مختلف سوالوں کے جواب میں میرمحمد نعمان کی طرف صادر فرمایا ہے:۔
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الحمد لله وسلام على عباده الذين اصطفى (الله تعالی کے لیے ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو)۔
آپ نے پوچھا تھا کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ سالک عروج کے وقت اپنے آپ کو انبیاء کے اصحاب کرام کے مقامات میں پاتا ہے جو انبیاء کے بعد بالاتفاق تمام بنی آدم سے افضل ہیں، بلکہ بسا اوقات اپنے آپ کو انبیاء کے مقامات میں پاتا ہے۔ اس معاملہ کی حقیقت کیا ہے۔ اس امر سے بعض لوگ وہم کرتے ہیں کہ وہ سالک ان مقامات والوں کے ساتھ برابر اور شر یک ہے اور اس وہم وخیال سےسالک کور دوطعن کرتے ہیں اور اس کے حق میں ملامت و شکایت کی زبان دراز کرتے ہیں۔ اس معما کو بخوبی حل کرنا چاہئے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ادنی شخص کا اعلى لوگوں کے مقامات میں پہنچنا بھی اس طرح ہوتا ہے جس طرح فقیر اور محتاج دولتمندوں کے دروازوں اور منعموں کے خاص مکانوں میں جانکلتے ہیں۔ تا کہ ان سے اپنی حاجت طلب کریں اور ان کی دولت ونعمت سے کچھ مانگیں۔ وہ بہت ہی بیوقوف ہے جو اس طرح کے جانے کو برابری اور شر کت خیال کرے۔ کبھی یہ وصول تماشا کے طور پر ہوتا ہے تا کہ کسی واسطہ اور وسیلہ سے امیروں اور بادشاہوں کے خاص مکانوں کی سیر کریں اور اعتبار کی نظر سے تماشا کریں تا کہ بلندی کی رغبت پیدا ہو۔ اس وصول سے برابری کا وہم کس طرح ہوسکتا ہے اور اس سیر تماشا سے شرکت کا خیال کس طرح پیدا ہوسکتا ہے اور خادموں کا اپنے مخدوموں کے اصل مکانوں میں اس غرض کے لیے جانا کہ خدمت بجا لائیں۔ ہر ایک ادنی واعلی کو معلوم ہے۔ وہ بیوقوف ہی ہوگا جو اس وصول سے برابری و شرکت کا وہم کرے گا۔ فراش (فرش بچھانے والا)ومگس ران (مکھیاں اڑانے والا)اور شمشیر برادر ہر وقت بادشاہوں کے ہمراہ رہتے ہیں اوران کے خاص خاص مکانوں میں حاضر ہوتے ہیں۔ وہ بھی اور دیوانہ ہے جو اس سے شرکت و مساوات کا وہم کرے ۔
بلائے درد منداں از در و دیوار مے آید ترجمہ: درودیوار سے آتی بلا ہے دردمندوں کی
لوگ بیچارےسالک کی ملامت کے لیے بہانہ طلب کرتے ہیں اور اس کی طعن وتشنیع کے لیے کوئی نہ کوئی وجہ تلاش کرتے ہیں۔ حق تعالی ان کو انصاف دے ان کو چاہئے تھا کہ اس بیچارہ کے حق میں کوئی ایسی وجہ ڈھونڈ تے جس سے شر وملامت اس سے دور ہوتی اور مسلمان کی عزت محفوظ رہتی ۔ طعن کرنے والوں کا حال دوامر سے خالی نہیں۔ اگر ان کا یہ اعتقاد ہے کہ اس حال والا شخص ان مقامات عالیہ والے لوگوں کے ساتھ شرکت و مساوات کا معتقد ہے۔ واقعی اس کو کافر زندیق (بے دین) خیال کریں اور مسلمانوں کے گروہ سے خارج تصورکریں، کیونکہ نبوت میں شریک ہونا اور انبیا علیہم السلام کے ساتھ برابری کرنا کفر ہے۔ ایسے ہی شیخین کی افضلیت کا حال ہے۔ جو صحابہ اور تابعین کے اجماع سے ثابت ہو چکی ہے۔ چنانچہ اس کو بہت سے آئمہ بزرگواران نے جن میں سے ایک امام شافعی ہیں نقل کیا ہے بلکہ تمام صحابہ کرام کو باقی تمام امت پر فضیلت حاصل ہے۔ کیونکہ حضرت خیر البشر علیہ الصلوة والسلام کی صحبت کی فضیلت کے برابر کوئی فضیلت نہیں۔ وہ تھوڑا سافعل جو اسلام کے ضعف اور مسلمانوں کی کمی کے وقت دین متین کی تائید اور حضرت سید المرسلین ﷺ کی مدد کے لیے اصحاب کرام سے صادر ہوا ہے دوسرے لوگ عمر بھر ریاضتوں اور مجاہدوں سے طاعتیں بجالائیں تو بھی اس فعل یسیر کے برابر نہیں ہوسکتیں۔
اس واسطے آنحضرت ﷺنے فرمایا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی کوہ احد جتنا سونا اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کرے۔ تو اصحاب کے ایک آدھ مد(سیر) جو کے خرچ کرنے کے برابر بھی نہیں ہوسکتا۔ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ اسی واسطے افضل ہیں کہ ایمان میں تمام سابقین میں سے اسبق اور بڑھے ہوئے ہیں اور خدمات لائقہ میں اپنے مال و جان کو بکثرت خرچ کیا ہے اسی واسطے آپ کی شان میں نازل ہوا ہے۔ لَا يَسْتَوِي مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُولَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِنَ الَّذِينَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى (نہیں برابر تم میں سے وہ لوگ جنہوں نے فتح سے اول خرچ کیا اور لڑائی کی لوگ زیادہ درجہ والے ہیں اور ان لوگوں سے جنہوں نے بعد میں خرچ کیا اور لڑائی کی اور اللہ تعالی نے سب کے لیےحسنی یعنی جنت کا وعدہ دیا ہے) بھی لوگ دوسروں کے بکثرت مناقب و فضائل پر نظر کر کے حضرت صدیق کی افضلیت میں توقف کرتے ہیں اور نہیں جانتے کہ اگر افضلیت کا سبب مناقب و فضائل کا بکثرت ہونا ہوتا۔ تو امت کے بعض لوگ جو بہت سے فضائل رکھتے ہیں اپنے نبی سے افضل ہوتے۔ جس میں یہ فضائل نہیں پس معلوم ہوا کہ افضلیت کا باعث ان فضائل اور مناقب کے سوا کچھ اور امر ہے اور وہ امر اس فقیر کے خیال میں دین کی سب سے بڑھ کر تائید کرنی اور دین رب العلمین کے احکام کی مدد میں سب سے زیادہ مال و جان کا خرچ کرنا ہے۔ چونکہ پیغمبر ﷺ تمام امت سے اسبق ہے۔ تمام مسبوقوں سے افضل ہے۔ اسی طرح جوشخص ان امور میں اسبق ہے تمام مسبوقوں سے افضل ہے سابق یعنی پہلا شخص گویا امر دین میں لاحقوں یعنی پچھلوں کا استاد و معلم ہے۔ لاحقین سابقین کے انوار سے فائدہ حاصل کرتے ہیں اور ان کی برکات سے فیض پاتے ہیں۔ اس امر میں چونکہ نبی علیہ الصلوة والسلام کے بعد اس دولت اعلی کے مالک حضرت صدیق ہی ہیں جو دین کی تائید اور حضرت سید المرسلین ﷺ کی مدد اور فساد کے رفع کرنے کے لیے لڑائی جھگڑے کرنے اور مال و جان کے خرچ کرنے اور اپنی عزت و جاہ کی پروا نہ کرنے میں تمام سابقین میں سے اسبق اور بڑھے ہوئے ہیں۔ اس لیے دوسروں سے افضلیت انہی پرمسلم ہوگی اور چونکہ حضرت پیغمبر علیہ الصلوة والسلام نے اسلام کی عزت و غلبہ کے لیے حضرت فاروق کی مدد طلب کی ہے اورحق تعالی نے عالم اسباب میں اپنے حبیب کی مدد کے لیے انہی کو کافی سمجھا ہے۔
اور فرمایا ہے۔ يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللَّهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ (اے نبی ﷺ تجھے اللہ تعالی اور تابعدار مومن کافی ہیں۔) حضرت ابن عباس نے فرمایا ہے کہ اس آیت
کا سبب نزول حضرت فاروق کا اسلام ہے۔ اس لیے حضرت صدیق کے بعد حضرت فاروق کی افضلیت مقرر ہے۔ اس واسطے ان دو بزرگواروں کی افضلیت پر صحابہ و تابعین کا اجماع ہو چکا ہے۔ جیسے کہ گزر چکا۔ حضرت امیر(علی) رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ حضرت ابو بکر و عمر اسلام میں سب سے افضل ہیں۔ جو کوئی مجھے ان پرفضیلت دے وہ مفتری ہے میں اس کو اتنے تازیانہ لگاؤں گا جتنے مفتری کو لگاتے ہیں۔ اس بحث کی تحقیق فقیر کی کتابوں و رسالوں میں بارہا مفصل درج ہو چکی ہے۔ اس مقام میں اس سے زیادہ کی گنجائش نہیں۔ وہ شخص بہت ہی بیوقوف ہے جو اپنے آپ کو حضرت خیرالبشرﷺ کے اصحاب کے برابر سمجھے اور وہ شخص اخبار و آثار سے جاہل ہے جو اپنے آپ کو سابقین میں سے تصور کرے لیکن اتنا جاننا ضروری ہے کہ یہ سبقت کی دولت جو افضلیت کا باعث ہے۔ قرن اول ہی کے ساتھ مخصوص ہے۔ جو حضرت خیر البشر کی شرف محبت سے مشرف ہے۔ دوسرے قرنوں میں یہ امر مفقود ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ بعض قرنوں کے لاحق دوسرے قرنوں کے سابقین سےا فضل ہوں۔ بلکہ ایک قرن میں بھی ہو سکتا ہے کہ قرن کا لاحق اس قرن کے سابق سے افضل ہو حق تعالی طعن لگانے والوں کو بینائی عطا کرے تا کہ ان کو معلوم ہو جائے کہ صرف وہم و خیال سے کسی مومن ومسلم کو طعن و ملامت کرنا اور تعصب و کجروی سے اس کی تکفیر تضلیل کا حکم کرنا کیسا برا ہے۔
اور اگر وہ شخص تکفیر تضلیل کے قابل نہ ہوا تو پھر کیا علاج کریں گے۔ جبکہ وہ کفروضلال کہنے والے کی طرف راجع ہو گا اور تہمت زدہ کی طرف سے ہٹ کر تہمت لگانے والے پر جا پڑے گا۔ جیسا کہ حدیث نبوی میں آ چکا ہےرَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ (یا اللہ تو ہمارے گناہوں اور کام میں ہماری زیادتیوں کو بخش اور ہمارے قدموں کو ثابت رکھے اور کافروں پر ہمیں مدد دے) اب ہم اصل بات کی طرف آتے ہیں اورشق ثانی کو بیان کرتے اور کہتے ہیں کہ اگر اس حال والے کے حق میں طعن لگانے والوں کا یہ اعتقاد اور اعتماد نہ ہو اور اس کا معاملہ کفر تک نہ پہنچائیں۔ تو پھر بھی دو حال سے خالی نہیں۔ لیکن اگر اس کے واقعہ کو کذب و بہتان پرعمل کرتے ہیں تو یہ بھی ایک مسلمان کی نسبت بدظنی ہے۔ جوشرع میں منع ہے اور اگر اس کو کاذب بھی نہیں جانتے اور اس کو شرکت مساوات کا معتقد بھی نہیں سمجھتے تو پر طعن و ملامت کی وجہ کیا ہے۔ پھر اس کی تشنیع وعيب جوئی حرام ہے۔
واقعہ صادقہ کو نیک وجہ پرمحمول کرنا چاہئے۔ نہ یہ کہ صاحب واقعہ کی قباحت و برائی بیان کی جائے اور اگر یہ ہیں کہ اس قسم کے شرانگیز احوال کے اظہار کرنے کی وجہ کیا ہے۔ تو میں کہتا ہوں کہ اس قسم کے احوال مشائخ طریقت سے بہت ظاہر ہوئے ہیں۔ حتی کہ ان کی عادت مستمرہ ہو چکی ہے۔ لیس هذا أول قارورة كسرت في الإسلام (یہ پہلا شیشہ نہیں جو اسلام میں توڑا گیا ہے) ان سے اس قسم کے احوال کا ظاہر ہونا ارادۂ صادقہ اور حقانی نیت کے بغیر نہ ہوگا۔کبھی ان احوال کے لکھنے سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ شیخ طریقت کے سامنے اپنے احوال موہوم کا اظہار ہوتا کہ وہ حال کاصحت وسقم بیان فرمائے اور اس کی تاویل وتعبیر پر اطلاع بخشے۔ کبھی ان احوال کے لکھنے سے طالبوں اور شاگردوں کی ترغیب و تحریص مطلوب ہوتی ہے۔ کبھی ان سے مقصود نہ یہ ہوتا ہے نہ وہ بلکہ مجردسکر(مستی) اور غلبہ حال اس گفتگو پر لے آتا ہے تا کہ چند باتیں کر کےنفس کو راست کرے جس شخص کا مقصود ان احوال کے اظہار سے شہرت وقبول خلق ہو تو وہ جھوٹامدعی ہے اور یہ احوال اس کے لیے وبال اور استدراج ہیں جس میں اس کی سراسر خرابی ہےرَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ (یا اللہ تو ہدایت دے کر ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کر اور اپنے پاس سے ہم پر رحمت نازل فرما تو بڑا بخشنے والا ہےوَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَحِيمٌ (میں اپنے نفس کو پاک بیان نہیں کرتا۔ اس برائی کی طرف بہت امر کرنے والا ہے۔ ہاں جس پر اللہ تعالی رحم فرمائے۔ بیشک میرا رب بخشنے والا اور مہربان ہے)۔
آپ نے پوچھا تھا کہ کیا باعث ہے۔ کہ انبیا علیہم الصلوة والسلام اور اولیاءعلیہم الرضوان دنیا میں اکثر بلا و مصائب اور رنج و تکلیف میں مبتلا و گرفتار رہے ہیں۔ جیسے کہ کہا گیا ہے۔ أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً قَالَ:الأَنْبِيَاءُ ثُمَّ الأَمْثَلُ فَالأَمْثَلُ (لوگوں میں زیادہ بلاو آزمائش میں مبتلا ہونے والے انبیاء ہیں پھر اولیاء پر ان کے ہم مشل پھر ان کے ہم مشل) اور حق تعالی اپنی کتاب مجید میں فرماتا ہے وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ (جو مصیبت تم پر آتی ہے وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی کا نتیجہ ہوتی ہے) اس آیت سے مفہوم ہوتا ہے کہ جوشخص زیادہ برائیاں کرے اس پرزیادہ مصیبتیں آتی ہیں تو چاہئے کہ پہلے انبیاء اور اولیاء کے سوا اور لوگ بلا و مصیبت میں گرفتار ہوں اور پھر اولیاء وانبیاء اور نیز یہ بزرگوار اصالت و تبعیت کے طور پر حق تعالی کے محبوب اور ان کے خاص مقر بین ہیں ۔ حق تعالی اپنے محبوبوں اور خواص مقربوں کو بلیات ورنج کے حوالے کیوں کرتا ہے اور دشمنوں کو نازنعمت میں اور دوستوں کو رنج و مصیبت میں کیوں رکھتا ہے۔
جواب: الله تعالی آپ کو سعادت مند کرے اور سیدھے راستے کی ہدایت دے آپ کو واضح ہو کہ دنیانعمت ولذت کے لیے نہیں ہے۔ بلکہ آخرت ہی ہے۔ جونعمت ولذت کے لیے تیار کی گئی ہے۔ چونکہ دنیا اور آخرت ایک دوسرے کی سوکن اور ضد اور نقیض (مخالف)ہیں ۔ اور ایک کی رضامندی میں دوسرے کی ناراضگی ہے۔ اس لیے ایک میں لذت پانا دوسرے میں رنج و الم کا باعث ہو گا۔ پس انسان جس قدر دنیا میں لذت ونعمت کے ساتھ رہے گا اسی قدر زیادہ رنج والم آخرت میں اٹھائے گا۔ ایسے ہی جوشخص دنیا میں زیادہ تر رنج و الم میں مبتلا ہوگیا آخرت میں اسی قدر زیادہ ناز و نعمت میں ہو گا۔ کاش دنیا کی بقا کو آخرت کی بقا کے ساتھ وہی نسبت ہوتی جو قطره کو دریائے محیط کے ساتھ ہے۔ ہاں متنا ہی کو غیر متناہی کے ساتھ کیا نسبت ہو گی۔ اسی لیے دوستوں کو اپنے فضل و کرم سے اس جگہ کی چند روز ہ محنت و مصیبت میں مبتلا کیا تا کہ دائمی نازونعمت میں محظوظ مسرور فرمائے اور دشمنوں کو مکر و استدراج کے بموجب تھوڑی کی لذتوں کے ساتھ محظوظ کر دیا تا کہ آخرت میں بیشمار رنج و الم میں گرفتار ہیں۔
سوال: کافر فقیر جو دنیا و آخرت میں محروم ہے دنیا میں اس کا درد مند و مصیبت زدہ رہنا آخرت میں لذت ونعمت پانے کا باعث نہ ہوا۔ اس کی کیا وجہ ہے۔
جواب: کافر خدا کا دشمن اور دائمی عذاب کا مستحق ہے۔ دنیا میں اس سے عذاب کا دور رکھنا اور اس کو اپنی وضع پر چھوڑ دینا اس کے حق میں عین ناز نعمت ولذت ہے۔ اسی واسطے کافر کے حق میں دنیا پر جنت کا اطلاق کیا گیا ہے۔ خلاصہ یہ کہ دنیا میں بعض کفار سے عذاب بھی رفع کر دیتے ہیں اور لذت بھی دیتے ہیں اور لذت ونعمت بھی دیتے ہیں اور بعض سے صرف عذاب ہی ہٹا رکھتے ہیں اور لذت ونعمت کچھ نہیں دیتے۔ بلکہ فرصت و مہلت کی لذت اور عذاب کے دور ہونے پر کفایت کرتے ہیں۔ لکل ذالک حکم و مصالح (ہر ایک کے لیے کوئی نہ کوئی حکمت و بہتری ہے)۔
سوال: حق تعالی سب چیزوں پر قادر ہے اور توانا ہے کہ دوستوں کو دنیا میں بھی لذت ونعمت بخشے اور آخرت میں بھی ناز نعمت کرامت فرمائے اور ان کے میں ایک کا لذت پانا دوسرے میں دردمند ہونے کا باعث نہ ہو۔ اس کے جواب کئی ہیں۔
ایک یہ کہ دنیا میں جب تک چند روزہ محنت و بلیات کو برداشت نہ کرتے تو آخرت کی لذت ونعمت کی قدر نہ جانتے اور دائمی صحت و عافیت کی نعمت کی قدر نہ جانتے اور دائمی صحت و عافیت کی نعمت کو کماحقہ معلوم نہ کر سکتے، کیونکہ جب تک بھوک نہ ہو طعام کی لذت نہیں آتی اور جب تک مصیبت میں مبتلا نہ ہوں فراغت و آرام کی قدر معلوم نہیں ہوتی۔ گویا ان کی چند روزه مصیبتوں سے مقصود یہ ہے کہ ان کو دائمی نازو نعمت کامل طور پر حاصل ہو۔ یہ ان لوگوں کے حق میں سراسر جمال ہے۔ جو عوام کی آزمائش کے لیے جلال کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا اکثر کو گمراہ کرتا ہے اور اکثر کو ہدایت دیتا ہے)
جواب دوم : بلیات ومحن اگر چہ عوام کے نزدیک تکلیف کے اسباب ہیں، لیکن ان بزرگواروں کے نزدیک جو کچھ جمیل مطلق کی طرف سے آئے۔ ان کی لذت ونعمت کا سبب ہے۔ یہ لوگ بلیتوں سے ویسے ہی لذت حاصل کرتے ہیں جیسے کہ نعمتوں سے بلکہ بلایا سے زیادہ محظوظ ہوتے ہیں، کیونکہ ان میں محبوب کی خالص مراد ہے اور نعمتوں میں خلوص نہیں ہے کیونکہ نفس نعمتوں کو چاہتا ہے اور بلا و مصیبتوں سے بھاگتا ہے۔ پس بلا ان بزرگواروں کے نزدیک عین نعمت ہے اور اس میں نعمت سے بڑھ کر لذت ہے۔ وہ حظ جوان کو دنیا میں حاصل ہے۔ وہ بلیات و مصائب ہی کے باعث ہے۔ اگر دنیا میں یہ نمک بھی نہ ہوتا تو ان کے نزدیک جو کے برابر بھی قیمت نہ رکھتی اور اگر اس میں یہ حلاوت نہ ہوتی تو ان کو عبث و بے فائدہ دکھائی دیتی۔ بیت
غرض از عشق توام چاشنئے در دوغم است ورنہ زیر فلک اسباب تنعم چہ کم است
ترجمه عشق سے تیرے غرض ہے چاشنی در دوغم ورنہ نیچے آسمان کے کونسی نعمت ہےکم
. حق تعالی کے دوست دنیا میں بھی متلذذ ہیں اور آخرت میں بھی محظوظ ومسرور ہیں۔ ان کی یہ دنیاوی لذت ان کی آخرت کی لذت کے مخالف نہیں وہ حظ جو آخرت کے حظ کے مخالف ہے اس سے مختلف ہے جو عوام کو حاصل ہے۔ الہی یہ کیا ہے۔ جو تو نے اپنے دوستوں کو عطا فرمایا ہے کہ جو کچھ دوسرے کے رنج و الم کا سبب ہے وہ ان کی لذت کا باعث ہے اور جو کچھ دوسروں کے لیے زحمت ہے ان کے واسطے رحمت ہے۔ دوسروں کی نقمت ان کی نعمت ہے لوگ شادی میں خوش ہیں اورغمی میں غمناک۔ یہ لوگ شادی میں بھی اورغم میں بھی خوش و خرم ہیں کیونکہ ان کی نظر افعال جمیلہ و رذیلہ کی خصوصیتوں سے اٹھ کر ان افعال کے فاعل یعنی جمیل مطلق کے جمال پر جا لگی ہے اور فاعل کی محبت کے باعث اس کے افعال بھی ان کی نظروں میں محبوب اورلذت بخش ہو گئے ہیں۔ جو کچھ جہان میں فاعل جمیل کی مراد کے موافق صادر ہو۔ خواہ رنج و ضرر کی قسم سے ہو۔ وہ ان کےمحبوب کی عین مراد ہے اور ان کی لذت کا موجب ہے خداوندایہ کیسی فضل و کرامت ہے کہ ایسی پوشیده دولت اور خوشگوارنعمت اغیار کی نظر بد سے چھپا کر اپنے دوستوں کو تو نے عطا فرمائی ہے اور ہمیشہ ان کو اپنی مراد پر قائم رکھ کر محظوظ و متلذذ کیا ہے اور کراہت و تامل جو دوسروں کا نصیب ہے۔ ان بزرگواروں سے دور کر دیا ہے۔ اورننگ و رسوائی کو جو دوسروں کا عیب ہے اس گروہ کا جمال و کمال بنایا ہے۔ یہ نامرادی ان کی عین مراد ہے اور ان کا یہ دنیاوی التذاذ و سرور دوسروں کے برعکس آخرت کےحظوظ کی ترقیوں کا باعث ہے۔۔ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ( یہ الله تعالی کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور الله تعالی بڑے فضل والا ہے۔)
)۔ جواب سوم : یہ ہے کہ یہ دار دار ابتلاء و آزمائش ہے۔ جس میں(بظاہر) حق باطل کے ساتھ اور جھوٹا سچے کے ساتھ ملا جلا ہے۔ اگر دوستوں کو بلاو محنت نہ دیتے اور صرف دشمنوں کو دیتے تو دوست دشمن کی تمیز نہ ہوتی اور اختیار و آزمائش کی حکمت باطل ہوتی۔ یہ امر ایمان غیب کے منافی ہے۔ جس میں دنیا و آخرت کی سعادتیں شامل ہیں۔ آیت کریمہ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ (غیب پر ایمان لاتے ہیں) اور آیت کریمہ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ الله تعالی جانتا ہے جو شخص اس کی اور اس کے رسول کی غائبانہ مدد کرتا ہے۔ بیشک اللہ تعالی طاقتور اور غالب ہے) اس مضمون کی رمز ہے۔ پس دشمنوں کی آنکھ میں خاک ڈال کر دوستوں کو بھی محنت و بلا میں مبتلا کیا ہے تا کہ ابتلا و آزمائش کی حکمت تمام ہو اور دوست عین بلا میں لذت پائیں اوردشمن دل کے اندھے خسارہ اورگھاٹا کھائیں يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا اکثر کو گمراہ کرتا ہے اور اکثر کو ہدایت دیتا ہے) انبیاءعلیہم السلام کا معاملہ کفار کے ساتھ اسی طرح ہوا ہے کہ کبھی اس طرف کا غلبہ ہوا ہے اورکبھی اس طرف کا جنگ بدر میں اہل اسلام کو فتح ہوئی اور جنگ احد میں کافروں کو غلبہ ہوا۔ اللہ تعالی فرماتا ہے إِنْ يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُهُ وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَاءَ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وَلِيُمَحِّصَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَمْحَقَ الْكَافِرِينَ (اگرتم کو زخم لگا ہے تو پہلے بھی لوگوں کو ایسے ہی زخم لگے ہیں اور ان دونوں کو اللہ تعالی لوگوں میں بدلاتے رہتے ہیں تا کہ الله تعالی ایمانداروں کو جدا کر لے اورتم میں سے گواہ بنالے اور اللہ تعالی ظالموں کو نہیں دوست رکھتا اور اس لیے کہ الله تعالی ایمانداروں کو خالص کرے اور کافروں کو مٹادے)۔
جواب چہارم : یہ ہے کہ حق تعالی سب چیزوں پر قادر ہے اور طاقت رکھتا ہے کہ دوستوں کو یہاں بھی نازونعمت عطا فرمائے اور وہاں بھی۔ لیکن یہ بات حق تعالی کی حکمت و عادت کے برخلاف ہے۔ حق تعالی دوست رکھتا ہے کہ اپنی قدرت کو اپنی حکمت و عادت کے نیچے پوشیده رکھے اور اسباب وعلل کو اپنے جناب پاک کا روپوش بنائے پس دنیا و آخرت کے باہم نقیض ہونے کے باعث دوستوں کے لیے دنیا کی محنت و بلا ہونا ضروری ہے تا کہ آخرت کی نعمتیں ان کے حق میں خوشگوار ہوں یہی مضمون اصل سوال کے جواب میں پہلے ذکر ہو چکا ہے۔ اب ہم پھر اصل بات کو بیان کرتے ہیں اور اصل سوال کا جواب دیتے اور کہتے ہیں کہ درد و بلاو مصیبت کا سبب اگر چہ گناہوں اور برائیوں کا کرنا ہے، لیکن در حقیقت بلا و مصیبت ان برائیوں کا کفارہ اور ان گناہوں کے ظلمات کو دور کرنے والی ہیں۔ پس کرم یہی ہے کہ دوستوں کو زیادہ زیادہ بلا ومحنت دیں تا کہ ان کے گناہوں کا کفارہ اور ازالہ ہو۔ دوستوں کے گناہوں اور برائیوں کو دشمنوں کے گناہوں اور برائیوں کی طرح نہ خیال کریں۔
آپ نے حَسَنَاتُ الْاَبْرار سَیّئاتُ المُقربین (ابراروں کی نیکیاں مقربین کیلئے خطا ہیں)سنا ہوگا اور اگر ان سے گناه و عصیان بھی صادر ہو تو اور لوگوں کے گناہ و عصیان کی طرح نہ ہوگا بلکہ وہ سہو ونسیان کی قسم سے ہو گا اور عزم وجد سے پاک ہوگا۔ اللہ تعالی فرماتا ہے وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا (ہم نے اس سے پہلے آدم سے عہد کیا تھا، لیکن اس نے بھلا دیا اور ہم نے اس کا کوئی علام وقصد نہ پایا) پس دردو مصائب کا زیادہ ہونا برائیوں کے زیادہ کفارہ ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ نہ کہ برائیوں کے زیادہ کمانے پر۔ دوستوں کو زیادہ بلا دیتے ہیں تا کہ ان کے گناہوں کا کفارہ کر کے ان کو پاکیزہ لے جائیں اور آخرت کی محنت سے ان کو محفوظ رکھیں۔ منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ کی سکرات موت کے وقت جب حضرت فاطمہ نے ان کی بیقراری و بے آرامی دیکھی تو حضرت فاطمہ زہرا بھی جن کو آنحضرت ﷺ نے فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي (فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے) فرمایا تھا۔ کمال شفقت و مہربانی سے جوآنحضرت ﷺ کے ساتھ رکھتی تھیں ۔ نہایت بے قرار و بے آرام ہو گئیں۔ جب آنحضرت نے ان کی اس بیقراری و بے آرامی کو دیکھا تو حضرت زہرا کی تسلی کے لیے فرمایا کہ تیرے باپ کے لیے ہی ایک محنت و تکلیف ہے اس سے آگے کوئی تکلیف و مصیبت نہیں۔ یہ کس قدر اعلی دولت ہے کہ چند روز محنت کے عوض دائمی سخت عذاب دور ہو جائے۔ ایسا معاملہ دوستوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ دوسروں کے ساتھ اس طرح نہیں کرتے اور ان کے گناہوں کا کفارہ کما حقہ اس جگہ نہیں فرماتے بلکہ ان کی جزا آخرت پر ڈال دیتے ہیں۔
پس ثابت ہوا کہ دوست ہی دنیاوی رنج و بلا کے زیادہ مستحق ہیں اور دوسرے لوگ اس دولت کے لائق نہیں کیونکہ ان کے گناہ کبیرہ ہیں اور التجا وتضرع و استغفار وانکسار سے بے بہرہ ہیں اور گناہوں کے کرنے پر دلیر ہیں اور ارادہ وقصد سے گناہ کرتے ہیں جوتمر دوسرکشی سے خالی نہیں اور عجب نہیں کہ اللہ تعالی کی آیات پر ہنسی اڑائیں اور انکار کریں اور جزا گناہ کے اندازه کے موافق ہے۔ اگر گناه دنیاوی خفیف ہے اور گناہ کرنے والا بھی التجاوزاری کرنے والا ہے تو اس گناہ کا کفارہ دنیاوی بلاورنج سے ہو جائے گا اور اگر گناه غلیظ وشدید وثقیل ہے اور گناہ کرنے والا سرکش ومتکبر بھی ہے تو وہ جرم آخرت کی جزا کے لائق ہے جو گناہ کی طرح شدید اور دائمی
ہے وَمَا ظَلَمَهُمُ اللَّهُ وَلَكِنْ أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ الله تعالی نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود اپنی جانوں پرظلم کرتے تھے۔
آپ نے لکھا تھا کہ لوگ ہنسی اور ٹھٹھا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حق تعالی اپنے دوستوں کو بلاو محنت کیوں دیتا ہے اور ہمیشہ نازونعمت میں کیوں نہیں رکھتا اور اس گفتگو سے اس گروہ کی نفی کرنا چاہتے ہیں ۔ کفار بھی آنحضرت ﷺکے حق میں اس قسم کی باتیں کہا کرتے تھے وَقَالُوا مَالِ هَذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ لَوْلَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُونَ مَعَهُ نَذِيرًا أَوْ يُلْقَى إِلَيْهِ كَنْزٌ أَوْ تَكُونُ لَهُ جَنَّةٌ يَأْكُلُ مِنْهَا (یہ رسول کیا ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے کیوں نہیں اس پر فرشتہ اتر تا تا کہ اس کے ساتھ ہو کر لوگوں کو ڈراتا۔ یا اس کو خزانہ دیا جاتا۔ یا اس کا کوئی باغ ہی ہوتا جس سے کھایا کرتا) ایسی باتیں وہی شخص کرتا ہے جس کو آخرت اور اس کے دائمی عذاب و ثواب کا انکار ہو اور دنیا کی چند روزه فانی لذتیں ان کی نظر میں بڑی عزیز اور شاندار دکھائی دیتی ہیں ۔ کیونکہ جو شخص آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور آخرت کے ثواب و عذاب کو دائمی جانتا ہے۔ دنیاوی چند روزہ فانی بلاومحنت اس کوہیچ نظر آتی ہیں ۔ بلکہ اس چند روزہ محنت کو جس سے ہمیشہ کی راحت حاصل ہو، عین راحت تصور کرتا ہے اور لوگوں کی گفتگو پرنہیں جاتا ۔ در دو بلاو محنت کا نازل ہونا محبت کا گواہ عادل ہے کور باطن اور بیوقوف لوگ اگر اس کو محبت کے منافی جانیں تو جانیں۔ جاہلوں اور ان کی گفتگو سے روگردانی کے سوا اور کوئی علاج نہیں فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِيلًاپس اچھا صبر کر) اصل سوال کا دوسرا جواب یہ ہے کہ بلا تازیانہ محبوب ہے جس کے ذریے محب اپنے محبوب کے ماسواء کی التفات سے ہٹ کر کلی طور پرمحبوب کی پاکی بارگاہ کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ پس درد و بلا کے لائق دوست ہی ہیں اور یہ بلا اس برائی کا کفارہ ہے کہ ان کا التفات ماسوا کی طرف ہے اور دوسرے لوگ اس دولت کے لائق نہیں ان کو زور سے محبوب کی طرف کیوں لائیں جس کو چاہتے ہیں مار لوٹ کر بھی محبوب کی طرف لے آ تے ہیں اور اس کو محبوبیت سے سرفراز فرماتے ہیں اور جس کو محبوب کی طرف لانا نہیں چاہتے اس کو اپنے حال پر چھوڑ دیتے ہیں ۔ اگر سعادت ابدی اس کے شامل حال ہوگئی تو توبہ وانابت کی راہ سے ہاتھ پاؤں مار کر فضل و عنایت کی امداد سے مقصد تک جائے گا ورنہ وہ جانے اور اس کا کام ولاَ تَكِلْنِي إِلَى نَفْسِي طَرْفَةَ عَيْنٍ (یا اللہ تو مجھے ایک لمحہ بھی اپنے حال پر نہ چھوڑ ) پس معلوم ہوا کہ مریدوں کی نسبت مرادوں پر زیادہ بلا آتی ہے۔ اس واسطے آنحضرت نے جو مرادوں اورمحبوبوں کے رئیس ہیں۔ فرمایا ہے وَلَقَدْ أُوذِيتُ فِي اللَّهِ وَمَا يُؤْذَى أَحَدٌکسی ایک کو اتنی ایذ انہیں پہنچی جتنی مجھے پہنچی ہے۔ گویا بلادلالہ اور رہنما ہے۔ جو اپنی حسن دلالت سے ایک دوست کو دوسرے دوست تک پہنچا دیتی ہے اور دوست کو ماسوی کے التفات سے پاک کر دیتی ہے۔ عجیب معاملہ ہے کہ دوست کروڑ ہا دیکر بلاکو خریدتے ہیں اور دوسرے لوگ کروڑ ہا دیکر بلا کو دفع کرنا چاہتے ہیں۔
سوال : کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دردو بلا کے وقت دوستوں سے بھی اضطراب وکراہت مفہوم ہوتی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے۔
جواب: یہ اضطراب و کراہت تقاضائے بشری ضروری ہے اور اس کے باقی رکھنے میں کئی طرح کی حکمتیں اورمصلحتیں ہیں ۔ کیونکہ اس کے بغیرنفس کے ساتھ جہاد و مقابلہ نہیں ہوسکتا۔
آپ نے سنا ہو گا کہ دین و دنیا کے سردار علیہ الصلوة والسلام سے سکرات موت کے وقت کس قسم کی بیقراری و بے آرامی ظاہر ہوئی تھی۔ وہ گویانفس کے جہادکا بقیہ تھا تاکہ حضرت خاتم الرسل علیہ الصلوۃ والسلام کا خاتمہ خدا کے دشمنوں کے جہاد پر ہو۔ شدت مجاہدہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ صفات بشریت کے تمام مادے دور ہو جائیں اورنفس کو کامل فرمانبردار بنا کر اطمینان کی حقیقت تک پہنچائیں اور پاک و پاکیزه رکھیں۔ گویا بلا بازار محبت کی دلالہ ہے اور جو کوئی محبت نہیں رکھتا اس کو دلالہ سے کیا کام ہے اور دل لگی اس کے کسی کام آئے گی اور اس کے نزدیک کیا قدر و قیمت رکھے گی در دو بلا کی دوسری وجہ یہ ہے کہ محب صادق اور محب کاذب کے درمیان تمیز ہو جائے اگر صادق ہے۔ تو بلا کے آنے سے متلذز ومحظوظ ہوگا اور اگر مدعی کاذب ہے تو بلا سے کراہت ورنج اس کو نصیب ہوگا۔ سوائے صادق کے اس تمیز کو کوئی نہیں معلوم کر سکتا۔ صادق ہی کراہت والم کی حقیقت کو کراہت والم کی صورت سے جدا کر سکتا ہے اور صفات بشریت کی حقیقت کو صفات بشریت کی صورت سے الگ کر سکتا ہے۔ والله سبحانہ الهادي إلى سبيل الرشاد (اللہ تعالی ہی راہ راست کی طرف ہدایت کرنے والا ہے)۔
نیز آپ نے پوچھا ہے۔ کو عدم کو لاشےمحض کہتے ہیں پس اس کا وجود نہ ہوگا اور جب اس کا وجود نہ ہوا تو پھر اس وجود کیساتھ جو ذہن میں پیدا ہو۔ اس کے آثار وترقیاں کس طرح ہوں گی اور اگر ہوں گی بھی توذہنی ہونگی۔ دائرہ خیال سے کسی طرح نکل سکتی ہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ عدم اگر چہ لاشے ہے لیکن اشیاء کا یہ سب کارخانہ اسی عدم کے ساتھ قائم ہے اور اشیاء کی تفصیل و کثرت کا منشاء اسی کا آئینہ ہے۔ اسماء الہی کی علمیہ صورتوں نے جوعدم کے آئینہ میں منعکس ہوتی ہیں اس کومتمیز کر دیا ہے اور ثبوت علمی بخشا ہے اور اس کو محض لاشے ہونے سے نکال کر آ ثار واحکام کا مبدأ بنا دیا ہے۔ یہ آثار واحکام خانہ علم کے باہر بھی موجود ہیں اور مرتبہ حس و وہم میں بھی ثابت ہیں۔ چونکہ انہوں نے حق تعالی کی مضبوط صنعت ہونے کے باعث اس مرتبہ میں ایسا ثبات و استقرار پیدا کر لیا ہے کہ حس و وہم کے زوال سے بھی زائل نہیں ہو سکتے۔ اس لیے کہہ سکتے ہیں کہ یہ آثار و احکام خارجی ہیں۔ آپ عدم کی ترقیوں سے کیوں تعجب کرتے ہیں۔ موجودات کا یہ سب کروفر زیب وزینت عدم پرمبنی ہے۔ آپ کو حق تعالی کی کمال قدرت کا مشاہدہ کرنا چاہئے۔ جس نے عدم سے اس قسم کا لمبا چوڑا کارخانہ بنا دیا ہے اور وجود کے کمالات کو اس کی نقیضوں اور ضدوں سے ظاہر فرمایا ہے۔ عدم کی ترقی کا راستہ کامل طور پر واضح ہے کہ اسماء الہی کی علمیہ صورتیں اس کی حجر میں متمکن اور اس کے ساتھ ہم بستر اور ہم بغل ہیں ۔ صورت سے حقیقت کی طرف اور ظلال سے اصل کی طرف سیدھی شاہراہ جاتی ہے کوئی اندھاہی ہوگا جس کو نظر نہ آتا ہوگا۔ إِنَّ هَذِهِ تَذْكِرَةٌ فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَ إِلَى رَبِّهِ سَبِيلًا (یہ بڑی نعمت ہے۔ اب جس کا جی چاہے اپنے رب کی طرف راستہ نکال لے) ذہن و خیال کا لفظ آپ کو شبہ میں نہ ڈال دے اورآثار و تر قیات کو آپ کی نظر میں مشکل نہ کر دے کیونکہ کوئی معاملہ علم وخیال سے باہر نہیں ہے۔ ہاں خیال خیال میں فرق ہے مرتبہ وہم و خیال میں خلق ہونا اور امر ہے اور وہم و خیال کا اختراع اور امر صورت اول نفس الامری اور حقیقی ہے اور کہہ سکتے ہیں کہ موجود خارجی بھی ہے اور صورت دوم اس دولت اور اس ثبات و استقرار سے بے بہرہ ہے۔ عدم کے بعض ہنر معرفت کے بیان میں علیحدہ لکھے ہیں۔ جن کی نقل محب اللہ لے گیا ہے۔ اگر زیادہ ذوق ہو تو وہاں سے ملاحظہ کرلیں۔
نیز آپ نے فنا و بقا کی نسبت پوچھا تھا۔ اس فقیر نے ان کلمات کے معنی اپنی کتابوں اور رسالوں میں جا بجا لکھے ہیں۔ ان کو دیکھنے کے بعد بھی اگر کچھ پوشیدگی رہ گئی ہو تو اس کا علاج حضور و شفاه ہے (خدمت میں حاضر ہونا اور سامنے گفتگوکرنا) پوری پوری حقیقت لکھی نہیں جاسکتی کیونکہ اس کا اظہار صلاح و بہتری سے دور نظر آتا ہے اور اگر پوری پوری حقیقت لکھی جائے اور ظاہر کی جائے تو کوئی اس کو کیا جانے گا اور کیا سمجھے گا۔ فنا و بقا شہودی ہے وجودی نہیں، کیونکہ بندہ ناچیز نہیں ہوتا اور حق تعالی کے ساتھ متحد نہیں ہوتا العبد عبد دائما والرب رب سرمدا (بنده بندہ اور خدا خدا ہے) وہ زندیق (بے دین) ہیں جو فنا و بقا کو وجودی تصور کرتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ بندہ اپنے وجودی تعینات کو رفع کر کے اپنے اصل کے ساتھ جو تعینات و قیود سے منزہ ہے متحد ہو جاتا ہے اور اپنے آپ سے فانی ہو کر اپنے رب کے ساتھ بقا حاصل کر لیتا ہے جیسے قطرہ اپنے آپ سے فانی ہو کر دریا سے مل جاتا ہے اور اپنی قید کو رفع کر کے مطلق کے ساتھ متحد ہو جاتا ہے۔ اعاذنا الله سبحانه عن معتقد اتهم السؤء (اللہ تعالی ہم کو ان کے ایسے برے عقیدے سے بچائے) فنا کی حقیقت یہ ہے کہ ماسوی اللہ بھول جائے اورحق تعالی کے سوا غیر کی گرفتاری اورتعلق دور ہو جائے اور سینے اور دل کا میدان اپنی تمام مرادوں اور خواہشوں سے پاک و صاف ہوجائے یہی مقام بندگی کے مناسب ہے اور بقا یہ ہے کہ ایسی آیات کے مشاہدہ کے بعد بندہ اپنے مولا جل شانہ کی مرادوں پر قائم رہے اور حق تعالی کی مرادوں کو عین اپنی مرادیں معلوم کرے ۔ نیز آپ نے پوچھا تھا کہ وہ سیر جوانفس کے باہر ہے وہ کونسا ہے۔ کیونکہ عالم خلق اور عالم امر کے دسوں مرتبوں کا سیر اور ہیئت وحدانی(تمام لطائف اورجسم) کا سیر جب انفس میں داخل ہے پھر اس کے ماوراء کونسا سیر ہے۔
جواب : واضح ہو کہ انفس بھی آفاق کی طرح اسماءالہی کےظلال ہیں۔ جب ظل فضل خداوندی سے اپنے آپ کوفراموش کر کے اپنے اصل کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اپنے اصل کی محبت پیدا کر لیتا ہے تو المَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ (آدمی اسی کے ساتھ ہو گا۔ جس کے ساتھ اس کو محبت ہوگی) کے موافق اپنے آپ کو بعینہ وہی اصل معلوم کریگا اور اپنے انا کو اسی اپنے اصل پر ڈالے گا۔ اسی طرح چونکہ اس اصل کا اور اصل ہے۔ پس اصل سے اس اصل تک پہنچ جائے گا۔ بلکہ اپنے آپ کو اس اصل کا عین معلوم کرے گا۔ و ھلم جرا إلى أن يبلغ الكتاب أجله یہاں تک کہ کتاب اپنی اجل تک پہنچ جائے) یہ سیرانفس و آفاق کے ماوراء ہے۔
واضح ہو کہ بعض لوگ سیرانفسی کوسیر فی اللہ کہتے ہیں، لیکن وہ سیرجس کا ابھی بیان ہو چکا ہے۔ یہ سیرفی اللہ اور سیرانفسی کے ماوراء ہے، کیونکہ یہ سیر حصولی ہے اور وہ سیر وصولی اور حصول ووصول کے درمیان جو فرق ہے وہ متعدد مکتوبات میں لکھا جا چکا ہے۔ اس سے معلوم کر لیں۔
نیز آپ نے حق تعالی کی ذات وصفات و افعال کے اقرب ہونے کی نسبت دریافت کیا تھا۔ اس کا بیان بھی حضور کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ اس کا لکھنا اچھا نہیں اور اگر لکھا بھی جائے تو پھر بھی اس کاسمجھنا مشکل ہے اور اگر حضور میں یعنی سامنے بیان کرنے سے بھی سمجھ میں آ جائے تو غنیمت ہے۔
نیز آپ نے مرتبہ نبوت کے کمالات کی نسبت پوچھا تھا کہ فناو بقا تجلی اور تعین کا مبداء ہونا سب کمالات ولايات ثلاثہ کے مراتب میں ہیں۔ کمالات نبوت کے مراتب میں سیرکس طرح ہے۔
جواب: واضح ہو کہ مراتب عروج (عروج سے مراد سالک کا حق تعالی کی ذات و صفات عالیہ کے مشاہدہ میں مستغرق ہو جانا اور مخلوق سے منقطع ہونا ہے) میں جب تک کہ مراتب ایک دوسرے سے متمیز ہیں اور ان میں ایک اصل سے دوسرے اصل کی طرف جانا پڑتا ہے۔ یہ سب کمالات دائرہ ولایات میں داخل ہیں جب یہ تمیز برطرف ہو جاتی ہے اور تفصیل کم ہو جاتی ہے اور معاملہ محض اجمال و بساطت محض سے جا پڑتا ہے تو پھر مرتبہ نبوت کے کمالات شروع ہوتے ہیں۔ اس مرتبہ میں بھی اگر چہ وسعت ہے۔ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (الله تعالی گھیرنے والا اور جانے والا ہے لیکن وہ وسعت اور ہی وسعت ہے اور وہ تمیز اوری تمیز ہے۔ اس سے زیادہ کیا کہیں اور کیا سمجھائیں۔ رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا (یا اللہ تو اپنے پاس سے ہم پر رحمت نازل فرما اور ہمارے کام سے ہدایت و بھلائی ہمارے نصیب کر) نماز کے بعض اسرار جو آپ نے دریافت کیے تھے۔ اس کا جواب کسی دوسرے وقت پر موقوف رکھا ہے۔ کیونکہ اب وقت بہت تنگ ہے۔ زمانہ اور اہل زمانہ سے سرقہ کر کے یعنی چوری چوری اور پوشیدہ کچھ نہ کچھ لکھا جاتا ہے۔ آپ فقیر کے حال پررحم کریں اور استفسار پر دلیر نہ ہوتے جائیں۔
ہےرَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ (یا اللہ تو ہمارے گناہوں اور کام میں ہماری زیادتیوں کو بخش اور ہمارے قدموں کو ثابت رکھے اور کافروں پر ہمیں مدد دے) ۔ والحمد لله رب العلمين أولا و اخرا والصلوة والسلام والتحية على رسوله دائما و سرمدا و على الہ الكرام وصحبہ العظام إلى يوم القيامة اول وآخر اللہ رب العلمین کاحمد اور اس کا احسان ہے اور اس کے رسول اور ان کی آل بزرگوار اور اصحاب کرام پر قیامت تک ہمیشہ صلوۃ والسلام وتحیت ہو۔
الحمد للہ و المنتہ کے دریں ایام فرخنده فرجام کتاب مستطاب ہادی شیخ و شاب منبع فیوض و برکات یعنی مکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانی حضرت خواجہ خواجگان شاه باز لامکان مقبول بارگاہ صمد حضرت شیخ احمد فاروقی نقشبندی سرہندی رحمتہ الله علیہ دفتر دوم بوقت سعید باتمام رسید۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ327 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی