قصبہ سامانہ کے خطیب کی مذمت ونکوں میں جس نے عید قربان کے خطبہ میں خلفاء راشدین رضی اللہ تعالی عنہم کے ذکر کو ترک کر دیا تھا اور بیان نہ کیا تھا۔ شہر سامان کے بزرگ سادات اور قاضیوں اور رئیسوں کی طرف صادرفرمایا ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (الله تعالی کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو) شہر سامانہ کے سادات عظام اور قانوں اور بزرگ رئیسوں کے معزز خادموں کو تکلیف دینے کا باعث یہ ہے کہ سنا گیا ہے کہ اس جگہ کے خطیب نے عید قربان کے خطبہ میں خلفاء راشدین رضی اللہ تعالی عنہم کے ذکر کو ترک کیا ہے اور ان کے مبارک ناموں کونہیں لیا اور یہ بھی سنا گیا ہے کہ جب لوگوں نے اس سے قرض کیا تو بجائے اس کے کہ اپنی نسیان کا عذر کرتا، سرکشی سے پیش آیا اور یوں کہہ اٹھا کہ اگر خلفاء راشدین کے نام کا ذکر نہیں ہوا تو کیا ہوا اور یہ بھی سنا گیا ہے کہ اس مقام کے رئیسوں اور معزز لوگوں نے اس بارہ میں بہت سستی کی ہے اور اس بے انصاف خطیب کے ساتھ سختی اور درشتی سے پیش نہیں آئے۔
وائے نہ یکبار که صدباروائے ترجمہ: ایک افسوس نہیں صدہاافسوس
خلفاء راشدین رضی الله تعالی عنہم کا ذکر اگر چہ خطبہ کے شرائط میں سے نہیں لیکن اہلسنت کا شعار تو ضرور ہے۔ عمدا اور ہیکڑپن کے سوائے اس کے کہ جس کا دل مریض اور باطن پلید ہو اور کوئی شخص اس کو ترک نہیں کرتا۔ ہم نے مانا کہ اس نے تعصب اور عناد سے تک نہیں کیا مگر مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ (جس نے کسی قوم کی مشابہت کی وہ انہی میں سے ہے) کا کیا جواب دے گا اور اتقوا مواضع التهم (تہمت کی جگہوں سے بچو) کے موافق تہمت کے ظن سے کس طرح خلاصی پائے گا۔ اگرشیخین کی تقدیم تفضیل میں متوقف ہے تو طریق اہل سنت کے مخالف ہے اور اگر حضرت ختنین کی محبت میں متردد ہے تو بھی اہل حق سے خارج ہے۔ عجب نہیں کہ وہ بے حقیقت جوکشمیریہ کی طرف منسوب ہے۔ اس خبیث کو کشمیر کے بد عتیوں یعنی رافضیوں سے لے کر آیا ہو۔ اس کو سمجھانا چاہئے کہ حضرات شیخین کی افضلیت صحابہ اور تابعین کی اجماع سے ثابت ہو چکی ہے۔ چنانچہ اس کو بزرگ اماموں کی ایک جماعت نے نقل کیا ہے۔
جن میں سے ایک امام شافعی رضی الله تعالی عنہ ہیں۔ امام ابوالحسن اشعری نے کہا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی الله تعالی عنہ پر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت باقی امت قطعی اور یقینی ہے۔ امام ذہبی فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اپنی خلافت اور مملکت کے زمانہ میں ان کے تابعداروں کے جم غفیر کے تواتر سے ثابت ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عمر رضی الله تعالى عنہ تمام امت سے افضل ہیں۔
پھر امام ذہبی نے کہا ہے کہ اس حدیث کو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے اسی (80) آدمیوں سے زیادہ نے روایت کیا ہے اور ایک جماعت کو گن کر بتلایا ہے۔ پھر فرمایا ہے کہ خدارافضیوں کا برا کرے ۔ یہ کیسے جاہل ہیں اور امام بخاری نے اپنی کتاب میں جو کتاب اللہ کے بعد تمام کتابوں سے ہے، حضرت علی سے اس طرح روایت کی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد تمام لوگوں سے بہتر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ۔ پھر فرمایا کہ ایک اور شخص تو ان کے بیٹے محمد بن حنیفہ نے عرض کیا کہ پھر آپ ۔ تو حضرت علی نے فرمایا کہ میں تو ایک مسلمان آدمی ہوں ۔ اس قسم کی اور بھی بہت سی روایتیں حضرت علی اور اکابر صحابہ اور تابعین سے مشہور ہیں جن سے سوائے جاہل یا تعصب کے اور کوئی انکار نہیں کرتا۔ .
اس بے انصاف کو کہنا چاہئے کہ ہم کو پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کے تمام اصحاب کے ساتھ محبت رکھنے کا امر ہے اور ان کے ساتھ بغض رکھنے وایذا دینے کی ممانعت ہے۔ حضرات ختنین( عثمان و علی)آنحضرت علیہ الصلوة والسلام کے بزرگ صحابہ اورقریبیوں میں سے ہیں۔ ان کے ساتھ محبت و مودت اور بھی زیادہ بہتر و مناسب ہے۔ الله تعالی فرماتاہے قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى کہ یا رسول اللہ ﷺ کہ تم سے میں قریبیوں کی محبت کے سوا اور کوئی اجر نہیں مانگتا
اور رسول اللہ عنہ نے فرمایا۔ اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي، لَا تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ، وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي، وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّهَ، وَمَنْ آذَى اللَّهَ فَيُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ میرے اصحاب کے بارہ میں اللہ تعالی سے ڈرو اور میرے بعد میرے اصحاب کو(طعن و تشنیع) کانشانہ نہ بناؤ۔ جس نے ان کو دوست رکھا، اس نے میری دوستی کے سبب ان کو دوست رکھا اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے میرے بغض کے باعث ان سے بغض رکھا جس نے ان کو ایذا دی اس نے مجھے ایذادی اور جس نے مجھے ایذا دی، اس نے اللہ تعالی کو ایذادی اور جس نے الله تعالی کو ایذا دی، وہ ضرور اس کا مواخذہ کرے گا۔
اس قسم کا بدبودار پھول ابتدائے اسلام سے لے کر آج تک معلوم نہیں کہ ہندوستان میں کھلا ہوعجب نہیں کہ اس معاملہ سے تمام شہرمتہم ہو جائے بلکہ تمام ہندوستان سے اعتماد دور ہو جائے۔ سلطان وقت که خدا اس کو اسلام کے دشمنوں پر مدد اور غلبہ دے۔ اہل سنت اورحنفی المذہب ہے۔ اس کے زمانہ میں اس قسم کی بدعت کا ظاہر کرنا بھی جرأت اور دلیری کا کام ہے بلکہ درحقیقت بادشاہ کے ساتھ مقابلہ کرنا اور اولی الامر کی اطاعت سے نکلنا ہے۔ پھر بڑی تعجب کی بات ہے کہ اس مقام کے بزرگ اوررئیس لوگ اس واقعہ میں خاموش رہیں اور سستی اختیار کریں۔ اللہ تعالی اس کتاب کی مذمت میں فرماتا ہے۔ لَوْلَا يَنْهَاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ عَنْ قَوْلِهِمُ الْإِثْمَ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَصْنَعُونَ ان کے علماء اور خدا پرست لوگ ان کو ان کی بری باتوں رشوت و سود کھانے سے منع کیوں نہیں کرتے۔ واقعی بہت بری بات ہے۔ اللہ تعالی اور فرماتا ہے كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُنْكَرٍ فَعَلُوهُ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ایک دوسرے کو برے فعل کے کرنے سے منع نہ کرتے تھے۔ واقعی بہت برا کرتے تھے۔ اس قسم کے واقعات میں تغافل وسستی کرنا گویا بدعتیوں کو دلیر کرنا اور دین میں رخنہ ڈالنا ہے۔ یہ سستی اور غفلت ہی کا نتیجہ ہے کہ مہدو یہ جماعت (سید محمد جونپور کی جماعت جس نے مہدی موعود ہونے کا دعوی کیا) کے لوگ کھلم کھلااہل حق کو اپنے باطل طریقت کی طرف دعوت کرتے اور موقع پا کر بھی بھیڑئیے کی طرح ریوڑ سے ایک دو کو لے جاتے ہیں۔ اس سے زیادہ کیاتکلیف دی جائے اس وحشت انگیز خبر کو سن کر مجھ میں ایک شورش سی پیدا ہوگئی اور میری فاروقی رگ بھڑک اٹھی۔ اس لیے چند کلمے لکھے گئے، امید ہے کہ معاف فرمائیں گے۔
والسلام عليكم وعلی سائر من اتبع الهدى والتزم متابعة المصطفى عليه وعلى اله الصلوت والتسليمات والتحيات والبركات (سلام ہو آپ پر اور ان بزرگواروں پر جنہوں نے ہدایت اختیار کی اور حضرت محمد مصطفے ﷺکی متابعت کو لازم پکڑا
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ61 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی