ایک استفسار کے جواب میں جو عالم مثال کی بابت کیا گیا تھا اور ان دو گروہوں کے رد میں جن میں سے ایک گروہ تناسخ کا قائل ہے اور دوسرانقل روح کا قائل ہے اور کمون و بروز اور اس کے مناسب بیان میں خواجہ محمد تقی کی طرف صادر فرمایا ہے۔
الحمد لله رب العالمين والصلوة والسلام على سيدالمرسلين والہ الطاهرين
آپ کا صحیفہ شریفہ جو ازروئے حسن خلق اور بلندی فطرت کے ارسال فرمایا تھا، پہنچا۔ اس کے مطالعہ سے مشرف ہوا۔ خدا تعالیٰ آپ کو سلامت رکھے۔ آپ نے لکھا تھا کہ شیخ محی الدین ابن عربی قدس سرہ نے فتوحات مکیہ میں ایک حدیث نقل کی ہے کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا ہے۔ ان الله تعالى خلق مائة الف ادم )کہ اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ آدم پیدا کیا ہے اور عالم مثال کے بعض مشاہدات کے بارہ میں ایک حکایت بیان کرتے ہیں کہ کعبہ معظمہ کے طواف کے وقت ایسا ظاہر ہوا کہ میرے ہمراہ اس قسم کے لوگوں کی جماعت طواف کر رہی ہے جن کو میں نہیں پہچانتا۔ اثناء طواف میں انہوں نے دو عربی بیت پڑھے جن میں سے ایک ہے۔ بیت
لقد طفتم كما طفتم سنینا بهذا البيت طرا جمعینا
ترجمہ طواف ہم نے بھی اس کا گھر کا ہے کیا ویسا بہت سے سالوں تک تم نے ہے کیا جیسا
میں نے جب یہ بیت سنا، دل میں گزرا کہ یہ سب عالم مثال کے بدن ہیں۔ یہ بات میرے دل میں گزرنے نہ پائی تھی کہ ان میں سے ایک نے میری طرف نگاہ کی اور کہا کہ میں تیرے اجداد میں سے ہوں۔ میں نے پوچھا کہ تجھے فوت ہونے کتنے سال ہوئے ہیں۔ فرمایا کہ مجھے فوت ہوئے چالیس ہزار سال سے زیادہ عرصہ گزرا ہے۔ میں نے تعجب سے کہا کہ حضرت ابوالبشر حضرت آدم علیہ الصلوة والسلام کی پیدائش سے لے کر آج تک سات ہزار سال سے زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ اس نے فرمایا کہ تو کس آدم کا ذکر کرتا ہے۔ کیا تو اس آدم کا ذکر کرتا ہے جو اس سات ہزار سال کے دورہ کے اول میں پیدا ہوا ہے۔ نے فرمایا کہ اس وقت وہ حدیث جو اوپرلکھی جا چکی ہے دل میں گزری جو اس قول کی تائید کرتی ہے۔
میرے مخدوم مکرم اس مسئلہ میں اللہ تعالیٰ کی عنایت سے جو کچھ اس فقیر پر ظاہر ہوا ہے۔ وہ یہ ہے کہ یہ سب آدم جو حضرت آدم علیہ الصلوة والسلام کے وجود سے پہلے گزرے ہیں، ان کا وجود عالم مثال میں ہوا ہے نہ عالم شہادت میں۔ حضرت آدم علیہ السلام یہی ہیں جو عالم شہادت میں موجود ہوئے ہیں اور زمین میں خلافت پا کر سجود ملائک ہوئے ہیں۔
حاصل کلام یہ کہ حضرت آدم علیہ الصلوة والسلام چونکہ جامعیت کی صفت پرمخلوق ہوئے ہیں۔ اپنی حقیقت میں بہت سے لطائف اور اوصاف رکھتے ہیں۔ ان کے وجود سے بے شمار قرن پہلے ہر وقت ان کی صفات میں سے کوئی صفت یا ان کے لطائف میں سے کوئی لطیفہ حق تعالیٰ کی ایجاد سے عالم مثال میں موجود ہوا ہے اور آدم کی صورت میں ظاہر ہوا ہے اور اسی کے نام کا مسمی ہوا ہے اورمنتظر آدم کے کاروبار اس سے وقوع میں آ ئے ہیں حتی کہ توالد و تناسل بھی جو اس عالم مثال کے مناسب ہے، ظاہر ہوا ہے اور اس عالم کے مناسب ظاہری، باطنی کمالات بھی حاصل ہوئے ہیں اور ثواب و عذاب کا مستحق ہوکر بلکہ اس کے حق میں قیامت قائم ہو کر بہشتی بہشت میں اور دوزخی دوزخ میں گئے ہیں۔
بعدازاں پھر کسی وقت اللہ تعالیٰ کے ارادہ سے کوئی صفت یا لطیفہ آدم علیہ الصلوۃ والسلام کا اس عالم میں ظاہر ہوا اور وہ کاروبار جوظہور اول سے وجود میں آئے تھے ظہور ثانی(آدم ثانی) سے بھی وہی کاروبار ظاہر ہوئے۔ جب یہ دورہ بھی تمام ہو گیا۔ صفات و لطائف کا تیسرا ظہو(آدم سوم)ر حاصل ہوا۔ جب اس ظہور نے بھی اپنا دورہ ختم کیا، چوتھا ظہور(آدم ) ثابت ہوا۔ إلى ماشا الله جب ان کے مثالی ظہورات کے دورے جوان کے لطائف وصفات کے ساتھ تعلق رکھتے تھے، تمام ہو گئے۔ آخر کار وہ نسخہ جامعہ (حضرت آدم)عالم شہادت میں حق تعالیٰ کی ایجاد سے وجود میں آیا اور فضل خداوندی سے معزز ومکرم ہوا۔ اگر لاکھ آدمی ہوں، سب اسی آدم کے اجزاء اور اسی کے ہاتھ پاؤں اور اسی کے وجود کے مبادی و مقدمات ہیں۔
شیخ بزرگوار کا جد جس کو فوت ہوئے چالیس ہزار سال گزرے ہیں، عالم مثال میں شیخ کے اس جد کے لطائف میں سے ایک لطیفہ تھا جو عالم شہادت میں وجود رکھتا تھا اور یہ بیت اللہ کا طواف جو اس نے کیا ہے، عالم مثال میں طواف کیا ہے کیونکہ کعبہ معظمہ کی بھی عالم مثال میں صورت وشبیہ ہے جو اس عالم والوں کا قبلہ ہے۔
اس فقیر نے اس بارہ میں بہت دور تک نظر دوڑائی ہے اور بڑا غور کیا ہے لیکن عالم شہادت میں دوسرا آدم کوئی نظر نہیں آیا اور عالم مثال کے شعبدوں کے سوا کچھ نہ پایا اور یہ جو بدن مثالی نے کہا ہے کہ میں تیرا جد ہوں اور مجھے فوت ہونے چالیس ہزار سال سے زیادہ گزرے ہیں۔
اس بات پر پختہ دلیل ہے کہ پہلےآدم اس حضرت آدم کے صفات ولطائف کے ظہورات تھے نہ یہ کہ علیحدہ خلقت رکھتے تھے اور اس آدم کے برخلاف اور الگ تھے کیونکہ مخالفت اور مبائن(جدا) کو اس آدم سے کیا نسبت اور کیونکر جد ہو سکتے حالانکہ اس آدم کی پیدائش کو بھی سات ہزارسال تمام نہیں ہوئے۔ پھر چالیس ہزار سال کی کہاں گنجائش ہے۔ وہ لوگ جن کے دل بیمار ہیں، ان حکایات سے تناسخ سمجھتے ہیں اور عجب نہیں کہ قدم عالم کے قائل ہو جائیں اور قیامت کبری کا . انکار کر دیں۔ بعض لوگ جو باطل کے ساتھ یعنی جھوٹ موٹ شیخی کی مسند پر بیٹھے ہیں ۔ تناسخ کے جواز کا حکم دیتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ نفس جب تک حد کمال تک نہ پہنچے بدنوں کے تقلب یعنی بدلنے سے اس کو چارہ نہیں اور کہتے ہیں کہ جب نفس حد کمال تک پہنچ جائے بدنوں کی تبدیلی بلکہ بدنوں کے تقلب یعنی بدلنے سے اس کو چارہ نہیں اور کہتے ہیں جب نفس حد کمال تک پہنچ جائے بدنوں کی تبدیلی بلکہ بدنوں کے متعلق سے فارغ ہو جاتا ہے اور اس کی پیدائش سے مقصودیہی اس کا کمال ہے جو میسر ہو گیا۔ یہ بات صریح کفر ہے اور ان تمام باتوں کا انکار ہے جو دین میں تواتر کے ساتھ ثابت ہیں کیونکہ آخر کار جب تمام نفوس حد کمال کو پہنچ جائیں، پھر دوزخ کس کے لیے ہوگی اور عذاب کس کو ہوگا۔ اس میں دوزخ اور آخرت کے عذاب اور جسموں کے ساتھ اٹھنے کا انکار ہے کیونکہ ان کے خیال میں نفس کو اب جسم کی جو اس کے کمال کا آلہ ہے، کوئی حاجت نہیں رہی تا کہ جسم کے ساتھ اٹھایا جائے۔ ان لوگوں کا اعتقاد بعينه فلاسفہ کے اعتقاد کے مطابق ہے جو حشر اجساد سے انکار کرتے ہیں اور عذاب و ثواب روحانی جانتے ہیں بلکہ ان کا اعتقاد فلاسفہ کے اعتقاد سے بھی بدتر ہے کیونکہ تناسخ کو رد کرتے ہیں اور روحانی عذاب وثواب ثابت کرتے ہیں اور یہ لوگ تناسخ کو بھی ثابت کرتے ہیں اور عذاب آخرت سے بھی انکار کرتے ہیں۔ عذاب ان کے نزدیک دنیاہی کا عذاب ہے جونفسوں کی تہذیب کے لیے ثابت کرتے ہیں۔
سوال: حضرت امیر کرم اللہ وجہ اور بعض اور اولیاء اللہ سے بھی منقول ہے کہ ان کے وجود خاکی سے بہت زمانہ پہلے ان سے عجیب وغریب اعمال و افعال عالم شہادت میں واقع ہوئے ہیں،تناسخ کے جواز کے بغیر یہ بات کس طرح درست ہوسکتی ہے۔
جواب: وہ اعمال و افعال ان بزرگواروں کے ارواح سے صادر ہوئے ہیں جوحق تعالیٰ کے ارادہ سے خود اجساد کے ساتھ متجسد(جسم اختیار کرنے والا) ہو کر عجیب و غریب افعال کے مرتکب ہوئے ہیں۔ کوئی اور جسد نہیں جس کے ساتھ ان کا تعلق ہو۔ تناسخ کے یہ معنی ہیں کہ روح کا اس جسد کے تعلق سے پہلے کسی اور جسد کے ساتھ جو اس جسد کے مخالف اور مغائر ہے تعلق ہوا ہو اور جب خودہی جسد کے ساتھ متجسد ہو جائے پھرتناسخ کہاں ہوگا۔
جن جومختلف شکلیں بن جاتے ہیں اورمختلف جسدوں میں متجسد ہوجاتے ہیں، اس وقت ان سےاعمال عجیبہ جوان شکلوں اور جسدوں کے مناسب ہیں، ظہور میں آتے ہیں۔ ان میں کوئی تناسخ اور حلول نہیں۔ جب جنوں کو الله تعالیٰ کی تقدیر سے اس قسم کی طاقت حاصل ہے کہ مختلف شکلوں میں ظاہر ہو کر عجیب وغریب کام کریں تو اگرکاملین کی ارواح کو یہ طاقت بخش دیں تو کونسی تعجب کی بات ہے اور دوسرے بدن کو ان کی کیا حاجت ہے۔ اسی قسم کی ہیں وہ بعض حکایتیں جو بعض اولیاء اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ ایک ساعت میں مختلف مکانوں میں حاضر ہوتے ہیں اور مختلف کام ان سے وقوع میں آتے ہیں۔ یہاں بھی ان کے لطائف مختلف جسدوں میں متجسد ہو کر اور مختلف شکلوں میں متشکل(شکل اختیار کرنے والے) ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح اسی عزیز کا حال ہے جو ہندوستان میں وطن رکھتا ہے اور کبھی اپنے ملک سے باہر نہیں نکلا۔ بعض لوگ عظیم البرکت مکہ معظمہ سے آ تے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے اس عزیز کو حرم کعبہ میں دیکھا ہے اورہمارے اور اس عزیز کے درمیان ایسی ایسی باتیں ہوئی ہیں ۔ بعض نقل کرتے ہیں کہ ہم نے اس کو روم میں دیکھا ہے اور بعض بغداد میں دیکھ کر آئے ہیں۔ یہ سب اس عزیز کے لطائف ہیں جومختلف شکلوں میں ظاہر ہوئے ہیں اور اس عزیز کو ان شکلوں کی نسبت اطلاع نہیں ہوتی۔ اسی واسطے لوگوں کے جواب میں کہتا ہے کہ یہ سب مجھے پرتہمت ہے۔ میں اپنے گھر سے باہر نہیں گیا نہ میں نے حرم کعبہ دیکھا ہے اور میں روم، بغداد کو نہیں جانتا اور نہیں پہچانتا کہ تم کون ہو۔ اسی طرح حاجت مند لوگ زندہ اور مردہ بزرگوں سے خوف و ہلاکت کے وقت مددطلب کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ان بزرگوں کی صورتوں نے حاضر ہو کر ان کی بلا کو دفع کیا ہے اور ان بزرگوں کو اس بلیہ کے دفع کرنے کی اطلاع کبھی ہوتی ہے اور کبھی نہیں ہوتی۔
ازماوشما بہانه ساختہ اند ترجمہ: ہمارا اور تمہارا ہے بہانہ
یہ بھی ان بزرگوں کے لطائف کی شکلیں ہیں۔ یہ شکلیں کبھی عالم شہادت میں ہوتی ہیں۔ کبھی عالم مثال میں جس طرح ایک ہی رات میں ہزار آدمی رسول ﷺ کو خواب میں مختلف صورتوں میں دیکھتے ہیں اور استفادہ کرتے ہیں۔ یہ سب رسول الله ﷺکی صفات و لطائف کی مثالی صورتیں ہیں۔ اسی طرح مرید اپنے پیروں کی مثالی صورتوں سے استفادہ کرتے ہیں اور مشکلات کوحل کرتے ہیں۔
کمون و بروز (پوشیدہ ہونا اور ظاہر ہونا)جوبعض مشائخ نے کہا ہے کہ تناسخ سے تعلق نہیں رکھتا کیونکہ تناسخ میں نفس کا دوسرے بدن کے ساتھ اس غرض کے لیےتعلق ہوتا ہے تا کہ اس کے لیے حیات و زندگی ثابت ہو اور اس کو حس و حرکت حاصل ہو اور بروز میں نفس کا دوسرے بدن کے ساتھ تعلق اس غرض کے لیے نہیں ہوتا بلکہ اس سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ اس بدن کو کمالات حاصل ہوں اور اپنے درجات تک واصل ہو جائے جس طرح کہ جن انسان کے ساتھ تعلق پیدا کر لے اور اس کے وجود میں بروز کرے۔ یہ تعلق بھی انسان کی زندگی کے واسطے نہیں ہے کیونکہ آ دمی اس تعلق سے پہلےحس وحرکت والا ہے۔ وہ چیز جو اس تعلق سے اس میں پیدا ہوگئی ہے، وہ اس جن کے صفات و حرکات و سکنات کا ظہور ہے لیکن مشائخ مستقيمة الاحوال کمون و بروز کا ہرگز بیان نہیں کرتے اور ناقصوں کو بلا و فتنے میں نہیں ڈالتے۔
فقیر کے نزدیک کون و بروز کی کچھ ضرورت نہیں ۔ کامل اگر کسی ناقص کی تربیت کرنا چاہے تو بغیر اس بات کے کہ اس میں بروز کرے ۔ اللہ تعالیٰ کے اقتدار سے اپنی صفات کاملہ کو مرید ناقص میں منعکس کردیتا ہے اور توجه و التفات کے ساتھ اس انعکاس کو ثابت و برقرار رکھتا ہے تا کہ مریدناقص نقص سے کمال تک آجائے اور صفات رذیلہ کو چھوڑ کر صفات حمیدہ کو اختیار کرے اور کچھ کمون وبروز درمیان نہ ہو۔ ۔ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ( یہ الله تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور الله تعالیٰ بڑے فضل والا ہے۔)
بعض لوگ نقل ارواح کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ روح کو کمال کے بعد اس قسم کی
قدرت حاصل ہو جاتی ہے کہ اپنے بدن کو چھوڑ کر دوسرے بدن میں داخل ہوسکتا ہے۔
نقل کرتے ہیں کہ ایک بزرگ میں یہ کمال اور قدرت تھی کہ اس کے پڑوس میں ایک جوان مر گیا۔ اس بزرگ نے اپنے بدن کو جو بڑھاپے تک پہنچ چکا تھا، چھوڑ دیا اور اس جوان کے بدن میں داخل ہوگیا حتی کہ بدن اول مردہ ہو گیا اور دوسرا بدن زندہ۔ اس بات سے تناسخ لازم آتا ہے کیونکہ بدن ثانی کا تعلق اس بدن کی حیات کے لیے ہے۔ ہاں اس قدرفرق ہے کہ ان کے قائل لوگ نفس کے نقص کا حکم کرتے ہیں اور تناسخ کونفس کی تکمیل کے لیے ثابت کرتے ہیں اور وہ لوگ جونقل روح کے قائل ہیں، روح کو کامل خیال کرتے ہیں اور کمال روح کے بعد نقل کو ثابت کرتے ہیں۔
فقیر کے نزدیک نقل روح کا قول تناسخ کے قول سے بھی گیا گزرا ہے کیونکہ تناسخ کانفس کی تکمیل کے لیے اعتبار کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ اعتبار باطل ہے اورنقل روح کمال کے حاصل ہونے کے بعد خیال کرتے ہیں۔ حالانکہ کچھ کمال نہیں۔ جب بدنوں کا تبدل کمالات کے حاصل ہونے کے لیے مقرر کیا ہو تو پھر کمال حاصل ہونے کے بعد دوسرے بدن میں نقل کرنا کس لیے ہے۔ اہل کمال تماشائی نہیں ہیں۔ ان کا قصور کمال کے حاصل ہونے کے بعد بدنوں سے الگ ہوتا ہے نہ کہ بدنوں کے ساتھ تعلق اختیار کرنا کیونکہ بدنوں کے تعلق سے جو کچھ قصورتھا، وہ حاصل ہو چکا ہے۔
نیز نقل روح میں بدن اول کا مارنا اور دوسرے بدن کا زندہ کرتا ہے۔ پس بدن اول کو احکام برزخ کے حاصل ہونے سے چارہ نہیں اور قبر کے عذاب و ثواب سے خلاصی نہیں اور دوسرے بدن کے لیے جب دوسری حیات ثابت کرتے ہیں۔ اس کے لیے گویا دنیا میں حشر ثابت ہو گیا یا شاید روح کا قائل قبر کے عذاب و ثواب کا قائل نہیں اور حشر و نشر کا معتقد نہیں۔ افسوس صد افسوس اس قسم کے مکار اور جھوٹے لوگ شیخی کی مسند پر بیٹھے ہیں اور اہل اسلام کے مقدر بنے ہوئے ہیں۔ ضلوا فضلوا پرلوگ خودبھی گمراہ ہیں اوروں کو بھی گمراہ کر رہے ہیں۔
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ (اے اللہ تو ہدایت دے کر پھر ہمارے دلوں کوٹیڑھانہ کر اور اپنی جناب سے ہم پر رحمت نازل فرما۔ تو بڑاہی بخشنے والا ہے۔) بحرمۃ سید المرسلين عليہ و عليهم الصلوات والتسليمات
تذییل (ضمیمہ)
بعض ان علوم و معارف کے بیان میں جو عالم مثال سے تعلق رکھتے ہیں
واضح ہو کہ عالم مثال تمام عالموں سے زیادہ فراخ ہے جو کچھ تمام عالموں میں ہے، اس کی صورت عالم مثال میں ہے۔ معقولات و معانی سب وہاں صورت رکھتے ہیں۔ بزرگوں نے کہا ہے کہ حق تعالیٰ کے لیے مثل نہیں لیکن مثال ہے وَلِلَّهِ الْمَثَلُ الْأَعْلَى مثال اعلى الله تعالیٰ کے لیے ہے۔
اس فقیر نے اپنے مکتوبات میں لکھا ہے کہ تنزیہ محض کے مرتبہ میں جس طرح مثل نہیں۔ مثال بھی نہیں۔ فَلَا تَضْرِبُوا لِلَّهِ الْأَمْثَالَاللہ تعالیٰ کے لیے کوئی مثال نہ بیان کرو) عالم صغیر میں عالم مثال کا نمونہ خیال ہے کیونکہ تمام اشیاء کی صورت خیال میں متصور ہے۔ خیال ہی سالک کے احوال ومقامات کی کیفیات کو مختلف صورتوں میں سالک کے سامنے ظاہرکرتا ہے اور صاحب علم بنادیتا ہے اور اگر خیال نہ ہو یا جس جگہ خیال پہنچ نہ سکتا ہو وہاں جہل لازم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرتبہ ظلال کے اوپر جہل و حیرت ہے کیونکہ خیالی کی دوڑ مراتب ظلال تک ہی ہے جہاں ظل نہیں خیال کی بھی وہاں گنجائش نہیں۔ جب صورت تنزیہی عالم مثال میں نہیں آ سکتی جیسے کہ گزر چکا ہے تو خیال میں جو مثال کا پرتو ہے، صورت تنزیہی کس طرح متصور ہوسکتی
ہے۔ فلا جرم یکون ثمه إلا الجهل والحيرۃ(پس وہاں جہل و حیرت کے سوا کچھ نہ ہوگا ) اور جہاں علم نہیں وہاں گفتگو بھی نہیں۔ مَنْ عَرَفَ اللَّهَ كَلَّ لِسَانُهُ (جس نے الله تعالیٰ کو پہچانا اس کی زبان گنگ ہوگئی۔ اس کا نشان ہے اور جہاں علم ہے وہاں گفتگو بھی ہے۔ مَنْ عَرَفَ اللَّهَ طَالَ لِسَانُهُ (جس نے اللہ تعالیٰ کوپہچانا اس کی زبان دراز ہوگی) اس کا بیان ہے۔ پس زبان کی درازی ظلال ہوتی ہے اور زبان کی گنگی مراتب ظلال سے اوپر ہوتی ہے۔ خواہ فعل ہو یا صفت۔ اسم ہو یا مسمی۔
پس جو کچھ خیالات کا اپنا بنایا ہوا ہے۔ چونکہ وہ ظلال سے ہے اس لئے وہ علت سے معلول اور جعل سے مجعول ہے ( یعنی بسبب ایجاد موجود ہے)لیکن چونکہ مطلوب کے علامات و آثار سے ہے، اس لیے علم الیقین کا فائدہ دیتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ فائدہ نہیں دیتا۔ عین الیقین اورحق الیقین ظلال و خیال سے وراء الوراء ہیں۔ خیال کی لخت یعنی تراش سے تب نجات ملتی ہے جب کہ سیرانفسی کو بھی سیر آفاقی کی طرح پیچھے چھوڑ دیں اور آفاق و انفس سے آگے جولان کریں۔ یہ بات اکثر اولیاء اللہ کو مرنے کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ جب تک زندہ رہتے ہیں، خیال ان کا دامن گیر رہتا ہے اور بزرگواران اولیاء میں سے بہت کم لوگوں کو یہ دولت اس جہان میں بھی میسر ہو جاتی ہے اور باوجود دنیاوی حیات کے خیال کے تصرف سے نکل جاتے ہیں اور مطلوب کو خیال کی تراش اور ایجاد کے بغیر پا لیتے ہیں۔ اس وقت تجلی ذاتی برقی ان بزرگواروں کے حق میں دائمی ہو جاتی ہے اور وصل عریانی پرتو ڈالتا ہے۔ شعر
ھنیئا لارباب النعيم نعيمها وللعاشق المسكين ما يجرع
ارباب نعمت کو یہ نعمت مبارک اور عاشقوں کو یہ رنج و حسرت مبارک
سوال: بعض لوگ واقعات و منامات میں اور مثال و خیال میں دیکھتے ہیں کہ ہم بادشاہ بن گئے ہیں اور اپنے نوکروں چاکروں کو دیکھتے ہیں اور نیز یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ہم قطب بن گئے ہیں اور تمام جہان ہماری طرف متوجہ ہے اور بیداری اور افاقہ کے وقت میں جو عالم شہادت ہے، ان کمالات کا ظہور نہیں ہوتا۔ یہ رؤیت سچی ہے یا جھوٹی؟
جواب: یہ روایت کچھ نہ کچھ صدق رکھتی ہے۔ اس کا بیان یہ ہے کہ بادشاہ اور قطب بننے کے معنی اور استعداد ان لوگوں میں پائی جاتی ہے لیکن ضعیف ہے اس لائق نہیں کہ عالم شہادت میں ظہور پائے۔ بعدازاں یہ امر دوحال سے خالی نہیں۔ اگر یہ معنی الله تعالیٰ کی عنایت سے بادشاہ اور قطب وقت بن جائیں۔ اگر اس معنی نے اس قدر قوت نہ پائی کہ عالم شہادت میں ظاہر ہوں تو وہی مثالی ظہور جو تمام ظہورات میں سے کمزور اور ضعیف ہے، کفایت کرتا ہے اور قوت کے بموجب ظہور پاتا ہے۔
اسی قسم کے ہیں وہ واقعات جو اس راہ کے طالب دیکھتے ہیں اور اپنے آپ کو مقامات عالیہ میں پاتے ہیں اور اپنے آپ کو ارباب ولایت کے مرتبوں سے سرفراز ہوا پاتے ہیں۔ اگر یہ معنی عالم شہادت میں ظہور پیدا کریں تو بڑی اعلی دولت ہے اور اگر ظہور مثالی پر ہی کفایت کریں تو لا حاصل ہے اور جائے مصیبت ہے۔ ہر جلاہا اور حجام خواب میں اپنے آپ کو بادشاه دیکھتا ہے لیکن کچھ حاصل نہیں اور سوائے خارہ کے ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں آتا۔ پس واقعات پر اعتبار نہ کرنا چاہیئے۔ عالم شہادت میں جو کچھ حاصل ہو جائے، اس کو اپنا سمجھنا چاہیئے۔ بیت
چو غلام آفتابم ہمہ ز آفتاب گویم شبم نہ شب پرستم که حدیث خواب گویم
ترجمہ: بیاں سورج کا کرتا ہوں کہ ہوں میں بس غلام اس کا نہیں بندہ میں شب کا تا کروں خوابوں کا کچھ چرچا
یہی وجہ ہے کہ مشائخ نقشبند یہ قدس سرہم واقعات(خوابوں) کا اعتبار نہیں کرتے اور طالبوں کے واقعات کی تعبیر کی طرف توجہ نہیں کرتے کہ اس میں کچھ فائدہ نہیں ۔ معتبر وہی ہے جو افاقہ اور بیداری میں حاصل ہو۔ اسی و اسطے دوام شہود کا اعتبار کرتے ہیں اور دائمی حضور کو اعلی دولت سمجھتے ہیں۔ وہ حضور جس کے پیچھے غیبت(فراموشی) ہو اور ان بزرگواروں کے نزدیک معتبرنہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ نسیان ماسوا ان کے حق میں دائمی ہے اور کسی وقت بھی ان کے دل پر غیر کا گزر نہیں ہوتا ۔ ہاں جس شخص کی بدایت میں نہایت مندرج ہو۔ اس سے ان کمالات کا ظہور بعید اور عجیب نہیں ہے۔ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ یارب ہمارے گناہوں اور ہمارے کاموں میں ہماری زیادتی کو بخش اور ہمارےقدموں کو ثابت رکھے اور کافروں پرہمیں مدد دے ۔ والسلام
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ210ناشر ادارہ مجددیہ کراچی