہر بن جاتا ہے۔ حالانکہ حضرت ذات تعالی ہر وقت صفات و اور شیونات(جمع الجمع کا صیغہ ہے اس کا مُفرد شان ہے اور شیون اسکی جمع ہے شان کا معنیٰ حال اور امر ہے) کی جامع ہے اور صفات وشیونات کسی وقت بھی ذات تعالی سے الگ نہیں ہیں۔
اس کا بیان یہ ہے کہ جب انسان کامل ذات احدیت کے ماسوا کی گرفتاری سے آزاد ہو کر ذات احد سے گرفتاری حاصل کر لیتا ہے اور صفات وشيونات سے کچھ بھی اس کے ملحوظ اور منظور اور مقصود و مطلوب نہیں ہوتا تو المَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ کے موافق اس کو حضرت احدیت مجردہ کے ساتھ ایک قسم مجہول الكیفیت اتصال پیدا ہو جاتا ہے اور وہ گرفتاری جوذات احد کے ساتھ اس کو حاصل ہوتی ہے، ذات بیچون(بے مثل) کے ساتھ قریب چون(مثل) کی نسبت اس میں ثابت کر دیتی ہے۔ اس وقت انسان کامل ذات احدا اس قسم کا آئینہ بن جاتا ہے کہ اس میں صفات و شیون کی کچھ مشہود اور مرئی نہیں ہوتیں بلکہ احدیت مجردہ اس میں ظاہر اور جلوہ گر ہوتی ہے۔ سبحان الله العظیم وہ ذات جو صفات سے ہرگز جدانہ تھی، اس انسان کامل کے آئینہ میں مجرد ادرتنہا طور پر ظاہر اورمتجلی ہوگئی اور حسن ذاتی فانی سے الگ ہو گیا۔ اس قسم کا آئینہ اور مظہر بننا انسان کامل کے سوا کسی اور کو میسر نہیں ہوا اور حضرت ذات صفات و شیون کی آمیزش کے بغیر انسان کے سوا اور کسی چیز میں جلوہ گر نہیں ہوئی۔ عالم کبیر میں عرش مجید حضرت ذات جامع الصفات کا مظہر ہے اور عالم صغیر میں انسان کامل ذات احد کا مظہر ہے۔ جو اعتبارات سے مجرد ہے۔ اس قسم کا آئینہ اور مظہر بننا انسان کی نہایت عجوبہ باتوں میں سے ہے۔ والله سبحانہ المعطى لا مانع لما أعطاه و معطى لما منعتہ (اللہ تعالی عطا کرنے والا ہے جس کو وہ جو کچھ عطا کرے، اس کو کوئی روک نہیں سکتا اور جس سے وہ روک نے اس کو کوئی دے نہیں سکتا۔) والسلام على من اتبع الهدى والتزم متابعة المصطفى عليه وعليهم من الصلوة والتسليمات اتمها وادومها
اور سلام ہو آپ پر اوران لوگوں پر جو ہدایت کے رستہ پر چلے اور جنہوں نے حضرت محمدﷺکی متابعت کو لازم پکڑا۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ48 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی