آیت کریمہ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ کی تاویل اور آیہ کریمہ إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَکے بیان اور انسان کامل کی خلافت کے بیان میں کہ اس کا معاملہ یہاں تک جاتا ہے کہ اس کو تمام اشیاء کا قیوم بنادیتے ہیں اور وہ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ ہے اور مقتصد کوندیم اورخلیل سے تعبیر کیا ہے اور سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ کومحب ومحبوب کے ساتھ جن کا سرحلقہ محمد رسول ﷺ ہیں۔ خواجہ ہاشم کی طرف صادر فرمایا ہے:۔ ، الله تعالیٰ فرماتا ہے۔ ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ وَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ بِإِذْنِ اللَّهِ (پھر ہم نے کتاب کا وارث ان لوگوں کوبنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے چن لیا۔ کوئی ان میں سے اپنے نفس پر ظلم کرنے والا ہے اور کوئی اعتدال پر چلنے والا اور کوئی الله تعالیٰ کے حکم سے خیرات میں سب سےبڑھنے والا ہے)۔
اور فرماتا ہے إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا (ہم نے اپنی امانت آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کی، لیکن انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اوراس سے ڈر گئے اور انسان نے اس کو اٹھا لیا یہ بڑا ظالم اور جاہل ہے)
ان دونوں آیتوں کی مراد الله تعالیٰ جانتا ہے لیکن ہم تاویل بیان کرتے ہیں جوہم پرظاہر ہوگئی ہے۔رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا (یا اللہ تو ہماری بھول چوک پرمواخذہ نہ کر۔
جاننا چاہیئے کہ ۔ فَإِنَّ اللهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے اللہ تعالیٰ صورت سے پاک اور برتر ہے۔ پس آدم کا اس کی صورت پر پیدا ہونا اس طرح پر ہوسکتا ہے کہ اگر مرتبہ تنزیہ کی صورت عالم مثال میں میں فرض کی جائے توبےشک یہ صورت جامع ہوئی جس پر یہ انسان جامع موجود ہوا ہے۔ دوسری صورت کو یہ قابلیت حاصل نہیں کہ اس مرتبہ مقدسہ کی تمثال ہو سکے اور اس کا آئینہ بن سکے یہی باعث ہے کہ انسان حق تعالیٰ کی خلافت کے لائق ہوا ہے کیونکہ خلیفہ جب تک شے کی صورت پرمخلوق نہ ہو اس شے کی خلافت کا حق نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ کا خلیفہ اس کا خلف اور قائم مقام ہوتا ہے۔ چونکہ انسان رحمان کا خلیفہ بن گیا اس لیے بار امانت بھی اسی کو اٹھانا پڑا۔ لا يحمل عطايا الملک إلا مطاياه بادشاہ کے عطیوں کو اسی کے اونٹ اٹھا سکتے ہیں آسمان اور زمین اور پہاڑ یہ جامعیت کہاں سے لاتے کہ حق تعالیٰ کی صورت پر پیدا ہوتے اور اس کے خلافت کے لائق ہو کر بار امانت کو اٹھا سکتے۔
محسوس ہوتا ہے کہ بالفرض اگر اس بار امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے حوالہ بھی کرتے توٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے اور ان کا کچھ اثر باقی نہ رہتا۔ وہ امانت اس فقیر کے خیال میں نیابت کے طور پر تمام اشیاء کی قیومیت ہے جو انسان کامل کے ساتھ مخصوص ہے یعنی انسان کامل کا معاملہ یہاں تک جاتا ہے کہ اس کو خلافت کے علم سے تمام اشیاء کا قیوم(مرتبہ قیومیت) بنادیتے ہیں اور تمام مخلوق کو تمام ظاہری باطنی کمالات کا افاضہ اور بقاء اسی کے ذریعے پہنچاتے ہیں اگر فرشتہ ہے تو وہ بھی اسی کے ساتھ متوسل ہے اور اگر جن و انس ہے تو وہ بھی اسی کے ساتھ وسیلہ پکڑتا ہے۔ غرض حقیقت میں تمام اشیاء کی توجہ اسی کی طرف ہوتی ہے اور سب اسی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ خواہ وہ اس امر کو جانیں یا نہ جانیں۔ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا یعنی اپنی جان پر یہاں تک ظلم کرتا ہے کہ اپنے وجود اور توابع وجود کا کوئی نام و نشان اور اثر و حکم باقی نہیں چھوڑتا۔ واقعی جب تک اس طرح کا حکم نہ کرے بار امانت کے لائق نہیں ہوسکتا۔ جَهُولًایعنی اس قدر جاہل ہے کہ اس کو اپنے مطلوب کا علم و ادراک نہیں بلکہ ادراک سے عاجز ہونا اورعلم سے جاہل ہونا اس کا مقصود ہے۔ یہ عجز وجہل اس مقام میں کمال معرفت ہے کیونکہ سب سے زیادہ جاہل اس مقام میں سب سے زیادہ عارف ہوتا ہے اور جو سب سے زیادہ عارف ہو گا وہی بار امانت کے لائق ہو گا۔ یہ دونوں میں گویا بار امانت کے اٹھالینے کا باعث ہیں۔ یہ عارف جو اشیاء کی قیومیت کے مرتبہ سے مشرف ہوا ہے وزیر کا حکم رکھتا ہے۔ جس کی طرف تمام مخلوقات کے ضروری کام اور معاملات راجع ہیں۔ انعام اگر چہ بادشاہ کی طرف سے ہیں، لیکن وزیر کے ذریعے سے پہنچتے ہیں۔
اس دولت کے رئیس ابوالبشر حضرت آدم علیہ الصلوة والسلام ہیں یہ مرتبہ اصولی طور پر اولوالعزم پیغمبروں کے ساتھ مخصوص ہے یا ان لوگوں کے ساتھ جن کو ان بزرگواروں کی وراثت و تبعیت کے طور پراس دولت سے مشرف فرمائیں۔ .
برکریماں کا رہا دشوار نیست کریموں پر نہیں مشکل کوئی کام
وارثان کتاب میں سے پہلاگروہ جو الله تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں میں سے ہے یہی ظالم لنفسہ ہیں جو منصب وزارت اور قیومت سے مشرف ہیں ان برگزیدہ لوگوں میں سے دوسرا گروہ جن کو مقتصد سے تعبیر فرمایا ہے وہ لوگ ہیں جو دولت خلت سے مشرف ہیں اور صاحب سر اور اہل مشورت ہیں۔ اگرچہ بادشاہی کا معاملہ اور کاروبار وزیر کے متعلق ہے، لیکن خلیل یعنی دوست ہمنشین اور غمخوار اور انیس ہوتا ہے۔یعنی خلیل اپنے آرام کے لیے ہے اور وز یر دوسروں کے کاروبار کے لیے شَتَّانِ مَا بَيْنَهُمَا ان دونوں کے درمیان بہت فرق ہے۔
اس مقام عالی یعنی خلت کےسرحلقہ حضرت ابراہیم خلیل الرحمان علیہ الصلوة والسلام ہیں۔
یا وہ لوگ جن کو اس مقام عالی سے مشرف فرمائیں۔ مقام خلت کے اوپر مقام محبت ہے۔ جس مقام اعلی کے ساتھ تیسرے گروہ کے لوگ جو سابق الخیرات ہیں۔ مشرف ہوئے ہیں۔ با روندیم اور ہوتا ہے اور محب ومحبوب اور وہ اسرار و معاملات جو محب ومحبوب کے درمیان گزرتے ہیں۔ یاروندیم کا وہاں کچھ دخل نہیں۔ اگر چہ کمال الفت و انس کے وقت محبت کے خفیہ اور پوشیدہ اسرار کوجلیل القدر خلیل کے ساتھ بیان کر سکتے ہیں اور اس کو محب ومحبوب کے اسرار کامحرم بنا سکتے ہیں۔
محبوں کے سرحلقہ حضرت کلیم اللہ علیہ الصلوة والسلام ہیں اور گروہوں کے سرگروہ حضرت خاتم الرسل علیہ الصلوة والسلام ہیں۔ یا ان بزرگواروں کی وراثت اور تبعیت سے جس کسی کو ان دو مقاموں سے مشرف فرمائیں اور وہ مقامات جو مقام محبت سے اعلی ہیں۔ اس فقیر کے کسی مکتوب میں مذکور ہو چکے ہیں۔ ان میں بھی صدرنشین محمد رسول الله ﷺہیں۔ وہ سب مقامات سابقین کے مقام میں داخل ہیں۔ جو وارثان کتاب میں سے تیسرے گروہ کو نصیب ہیں۔
۔ رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا (یا اللہ تو اپنے پاس سے ہم پر رحمت نازل فرما اور ہمارے کام سے بھلائی ہمارے نصیب کر) ) وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى (سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت اختیار کی )
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ267ناشر ادارہ مجددیہ کراچی