مصائب اور سختیوں پر تعجب حکمت نمبر24
مصائب اور سختیوں پر تعجب کے عنوان سے باب دوم میں حکمت نمبر24 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
اور جب تمہیں اغیار کے حال میں مراقبہ یا مشاہدہ حاصل ہو جائے تو جو کدورتیں یعنی سختیاں یا مصیبتیں تمہارے سامنے آئیں، تم ان کو انوکھی اور تعجب خیز نہ سمجھو۔ تا کہ تم انکار میں نہ جت جاؤ۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کی طرف اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا ہے:
24)لا تَسْتَغْرِبْ وُقُوعَ الأَكْدَارِ، مَا دُمْتَ فِي هَذِهِ الدَّارَ، فَإِنَّهَا مَا أَبْرَزَتْ إِلا مَا هُوَ مُسْتَحَقُّ وَصْفِهَا وَوَاجِبُ نَعْتِهَا.
تم کدورتوں یعنی مصیبتوں کے واقع ہونے کو، جب تک تم اس دنیائے فانی میں ہو انوکھا اور تعجب خیز نہ سمجھو۔ کیونکہ وہ اسی کو ظاہر کرتی ہے جس کا حق ان کا وصف ہے۔
جلالی اور جمالی تجلیات
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: یہ عارف کے آداب میں سے ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تجلیوں میں سے کسی بھی تجلی کو انوکھی نہ سمجھے، نہ کسی تجلی پر تعجب کرے۔ خواہ وہ جلالی ہوں یا جمالی ۔ پس اگر اس پر قہر کی حوادث نازل ہوں یا جلالی کد ورتیں واقع ہوں تو وہ ان کے واقع ہونے کو انوکھا اور تعجب خیز نہ سمجھے کیونکہ اس کی تجلیات ہی جلالی ہیں کیونکہ یہ دنیا حوادث و مصائب کا گھر ہے اور جدا ہونے اور انتقال کر نے جگہ ہے۔ حدیث شریف میں حضرت نبی کریم ﷺ سے روایت کی گئی ہے۔ آپ نے اپنے بعض خطبوں میں ارشاد فرمایا ہے:
أَيُّهَا النَّاسُ : إِنْ هَذِهِ الدَّارَ دارُ تَوَاءٍ ، أى هلاك ، لا دَارُ اسْتِوَاءٍ ، زِلُ تَرَح ، أى حُزْنٍ ، وَ مَنْزِلُ تَرَح ، فَمَنْ عَرَفَهَا لَمْ يَفْرَحْ لِرَخَائِهَاولم يَحْزَنْ لِشَقَائِهَا ، أَلَا وَإِنَّ الله خَلَقَ الدُّنْيَا دَارَ بَلْوَى ، وَالآخِرَةَ دَارَ عُقْبَى ، فَجَعَلَ بَلْوَى الدُّنْيَا لِثَوَابِ الْآخِرَةِ سَبَبًا ، وَثَوَابَ الآخِرَةِ مِنْ بَلْوَى الدُّنْيَا عِوَضًا ، فَيَأْخُذُ لِيُعْطِى، وَيَبْتَلِى لِيَجْزِى ، وَإِنَّهَا لَسَرِيعَةُ التَّوَى وَشِيكَةُ الاِنْقِلاب ، فَاحْذَرُوا حَلَاوَةَ رَضَاعِهَا مَرَارَةِ فِطَامِهَا وَاهْجُرُوا لَذِيذَ عَاجِلِها لِكَرْبَةِ آجِلِهَا ، وَلَا تَسْعَوْا فِي عُمْرَانِ دَارٍ قَدْ قضي الله خَرَابَهَا وَلَا تُوَاصِلُوهَا وَقَدْ أَرَادَ اللهُ مِنكُمُ اجْتِنابَهَا فَتَكُونُوالِسُخَطِهِ مُتَعَرضِينَ . وَلِعُقُوبَتِهِ مُسْتَحِقين
اے انسانو! بے شک یہ گھر ہلاکت اور تباہی کا گھر ہے۔ ہمیشہ رہنے کا گھر نہیں ہے۔ اور رنج و غم کی جگہ ہے۔ خوشی کی جگہ نہیں ہے پس جس شخص نے دنیا کو پہچان لیا۔ وہ اس کی خوشحالی سے خوش نہیں ہوا۔ اور اس کی بد حالی سے رنجیدہ وغمگین نہیں ہوا۔ خبردار ہو جاؤ۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو مصیبت و آزمائش کا گھر بنایا ہے۔ اور آخرت کا انجام یعنی جزا و سزا کا گھر بنایا ہے۔ لہذا اس نے دنیا کی مصیبتوں کو آخرت کے ثواب کا سبب بنایا ہے۔ اور آخرت کا ثواب دنیا کی مصیبتوں کا عوض مقرر کیا ہے۔ وہ تجھے اپنی بخششیں عطا کرنے کے لئے مصیبتوں میں مبتلا کرتا ہے۔ اور تیرے اوپر اپنی رحمتیں نازل کرنے کے لئے تجھے آزمائشوں میں ڈالتا ہے۔ اور بے شک دنیا جلد فنا ہونے والی ہے اور جلد بدل جانے والی ہے۔ تو اس کے دودھ چھڑانے کی تکلیف کا خیال کر کے اس کے دودھ پلانے کی لذت سے پر ہیز کر۔ اور اس کی مقررہ وقت پر آنے والی سختیوں کا تصور کر کے اس کی فوری اور وقتی لذتوں کو ترک کر دے۔ اور ایسے گھر بنانے اور آباد کرنے کی کوشش نہ کر جس کی بربادی کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نے یقینی طور پر کر دیا ہے۔ اور جس سے تیرے پر ہیز کرنے کا اراد ہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہوا ہے تو اس کے قریب نہ جا۔ ورنہ تجھے اللہ تعالیٰ کے قہر و غضب کا سامنا کرنا ہوگا۔ا ور تو اس کی سزا کا مستحق قرار پائے گا۔
حضرت جنید رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے، دنیا کی جو بلائیں اور مصیبتیں میرے اوپر نازل ہوتی ہیں، میں انہیں نا گوار نہیں سمجھتا ہوں ۔ کیونکہ میں نے ان کی اصلیت سمجھ لی ہے، کہ دنیا رنج و غم اور بلا و آزمائش کا گھر ہے۔ اور دنیا مکمل بلاو مصیبت ہے اس کی اصلیت یہ ہے کہ وہ مجھ سے ہمیشہ ان چیزوں کے ساتھ ملتی ہے جو مجھ کو نا گوار اور نا پسند ہے۔ تو اگر وہ کبھی مجھ سے کسی ایسی چیز کے ساتھ ملے جو مجھے پسند ہے۔ تو یہ اس کا فضل و کرم ہے ۔ ورنہ اس کی اصلیت بلا و مصیبت ہے۔ اس سے متعلق ایک عارف کے یہ اشعار ہیں:
يُمَثَلُ ذُو اللَّب فِي لَبِّهِ شَدَائِدَةَ قَبْلَ أَنْ تَنْزِلَا
عقلمند دنیا کی مصیبتوں کا نقشہ اپنی عقل میں ان کے نازل ہونے سے پہلے کھینچ لیتا ہے
فَاِنْ نَزَلَتْ بَغْتَۃ لم ترعہ لما كَانَ فِي نَفْسه مثلا
کہ اگر وہ مصیبتیں اچانک نازل ہو جائیں تو وہ اس کو خوفزدہ نہیں کرتی ہیں۔ کیونکہ اس کی ذات میں ان کا نقشہ پہلے سے موجود ہے
رَأَى الْأَمْرَ يُفْضِي إِلَى اخر فَصَيَّرَ اخِرَةَ أَوَّلَا
وہ مصیبت کو اس کے آخر تک پہنچتے دیکھتا ہے۔ پس وہ اس کے آخر کو اول بناتا ہے
یعنی وہ سمجھتا ہے کہ یہ مصیبت ایک دن ختم ہو گئی ۔ لہذا مصیبت کے ختم ہونے کی خوشی اس کو اس کے نازل ہونے کے وقت ہوتی ہے ۔
وذوا الْجَهْلِ يَا مَنْ أَيَّامَهُ وَیَنَسَى مَصَارِعَ مَنْ قَدْ خَلَا
اور جاہل مصیبت کے دنوں سے بے فکر رہتا ہے۔ اور مصیبت سے گزرے ہوئے شخص کی بد حالیوں کو بھول جاتا ہے۔
فَإِنْ دَهَمَتُه صُرُوفِ الزَّمَا نِ بِبَعْضِ مَصَائِبِهِ أَعْوَلَا
لہذ ا اگر زمانے کی گردشیں اپنی بعض مصیبتوں کے ساتھ اس پر چھا جاتی ہیں تو وہ فریاد کرتا ہے
وَلَو قَدَّمَ الْحَزْمَ مِنْ نَفْسِهِ لَعَلِمَہَ الصَّبْرٌ عِنْدَ الْبَلا
اور اگروہ اپنی ذات سے ہوشیاری اختیار کرتا ہے تو وہ اس کو مصیبت کے وقت صبر کی تعلیم دیتا۔
شیرینی وتلخی میں اللہ تعالیٰ کی پہچان
حضرت ابوسلیمان دارانی نے حضرت احمد بن ابوالحواری سے فرمایا: اے احمد! تمہاری زندگی کے کافی دن گزر چکے ہیں۔ اب تمہارے لئے کچھ بھوک، اور کچھ برہنگی ، اور کچھ ذلت و رسوائی ، اور کچھ صبر ضروری ہے۔ لہذا اے عارف ! جو سختیاں اور مصیبتیں تمہارے اوپر یا دوسروں کے اوپر واقع ہوں، جب تک تم اس دنیا میں مقیم ہو، ان کو انوکھی اور تعجب خیز نہ سمجھو۔ کیونکہ اس دنیا میں جو جلالی تجلیاں ظاہر ہوتی ہیں ، ان سے تمہارا موصوف ہونا ضروری ہے۔ لہذا تم کسی شے کو انوکھی نہ سمجھو۔ نہ کسی شے پر تعجب کرو۔ بلکہ تمہارے اوپر واجب ہے کہ تم جمال و جلال اور شیرینی وتلخی میں اللہ تعالیٰ کو پہچانو۔ کیونکہ اگر تم اللہ تعالیٰ کو صرف جمال میں پہچانو گے تو یہ عوام کا مقام ہے اور جلال میں پہچاننا سکون وادب ، اور رضا و تسلیم ہے
لہذ افقیر کو چاہیئے کہ وہ سمار( ایک بوٹی ) گھاس کی طرح ہو جائے ۔ جب تیز میدانی ہواؤں کا حملہ ہوتا ہے تو وہ سر جھکا دیتی ہے اور جب ہوا گزر جاتی ہے تو وہ سر اٹھا لیتی ہے۔ اور جس طرح تمہیں مصیبتوں کے واقع ہونے کو انوکھا نہ سمجھنا، اور رنج و غم اور گریہ وزاری نہ کرنی چاہیئے ۔ اسی طرح خوشحالیوں کے پیش آنے پر تمہیں خوش نہ ہونا چاہیئے ۔ نہ اترانا چاہیئے ۔ کیونکہ خوش حالی جمال ہے۔ اور جمال کے قریب جلال ہے ۔ اور جلال کے قریب جمال۔جس طرح رات اور دن یکے بعد دیگرے ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔ اس طرح جمال اور جلال بھی یکے بعد دیگرے ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔ پس عارف دونوں کے رنگ میں رنگین ہوتا ہے۔ نہ کسی شے کو انوکھی سمجھتا ہے نہ کی شے پر تعجب کرتا ہے۔ کیونکہ قدرت کی اصل سے جو کچھ ظاہر ہوتا ہے سب ایک ہے۔
اور صدیق اور صادق میں اس سے امتیاز کیا جاتا ہے۔ کیونکہ صدیق کسی شے پر تعجب نہیں کرتا ہے نہ وہ اللہ تعالیٰ کے کسی وعدے میں پس و پیش کرتا ہے اور صادق ، جب کسی انوکھی شے کو دیکھتا ہے تو اس پر تعجب کرتا ہے۔ اور جب کسی شئی کا وعدہ کیا جاتا ہے تو اس کے ہونے میں پس و پیش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سید و حضرت مریم علیہا السلام کو صد یقیت سے موصوف فرمایا۔ اور سیدہ حضرت سارہ رضی اللہ عنہ نے اس سے موصوف نہیں فرمایا۔ کیونکہ حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کو جب خلاف عادت لڑکا پیدا ہونے کی بشارت دی گئی تو انہوں نے اس کو انوکھا سمجھا اور فرمایا۔
إِنَّ هَٰذَا لَشَيۡءٌ عَجِيب بے شک یہ تعجب کی چیز ہے تو فرشتوں نے ان کو جواب دیا- تَعْجَيْنَ مِنْ اَمرِ اللهِ کیا آپ اللہ تعالیٰ کے حکم پر تعجب کرتی ہیں۔ اور حضرت مریم علیہا السلام نے کچھ تعجب نہیں کیا۔ بلکہ صرف سمجھنے کے لئے پوچھا۔ یا اس کا وقت یا اس کی کیفیت دریافت کی۔ کہ زوجیت کے ساتھ ہوگا۔ یا بغیر زوجیت کے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔