غزل
ترے جیسا چلن اس کو زمانے آ ہی جائے گا ٹھکانہ جب نہ پائے گا، ٹھکانے آ ہی جائے گا
ہزاروں رنجشیں بھی ہوں مگر دل کا مسلماں ہے وہ پہلے کی طرح اب بھی منانے آ ہی جائے گا
غلط فہمی کے یہ بادل بھی آخر چھٹ ہی جائیں گے ندی میں چاند خود شب کو نہانے آ ہی جائے گا
قسم کھا کر نہ آنے کی، وہ آیا تویہیں آیا وہ پھر جھوٹی قسم کوئی اٹھانے آ ہی جائے گا
وہ خوشبو کی قبا اوڑھے ہوئے پھرتا ہے روز و شب ادھر رخ کر لیا جب بھی ہوا نے آ ہی جائے گا
یہ آہیں، درد، یادیں، اشک ، فریادیں، گلے شکوے امانت ہیں یہ سب اس کے خزانے آہی جائے گا
وہ کس کس کو ملے آخر، وہ کس کس کور کے دل میں؟ بدلنے کے لیے اپنے ٹھکانے آ ہی جائے گا
اس امید کا ناصر جلا کر دیپ رکھا ہے اگر سن لی مری ، میرے خدا نے آ ہی جائے گا
غزل
ملتا ہے مگر کوئی حوالہ نہیں رکھتا بیان میں کیا آئے جو چہرہ نہیں رکھتا
جل کر ہی نہ مر جاؤں کڑی دھوپ کے ہاتھوں بادل جو مرے سر پر ہے سایہ نہیں رکھتا
کیا میں ہی ترے پیار سے محروم رہوں گا؟ کیا میرا مقدر ہی ستارہ نہیں رکھتا؟
میں ڈوب کے بھی تشنہ کی ساتھ لیے ہوں دریا تو کناروں کو پیاسا نہیں رکھتا!
وہ پھول بتاؤ کہ جو خوشبو سے تہی ہو وہ چاند بتاؤ کہ جو ہالہ نہیں رکھتا
پہچان بھی یاروں نے مری چھین لی مجھ سے بندے کو تو اللہ بھی تنہا نہیں رکھتا
اس شہر میں چھاؤں ہے نہ سایہ کسی شے کا اس شہر کا سورج ہی ُجالا نہیں رکھتا
اس جرم کی پاداش میں مارا گیا ناصر جو خود پر دکھاوے کا لبادہ نہیں رکھتا
غزل
گو زمیں پر مکان رکھتے ہیں آسمان تک اڑان رکھتے ہیں
تم ادائیں جو بیچنا چاہو رہن سارا جہان رکھتے ہیں
کر گزرتے ہیں جو بھی کہہ دیں ہم مردوں والی زبان رکھتے ہیں
کچھ نہ پاؤ گے جھانک کر دل میں ہم تو مٹھی میں جان رکھتے ہیں
سب کی نظروں سے پی کے بات کرو لوگ آنکھوں میں کان رکھتے ہیں!
تم تو تم ہو تمہاری گلیوں کے سارے گھر بھی شان رکھتے ہیں
ہم فقیروں کے بارے میں ناصر لوگ کیا کیا گمان رکھتے ہیں
غزل
صبا کے جام میں مجھے نچوڑ کر چمن پلا مری مہیب رات کو تو چاند کی کرن پلا
محبتوں کی آڑ میں نہ نفرتوں کا زہر دے پلانا ہے تو روح کو مٹھاس کا بدن پلا
مری نوا، نوا نہیں؛ صدا، صدائیں کھو چکی مری صدا کو پائلوں کی تو چھنن چھنن پلا
خدایا میں فقیر ہوں ابوذری کی شان دے ہوس کے جو نقیب ہیں انہیں سیاہ دھن پلا
بہار کو بہار میں خزاؤں کے نہ رنگ دے خزاؤں میں خزاؤں کو بہار کا چلن پلا
منافقت کے سانپ ہیں دلوں میں گھر کیے ہوئے انہیں وفا و آشتی و آگہی کا فن پلا
یہ ناصر آج کیا ہوا، ساعتوں کا قحط ہے انہیں غزل میں گھول کر صداؤں میں سخن پلا
غزل
کرے گی روح کو گھائل یہ پراسرار خاموشی که محورقص ہے اب تو سر بازار خاموشی
دلوں میں تو قیامت کی مچا دی ہے صداؤں نے مگر باہر تو ہے اب بھی پئے آزار خاموشی
نہ گھبراؤ کہ تم میری طرح کر لو گے سمجھوتہ تمہارے گھر میں آج اتری ہے پہلی بار خاموشی
دلوں کی دھڑکنیں تک تو میں گن سکتا ہوں محفل میں مسلط ہو گئی ذہنوں کو یوں عیار خاموشی
کسی کی یاد آئی باندھ کر گھنگھرو جو آنگن میں سرایت کر گئی چھن چھن میں دل آزار خاموشی
عجب سی سوگواری ہے،لہو کے گرم چھینٹوں سے بھلا اس شہر کی توڑیں گے کیا اخبار خاموشی؟
سلب کر لی ہے گویائی جمود وقت نے سب کی بغاوت پر اتر آئی ہے پھر اک بار خاموشی
میں اپنے آپ سے نالاں بھی ہوں ناصر گریزاں بھی مرا پیکر ہے خاموشی، مری گفتار خاموشی
غزل
خاموش ستم گر ہے، ستم بول رہا ہے مدت سے مرے سینے میں غم بول رہا ہے
گزرا ہے وہ کس شان سے اس راہ گزر سے اس شوخ کا ہر نقش قدم بول رہا ہے
حالات کے منصف کے کٹہرے میں کھڑا ہوں میں چپ ہوں مگر میرا قلم بول رہا ہے
یاں بولنے والوں کی ہے خنجر سے تواضع زیرک ہے وہی شخص جو کم بول رہا ہے
ناصر ترے اشعار میں اللہ رے شوخی! لگتا ہے پس پرده عدم بول رہا ہے
غزل
لمحہ لمحہ اداس رہتا ہے دل ہمارا اداس رہتا ہے
میں تو میں ہوں تمہارے جانے سے میرا سایہ اداس رہتا ہے
چاند کہتا ہے جانے کیا آکر ہر ستاره اداس رہتا ہے
مسکرانے کی لاکھ کوشش کی پھر بھی لہجہ اداس رہتا ہے
تھرتھرائی ہے لو چراغوں کی اور اجالا اداس رہتا ہے
ماندے ہارے مسافروں کی طرح ذہن میرا اداس رہتا ہے
جب وہ مل کر چھوڑنے والا ہو اک زمانہ اداس رہتا ہے
آئینہ ہی بتائے گا ناصر کون کتنا اداس رہتا ہے؟؎
غزل
بنے ہو ہم سفر جب سے، سفر ہم نے خریدے ہیں کبھی رہنا نہیں جن میں وہ گھر ہم نے خریدے ہیں
تمہیں شاہوں کی چوکھٹ پر پڑی دستار سے مطلب رہیں جو وقت کے نیزے پر سر، ہم نے خریدے ہیں
ہمیں وہ مل گیا آخر، جسے اوروں نے چاہا تھا دعا اغیار نے مانگی اثر ہم نے خریدے ہیں
ہمارے چار سو رہتا ہے اشکوں سے چراغاں سا شجرتم نے لگایا تھا، ثمر ہم نے خریدے ہیں
تمیں دیوار چننے کاجنون تھا، شوق تھا جاناں! ہوائیں جن سے آتی ہیں وہ در ہم نے خریدے ہیں
ہمارے گیت گائیں گی یہ لہریں عمر بھر ناصر سفینے بیچ کر آخر بھنور ہم نے خریدے ہیں
غزل
تن من خاک میں رول دیا ہے اک اک عقدہ کھول دیا ہے
پہلے کاٹ دیئے پر میرے پھر دروازہ کھول دیا ہے
دل کو کر کے دریا اس نے ہاتھوں میں کشکول دیا ہے
ہم نے اس کو خوشبو سمجھا اور پھولوں میں تول دیا ہے
اک دروازہ بند ہوا تو سو در اس نے کھول دیا ہے
دل سے اشک نکال رہا ہوں رب نے آنکھ کا ڈول دیا ہے
اس نے اپنے حسن کا سورج میری غزل میں گھول دیا ہے
میرےبوڑھے ذہن کو اس نے سوچوں کا سمسول دیا ہے
جو کچھ میرے خدا نے ناصر مجھ کو دیا انمول دیا ہے
غزل
دل میں جب اک یاد پر انی آتی ہے وہ بھی بن کے آنکھ میں پانی آتی ہے
کھول نہ اب معصوم خطاؤں کی قبریں ہر اک پر اک بار جوانی آتی ہے
مت کھینچو تکرار کی سولی پر اس کو مدت میں اک رات سہانی آتی ہے
سیکھ لیئے ہیں ہم نے گر تنہائی کے ہم کو بھی اب رات بتانی آتی ہے
لگ جاتا ہے تیری یاد کا میلہ سا کم کم اب گھر میں ویرانی آتی ہے
کرتا ہوں قربان ہزاروں اشکوں کو یاد حسین کی جب قربانی آتی ہے
دل بھی خون کے آنسو روتا ہے ہر پل اس دریا پر بھی جولانی آتی ہے
دھوپ اترتی ہے یوں میرے گھر ناصر جیسے کوئی شے بیگانی آتی ہے
غزل
جن لوگوں کو اندھے وقت کی دار پہ کھینچا جائے گا آنے والے وقت میں ان کو ہیر و لکھا جائے گا
رسوائی کا داغ لگانا سوچ کے اپنی ہستی پر لگ جانے کے بعد مگر یہ داغ نہ دھویا جائے گا
جن لوگوں نے دین کو بھی دروازے مقفل رکھے ہیں تاریکی میں سب سے پہلے ان کو لوٹا جائیگا
تنہائی کی بات کو چھوڑو تنہا ایک زمانہ ہے دیکھنا ہے اس بار کہاں تک تنہا تنہا جائے گا
یوں تو ہر محفل میں ناصر داد ہمیشہ پاتا ہوں لیکن میری بات کو میرے بعد ہی سمجھا جائے گا
غزل
بیاں نامعتبر ہونے لگے ہیں کہ لہجے بے اثر ہونے لگےہیں
زمیں نے موت اوڑھی ہے بدن پر خلاؤں میں سفر ہونے لگے ہیں
دراز اب سائے ہوتے جا رہے ہیں کہ ہم ہی مختصر ہونے لگے ہیں!
اپاہج ہے نظام زندگی اب یہ انسان بے ہنر ہونے لگے ہیں
اندھیرا سسکیاں لینے لگا ہے بدن پھولوں کے تر ہونے لگے ہیں
فضاؤں میں ہیں سناٹوں کی چیخیں مقفل سارے در ہونے لگے ہیں
مرے شہروں میں گھس آئے ہیں جنگل کہ اب نیلام گھر ہونے لگے ہیں
فنا کے گھاٹ جو اترے تھے ناصر وہی لمحے امر ہونے لگے ہیں
غزل
میں تیری عنایت کا سزاوار نہیں ہوں سچ کہنے کا عادی ہوں اداکار نہیں ہوں
زنجیر کی پیروں میں صدا گونج رہی ہے تم پھر بھی بضد ہو کہ گرفتار نہیں ہوں
پیاسا ہوں مگر آنکھ میں رکھتا ہوں سمندر خیرات کے ساون کا طلبگار نہیں ہوں
جھڑ کر بھی اسی خاک کے سینے پہ گروں گا میں پھول تو ہوں پھول کی مہکار نہیں ہوں
ڈھلتا ہے جو سورج تو ڈھلے میری بلا سے دیوار ہوں میں سایہء دیوار نہیں ہوں
ہر چیز کی تخلیق میں حکمت ہے خدا کی جس حال میں ہوں جیسا ہوں بے کار نہیں ہوں
آنکھیں ہیں کھلی میری جھپکتا ہوں مسلسل اور آپ کی تکرار ہے بیدار نہیں ہوں
جب چاہے سجا لے مجھے لب پر کوئی ناصر ہوں پیار کی جھنکار میں للکار نہیں ہوں
غزل
مہکنے پر سزا ہونے لگی ہے مری دشمن ہوا ہونے لگی ہے
کٹہرے میں جو سچی بات کہہ دی قیامت سی بپا ہونے لگی ہے
میں کچی راہ کا خوگر نہیں ہوں یہ بارش کیوں بھلا ہونے لگی ہے؟
مجھے لایا ہے مقتل میں زمانہ مری قیمت ادا ہونے لگی ہے
تعجب ہے کہ خواہش آج دل میں کوئی تیرے سوا ہونے لگی ہے
میں خوگر ہو گیا ہوں اس کا ناصر یہ تاریکی دیا ہونے گئی ہے
غزل
اپنی عادت ہو گئی ہے ایک منظر دیکھنا دیپ کاغذ کے جلانا اور شب بھر دیکھنا
مجھ کو اب تک یاد ہے سرگوشیوں کا سلسلہ آہٹوں پر چوکنا پھر آ کے باہر دیکھنا
کس قدر رونے کے عادی ہو گئے ہیں یہ لوگ اک عجوبہ سا لگے ہے مسکرا کے دیکھنا
مانتا ہوں ہے غنیمت دوستو! کچا مکاں جب کبھی برسات آئی اس کے تیور دیکھنا
ایک تیرے در نے کتنے در لئے مجھ سے چھڑا میری قسمت میں نہیں اب جا کے در در دیکھنا
حضرت واعظ کے دیں کی ایک نشانی یہ بھی ہے خود کو کہنا پارسا أوروں کا کافر دیکھنا
اتفاقا تو نہیں ہے اس کا ناصر یہ ورود پھر بھی آئے گی چمن میں بادصرصر دیکھنا
غزل
زرد رت کو گلاب کیا دے گا؟ بوڑھا موسم شباب کیا دے گا؟
تو نے میرا سوال ٹھکرایا تو خدا کو جواب کیا دے گا؟
جس کو تو نے دیا نہیں کچھ بھی وہ بھی مجھ کو حساب کیا دے گا؟
تیرے اعمال میں نمائش ہے تجھ کو مولا ثواب کیا دے گا؟
خواب میرے کھٹکتے ہیں جس کو مجھ کو اپنے وہ خواب کیا دے گا؟
جس کا خانہ خراب ہے ناصر تجھ کو خانہ خراب کیا دے گا؟
غزل
ستم گر آنکھ کو پھر بھا گیا تو وہی طوفاں دوبارہ آ گیا تو
یہ دریا ہے ، اس کا کیا بھروسہ کناروں سے جو باہر آ گیا تو
تو بیداری میں ہے جس سے گریزاں مجھے خوابوں میں وہ چونکا گیا تو
نہ دے پاگل کے ہاتھوں میں تو پتھر تری جانب اگر وہ آ گیا تو
ترا شکوہ بھی سر آنکھوں پر لیکن مرے لب پر جو شکوہ آ گیا تو
تو جس کی شہ پر جگنو مارتا ہے اگر وہ چاند ہی گہنا گیا تو
کرے گا تو شکایت کس سے ناصر کرم فرما، کرم فرما گیا تو
غزل
کبھی خوش تو کبھی بیزار نظر آتا ہے ڈوبتی ناؤ کی طرح پیار نظر آتا ہے
کاٹ دیتا ہے لمحوں میں پرانے رشتے وقت نادیده سی تلوار نظر آتا ہے
ایسا لگتا ہے کہ اندر سے کہیں ہے زخمی دوست ہو کے بھی وہ خوں خوار نظر آتا ہے
کتنے ہتھیار اٹھا رکھے ہیں اس نے لیکن آدی خوف سے دوچار نظر آتا ہے
جب سے وہ چھوڑ گیا مجھ کو سر راہ کہیں اپنا پہلو بھی مجھے غار نظر آتا ہے
اک تسلسل سے مجھے درد دیا ہے اس نے آدمی صاحب کردار نظر آتا ہے
نام لیتا ہے چھوڑنے کا وہ جب بھی ناصر گھر کا ماحول بھی بیمار نظر آتا ہے
غزل
ہرزخم نئی آن سے مہکا ہوا دیکھا دریائے غم دوست کو بپھرا ہوا دیکھا
روتے ہوئے لوگوں ہنسی آتی تھی جس کو آج اس کو بھی تنہائی میں روتا ہوا دیکھا
دیکھا ہے اسے پڑھ کےتیرے کرب کا چہرہ پلکوں پر تری اشک جو اٹکا ہوا دیکھا
لگتا ہے، بڑی زور سے برسی ہیں گھٹائیں کاجل جو کسی آنکھ میں پھیلا ہوا دیکھا
کہتے ہیں بتاتا تھا وہ آئندہ کی خبریں وہ شخص جو فٹ پاتھ پر مرتا ہوا دیکھا
ہوتا تھا کبھی ایک ہجوم اس کے جلو میں وہ آج اکیلا ہی گزرتا ہوا دیکھا
دریائے محبت ہے وہ دریاؤں میں دریا ہم نے جسے ہر دور میں بہتا ہوا دیکھا
ناصر نے ولی مان لیا وقت کا اس کو جو اٹھتی جوانی میں سنبھلتا ہوا دیکھا
غزل
مجھ کو چھوڑ کے جانے والا ایک ہی شخص جان کا دشمن، جان سے پیار ایک ہی شخص
کر کے خود ویران جزیرے خوابوں کے رہتا ہے اب تنہا تنہا ایک ہی شخص
کھنک پڑی تھی جس کے آنے سے بستی اس رتبے کا گزرا شہر سے ایک ہی شخص
جس کو دار پر کھینچا پاگل لوگوں نے دیوانوں میں تھا فرزانہ ایک ہی شخص
ٹوٹے ہوئے آئینوں پر وہ روتا تھا إن اندھوں میں آنکھوں والا ایک ہی شخص
ناصر اس کو نفرت ہے سب لوگوں سے لیکن سب کی آنکھ کا تارا ایک ہی شخص
غزل
مر جاؤں گا دنیا کو خبر ہونے نہیں دوں گا ہر حال میں تو ہین ہنر ہونے نہیں دوں گا
اٹھے ہیں قدم میرے تو منزل پر کہیں گے بے نیل و مرام اپنا سفر ہونے نہیں دوں گا
ٹوٹے ہوئے خوابوں کو کفن دینے سے پہلے یہ زبان میں ٹھانی ہے ، سحر ہونے نہیں دوں گا
جب تک تری یادوں کی یہاں ناؤرہے گی آنکھوں میں کوئی پیدا بھنور ہونے نہیں دوں گا
کر دوں گا فدا بچوں میں خواب سہانے ان پودوں کو بے برگ ثمر ہونے نہیں دوں گا
سوچیں تو میری اب بھی فلک بوس رہیں گی صیاد کا دعوی ہے کہ پر ہونے نہیں دوں گا
اس دور میں جو صورت حالات ہو ناصر میں رنگ تغزل پہ اثر ہونے نہیں دوں گا
غزل
آنکھ سے آنسو برسے ہیں درد ہزاروں مہکے ہیں
شہر میں رہنے والے بھی ناگ بڑے زہریلے ہیں
شعلے پھر مجبوری کے میری جانب لپکے ہیں
طوفانوں سے کون کہے؟ پیڑ تو سارے ننگے ہیں!
بارش مانگیں کس منہ سے؟ گھر تو اپنے کچے ہیں!
جنگل جیسے شہروں میں آج کے انساں رہتے ہیں
مانگ رہے ہیں سڑکوں پر یہ اس دیس کے بچے ہیں!
مانا میں تو پاگل ہوں خواب مرے فرزانے ہیں
جانوروں کے جنگل میں چور اچکے بستے ہیں؟
اک ناصر ہی جھوٹا ہے لوگ تو سارے سچے ہیں!
غزل
میں نے گایا تھاجسے پیار کے نغموں کی طرح
لوٹ کے آیا نہ وہ گزرے ہوئے لمحوں کی طرح
پھر صدا وہ کبھی زیب سماعت نہ ہوئی
روز سنتا تھا جسے رات کو خبروں کی طرح!
اس کے آنے سے چہک اٹھنا وہ تنہائی کا
گنگناتی تھی مری رات اجالوں کی طرح
اس کی مرضی ہے یقیں مجھ پر کرے نہ کرے
میں اسے چاہتا ہوں اپنے اصولوں کی طرح
میرے اندر ہے کوئی ہانپتا صحرا جیسے
سانس آتی ہے مگر وحشی بگولوں کی طرح
ایک منڈی کا سماں پیش نظر ہے ہرسو
لوگ پکتے ہیں یہاں برف کے گولوں کی طرح
کتنا سادہ ہے وہ نادان سا ہے جیسے!
اس کی باتیں ہیں مگر الجھے سوالوں کی طرح
ہم وہ نایاب سی دولت ہیں جہاں میں ناصر
لوگ ڈھونڈیں گے بھی ہم کوخزانوں کی طرح!
غزل
افکار کی دنیا کو نئی سمت وکھا دیں لازم ہے سرراہ نئے دیپ جلا دیں
دینا نہیں مزدور کی کٹیا کو اجالا کہہ دو یہ ملائک سے کہ خورشید بجھا دیں
آتے ہیں ہر شام نئے چاند ستارے یوں آج قدم رنجہ ہیں اس شوخ کی یادیں
اب ذہن میں آتا ہے کہ آنکھوں کے ورق پر گزرے ہوئے لمحات کی تصویر سجا دیں
پیڑوں نے پہن لی ہیں جو سرسبز قبائیں ڈرتا ہوں کہ موسم ہی نہ طوفاں کو بتا دیں
جی چاہا بھکاری سے کہوں، اور بھی کچھ مانگ! جب اس نے کہا، پوری ہوں ترے دل کی مرادیں
تقدیر مرے شہر میں گل پو چھ رہی تھی رہتا ہے یہاں اب بھی تو ناصر کا پتا دیں
غزل
ہےناممکن کہ ہو مفلس کے شانوں پربھی سر پیدا
کیا پیدا غریبوں کو کیا لیکن نہ گھر پیدا
یہ آہیں، سونی را ہیں اور یہ وحشت بھری راتیں
خدا کا شکر! میرے بھی ہوئے ہیں ہم سفر پیدا
نہیں کوئی بھی نظاره برا سارے زمانے میں
نظر کے ساتھ ہو جائے اگر حسن نظر پیدا
ترا راتوں کا رونا رائیگاں ہرگز نہ جائے گا
ترے إن بانجھ لمحوں سے کبھی ہو گی سحر پیدا
کسی کو ایک ہی سر نے نہ چھوڑا سر اٹھانے کا
کسی کو ہے تمنا، اور ہو اک سر پہ سر پیدا
تہ دریا کوئی محشر، کوئی طوفان اٹھتا ہے
سر دریا وگرنہ خود نہیں ہوتے بھنور پیدا
بڑی ہیں حسرتیں لیکن بقول اقبال کے ناصر
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
غزل
زندگانی کا اعتبار گیا کر کے مجھ کو وہ بے قرار گیا
میرا بچپن نہ لوٹ کر آیا میں منانے کو بار بار گیا
دوستوں کی ہی مہربانی ہے ووستی کا بھی اعتبار گیا
یہ بھی اس کی روش پر چل نکلا اب تو دل پر بھی اختیار گیا
پاؤں رکھا ہی تھا بڑھاپے میں اور پھر موسم بہار گیا؟
ہار کر بھی اسی کی جیت ہو ئی اور میں جیت کر بھی ہار گیا
مجھ کو ناصر ڈبونے والا ہی جانے ساحل پر کیوں اتارگیا؟
غزل
چندلمحوں کے لیے بھی میں کہیں ٹھہرانہیں
ہر طرف ہے دھوپ میلہ نام کا سایہ نہیں
رات کی تاریکیوں میں دیکھ لیتے تھے جسے
آج دن کی روشنی میں وہ نظر آیا نہیں
میں تمہارا کچھ نہیں یہ مجھے معلوم ہے
چاندنی پھر چاندنی ہے، چاند کا حصہ نہیں
تو اگر بادل نہیں ہے پھر برسنا چھوڑ دے
مجھ کو پیاسا کیوں ہے چھوڑا میں اگر صحرا نہیں
ہم ندی کے دو کنارے مل نہیں سکتے کبھی
تیرے گھر دولت کی دیوی میرے گھر پیسہ نہیں
تیرے ماتھے پر شکن اور میری قسمت میں شکن
اپنا اپنا راستہ ہے ایک ہو سکتا نہیں
بھینٹ چڑھتی ہی رہی ہیں خواہشیں افلاس کی
پھر بھی ناصر نے بھی اپنا بنر بیچا نہیں
غزل
کتنے طوفان اٹھے تھے ہم بھی ڈوب کے ابھرے تھے
شب بھر ڈرتے رہے جن سے دیواروں کے سائے تھے
دیکھے اور پھر ٹوٹ گئے اپنے آخر سپنے تھے!
پتھر مارنے والے بھی میرے چاہنے والےتھے
باہر بھیگا موسم تھا اندر درد سلگتے تھے
جتنے بھول تھے گلشن میں سب خاروں میں جکڑے تھے
چہرے ہی بے نور نہ تھے دل بھی سب کے کالے تھے!
اتنا یاد ہے گلشن میں بال خزاں نے کھولے تھے
ہم پر جو معمور ہوئے سانپ ہمی نے پالے تھے
جن کے پاس تھا سرمایہ ہاتھ انہی کے لمبے تھے
سب کی نظریں نیچی تھیں سارے لوگ ہی ننگے تھے
مولا تیری دنیا میں سب مطلب کے بندے تھے
ناصر اپنے گھر کے بھی ہم پر بند دروازے تھے
غزل
ہر اک ذہن میں کھٹکا ہے اب کیا ہونے والا ہے؟
سورج نیا جلا لینا! چاند تو بجھنے والا ہے
دیکھا سر تو راز کھلا یہ پتھر سے کھیلا ہے
آج بھی بادل روئے ہیں آج بھی طوفان اٹھا ہے
آنکھوں میں تو پیاس نہیں اور زباں کیوں کانٹا ہے؟
دھڑکن میں ترتیب نہیں کوئی بچھڑنے والا ہے
روشنیوں کے میلے ہیں یا پھر تم نے جھانکا ہے
اشکوں کے طوفانوں میں دل بھی ڈوبنے والا ہے
مجھ کو ہی قربان کرو میرا خون ہی سستا ہے
مجھ سے گریزاں جانے کیوں؟ آج میرا ہی سایہ ہے
کانٹے کا احساس کرو پھولوں کا ہمسایہ ہے۔
ناصر میرا ماضی بھی دھندلا سا آئینہ ہے
غزل
نظر کے دیپ جلا کہ رات کالی ہے نقاب رخ سے اٹھا کہ رات کالی ہے
بجا ہے آپ کو معلوم ہیں سبھی رستے قدم سنبھل کےا ٹھاؤ کہ رات کالی ہے
لگے ہیں اونگھنے آب تو چراغ محفل کے نئے ستارےا گاؤکہ رات کالی ہے
کوئی نشانے پر ہو اور ہوکوئی زخمی ابھی نہ تیر چلا کہ رات کالی ہے
مرے خیال کی محفل دمک دمک اٹھے اک ایسا شعر سناؤ کہ رات کالی ہے
ہوا ہے ایک زمانہ وہ چاندنی دیکھے ہماری بزم سجاؤ کہ رات کالی ہے
سیاہی رات کی ڈس لے نہ ناگنوں کی طرح ابھی اکیلے نہ جاؤ کہ رات کالی ہے
مرا مزاج بھی ناصر ہے مجھ سے خود برہم مرے حواس پر چھا ؤکہ رات کالی ہے
غزل
میرے تلووں میں جتنے بھی تھے آبلے ساتھ منزل به منزل رہے آبلے
چولی دامن کا ہے ساتھ ان سے مرا کچھ پرانے ہیں اور کچھ نے آبلے
دل کے اوراق پر سب رقم کر دئیے میری قسمت کو جو بھی ملے آبلے
چاند رہتا ہے جو سفر رات کو جگمگاتے ہیں شب کو بڑے آبلے
مجھ سے دن بھر کی کہتے ہیں ساری کتھا بات کرتے ہیں مجھ سے مرے آبلے
جب نظر ہو کے مایوس لوٹ آئی تھی بن کے پلکوں پر آنسو رکے آبلے
خود بتاتے ہیں منزل کا مجھ کو پته میرے پاؤں کے لکھے پڑھے آبلے
ہیں کسی کی محبت کا زنده نشاں ولولے، سلسلے مرحلے، آبلے
ایک اک کر کے سینے میں اگنے لگے میرے پاؤں سے جس دم چلے آبلے
میں ر کا جو نہ تھا، یہ تھی میری خطا میرے پاؤں بھی آ کر پڑے آبلے
میں پہنچتا نہ منزل پر ناصر کبھی جو نہ دیتے مجھے حوصلے آبلے
غزل
خود سے کر کے پیار بہت رہتا ہوں بیزار بہت
دریا کتنےوحشی ہیں ناو إک، منجدھار بہت
آج کے اس ماحول میں ہیں انساں کم اور مار بہت
خود وہ بھولا بھالا ہے آنکھیں پر اسرار بہت
میرے چھوٹے سے گھر میں دیواریں کم غار بہت
دل تو سارے جنگل ہیں شہروں میں بازار بہت
گو چھوٹا سا لگتا ہوں رکھتا ہوں معیار بہت
یاد ہمیشہ کرتی ہے دیوانوں کو دار بہت
ہر جائی تو کلیاں ہیں پر بد نام ہیں خار بہت
آپ کی آنکھیں کہتی ہیں جاگے ہیں سرکار بہت
کاش نہ سوئیں رستے میں جن کی ہے رفتار بہت
کیا مہکیں گے پھول بھلا؟ موسم ہے بیمار بہت
ناصر آج بھی سنتے ہیں وہ میرے اشعار بہت
غزل
اپنے آپ سے ڈرتا ہوں جانے یہ کیا کرتا ہوں!
موت مجھے کیا مارے گی؟ میں تو روز ہی مرتا ہوں!
زخم به داماں رہ کر ہی بزم آرائی کرتا ہوں
میرا جرم فقط یہ ہے اپنے رب سے ڈرتا ہوں
سامنے رکھ کر آئینہ خود سے باتیں کرتا ہوں
شعر سنا کر لوگوں کو میں زخموں کو بھرتا ہوں
مہکا جائے آنگن بھی میں جس وقت نکھرتا ہوں
مجھ کو کون سمیٹے گا؟ میں تو روزبکھرتا ہوں
اپنے سر سے اے ناصر میں تو روز گزرتا ہوں
غزل
چہچہوں کی صدا نہیں آتی باغ میں اب صبا نہیں آتی
مفلسی ہو جہاں پر خیمہ زن اور کوئی بلا نہیں آتی
میں ہوں زندہ مگر میرے دل سے زندگی کی صدا نہیں آتی
حسن مہکا ہوا ہے ہر جانب اوربوئے وفا نہیں آتی
جب وہ آتے ہیں سامنے میرے یاد کوئی دعا نہیں آتی
عشق آداب سے نہیں واقف حسن کو بھی ادا نہیں آتی
یہ بھی ناصر خطا ہماری ہے یاد اپنی خطا نہیں آتی
غزل
کام آئیں گی شوخ ہوائیں لیتا جا جاتے جاتے ساتھ دعائیں لیتا جا
ریزہ ریزہ ہیں یہ میرے دل کی طرح ان پھولوں کی ساتھ قبائیں لیتا جا
رستے میں صحرا بھی حائل ہوتے ہیں یادوں کی گھنگھور گھٹائیں لیتا جا
گزرے وقت کی یاد دلائیں گی تجھ کو میری کچھ معصوم خطائیں لیتا جا
میرے سینے میں جو آہیں بھرتی ہیں وہ بیمارخموش صدائیں لیتا جا
تیرے بعد یہ میری نیند کو چاٹے گی میرے گھر کی سائیں سائیں لیتا جا
ناصرتو تو اس کا چاہنے والا ہے اس کی اپنے ساتھ بلائیں لیتا جا
غزل
دشمنی کا ختم اب قصہ کرو بھول جاؤ تلخیاں ایسا کرو
غم نہ ہوگا لاکھوں غم بھی ہوں گے اگر دل میں پیدا وسعت صحرا کرو
راستوں سے خار چن لینے کے بعد راستوں میں پھول بھی رکھا کرو
خود بنیں گے راستوں سے راستے پہلے خود کوئی راستہ پیدا کرو
کہنے والوں کی سنے جاؤ مگر جو کہے دل آپ کو ویسا کرو
ایک ہی دل میں رکھو رکھنے کی چیز باقی ہر اک چیز کو چلتا کرو
اور بھی ہیں کام کرنے کے لیے پیار سے ہٹ کر بھی کچھ سوچا کرو
کم سے کم اٹھیں گی تم پر انگلیاں محفلوں میں کم سے کم بولا کرو
اب وہ ملنے سے رہا ناصر ہمیں حال ول اخبار میں لکھا کرو
غزل
کام کرنے کا کر لیا جائے اپنے مولا سے ڈر لیا جائے
تہمتوں کی زد میں ہے دنیا کس کا الزام سرلیا جائے؟
زندگی نے تو جو دیا سو دیا کیوں عزت سے مرلیا جائے
شہر سانپوں سے بھر گئے سارے کیوں نہ جنگل میں گھر لیا جائے
بھاگ ناصر اندھیری بستی سے تو نہ چوروں میں دھر لیا جائے
غزل
تیکھی تیکھی شعاعوں نے چپ سادھ لی
جانے کیوں اس کے جلووں نے چپ سادھ لی
بہکی بہکی ہواؤں کا دیکھا چلن تو چمن کی فضاؤں نے چپ سادھ لی
اپنے مطلب پر چیخے مگر دیکھئے ! میری باری پر لوگوں نے چپ سادھ لی
ہے یہ طوفان کا حق زور بھی شور بھی آپ دیکھیں کناروں نے چپ سادھ لی
سارے الزام کانٹوں کے گھر پھینک کرمہکے مہکے گلابوں نے چپ سادھ لی
سسکیاں سن کے جنگل کے ماحول کی شہر کی ہنستی گلیوں نے چپ سادھ لی
جانے کیوں آشیانہ مرا دیکھ کر آج وحشی بگولوں نے چپ سادھ لی
ہاتھ کس جادوگر نے لگایا انہیں دل کے مخمور سازوں نے چپ سادھ لی
ایسی بکھری ہے ہر سو نئی روشنی کرم خورده اجالوں نے چپ سادھ لی
چھوڑ کر اس کا جانا تھا ناصر کہ پھر گاتے نظاروں نے چپ سادھ لی
غزل
ظلمتوں سے نباہ مت کرنا روشنی کو تباہ مت کرنا
بے ہنر کو جو داد دیتا ہے اس کے دل میں بھی راہ مت کرنا
زخم دے کر علاج پھر میرا میرے عالم پناہ! مت کرنا
کم نگاہی کا ہو شبہ جس پر مجھ پر اسی نگاه مت کرنا
گھر کے جگنو سے بدگماں ہو کر اس کے تارے کو ماہ مت کرنا
اس کی زد میں نہ تو بھی آ جائے ظلم دیکھو تو واہ مت کرنا
جس کی زد پر رہیں تیری نسلیں ایسا کوئی گناہ مت کرنا
توڑ ڈالے نہ خود تو آئینہ اتنا چہرہ سیاہ مت کرنا
یہ محبت میں کفر ہے ناصر ٹھیس پہنچے تو آہ مت کرنا؟
غزل
آنکھوں میں درد سجائے پھرتا رہتاہوں میں خود کو مہکائے پھرتا رہتا ہوں
خود سے ملنے سے بھی کتراتا ہوں میں جانے کیوں گھبرائے پھرتا رہتا ہوں
کر کے خود کو دفن ہوا کی تربت میں اپنی قبر اٹھائے پھرتا رہتا ہوں
دشمن بھی تو میرا کوئی نہیں لیکن اپنا آپ چھپائے پھرتا رہتا هوں؟
کوئی تو بتلائے میرے بارے میں کیسا روگ لگائے پھرتا ہوں؟
توڑ نہ دے یہ پیٹھ کسی دن اے ناصر نام کا بوجھ اٹھائے پھرتا رہتا ہوں
غزل
بچھڑا وہ اس طرح کہ دوبارہ نہیں ملا ہم کو ہمارے بخت کا تارہ نہیں ملا
ٹوٹا تھا آسماں سے جو میرے نصیب کا جانے کہاں گرا ہے ستارہ نہیں ملا
پہنے ہوئے ہوں اس لیے خاموشیوں کا خول اظہار مدعا کا اشارہ نہیں ملا
بتلائیں کس طرح کسی اور کا پتا؟ ہم کو تو کوئی کھوج ہمارا نہیں ملا !
زندہ ہیں ایسے لوگ بھی دنیا میں بے شمار جن کو تری وفا کا سہارا نہیں ملا
خود پر یقیں نہ ہونے کی ناصر یہ ہے دلیل مضبوط کشتیوں کو کنارہ نہیں ملا
غزل
اختتام سفر بھی دیکھ لیا ہم نے اپنا پر بھی دیکھ لیا
زندہ رہ کے یہ گھر بھی دیکھ لیا مر کے اپنا وہ گھر بھی دیکھ لیا
اپنی نظروں سے گر گئے خود ہی اپنا حسن نظر بھی دیکھ لیا
میری پگڑی اچھال کر رکھ دی آج سچ کا اثر بھی دیکھ لیا
درد بویا تھا آنسو کاٹ لیے پیڑ دیکھا، ثمر بھی دیکھ لیا
جس نے سچ کو کہا تھاسچ ناصر اس کا نیزے پر سر بھی دیکھ لیا
غزل
ظالموں سے حساب لینا ہے زندگی کا عذاب لینا ہے
اس کے منہ میں نہیں زباں اپنی جس نے مجھ سے جواب لینا ہے
ہو نظر بھی کوئی تعاقب میں جس کی شہ پر نقاب لینا ہے
میری نیندیں بھی ساتھ لیتا جا مجھ سے کوئی جو خواب لینا ہے
قتل کرنا ہے اپنی ہستی کو جرم کر کے ثواب لینا ہے
بے وفاؤں سے کر وفا ناصر خشکیوں سے گلاب لینا ہے
غزل
جو غم سہنے کا خوگر ہو گیا ہوں میں مفلس تھا تو نگر ہو گیا ہوں
تمہارے نام سے پہچاں ہو میری میں دریا تھا سمندر ہو گیا ہوں
میری قسمت میں شاید ٹھوکریں ہیں تری بستی میں پتھر ہو گیا ہوں
کوئی کیوں پیاربوئے میرے دل میں؟ کہ اک مدت سے بنجر ہو گیا ہوں
کسی کو کیا جگہ دی اپنے گھر میں میں گھر والا تھا بے گھر ہو گیا ہوں
تو شاید آب مجھے پہچان لے گا اندھیرے میں منور ہو گیا ہوں
سلیبس ہوں محبت کا میں ناصر زمانے بھر کو ازبر ہو گیا ہوں
غزل
دیکھ ذرا حالات کے آنسو درد بھری برسات کے آنسو
چٹکی ہیں کس شان سے کلیاں پی کر بھیگی رات کے آنسو
برسیں گے انگارے بن کر در پرده جذبات کے آنسو
میری سوچ میں گھل جاتے ہیں ساری کائنات کے آنسو
ہر اک کا غم ایک طرح کا سب آنسو اک ذات کے آنسو
دریاؤں کی جھولی میں ہیں پربت کی خیرات کے آنسو
دیکھ کے میری حالت ناصر به نکلے آفات کے آنسو
غزل
اگر کہنا تو اس کا مانتا ہے تو پھردشمن کسے گردانتا ہے؟
گنہ آلود ہے ان کی ہوا بھی تو جن گلیوں کی مٹی چھانتا ہے
نہ کوئی آیانہ کوئی بچھڑا ہے مجھ سے لگا یادوں کا کیوں کر تانتا ہے؟
تعارف میں کروں کیا پیش اپنا؟ مجھے مدت سے تو پہچانتا ہے
وہ کرتا ہے گلہ جس کا اسی پر جو نکلے دھوپ زلفیں تانتا ہے
ہیں در در کے نشاں اس کی جبیں پر نہ جانے کس خدا کو مانتا ہے؟
ملا تجھ سے نہیں ناصر کبھی وہ بتا تو اس کو کیسے جانتا ہے؟
غزل
تیری محفل میں ایسے دیوانہ جاتا ہے جیسے شمع پر کوئی پروانہ جاتا ہے
نام بدل لینے سے کب تاثیر بدلتی ہے؟ پیڑ تو اپنے پھول سے ہی پہچانا جاتا ہے
خود کو دھوکہ دینے کی اک کوشش ہے رشوت کو بھی نذرانہ گردانا جاتا ہے
میں نے گھر کے کتنے در بدلائے ہیں دل کو رستہ وہ ہی پرانا جاتا ہے
تھک جاؤ گے میرے ساتھ کے ساتھ میرے دور بہت ہی دور تلک ویرانہ جاتاہے
جب دھنستے ہیں وقت کی دلدل میں ظالم قارونوں کے ساتھ خزانہ جاتا ہے
اس کو کہہ دیتے ہیں لوگ خدا اپنا جس کا کہنا درباروں میں مانا جاتا ہے
اپنا قبلہ سیدھار کھ تو اے ناصر جانے دے جس طرف زمانہ جاتا ہے
غزل
خزاں میں بھی مہکتا جا رہا ہوں ہواؤں میں بکھرتا جا رہا ہوں
تو ہے صحراؤں کی دنیا کا دریا میں بادل ہوں برستا جا رہا ہوں
کوئی بچہ سا ول میں چیختا ہے کھلونوں سے بہلتا جا رہا ہوں
ملایا خاک میں تو نے مگر میں ستاروں سے بھی اونچا جا رہا ہوں
وہ دیتا ہے جوصدموں کے تحائف انہی شعلوں میں جلتا جا رہا ہوں
بجھایا تھا مجھے سورج نے لیکن اندھیرے میں چمکتا جا رہا ہوں
ابھی آئےنہیں جو شاخ گل پر میں وہ کانٹے بھی چنتا جارہا ہوں
ہیں ناصر چاند کی مانند ہی دونوں وہ بڑھتا ہے میں گھٹتا جا رہا ہوں
غزل
کیسے جینا ہے کیسے مرنا ہے؟ غور اس مسئلے پر کرنا ہے
کیا امیری ہے۔ کیا غریبی ہے؟ ایک ہی پل سے جب گزرنا ہے
اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہی نہیں جس کی خاطر ہمیں سنورنا ہے
تو تو زخموں کی لے چکا قیمت تیرے زخموں نے کیا نکھرنا ہے!
ہیں یہ آداب غرق ہونے کے ڈوب جانا ہے پھر ا بھرنا ہے
سارے الزام ڈال دو اس میں میرا کشکول ہی جو بھرنا ہے
کھود لی ہے لحد جو ہاتھوں سے اس میں خود ہی ہمیں اترنا ہے
اس کو چھونا تو ہے مگر ناصر جلتا سورج تلی پر دھرنا ہے
غزل
جذبات کو سینے میں دبایا نہیں جاتا زنجیر سے کرنوں کو تو جکڑا نہیں جاتا
شبنم سے تو صحراؤں کی گرمی نہیں جاتی اشکوں سے کبھی کھیت کو سینچا نہیں جاتا
مظلوم کو کرتے ہیں کبھی صبر کی تلقین پر ظلم کرے وار تو روکا نہیں جاتا
بادل کی خلاؤں میں کوئی سیڑھی لگا کر تاروں کو بھی ہاتھ سے توڑا نہیں جاتا
تنہائی کے زندان میں کیا آنکھ لگے گی؟ جیتے ہوئے تو قبر میں سویا نہیں جاتا
کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ فن بیچ رہا ہوں اولاد کو بازار میں بیچا نہیں جاتا
گھلتا ہے ترے آنے سے یہ دل کا در پچہ ہر ایک کی آمد پر تو کھولا نہیں جاتا
ناصر یہ حقیقت ہے حقیقت ہی رہے گی دولت سے بھی پیار کو تولا نہیں جاتا