فکر قلب کی سیر کے عنوان سے پچیسویں باب میں حکمت نمبر 262 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اسی کی طرف اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا ہے ۔
262) الفِكْرَةُ سَيْرُ القَلْبِ فِي مَيَادِينِ الأَغْيَارِ .
فکر اغیار کے میدانوں میں قلب کا سیر کرنا ہے۔
لہذا جس کے پاس فراغت نہیں ہے، اس کے پاس کوئی فکر نہیں ہے۔ اور جس کے پاس فکر نہیں ہے، اس کے لئے کوئی سیر نہیں ہے۔ اور جس کے لئے سیر نہیں ہے۔ اس کے لئے وصول نہیں ہے۔ لہذ افکر بارگاہ الہٰی کی طرف قلب کا سیر کرنا ہے۔ اور یہ سیر اغیار کے شہود کے میدانوں میں ہوتی ہے۔ تا کہ مخلوقات کے ذریعے انوار کے وجود کی طرف رہنمائی حاصل کرے اور یہ اہل حجاب کی فکر ہے۔
اور اہل شہود کی فکر ۔ انوار کے میدانوں میں روح کا سیر کرنا ہے۔ یا اسرار کے میدانوں میں سرکا سیر کرنا ہے۔ اور مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نےفکر کی ابتدا کو بیان کیا ہے۔ فکر کی انتہا کو بیان نہیں کیا۔ حالانکہ اگر دونوں کو ایک ساتھ بیان کرتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ جیسا کہ انہوں نے اس کے بعد جو عنقریب آئے گا۔ اپنے اس قول میں بیان فرمایا ہے :-
الْفِكْرُ فِكْر تَانِ فکر کی دو قسمیں ہیں ۔
حضرت شیخ زروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے ۔ فکر — عالم غیب و شہادت میں قوت ادرا کیہ کو اس لئے ابھارتا ہے۔ تا کہ وہ اشیا کی حقیقت کا ادراک اسی حالت میں کرے جس حالت میں وہ حقیقتا ہیں ۔ اور جس شخص نے اس حقیقت کو پالیا۔ وہی عارف ہے۔ اور بیان کیا گیا ہے :۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اغیار کے ساتھ مخلوقات کی تعبیر حضرت نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام کی اس حدیث شریف کی بنا پر کی ہے۔
تفَكَّرُوا فِي الْخَلْقِ وَ لَا تَفَكَّرُوا فِي الْخَالِقِ ، فَإِنَّكُمْ لَا تَقْدِرُونَ اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ
تم لوگ مخلوق میں فکر کرو۔ اور خالق میں فکر نہ کرو۔ کیونکہ تم لوگ اللہ تعالیٰ کی قدر ویسی نہیں کر سکتے ہو جیسی اس کی قدر کرنی چاہیئے ۔ میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ حضرت نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس کی ماہیت اور حقیقت کے ادر اک میں فکر کرنے سے منع فرمایا ہے۔ لیکن ذات اقدس کی عظمت اور قدامت اور بقا اور وحدانیت اور ظاہری و باطنی تجلیات میں فکر کرنا۔ تو اس سے منع نہیں فرمایا ہے۔ کیونکہ یہ فکر ذات کی حقیقت کے ادراک سے عاجزی کےساتھ معرفت الہٰی کا سبب ہے۔ اور تحقیق یہ ہے ۔ اہل حجاب کے لئے مصنوعات میں فکر کرنا درست ہے۔ اور اہل عرفان ذات اقدس کی عظمت یعنی صانع مطلق کی عظمت اور توحید اور قدامت اور بقا اور ظہور اور احتجاب اور ظاہر سے غائب ہونے اور حقیقت کے شہود، یا خالق کے شہود کے ساتھ مخلوق سے غائب ہونے ، یا نور کے شہود کے ساتھ ظلمت سے غائب ہونے میں فکر کرتے ہیں ۔
شیعہ کا جنازہ پڑھنے پڑھانے والےکیلئے اعلیٰحضرت کا فتویٰ
دوہرا اجر پانے والے
سواء السبیل کلیمی
خاندانِ نبوی ﷺ کے فضائل و برکات العلم الظاهر في نفع النسب الطاهر
حیلہ اسقاط ایک جلیل القدر نعمت
امر الہی کے تین مراتب
آداب مرشد
تہنیت از سخی مادھو لعل حسین قلندر
مقامات سلوک از ڈاكٹر محمد عبد الرحمن عمیرہ المصری
مفتاح اللطائف
کشکول کلیمی
رسم رسُولی
آداب سماع شیخ کلیم اللہ جہان آبادی چشتی