رسالہ نقشبندیہ مسمّٰے بہ
مفتاح اللطائف
از تصنیف لطیف
قدوۃ السالکين زبدۃ العا رفین جناب فیض ماب خواجہ محمداسلم بن خواجہ جلال الدین قد س سرہ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ الِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا عَلَى سَوَاءٍ الطَّرِيق وَالصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِنَا بِالصِّدْق وَالتَّحْقِيقِ، وَعَلَى أَصْحَابِهِ الْعِظَام وَالہ الْكِرَام وَالتَّابِعِينَ رِضْوَانُ اللَّهِ تَعَالَى عَلَيْهِمْ أَجْمَعِينَ. تمام ستائشوں کے لائق تو وہی ذات ہے، جس نے ہم کو سید ھی راہ بتائی اور رحمت اور سلام ہو ہما رے رسول محمد ﷺ پرجو سچے اور صادق ہیں آپ کے بزرگ دوستوں اور آل تابعین پر خوشی ہو خداوند تعالیٰ کی۔ بعد اس کے کہتا ہے فقیر حقیر پر تقصیر محمد اسلم بن شاہ جلال خان مولف اس رسالہ نقشبندیہ کا جو سے بمفتاح اللطائف ہے کہ یہ سالہ چند فصلوں میں ہے جن میں بیان وظیفوں اور ذکروں و لطیفوں مقامات عالیہ نقشبندیہ کا ہے۔ اور خاتمہ میں شجرہ طیبہ مبار کہ رکھا گیا ہے تا کہ صادق الیقین اورسچے طالب و مقبول سالک بہرمند ہوں وبالله التوفيق وعليه التكلان اللهم ارنا الحق حقاو ارزقنا اتباعه أمرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه ( اور اللہ ہی کےساتھ توفیق ہے اور اسی پر توکل اے اللہ دکھلا ہم کو حق ٹھیک ٹھیک اوروزی کر ہم کو اسکی اطاعت کی اور دکھا ہم کو جھوٹ کو جھوٹ اور روزی کر ہمارے بچنا اُس سے۔
اے سچےطالب پہلی منزل شریعت اور اس میں مرتبہ عبودیت کا ہے جیسا کہ حق تعالی نے قرآن کریم میں فرمایا ہے وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِاور میں نے جِنّ اور آدمی اسی لئےبنائے کہ میری بندگی کریں پس پیدائش انسان کی تو عبادت کے لئے ہی ہے تاکہ میری عبادت کرے اور میری طرف توجہ لائے اور سیدھا راستہ پائے جس نے عبادت نہ کی نعمت سے حصہ نہ پایا۔ خسارہ اور ٹوٹا حاصل کیا ۔ ومَن كانَ فِي هَذِهِ أَعْمَى وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى وَ أضَلُ سَبِیلا اور جو آدمی اندھا ہے د نیا میں معرفت خداسے و اندھا ہو گا قیامت کے دن دیدار خدا سے اور وہ بہت بھولا ہوا ہے سیدھے راستہ سے) ۔ وجاء في حديث النبي عليه الصلوة والسلام كَمَا تَعِيشُونَ تَمُوتُونَ وَكَمَا تَمُوتُونَ تُبْعَثُونَ وَكَمَا تُبْعَثُونَ تُحْشَرُونَ ) فرمایا نبي عليه الصلوة والسلام نے کہ جس حال میں تم ہو گے اسی میں مروگے جس حال میں تم مرے اس حال میں اٹھائے جاؤگے اور جس حال میں اٹھائے جاؤگے اس حال میں تمہارا حشر ہوگا ) . پس شریعت کے لغوی معنی شروع کرنے کے ہیں، یعنی رجوع کرنا بوسیلہ عبادت کے حق تعالے کی طرف جیساکہ صاحب شرع رسالت پناہ ﷺ نے فرمایا ہے بنی الاسلام علی خمسة اشیاء پانچ چیزوں پرا سلام کی بنیاد ہے اول کلمہ شریف پڑھنا دوم نماز کا ادا کرنا۔ سوم روزے رمضان شریف کے رکھنے چھارم اگر صاحب نصاب ہو تو زکواۃ دینی۔ پنجم اگر طاقت حج کی رکھتا ہو توحج کرنا اور ہمیشہ احکام شرعیہ پر محکم و مضبوط رہنا۔ ایک بال بھر ایک ذرہ کے مقدار تجاوز و تفاوت نہ کرنا ۔ فرض و واجبات اور سنن و مستحبات کو بجالانا – پس جو کام موافق شرع کےہے اس کو اختیار کیا اور جو خلاف ہے اس کو تر ک کرنار اہ مستقیم یہی ہے :
پس اے سچے طالب جان کہ سرور کائنات خلاصہ موجودات نے فرمایا ہے۔
الدنيا مزرعة الآخرة .
اینچنین گفته است پیر معنوی ای برا در آنچه کاری بد روی
از مکافات عمل غافل مشو گندم از گندم بروید جوزجو
دنیا آخرت کی کھیتی ہے ۔ مولانا مولوی روم علیہ الرحمۃ نے ارشاد فرمایا ہے ۔ کہ ا ے برادر جوکچھ تو بوئیگا سو کا ٹے گا مکافات عمل سے غافل مت ہو۔ گیہوں سے گیہوں اور جو سے جو اُگتے ہیں۔
پس اے طالب جان تو کہ شریعت مثل کشتی او طریقت مانند دریا کے حقیقت مثل سیپ کے اور معرفت مانند موتی کے ہے۔ کما قال علیہ السلام الشریعت كالسفينة والطريقة كالبحر والحقيقت كالصدف والمعرفة كالدر فمن اراد الدر يركب السفينة ثم شرع في البحريصل الى الدر و من ترك هذه الترتيب لم يصل الى در(رسول پاک ﷺ نے فرمایا کہ شریعت مثل کشتی کے ہے اور طریقت مثل دریا کے اور حقیقت مثل سیپ کے و معرفت مانند موتی کے پس جو شخص موتی لینے کا ارادہ رکھتا ہے سوار ہو کشتی پر اور چلے دریا میں حاصل کر یگا موتی کو اور جس نے چھوڑ دیا اس ترتیب کو ہرگز موتی نہ پائیگا
کشتی نشستگانیم اے بادشرط بر خیز
باشد که بازبینیم آن یارآشنا را
(ہم ٹوٹی ہوئی کشتی میں بیٹھنے والے لوگ ہیں، اے موافق ہوا چل کہ ہم پھر اس یار آشنا (محبوبِ حقیقی) کو دیکھ سکیں)
شریعت را مقدم دارا کنوں طریقت از شریعت نیست بیروں
(پہلے شریعت کو مقدم رکھنا چاہیے٬ کیونکہ طریقت شریعت سے باہر نہیں ہے۔)
کسے کو در شریعت را سخ آید طریقت راه بر وے خود کشاید
(جو شخص شریعت پر پوری طرح عمل پیرا ہوتا ہے طریقت خود بخود اس پر اپنی راہیں کھول دیتی ہے۔)
چونکه از سیل فنا بنیاد دہستی برکند چوں تر انوح است کشتیبان زطوفان غم مخور
(اے دل کے سیلاب اگر وجود کی بنیاد اکھاڑدے جبکہ تیرا کشتی بان نوح ہے طوفان کا غم نہ کر)
قال عليه السلام الشريعۃ اقوالى والطريقةا فعالى والحقيقۃ احوالي والمعرفة اسراري
احکام شریعت ہمہ ا قوال من است اسرار طریقت همه احوال من است
بیرون زمن حقیقتے دیگر نیست عالم تفصیل آدم اجمال من است
اے طالب جان کہ شریعت ، طریقت ، حقیقت ، معرفت چار مرتبہ ہوئے۔ اور طریقت ، حقیقت ، معرفت ، شریعت سے ہی پیدا ہوتے ہیں ؟ شریعت مانند دودھ کے اور طریقت مثل دہی کے اور حقیقت مثل مکھن کے اور معرفت مانند روغن (گھی )خالص کے ہے ۔ اگر دودھ نہ ہو تو یہ تینوں کہاں سے بن سکیں ۔
معرفت میں بھی تین مرتبے پیدا ہوتے ہیں۔ واحدیت ، وحدت، احدیت اور واحدیت واحدیت کی دونوں وھدت سےمشتق ہیں فی الحقیقت مرتبہ احدیت تمام مراتب کی جائے صدور ہونے کی منشاء ہے ۔ پس یہ تمام سات مرہتے ہوئے ۔ اور سالک کی بھی سات ہی منزلیں ہیں
اول ناسوت ، دوسری ملکوت ، تیسری جبروت ، چوتھی لاہوت ، پانچویں با ہوت چھٹی ہا ہوت ، ساتویں ذات البحت اور امہات صفات باری تعالیٰ عزوجل بھی سات میں – الحی ،القدير، المريد، السميع، البصير، العليم، الكليم
اور ارواح بھی سات ہیں ۔ اور وجود آدمی میں نفس بھی سات ہیں اور جو ہر بھی انسان میں سات ہیں ۔ افلاک بھی سات ہیں، فلک قمر ، فلک عطارد، فلک زہره، فلک شمس ، فلک مریخ ، فلک مشتری ، فلک زحل اور زمین کے طبقہ بھی سات ہیں۔ اقالیم بھی سات ہیں صفت ایمان سات – شرط ایمان سات اندام سجده سات واجبات شریعت سات اور طواف بیت اللہ سات لطائف نقش بند یہ عالیہ بھی سات ہیں :
لطيفہ اول قلب – لطیفہ دوم روحی – لطیفہ سوم سرّی – لطیفہ چہارم سرّ السری – لطیفہ پنجم خفی – لطیفہ ششم اخفی –لطیفہ ہفتم قدسی – انشاء اللہ آگے ہم ہر ایک کی شرح کرینگے ۔
فصل اول در بیان طلب مرشد
پس جان اے طالب صا دق اول طالب کو مرشد کامل طلب کرنا چاہئے جو پیشیوا شریعت و طریقت و حقیقت و معرفت کا رکھتا ہو، تاکہ وہ تجھ کو راستہ دکھلائے کہ اول أطلب الرفيق ثم الطريق اور مرشد کامل کے وسیلہ سے اس راہ میں قدم رکھے کما قال الله تعالى عز وجل يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَابْتَغُوْٓا اِلَيْهِ الْوَسِيْلَةَ ( جیسا کہ خداوند برتر نے فرمایا ہے اے لوگو جو ایمان لائے ہو ڈر واللہ سے اور اُس کی طرف وسیلہ پکڑو بڑا وسیلہ اور بزرگ دوست اس راہ میں فرقان حمید ہے اور وسیلہ متوسط محمد مصطفى صلى الله علیہ وسلم شفیع المذنبین ہیں اور چھوٹا وسیلہ مرشد کامل ہے جو تجھ کو راہ راست پر چلاتا ہے ۔
نباشدمبتدی را ہیچ بہ زیں کہ پیرے را بجوید راہبر دیں
كما قال عليه السلام من لا شيخ له فشيخه شيطان
ہر آن کارے کہ بے اُستاد باشد یقین است کہ بے بنیاد باشد
اے بیخبر کوش کہ روزے خبر شوی تاره رو نباشی و کے راہبر شوی
(اے بے خبر کوشش کر تاکہ تو صاحب خبر بنے جب تک کہ تو مسافر نہ بنے گا رہبر کیسے بنے گا)
پس طالب کو چاہئے بلکہ لازم ہے کہ اول علم ظاہری حاصل کرے
قرآن بخوان تفسیر هم آموز خط صرف ولغت نحومعانی یا بیاں کلام وهم فقه وخبر
قال عليه السلام كن عالماً أو متعلما ولا تكن ثلثا بعده علم باطن
فرمایا رسول علیہ الصلوة و السلام نے کہ ہو تو عالم یا طالب العلم اور نہ ہو تیسرا بعداس کے علم باطن ہے ۔
علم باطن ہم چو مسکہ علم ظاہر ہم چو شیر کے شود بے شیر مسکہ کے بود بے پیر پیر
(علم باطن مکھن کی مانند ہے اور علم ظاہر دودھ کی مانند ، دودھ کے بغیر مکھن کہاں بنتا ہے اور پیر کے بغیر بزرگی کہاں سے آئے گی؟ -)
قال الله تعالى وَالرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ کہتے ہیں پختہ علم والے ہم تصدیق کرتے ہیں اُس تمام کی جو حبیب خدا ﷺفرماتے ہیں۔ اللہ کے پاس سے ہے اور نہیں یاد کرتے اُس کو مگر صاحب عقل ۔ پس مرشد کامل جو کچھ فرمائے اس کو اختیار کرے اور اُس کے حکم سے با ہر ایک قدم نہ رکھے۔ نافرمانی نہ کرے۔ ادب استادوں کا اورتعظیم مرشد کی بجا لائے اور بے اد ب نہ ہو۔
از خدا جو ئیم توفیق ادب بے ادب محروم ماند از لطف رب
(ہم خدا سے ادب کی توفیق چاہتے ہیں بے ادب خدا کے لطف سے محروم رہا)
بےادب تنہا نه خود را داشت بد بلکه آتش در همه آفاق زد
(بے ادب نے نہ صرف اپنے آپ کو خراب کیا بلکہ اس نے تمام اطراف میں آگ لگا دی)
بے ادبی مثل بیہودہ باتیں کرنی یا کھیلنا سا منے مرشد کے اور کھانا پینا اور اپنا سا یہ مرشد پر ڈالنا، اس کی طرف پیٹھ کرنا، تھوکنا اورمثل اس کے جو کام بے ادبی کے ہوں نہ کرے ۔ بلکہ مرشد کے سامنے خاک ہو کر خاک میں ملے
در بہاراں کے شود سر سبز سنگ خاک شو تاگل بروید رنگ رنگ
(موسم بہار میں پتھر سر سبز و شاداب کب ہوتا ہے خاک (مٹی) بن جا تاکہ رنگ برنگ کے پھول کھلیں)
چند سالے سنگ بودی دل خراش آزمون رایک ز مانے خاک باش
تو سالوں دل خراش پتھر رہا ہے،آزمائش کے طور پر تھوڑی دیر کے لئے خاک بن جا
گر تو سنگ خاره مر مرشوی چون بصاحب دل ر سی گوہر شوی
(اگر تو سنگِ خارہ ھے یا مرمر کا پتھر ھے ۔جب تو کسی صاحبِ دل کے پاس پہنچے گا تو،تو گوہر بن جائے گا)
یک ز مان صحبت با اولیاء بہتر از صد سال زہد بے ریاء
(اللہ کے ولی کی صحبت کے چند لمحےسو سال کی بے ریا عبادت سے بھی بہتر ہے)
اور ہمیشہ مرشد کے آستانے پر عاجز اور خاکسار بناره – قال عليه السلام كُنْ كَأَنَّكَ غَرِيبٌ فِي الدُّنْيَا، أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ، وَعُدَّ نَفْسَكَ فِي أَهْلِ الْقُبُو فرمایانبی علیہ السلام نے دنیا میں مانند مسافر راستہ چلنے والے کے رہ اور خیال کر جان اپنی کو اہل مقابر سے :
مرید کو چاہئے کہ اپنے اوپر بغیر اذن پیر کے کوئی چیز لازم نہ کرے اگر کوئی چیز لازم کرلیگا، تو وہ خواہش نفسانی ہوگئی ہے
اگر خواهی که خلوت را گزینی پس آن بہتر که پیش شیخ شینی
اگر بے پیر کارے پیش گیری ہلاکت را ز بہر خویش گیری
بلکہ اپنے آپ کو ایسا پیر کے حوالہ کرے جیسے میت غسال کے ہاتھ میں کالمیت بید الغاسل مثل مشہور ہے مردہ بدست زندہ
اور پیر کو چاہئے کہ اچھی طرح توجہ کرے ۔
چون از طرف معشوق نباشد کششے کوشش عاشق بیچاره بجاے نہ رسد
گرد و امیطلبی دردے باید هر که را در د نباشد به دوائے نہ رسد
عاشق که شد که یار بحالش نظر کرد ای خواجه در د نیست و گرنه طبیب است
پس طالب کو چاہئے کہ حقیقی طبیبوں کی خاک پا ہوتا کہ باطنی آنکھوں کا اندھا پن دور ہو
رفع این کوری بدست خلق نیست لیک اکرام طبیب از زہد نیست
ایں طبیبان رابجان بنده شوید تا بمشک وعنبر آکنده شوید
میں جو کچھ خدمت کرتا ہوں بلا عوض ہے
یا رب مباد کس را مخدوم بی عنایت
اور اپنے پیر کوہمیشہ حاضر جانے اور مرشد کے خیال سے غافل نہ ہو۔ اور یقین کامل رکھے اور جب مرید پیر کے روبرو آئے پہلے سلام کرے ادھر ادھر نہ دیکھے۔ جب تک سامنے پیر کے ہے مرید کو کوئی شغل مفید اور بہتر دیدار پیر سے نہیں ۔ اور جب چاہے کہ پیر سے رخصت ہو۔ جہاں تک پیر کی نظر ہو۔ اُلٹے پاؤں چلے ۔ اور شیخ کی طرف پیٹھ نہ کرے ۔
قال النبي صلى الله عليه وسلم الارادة ان لا يفارق المريد شيخه عن القلب ساعة وبرى ولايت الشيخ محيطا في كل زمان و مكان فرمایا نبی ﷺ نے ارادہ یہ ہے کہ مرید خیال شیخ کو دل سے نہ بھلائے اور خیال کرے ولایت مرشد کو محیط ہر وقت ہر جگہ ہیں۔ اور مرشد کو بھی چاہئے کہ پہلے مرید کو شریعت کے ساتھ درست اور پختہ کرے تا کہ وہ سیدھی راہ چلے ۔
فصل دوم دربیان اوراد
قال عليہ السلام من لا ورد له لا وارد له وتارك الورد ملعون فرمايانبی علیہ السلام نے جس کا کوئی ورد نہیں اسکا کوئی وارد نہیں اور ور کا تارک لعنتی ہے ۔
اے طالب جان کہ اور اد نقشبند ی طریق کے یہ ہیں صبح کے وقت جب اُٹھو تو سب سے پہلے دعائے ماثوره اللهُ بِكَ أَصْبَحْنَا وَبِكَ أَمْسَيْنَا وَبِكَ تَبَعْتُ وَبِكَ لَتُورُ وَ مَوتُ وَبِكَ نَحْیا ہمیشہ پڑھا کرے جیسا کہ فرمایا نبی علیہ اسلام نے افضل الاعمال ادو مہا اور نماز صبح پڑھے اور بعد اس کے سو مرتبہ لا إله الا الله الملك الحق المبین اور ایک مرتبہ سورہ یٰس اور ایک مرتبہ واسطے کھلنے باطن کے سورہ یوسف پڑھے ۔ اور ایک مرتبہ درود مستغاث و در و داکبر پڑھے۔ اور واسطے معاش ظاہری کے سورہ الم ترکیف اکیس بار پڑھے۔ پھر نماز اشراق پڑھے بعدہ ایک ہزار بار کلمہ کوزبان سے پڑھے ۔ پھر نماز چاشت پڑھے اور بعد نماز ظہر کے سورۃ انا فتحنا ایک مرتبہ اور سو مرتبہ استغفار سو مرتبہ درود شریف ، سو مرتبه کلم تمجید پڑھ کر قرآن شریف کی تلاوت میں مشغول ہو۔ فرمایا نبی علیہ الصلاة و السلام نے افضل العبادة تلاوة القرآن بڑی افضل عبادت تلاوت قرآن شریف کی ہے :
طریقہ نقشبندیہ میں اگر طاقت ہو تو ہفتہ وار نہایت شوق اور باقاعدہ قرآن شریف ختم کرے، اور اگر وقت نہ ملے یعنی صاحب کسب ہوا تو سوا پارہ روزانہ ورد رکھے بعد نماز عصر کے سورہ عم ایک بار پڑھے روشنائی ظاہر باطن کی ظاہر ہو گی۔
پھرم راقبہ اسم ذات یانفی واثبات کا مغرب تک کرے ۔ بعد نماز مغرب ایک مرتبہ سورہ واقعہ پڑھے ۔ اور واسطے جمعیت ظاہری اور باطنی کے یا الله یا جامع ایک سو چودہ مرتبہ پڑھے ۔ فوائد اس کے تحریر و تقریر سے باہر ہیں * بعد نماز عشا کے ایک بار سورة الملك ، سات مرتبه سوره فاتحه ، سات بار معوذتین ، سات مرتبہ سورة اخلاص ، سات مرتبہ کلمہ تمجید پڑھے۔ تا کہ شیطانی وسوسوں اور نفسانی خطروں اور زمانی آفتوں سے محفوظ رہے ۔ اور اگر توفیق یاری کرے تو ایک بار سونے کے وقت درود حاضری پڑھے شاید کہ قوت پڑھنے کے جمال پاک نبی ﷺسے مشرف ہو ۔
بعده وقت تہجد کے اُٹھے۔ بعد نماز تہجد تین بار سورہ یٰس ، گیارہ بار سورہ مزمل پڑھے یہ وقت عجیب اثر رکھتا ہے ۔ پھر ایک ہزار بار اسم اعظم یا اللہ یا ھو پڑھے کہ تمام مخلوقات پرندوں و درندوں تک اُس کے ساتھ انس یعنی الفت پکڑیں ۔ وقت صبح کا عجیب اور عمدہ وقت ہے جو کچھ کوئی مانگے سوو ہی پائے ۔
چه خوش ملکے است ملکے سحرگاہی دران کشور بیایی هر چه خواهی
خوش آن با د نسیم صبحگاهی که در دشب نشینان را دوا کرد
طالب کو چاہئے کہ اپنے اوپر روزے ایام بیض و یوم قمرو یوم بیض کے لازم کرے ۔
قال عليه الصلوة والسلام لكل شئ زكوة وزكوة الجسد الصوم
فرمایا نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے ہر شے کی زکوۃ ہے اورزکوۃ بدن کی روزہ ہے۔
فائدہ – واسطے رفع حاجات و مہمات کلی و جزئی کے لئے اور واسطے دفع کرنےدشمن بلا و قحط و و با و ظالم اور واسطے کشائش باطنی کےطالب کو ختم خواجگان طریقہ عالیہ کا بہت موثر ہے ، پڑھا کرے ۔ ہزار ہا حاجت پوری ہوگی ۔
طریقہ پڑھنے کا یہ ہے ۔ پہلے الحمد شریف 7 بار درود شریف سوبار سورہ الم نشرح ۹ بار – قل هو الله ایک ہزار ایک مرتبہ مع بسم الله – پھر درود شریف سوبار اور آخیر میں الحمد شریف سات بار پڑھے ۔ ثواب اس ختم شریف کا خواجگان کی روحوں کو بخشے۔ اور امداد طلب کرے ۔ تین روز کے اندر مدعا بر آمد ہو ۔
نام مبارک خواجگان کے یہ ہیں۔ خواجہ بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ ، خواجہ ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ ، خواجہ ابو علی فارمدی رحمہ اللہ علیہ ، خواجہ یوسف ہمدانی رحمتہ اللہ علیہ ، خواجہ عبد الخالق غجد وانی رحمۃ اللہ علیہ ، خواجہ عارف ر یوگری رحمتہ اللہ علیہ ، خواجہ محمد ابو الخیر فغنوی رحمتہ اللہ علیہ ، خواجہ علی رامتنی رحمتہ اللہ علیہ خواجہ محمد بابا سماسی رحمتہ اللہ علیہ ، خواجہ سید میر کلاں رحمۃ اللہ علیہ ، خواجہ بہاء الحق والدین نقشبندی قدس سره العزيز
دیگر واسطے ہر حاجبت دینی و د نیوی کے تین ہزار بار یاحی یا قیوم لا اله الَّا انْتَ سُبْحَانَكَ إِلَى كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ پڑھے۔ انشاء اللہ حاجت پوری ہو ؟ فائدہ استخارہ ہر کام کے لئے سنت ہے ۔ اور استخارہ کی چند قسمیں ہیں اور عمدہ تر یہ ہے کہ پہلے دو رکعت نفل بہ نیت استخارہ اس طور پر پڑھے ۔ کہ ہر کعت میں بعد الحمد شریف کے پچیس مرتبہ سورہ اخلاص پڑھے بعد تشہد کے سلام پھیر کرجلد سیدھا کھڑا ہو جائے ۔ اور الحمد شریف کو شروع کرے ۔ جب إِيَّاكَ نَعۡبُدُ وَإِيَّاكَ نَسۡتَعِينُ پر پہنچے تو اس آیت کر یمہ کو اتنی دیر پڑھتا رہے کہ ایک طرف کو خودبخود منہ پھر جائے ۔ اگر دائیں طرف منہ پھرا تو جان لے یہ کام ہو جائیگا ۔ اُس کا کرنا مفید ہے۔ اور اگر بائیں جانب منہ پھرا تو خیال کرے کہ یہ کام نہ ہوگا۔ اُس کا کرنا مفید نہیں ۔ اس سے بچے اور حقیقت حال اللہ خوب جانتا ہے :
فصل سوم دربیان راہ حق
خداوند تعالے کی راہ جانب شرق یا غرب، جنوب یا شمال میں نہیں اور نہ زمین و آسمان میں بلکہ اس کی راہ مومن کے دل میں ہے ۔ فرمایا خدائے بزرگ و برتر نے و في انفسكم افلا تنبحران اورفرمایانبی علیہ السلام نے من عرف نفسه فقد عرف ربه
در ہر دلے کہ آتش عشق تو داغ نیست تاریک خانه ایست که در وے چراغ نیست
قطعه
مشو بینا چشم سرکہ نار و دید خود را ہم بدل بیں تا بہ بینی ہر چہ خواهی تابپایانش
بقر ب وبحر و بر وغلط زاں کردچشم سر که دایم خانه خواب است آبست اصل حیرانش
اور یہی کہا ہے عارف نے مُشَاهَدَةً الْقُلُوب إيصَالِهَا بِالْمَحْبُوب دل کا مشاہدہ محبوب سے ملنا ہے۔ فرما یا اللہ بزرگ بر ترنے وَ نَحْنُ اَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ ہم شاہ رگ سے بھی زیادہ نزدیک ہیں ۔
اے طالب ! جان لے کہ خداوند کی راہ میں دل سے چلتے ہیں نہ پاؤں سے
اے کمان تیر ها پر ساخته صید نزدیک است دورانداختہ
هر که دور انداخت او را دورتر این چنین صید است او مهجور تر
ٱللّٰهُخداوند تعالى نور ٱلسَّمٰوَتِ وَٱلۡأَرۡضِمطلوب ہر اہل آسمان زمین کا مَثَلُ نُورِهٖکوئی اس نور کی مثل جو اُس کی طرف منسوب ہو كَمِشۡكَوٰة مانند طاق کے ہے کہ مراد اس سے قلب مومن ہے فِيهَا مِصۡبَاحٌاس طاق میں چراغ روشن جو نظارہ شغل نام اللہ کا ہوتا ہے ٱلۡمِصۡبَاحُ وہ چراغ روشن فِي زُجَاجَةٍایک قندیل میں ہے کہ کنایہ دل سے ہے وہ دل نہایت صفائی کے سبب ٱلزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوۡكَب گویا کہ وہ ستارہ ہے ، دُرِّيّٞ چمکدارمثل زہرہ یا مشتری کے با عتبار سعدیت کے اور وہ چراغ جو اس میں ہے ، مراد شغل نظارہ اسم اللہ ہی سے يُوقَدُ روشن ہوا ہے مِن شَجَرَةٖ مُّبَٰرَكَةٖ زيت کے با برکت درخت کے تیل سے جو بہت نافع ہے۔ مراد تجلیات سے تجلیات ذاتیہ ہیں کہ حالت شغل ان تجلیات پر موقوف ہے زَيۡتُونَةٖ وہ زیتون جوا حدیت مطلقہ کے وجود کی زمین سے پیدا ہوا – لَّا شَرۡقِيَّةٖ نہ جانب شرق میں ہے جو مشرق کی طرف منسوب ہے اور یہ مرا دمرتبہ تجلی اول سے ہے جوبہ سبب شغل اسم اللہ کے روشن ہوتی ہے وَلَا غَرۡبِيَّةاور نہ جانب غرب کی ، جو طرف مغرب کے حکم کریں اور یہ مراد مرتبہ تجلی دوسری سے کہ خاصیت شغل اسم اللہ سے منکشف ہوتی ہے يَكَادُ زَيۡتُهَا قریب ہے – که روغن اس درخت کا که مراد تجلیات اشغال سے ہے يُضِيٓءُ خود بخود روشن ہو جائے ۔ وَلَوۡ لَمۡ تَمۡسَسۡهُ اگرچہ نہ چھوئے اُس کو نَار آگ روشنی کا وصفائی اس درجہ کی جو توجہ تجلیات اشغال اسم دوسرے سے نہیں ہوتی نُّورٌ عَلَىٰ نُورٖروشنی پر روشنی یعنی صفائی بہ شغل صفائی اسم اللہ کے نور سے چراغ کہ مراد تجلیات و لطائف سے ہے چراغ روشن کر کے دل کی مشکوہ میں ساتھ لمعات الہیہ کے رکھا ہے ضابطہ حالات کاو مجمع تمام واقعات تجلیات کا ہےیھدی اللہ راہ دکھاتا ہے خدائے تعالیٰ لنورہ ساتھ اپنے نورکے مَن يَشَاءُ جس کو چاہے وَيَضْرِبُ اللهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ اللہ نے بیان کی مثال لوگوں کے لئے اور اللہ ہر شے کو جانتا ہے، ظاہر ہے ۔
فرمایا پیغمبر عليہ الصلاة والسلام نے قلب المؤمن بيت الرب مومن کادل خدا کا گھر ہے ۔
وه نورمذ کوره مثل بادشاہ کے ہے اور حکم اس کا بیچ تمام اعضا و حواس کے جاری ہے اور تمام ماتحت اُس کے ہیں ۔ اس واسطے کہ وہ ٹھکانا اور آرام گاہ نور خدا کا ہے۔ اور حدیث میں آیا ہے قلب المو من اكبر من العرش و اوسیع من الكرسى وافضل ما خلق اللہ تعالی یعنی مومن کا دل بڑا ہے عرش سے فراخ ہے کرسی سے اور بزرگ ہے تمام چیزوں سے کہ پیدا کیا انکو اللہ تعالیٰ نے جیسا کہ قرآن مجید فرقان حمید میں آیا ہے۔ سنریھم قریب ہے کہ دکھلا ئیں گے ہم انہیں جومنکر ہیں طالبان تجلیات کے ایاتنا نشانیاں دل اپنے کی کہ ان میں ایک شق القمر ہے اس واسطے کہ دریدہ ہونا چاند کے دل کا مظہر اسرار ذات ہے،
جیسا کہ کسی عارف نے کہا ہے
دل یک قطره گر تو شگافی برون آید از و صدبحرصافی
فی الافاق جہان کے اطراف ہیں ، یعنی سالکوں کا بعد نہایت شغل تجلیات کے دل ایسا روشن ہو جاتا ہے کہ اُس کے تجلیات کے اطراف جہان یعنی کل جہان روشن ہو جاتا ہے مشاہدہ آفاقی سے یہی مراد ہے ۔ و في انفسکم اور تمہاری ذاتوں میں یعنی بعد کھلنے دل کے معارف و نشان معارف نفسی مکشوف ہو جاتے ہیں۔ حتى يتبين لهم تاکہ روشن ہو جائے طالبوں اورمنکروں کو قمر کا دل پھٹنے سے انه الحق کہ بیشک تجلیات ہمارے حق ہیں اولم يكفيك ربك كيا كافی نہیں ہے تیرا پروردگارتجھے انہ علی کل شئی کہ اوپر تمام اشیا کے تجلیات وارد کرنے سے شھید گواہ ہو۔ یعنی اگر عامہ ذات کے منکشف ہونے کا انکار کریں تو حضرت آفریدگار تجھے کافی ہے جو سالک کو چمکاروں ذات و صفات سے مشرف کرتا ہے ۔ الحمد لله على ذلك : نبی علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا ہے قلب المو من حرم الله وحرام ا ان يلح فيه غير الله كما جاء في حديث القدسي ان في جسد الأدمی قلب وفي القلب فؤاد وفى الفؤاد ضمير و فى الضمير روح وفي الروح سر و في السرخفي وفي الخفى نور و في النورانا الله :
ایک جماعت صوفیہ کی کہتی ہے کہ سر لطیفہ دل سے اعلیٰ اور روح سے کم درجہ میں ہے ۔ اور بعضے کہتے ہیں کہ لطیفہ روح سے بھی افضل ہے او وجہ اختلاف کی یہ ہے کہ سلوک میں بعضوں کو سیر ابتدا میں پہلے روح سے شروع ہوئی اور بعضوں کو لطیفہ سر سے
(ان في جسد الأدمی مضغۃ وفی المضغۃ قلب وفي القلب فؤاد وفى الفؤاد ضمير و فى الضمير روح وفي الروح سر و في السرخفي وفي الخفى نور و في النورانا الله :
لطیفہ روحی مقام نوح علیہ السلام شغل اللہ منزل ملکوت واردات طریقت مفتاح لا الہ الا اللہ نوح نجی اللہ خزانۃ است
لطیفہ سری منزل جبروت مقام ابراھیم علیہ السلام واردات حقیقت مفتاح لا الہ الا اللہ ابراھیم خلیل اللہ خزانۃاللہ مرید
لطیفہ قلبی منزل ناسوت شغل اللہ مقام آدم علیہ السلام واردات شریعت نزول جبرئیل مفتاح لا الہ الا اللہ آدم صفی اللہ خزانۃاللہ حی
لطیفہ سرالسری مقام موسی علیہ السلام منزل لاھوت واردات معرفت مفتاح لا الہ الا اللہ مودی کلیم اللہ خزانۃاللہ سمیع است
لطیفہ خفی منزل ھاھوت مقام عیسی علیہ السلام واردات واحدیت است مفتاح لا الہ الا اللہ عیسی روح اللہ خزانۃاللہ بصیر است
لطیفہ اخفی است مقام محمد مصطفے ﷺ واردات وحدت است مفتاح لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ خزانۃ اللہ علیم است
لطیفہ قدسی است واردات احدیت است و مقام ذات البحت است و مفتاح لا الہ الا اللہ الواحد القھار خزانۃ اللہ کلیم است اللہ انا)
کہتے ہیں لطیفہ سر محل مشاہدہ کا بغیر روح کے ہے اور روح جگہ محبت کی ہے اور دل محل معرفت ۔ اور بعضے صوفیا فرماتے ہیں کہ سر ایک لطیفہ ہے انسان میں مانند روح کے لیکن روح محل محبت اور سر محل مشاہدہ جیسے دل محل معرفت ہے اورمقتضا ئے اصول کا یہ ہے کہ سرلطیف ہے روح سے جیسے کہ روح قلب سے اور صوفیہ کہتے ہیں کہ یہ اسرار پوشید ہ تعلق اغیار سے ہیں اور مراد اغیار سے اظلال انسانی ہیں۔ اور لفظ سر کو اس شے پر بولتے ہیں جو بندہ میں اُس کے حالات پوشیدہ ہیں یعنی سر حال پوشیدہ کا نام ہے۔ اور بعضے صوفیہ کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ عقل و نفس و قلب و روح ایک چیز ہیں لیکن اطلاق ہر ایک کا ان اسمائے متعددہ پرباعتبار وجود مرتبہ کے ان مراتب سے ہے جیسا کہ شاہ جلیل الہ آبادی نے اپنی رموزات میں کہا ہے کہ نفس و روح و دل تمام ایک ہیں ۔کسی کو اس میں شک نہیں۔ واللہ اعلم بحقیقة الحال :
فصل چہارم در بیان تزکیہ نفس
جب طالب راہ حق اور دل کی صفائی حاصل کرنی چاہے تو بغیر تزکیہ نفس تصفیہ دل کے ہر گز حاصل نہ ہوگی پس طالب کو لازم ہے شروع سے تو بہ اورند امت کو اختیار کرے شمس تبریز رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے ۔
ند امت را امام خویش کرده همیشه اقتدا کن با دل و جاں
فرمایا نبي عليہ الصلاة والسلام نے التائب من الذنب كمن لا ذ لئے سے
بہردم تو به باید کرد عادت نخستین تو به باید پس عبادت
بہر یک فرض آمد تو به کردن بہردم تو به کن تا وقت مردن
شیخ نصیر الدین چراغ دہلوی اپنی مناجات میں فرماتے ہیں
زشر نفس امارہ نگا ہم دار یا اللہ ہوالے غیر خودکُلی زمن بردار یا اللہ
اللہ تعالے سورہ یوسف میں ارشاد فرماتا ہے ۔ وَمَا اجْزِئُ نَفْسِی ان النفس الامارة بالسوء اور میں بیزار ہوں اپنے نفس سے کہ وہ بہت ہی برائی کی طرف نسبت دلاتا ہے۔ اور فرما یا حبیب پاک ﷺنے اعدی عدوك نفسك التي بين جنبيك خیال کرو دشمن اپنا اپنے نفس کو جو تیرے دو پہلو کے درمیان ہے ۔ اور کہا حق تعالے نے موسے علیہ السلام کو عادی نفسك ثم عادى نفسك ثم عادي نفسك ، یعنی اےموسے دشمن جان نفس اپنے کو پھر دشمن خیال کرنفس اپنے کو پھر بھی دشمن خیال کر نفس اپنے کو بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ سے روایت ہے ، کہا اُنہوں نے ریت فی المنام ربي فقلت يارب فكيف الطريق فقال اترك نفسك فتعل دیكھا میں نے اپنے رب کو خواب میں پوچھامیں نے اے پروردگار کیونکر ہے راہ تیری طرف ، فرمایا خداوند تعالیٰ نے چھوڑے نفس اپنے کو اور چلا آ۔
جائے نفس امارہ کی ناف کے نیچے ہے۔ ہر طالب مولا کو چاہئے کہ نفس کافر سے عداوت کرے ۔ کما قال علیہ السلام اقتلوا انفسكم بسیف المجاهدات فرمایا نبی علیہ السلام نے قتل کرو تم اپنے نفسوں کو تلوار مجاہدہ سے ۔
نفس نتوان کشت الا با سه چیز چون بگویم یادگیرش اسے عزیز
خنجر خاموشی وشمشیر جوع نیزه تنہائی و ترک ہجوع
ہر که نبود مرد را این سہ سلاح نفس او هرگز نیاید با صلاح
قال الله تعالى والذين جاهدوا فينا لنهدينهم سبلنا – وه لوگ جو مجا ہده کرتے ہیں ہمارے راستہ میں البتہ دکھلا دیتے ہیں ہم اُن کو اپنا راستہ۔
مثل کم کھانا، وکم کلام کرنا، ملاقات عوام کی نہ کرنی ، کثرت روزوں کی، کم سونا ،ہمیشہ خدا کا ذکرکرنا وغیرہ لازم پکڑے ۔ قال علیہ السلام رجعنا من جهاد الاضعر الى جهاد الاکبر فرما نبی علیہ السلام نے رجوع کیا ہم نے جہاد اصغر (چھوٹے ) سے جہاد اکبر (بڑے) کی طرف۔مثل کم کھانے اور کم سونے اور کم بولنے اورلوگوں کے ساتھ کم ملنے سے۔ فرما یانبی عليه الصلوة والسلام نے و من مات من العشق فقد مات شہیدا جو نفس کی لڑائی میں مرے وہ شہیدا کبر ہے ۔
درخت نفس را با بیخ بر کن بده مر نفس خود را گوشمالی
تا کہ دشمن کسی طرف سے راہ نہ پائے اور بری خصلتیں نفس امارہ کی اوصاف حمیدہ سے بدل جائیں۔ اوصاف ذمیمہ جیسے کبر ، غصہ ، شر، نفاق ، سمعت ، شہرت عجلت ، بخل ، کینه ، شهوت ، حرام ، حرص و ہوا ، حسد ، حقارت غیر، بغض غیبت ، حب جاه ، حب دنیا، جیسا کہ فرمایا نبی علیہ الصلوۃ و السلام نے حب الدنیا راس كل خطيئة محبت دنیا کی سر ہے ہر گنہ کا وغیرہ ۔ ان تمام کو چھوڑ کر اوصاف محمودہ اختیارکرے
اوصاف محمود مثل حلم، علم ، تواضع ، اخلاص ، شکر، سخا ، قناعت ،صبر ،تحمل ، آہستگی کم آزاری وغیرہ جب یہ خصلتیں پیدا ہو جا ئیں تو جانے کہ تزکیہ نفس حاصل ہوا۔ فرمایا خدائے برتر ہے وَنَفْسٍ وَمَا سَوهَا، فَالْهُهَا لجورها وَتَقُوها، قد افلح مَنْ زَكها پس نفس امارہ لوامہ ہو جائے و نفس لوامہ ملہمہ بنجا ئےاور نفس ملہمہ مطمئنہ ہو جائے و مطمئنہ راضیہ نفس راضیہ مرضیہ و نفس مرضیہ کا ملہ ہو پس تمام
نفوس سات ہوئے ۔ واللہ اعلم بالصواب :
فصل پنجم دربیان تصفیہ قلب و فضیلت ذکر
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ۔ قال قال رسول اللہ صلی الله عليه سلم الشيطان جا، تم على قلب ابن دم فاذا ذكر الله خن واذا عقل وسوس رواه البخاری – ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ فرمایا رسول اللہ ﷺنے کہ شیطان لپٹا ہوا ہے آدمیوں کے دلوںپر جب آدمی ذکر کرتا ہے تو الگ ہو جاتا ہے ۔ اور جب غافل ہوتا ہے تو وسوسہ ڈالتا ہے۔ پس نفس اور شیطان کا خلاف کرنا چاہئے
درخت دوستی بنشاں که کامدل بیار آرد نہال دشمنی بر کن که رنج بے شمار آرد
خالف النفس و الشيطان واخصهما انهما محصناك النصح فاتهم پس جان کے طالب صادق لطیفہ قلب بغیر مصقلہ کے صفائی نہیں پاتا۔ اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ رسول خدا ﷺسے یہ روایت کرتے ہیں کہ آپ فرماتے تھے واسطے ہرشے کے صقالہ ہے اور واسطے دل کے صقالہ ذکر اللہ تعالے کا ہے۔ بیہقی نے اُس کو روایت کیا نقل ہے مشکوٰۃ شریف سے پس دل طالب کا ہر گز کدورت شیطانی و خطرات نفسانی سے صاف نہیں ہوتا تا وقتیکہ خدا کی یاد نہ کرے ۔
سعدی حجاب نیست تو آئینہ پاک دار زنگار خوردہ کے بنماید جمال دوست
فرمایا علیہ السلام نے ان الله لا ينظر الى صوركم ولا افعالكم ولكن ينظر الى قلوبكم ونیا تکم تحقیق اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارےافعال کی طرف نہیں دیکھتا لیکن تمہارے دلوں اور تمہاری نیتوں کی طرف دیکھتا ہے
دل یک نظر است ر بانی خانه دیوار را چه دل خوانی
دل کے دومنہ ہیں اور ہر دو منہ کو خناس مثل جالے مکڑی کے گھیرے ہوئے اور اپنا ٹھکا نہ بناے ہوئے ہیں۔ اور صورت خناس مثل صورت خنزیر کے اور بعض تفسیروں میں مثل صورت کتے کےاور صاحب تفسیرمغنی لکھتے ہیں کہ اُس کی صورت مثل ہاتھی کے ہے اور وہ اپنی سونڈ زہر آلودہ کو دل کے گردا گرد پھیرتا رہتا ہے۔ جس سے خیالات بد پیدا ہوتے رہتے ہیں اور دل کو ہلاک کرتے ہیں ۔ قال عليه السلام لا تموتوا قلوبكم الا بكثرة الطعام فرما یا علیہ السلام نے نہیں مرتے دل تمہارے مگرکثرت طعام سے جب حرام کا لقمہ کھایا و سو سے بہت پیدا ہوئے ۔ خیالات شیطانی دکھلائی دینے لگی ۔ فرمایا خدائے برتر نے قرآن مجید ميں من الومُوا الخَنَّاسِ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّةِ الناس ۔ پس طالب بالیقین جانے کر دل ہرگز پاک نہ ہو گا۔ مگر بہت ذکر و مجاہدہ کرنے سے کہ سب قوت اور چربی خون کم ہو جائے اور قوت ذکر سے آتش عشق کی بھڑک کر شعلے مارے اور مغز وہڈیوں تک پہنچ جائے اور چربی کو گلا دے دل خطرات شیطانی سے پاک ہو۔ اثر سیا ہی خناس کا دل سے دور ہو ۔
واضح ہو کہ دل سات پردے رکھتا ہے ۔ اور ہرپردہ میں ایک گوہر ہے ۔ جب تصفیہ دل حاصل ہو تو وہ گو ہر ظہور میں آئیں ۔ اول گوہر عشق، دوسرا فقر تیسرا روح چوتھا معرفت پانچواں عقل چھٹا ذکر ساتواں گو ہرحلم پس زندگانی دل کی ہمیشہ ذکر کرنا خدائے تعالیٰ کا ہے ۔ جب آدمی غافل ہوتا ہے دل مردہ ہو جاتا ہے ۔ پھر ذکر حق سے زندہ ہوتا ہے اور صفائی حاصل کرتا اور ترقی پکڑتا ہے
صوفی بیا که آئینه صاف است جام را تا بنگری صفائی مے لعل نام را
در بیان فضیلت ذکر
فرمایا خدائے بزرگ نے فاذکرونی اذکر کم و اشکر ولی ولا تكفرون ایاد کرو تم مجھ کومیں یا دکرتا ہوں تم کو اورشکر کرو تم میرا کفران نہ کرو۔ وقال الله تعالى عز وجل يا أيها الذين امنوا اذكر والله ذكرا كثيرا – اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے اے لوگو جو ایمان لائے ہو یاد کرو تم مجھے بہت یاد
روایت ہے ابو ہریرہ وا بو سعید رضی اللہ عنہما سے کہا اُنہوں نے کہ فرما یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے لا يعقدون قوم يذكرون الله نہیں بیٹھتی کوئی قوم کہ یاد کرے اللہ تعالے کو الا خفتهم الملائکہ مگر گھیر لیتے ہیں ان کو فرشتے وغشتہم الرحمہ اور ڈھانک لیتی ہے۔ ونزلت عليهم السكينہ اور اُترتی ہے اُن پر تسلی اور آرام ، اور حضور اور جو کچھ کہ حاصل ہوتا ہے اُس وقت نورانیت و اطمینان و جمعیت و ذوق و شوق اور اُس کا اثر و ذکر هم الله فيمن عندہ اور ذکر کرتا ہے اللہ تعالے اُن کا اُن لوگوں میں جو اُس کے پاس ہیں مقربین سے واسطے فخر کرنے کے اُن پر اور واسطے ظاہر کرنے بزرگی وکرامت آدمیوں کی فرشتوں پر کہ دعوے کیا تھا اُنہوں نے تسبیح و پاکی بیان کرنے اپنی کے اور فساد و خونریزی کا ساتھ آدمیوں کے۔
روایت ہے ابو موسے سے کہا انہوں نے قال رسول اللہ صلی اللہ عليه سلم مثل الذي يذكر ربه والذي لا يذكر ربه مثل الحى والميت فرما یا رسول خدا ﷺنے مثال اُس آدمی کی کہ یاد کرتا ہے پر وردگار اپنے کو اور اس شخص کی جو نہیں یاد کرتا ہے مثل زندہ اور مردہ کی ہے
ذاکربمنزلہ زندہ کے ہے۔ ظہور علامات روحانیت معرفت و شوق وذوق سے مانند ظاہر ہونے نشان وافعال جسمانیت اور زندہ دلی کے اور غیر ذاکر اس کے برعکس ہے
زندگانی نتوان گفت حیاتی که مراست زنده آن است که با دوست وصالے دارد
وعن ابي الدرداء رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله علیہ وسلم الا انبئكم بخير اعمالكم روایت ہے ابوالدرداء سے کہاانہوں نے کہ فرما یا رسول اللہ ﷺنے کیا نہ خبر دوں میں تم کو تمہارے اچھے اعمال سے واز کھا عند ملیککم اور بہت ستھرا تمہا ئے عملوں سے بادشاہ تمہارے کے نزدیک وارفعها فی درجاتکم اور بہت بڑھا ہوا اُن سے مرتبے اور شرافت میں وخير لكم من انفاق الذهب والفضة اور اچھا ہے تمہارے لئے خرچ کرنے سونے اور چاندی سے وخیرلکم من ان تلقواعد وكم فتضربوا اعناقهم ويضربون اعناق كم اور بہتر ہے تمہارے لئے اس سے کہ ملاقات کرو تم دشمن سے پس ما رو تم ان کی گردنیں اور وہ ماریں تمہاری گردنیں یعنی لڑنے سے کافروں کے قالوا بلی عرض کیا صحابہ نے فرمایئے ۔ آپ نے فرمایا ، ایسا عمل ذکر خدا ہے ۔ روایت کیا اس کو مالک نے ۔
پس جان اے طالب کہ بہتر اور بزرگ تر اعمال سے ذکر خداوند تعالیٰ کا ہے ۔
فرمایا خداوند تعالے نے افمن شرح الله صدره للاسلام فهو على نور من ربه فويل للقاسية قلوبهم عن ذكر الله اولئك في ضلال مبين – اور وہ شخص کہ کھول دیا اللہ نے سینے اُس کے کو واسطے اسلام کےپس وہ اُو پر روشنی کے ہے رب اپنے کی طرف سے اورہلا کی ہے واسطے اُن لوگوں کے جو سخت ہو رہے ہیں ذکر اللہ سے یعنی غافل ہیں وہی لوگ ہیں گمرا ہی میں پڑے ہوئے ۔
اور دوسری جگہ فرمایا ہے ومن اعرض عن ذكرى معيشة ضنكا و نحشر له يوم القيمة اعمى ومن كان في هذه اعمى وهو في الآخرة أعمى واضل سبیلا اور وہ شخص کہ منہ پھیرا اُس نے یاد ہماری سے پس واسطے اس کے زندگی تنگ ہے اور اٹھا ئینگے ہم اُس کو قیامت کے دن اندھا اور وہ شخص جو اندھا ہے دنیا میں اندھا ہے آخرت میں اور بہت بھولا ہوا ہے راہ مستقیم سے۔
فصل ششم دربیان طریقہ نقشبندیہ مخفیہ صدیقیہ
جو اصول طریقہ نقش بندیہ عا لیہ کا ہے امیر المومنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعا عنہ سے ہے ۔ اور شغل اشتغال اس طریقہ عالیہ کے قرآن و حدیث سے ثابت ہیں ۔ فرمایا خدائے تعالی بزرگ و برتر نے وا ذكر ربك في نفسك تضرعا وخيفة ودون الجهر من القول بالغدو والأصال ولا تكن من الغافلين یاد کر تو اپنے پروردگار کی دل میں زاری کرتا ہوا اور ڈرتا ہوا ۔ بغیر بلند کرنے آواز کے یاد کر صبح اور شام کو اور نہ ہو غفلت کرنے والوں سے ۔
اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے ادعور بکم تضرعا وخيفة انه لا يحب المعتدین یا دکرو تم رب اپنے کی اُس حال میں کہ تم زاری کرنے والے ہو تحقیق وہ نہیں دوست رکھتا حد سے بڑھنے والوں کو ۔
اور فرما یا رسول خدا ﷺنے خیر الذکر ذکر الخفی روایت کیا اس کو عبد الحق نے اور فرمایا علیہ السلام نے قلب المومن خاص من ذكر الخفى فهو حى و قلب المؤمن غافله من ذكر الخفى فهو ميت .
ہرآں دلے کہ دریں حلقه زنده نیست بذکر برو چه مرده بفتواے من نماز کنید
اور بھی صحیح حدیثوں میں نبی ﷺسے روایت کیا ابویعلی نے عائشہ صدیقہ سے کہا اُنہوں نے کہ فرما یا رسول خدا ﷺنے بزرگی اُس ذکر کی کہ جس کو کراما کا تبین نہ سنے ستر مرتبہ زیادہ ہے اور جب ہو گا دن قیامت کا جمع ہو گی خلقت واسطے حساب کے لائینگے فرشتے جو کچھ انہوں نے یاد رکھا اور لکھا۔ فرمائے گااللہ تعالے فرشتوں کو دیکھوکیا باقی رہا ہے اُس کے لئے کچھ وہ عرض کرینگے، نہیں چھوڑا ہم نے جو کچھ ہم جانتے ہیں اور یاد کیا ہم نے لیکن احاطہ کیا ہم نے اُس کا اور لکھا ہم نے اُس کو ۔ پس فرمائیگا اللہ تبارک تعالے بیشک تیرے واسطے میرے پاس نیکی ہے کہ نہیں جانتا تو اس کو میں تجھ کو خبر دیتا ہوں اُس کی ، وہ ذکر خفی ہے روایت کیا اُس کو شیخ جلال الدین سیوطی نے ۔ وهوعلیم بذات الصدور
از درون شو آشنا و از بروں بیگانه شو اینچنین زبیا روش کمتر بود اندر جہاں
خلوت در انجمن اسی کا نام ہے
دل ہمہ جا با همه کس در همه کار میدار نهفته چشم دل جان بیار
اللهم ارزقنا
فصل ہفتم دربیان ہفت لطائف نقشبندیہ
سات لطائف نقشبندیہ عالیہ طریقہ کے جو کہ مراد اشغال سبعہ سے ہے ۔ کہ اصول ذکر اور سلوک کے ہیں اور ہر طریقہ کے شغل مختلف ہیں ۔ لیکن تمام طریقوں میں اول دل کو حاصل کرتے ہیں ۔ بعد اس کے ہرشخص اپنے ایک طریقہ پر چلا ہے۔ فرمایا پروردگار نے ولكل أمة جعلنا منكم شرعة ومنها جاء اور واسطے ہر گروہ کے کیا ہم نے ایک طریقہ اور راستہ اور یہ راستہ مضبوط و صراط مستقیم ہے ۔
طریقه شغل سلسلہ، متبر کہ عالیہ نقشبند یہ میں ذکر حق کے مراتب ہیں۔ پس سالک چاہئے کہ ایسی طرح نفس کا تزکیہ اور دل کا تصفیہ حاصل کرے جو آفتاب احوال اذکار اس طائفہ سنیہ شریفہ کا پر تو ڈال کر مسرور کرے ۔ سالک طالب اور عاشق مطالب کو اس طور پر غیر اللہ کو ترک کرنا چاہئے کہ سوائے ذکر اللہ کے طعمہ دل و جان کا رونق جسم اور بدن کی نہ بنائے تا کہ چمکارے اور شعلے قریب قریب کے سے مشرف ہو کہ حدیث نبی ﷺمیں وار دہے یقول الله تعالى انا عند ظن عبدی واذا معہ اذا ذکرنی فان ذكرني في نفسه ذكرته في نفسی فرماتا ہے خدائے برتر میں قریب ظن بندہ اپنے کے ہوں اور میں اُس کے ہمراہ ہوں جب وہ یاد کرتا ہے مجھ کو اگر میرا بندہ مجھ کو اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اُس کو پوشیدہ یاد کرتا ہوں ۔
پس سالک کو چاہئے کہ یک سو ہوکر پوری توجہ اور کوشش بے زوال سے کمرہمت باندھ کر کوشش کا ہاتھ سلوک کے دامن میں مارے اور ارادہ رکھے کہ نور حدیث من تقرب منى شبراً تقرب منه ذراعاً ومن تقرب منى زراعا تقربت منه باعا و من تانى يمشى الينه هرولة ومن لقيني بقرب الأرض خطينه لا يشرك بي شيئا لقيته بمثلها مغفرة كا روشن ہو و هو قريب مجيب
وهو على كل شئ شهيد
اور طریقہ نقشبندی عالیہ میں پہلے شغل لطیفہ قلبی ہے کہ ذکر قلبی طالب صادق کے لئے راحت جان ہے۔ پیر صادق طالب کو چاہئے کہ حکم آیہ کریمہ ان الذین يبا يعونك انما بيا بعون الله يد الله فوق ایدیھم کے اول بیعت کرے مرشد کے آگے چارزانو بیٹھے اور زبان تالو سے لگائے ۔ دل پر خیال اسم اعظم یعنی اللہ کا کرے آنکھ کو بند کرے اور خیال دل پر رکھے
لطیفہ قلب نیچے پستان کے بائیں جانب ہے اور دل کو صنوبری شکل کہتے ہیں یعنی مانند ثمر صنوبر کے الٹا ہے ۔ اور مرشد توجہ کرے ۔ اللہ کی عنایت اور مرشد کی توجہ سے دل حرکت میں آئے ۔ آہستہ آہستہ جاری ہو گا ۔ اور ایسی قوة پکڑیگا گویا دوسرا دل میں اسم اعظم کہتا ہے ۔
ہیں کہ اسرافیل وقتند اولیا مرده را ز ایشان حیات ست ونما
جانهائے مرده اندر گورتن برجهد آوازشان اندر کفن
گوید این آواز آواز خداست زنده کردن کار الطاف خداست
پھر مولانا علیہ الرحمہ فرماتے ہیں
بر لبش قفل است در دل راز ها لب خموش و دل پر ازآواز ها
پس جس وقت طالب کو ذکر قلبی حاصل ہو جماعت اولیاء اللہ میں داخل ہوا ۔ پس شب و روز حرکات و سکنات میں ھُو کو دل پر رکھے اور کلام آدمیوں سے کم کریں مگر ضروری
سخن باکس مکن الّا ضرورت نیفتد خلل تا اندر حضورت
پس زمانہ حیات و وقت مرنے کے قیامت تک تمام حال میں ذکر اسم ذات کا نہ رکےگا
هرگز نمیرد آنکه دلش زنده شد به عشق ثبت است بر جریده عالم دوام ما
چند روز تک کمال کوشش اور نہایت جد و جہد اس لطیفہ میں کرے تا کہ آفتاب لاصلوة الأبحضور القلب کا جلوہ دکھلائے :
بعد اس کے دوسرے لطیفہ یعنی روحی میں مشغول ہو ۔ کہ ذکر روحی محبت ہے۔ لطیفہ روحی لطیفہ قلب سے بہت لطیف ہے دائیں جانب نیچے پستان دائیں کے جگہ رکھتا ہے۔ اسے اسم اعظم کالطیفہ روحی میں تصور کرے۔ مرشد کی توجہ اورخد اوندیم کی عنایت سے اُس جگہ بھی اسم ذات کی حرکت ہوگی۔ چند دن اس لطیفہ میں کوشش کرے ۔ یہاں تک کہ حال محبت حق تعالیٰ کا جلوہ دکھلائے ۔
بعد اس کے شغل لطیفہ تیسرے کا کہ سرّی ہے کرے ۔ اور ذکر سرّی مکاشفہ ہے اور لطیفہ سری لطیفہ روحی سے بھی لطیف ہے۔ اور اُس کی دائیں طرف نیچے پہلو کے جگہ مقرر کرتے ہیں۔ اس جگہ بھی اسم اعظم کو مرشد کی توجہ لے کر تصور کرے ۔ مرشد کی توجہ اور اللہ تعالیٰ کی بخشش سے اس جگہ بھی حرکت اسم ذات کی پیدا ہو گی۔چند روز اس شغل میں رہے تا کہ آفتاب کعبہ حقیقی ظاہر ہو
بعد اس کے شغل لطیفہ چہارم میں مشغول ہو کہ ذکر سرّ السرّی کا مشاہدہ ہے کہ لطیفہ سرّی سے الطف ہے۔ اور اوپر ناف کے اس کی جگہ مقرر کرتے ہیں ۔ اس جا بھی تصور اسم اعظم کا کرے مرشد کی توجہ اور اللہ تعالیٰ کی بخشش سے اُس جگہ بھی حرکت اسم ذات کی پیدا ہوگی۔ چند روز اسی شغل میں رہے تا کہ انوار حقانی کا مشاہدہ ہو ۔
اس کے بعد پانچویں لطیفہ کے شغل میں مشغول ہو جو کہ خفی ہے۔ ذکر خفی کا معائنہ ہے ۔ اُس کی جگہ بائیں جانب پہلو کے نیچے مقرر ہے ۔ اور لطیفہ سرّالسرّی سے الطف ہے۔ اس جگہ بھی اسم ذات کا تصور کرے۔ مرشد کی توجہ اور اللہ تعالیٰ کی عنایت سے یہ جگہ حرکت میں آئے۔ چند روز اسی شغل میں رہے ۔ تا کہ خزانہ مخفیات کا ظاہر ہو ۔
ازاں بعد شغل لطیفہ چھٹے کا شروع کرے کہ اخفیٰ ہے لطیفہ خفی سے الطف ہے۔ اور اس کی درمیان سینہ کے جو مرکز محرابی ہے، جگہ مقرر کرتے ہیں۔ اس جگہ بھی خیال اسم اعظم یعنی اللہ کاکرے یہ لطیفہ بھی انشا اللہ تعالیٰ حرکت میں آئے۔ کچھ دن اس شغل میں رہے تا کہ مرتبہ جمع الجمع کامعائنہ ہو کہ ذکر اخفیٰ کا معائنہ جمع الجمع ہے
بعد ہ شغل لطیفہ ساتویں کا شروع کرے جو لطیفہ قدسیہ نورانیہ مخفی ہے ۔ اس لطیفہ کی جگہ او پر لطیفہ اخفیٰ کے ہے ۔ یہ لطیفہ اخفیٰ سے شروع ہو کر حبل الورید اور اس سے سرّالسرّ ام الدماغ تک کہ جگہ عقل کی ہے پہنچتا ہے اور یہ لطیفہ تمام لطائف سے اکمل والطف و بلند ہے ۔ اس جگہ تصور اسم ذات کا کرے ۔ یہ لطیفہ بھی مرشد کی توجہ اور اللہ تعالیٰ کی عنایت سے جاری ہو ۔
یہ تمام سات لطیفہ ہیں تمام جاری ہو جائینگے ۔ چند دن ان ساتوں لطیفوں میں مراقبہ تمام اور کامل کرے جو جاری ہونا ان کا بغیر تصور اور مراقبہ کے حاصل ہو ۔ بعد مراقبہ اسم ذات کے ہاتھوں، بازو، پیٹھ۔ ران وپاؤں بلکہ تمام اعضاؤں ومسامات بدن میں حرکت اسم ذات کی پائے ۔ یہاں تک کہ چمڑے اور گوشت و ہڈی اور ہررگ پٹھے اور بال بال میں حرکت اسم ذات کی ہو ۔
جب سالک کو یہ مقام حاصل ہو۔ اس مرتبہ کو تلاونی وجودی اور ذکر سلطانی کہتے ہیں۔ پس اس وقت سالک اسم ذات کی آواز شجر و حجراور برگ با رو در و دیوار سےسنتا ہے۔ اور فاینما تولوا فشم وجہ اللہ کا جلوہ ہر سو د یکھتا ہے ۔
ہر سو کہ روے کردم من روے دوست دیدم هر جانظرفگندم آن دوست را بدیدم
اور جلوه و هو معكم اینما کنتم کا ہر طرف نظر آتا ہے ۔
فصل ہشتم دربیان نفی اثبات
طریقہ نقشبندی عالیہ میں جب کہ طالب صادق اسم ذات سے فارغ ہو۔ پھر مرشد تلقین نفی و اثبات شروع کرے .
طریقہ عالیہ نقشبندیہ میں نفی و اثبات اس طور سے ہے کہ کلمہ لا کو سرناف سے کھینچے اور سرتک پہنچائے اور کلمہ الہ کو لطیفہ روحی پر تصور کرے اور کلمہ الا اللہ کو لطیفہ قلبی پر خیال کرے اور محمد رسول اللہ کو اوپر لطیفہ اخفیٰ کے تصور کرے ۔ اس طور پر نفی و اثبات جاری کرے ۔ اور معانی کا بھی ساتھ ذکر کے لحاظ رکھے کہ بہت بڑا اثر رکھتا ہے :۔
لا نہیں ہے کوئی الہ معبود و مقصود میرا الا اللہ سوائے ذات پاک خدا کے مُحَمَّد رَسُولُ الله محمد اس کے بھیجے ہوئے ہیں ۔
اسی طور پر اگر حبس دم کرے تو طالب کو بہت فائدہ حاصل ہو ۔ اور صفائی دل کی جلد حاصل ہو۔ بعد اس کے مراقبہ نفی واثبات کا تمام لطائف اعضا ءمیں کرے جیسے اسم ذات کا کیا ۔ اور رات دن مراقبہ میں رہے جیسے کہ خواجہ حافظ شیرازی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔
بر و بمیکده چہره ار غوانی کن مرد بصومعہ کا نجا سیاه کارانند
شربت با دا که من بسویت نگراں باشم تو نہی چشم بسوے دیگراں
الم يعلم بان الله یری اپنا جلوہ دکھائے ۔ جب کہ نفی واثبات جاری ہو۔ تو پھر جس اسم کو اسمائے الہی سے اور ہر آیت آیات سے مراقبہ کرے جاری ہوگا بطفیل کلمہ طیبہ کے۔ اللهم افتح على اسرار الاذكار بحرمت النبي المختارامین ثم رب امین
فصل نہم دربیان لطیفه اول
لطیفہ اول کے لطائف ساتوں میں سے پہلا لطیفہ قلب ہے جو منسوب ہے فلک القمر کی طرف اور تمام بدن جتنے کہ دل کی طرف یہی مقام ناسوت اور عالم سفلی ہے اور ایک منزل ہے منازل سات سے پہلی منزل سالک کی ناسوت ہے ۔ جیسے کہ شمس الدین تبریزی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں
یکے منزل که آن ناسوت نام است در و اوصاف حیوانی تمام است
ازاں منزل اگر خود بگذر دکس رسد در منزل دو میں ملک بس
اور جگہ اس لطیفہ کی نیچے بائیں پستان کے ہے۔ اور اس منزل میں واردات شریعت کے اور جو کچھ کہ علم سفلی میں مثل نباتات حیوانات – جمادات جبال اور تالاب وغیرہ اس لطیفہ میں منکشف و عیاں ہوتے ہیں ۔ اور اس مقام میں انوار طرح طرح کے سفید زرد سرخ – سیاہ ظہور میں آئینگے کہ کبھی نہ دیکھے ہونگے ۔ کثرت مراقبہ اسم ذات وحبس نفی و اثبات سے اور کعبہ نا سوتی اس لطیفہ میں عیاں و ایمان حقیقی اور روح حیوانی منکشف ہوتے ہیں اور اصل الاصل اس لطیفہ کی اضافت حق ہے کہ مرادفعل وتکوین سے ہے۔ کمال اس لطیفہ کا یہ ہے کہ فعل حق جل و علی میں فانی ہو اور ساتھ افعال خداوندی کے بقا پائے۔ حالات عشق کے ظاہر ہوں ۔ اورنور اس لطیفہ کو چاند کے نور سے تشبیہ دیتے ہیں یعنی سفید تھوڑا سا زردی مائل ہے ۔ اور ولایت اس لطیفہ کی نیچے قدموں آدم علیہ السلام کے ہے۔ اور جو آدمی صوفی المشرب ہے وصول اُس کا طرف جناب قد س کے اسی لطیفہ کی راہ سے ہوگا ۔ اور صاحب اس مشرب کو استعداد حصول ایک درجہ کی سات درجوں و لایت میں ہو گی۔ اور کلید (چابی) ، اس لطیفہ کی کلمہ لا الہ الا الله آدم صفی اللہ ہے۔ اس کلمہ شریف کے بہت مراقبہ کرنے سے یہ مقام طے ہوتا ہے۔ اور خزانہ اس لطیفہ کا اللہ اکبر اس کو مکشوف ہوتا ہے اور علم ادم ا لا سماء کلھا سے واقف ہو۔ اور اس لطیفہ میں سیر الی اللہ حاصل ہوتی ہے اورمکان اسرافیل علیہ السلام ہے۔ اور مقام کن فیکون ظاہر ہوتا ہے۔ اور نقش امارہ، نفس لوامہ کی وصف کے ساتھ عیاں ہوتا ہے جیسے کہ حق تعالے نے قرآن شریف میں قسم کھائی ہے۔ لا اقسم بيوم القيامة ولا اقسم بالنفس اللوامة میں البتہ قسم کھاتا ہوں دن قیامت کی اور قسم کھاتا ہوں نفس ملامت کرنے والے کی ۔ مراد اس سے تزکیہ نفس حاصل کیا ہوا ہے اور جاننا الہام کا خداوند تعالیٰ کی طرف سے وصف حمدیت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے ۔ سالک جب اس مقام پر پہنچتا ہے تو نام اُس کا بدرالدین اور ایک فرد اولیا اللہ سے ہوتا ہے اور جو کچھ اقلیم اول آسمان اول میں سے منکشف ہوتا ہے العلم عند الله
نور ذکر باید در گذشتن باب تو به باید دل بشستن
فصل دم در بیان لطیفہ دوم
لطیفہ دوم سات لطیفوں میں سے کہ نام اسکا لطیفہ روحی ہے ۔ یہ لطیفہ لطیفہ قلبی سے بہت لطیف، فلک عطارد سے منسوب ہے اور جگہ اس لطیفہ کی دائیں پستان اور دوسری منزل منازل سالک سے ہے اور تمام ملکوت یعنی انبوہ فرشتوں کا مکشوف ہوتا ہے ۔
درا ں عالم چوا و معروف گردد ملائک آسمان مکشوف گردد
اس منزل میں و اردات طریقت کے پیدا ہوتے ہیں ۔ سالک کو فرشتے اس مقام میں مختلف صورتوں میں دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی نورانی صورت اور کوئی پرندہ کی شکل جیسے مور یا طوطایا شکل لڑکوں کی، غرض تمام مختلف صورتوں میں نمایاں ہوتے ہیں سالک اس منزل میں پہنچ کر فرشتے کی صفت ہو جاتا ہے ۔ کہ ایک دم خدا کی یاد سے غافل نہیں ہوتا۔ جیسے فرشتے کسی قت ذکر سبحانی اور یاد خداوندی سے ایک لحظہ ایک لمحے غافل نہیں ہوتے ۔ جیسا کہ اُن کے حق میں خداوند تعالیٰ نے فرمایا ہے یسبحون الليل والنهار ولا يفترون سالک کو بھی یہ مرتبہ حاصل ہو جاتا ہے ۔
در طریقت هر چه پیش سالک آید خیر اوست بر صراط مستقیم اے دل کسے گمراہ نیست
اور کعبہ آ سمان دوم کا عیاں ہوتا ہے روزہ کی حقیقت اور روح نورانی سے واقف ہوتا ہے۔ اور اصل الاصول اس لطیفہ کے صفات ثبوتیہ حق ہیں ۔ اور ایک قدم درگاہ حق تعالے میں قریب ہوتا ہے ۔ سالک بعد حاصل کرنے فنا کے اس لطیفہ میں جو کہ وابستہ ہے تجلیات سے اپنے آپ کو مسلوب پاتا ہے بلکہ جناب قدس کی طرف منسوب پا ئیگا اور رنگ اس لطیفہ کا سفید کہتے ہیں۔ ولایت اس لطیفہ کی نیچے قدم حضرت نوح علیہ السلام کے ہے۔ اور جو نوحی المشرب ہوتا ہے ۔ راہ اُس کی طرف جانب قدس کے اسی لطیفہ سے ہوگی اور کلید اس لطیفہ کی لا الہ الا الله نوح نجی اللہ ہے کثرت سے مراقبہ کرنے نفی اثبات کےیہ مقام طے ہوتا ہے۔ اور خزائن اس لطیفہ کی اللہ قدیر اس پر کشف ہوتا ہے اور آیات، قال اركبوا فيها بسم الله مجريها ومرسها ان ربي لغفور رحیم اُس کو مکشوف ہو
تا توانی به خدا باش که در کشتی نوح ہست خاکی که بآبے نخرد طوفان را
چونکہ از سیل فنا بنیاد ہستی برکند چون ترانوح است کشتیبان طوفان غم مخور
اس لطیفہ میں سیرمن اللہ حاصل ہوتی ہے۔ اور مکان حضرت جبریل علیہ السلام ۔ سالک کو اس منزل میں ہر شب شب قدر ہے اورنفس ملہمہ ظاہر ہوتا ہے صفت تواضع توبہ و طلب راہ مولا کی پیدا ہوتی ہے۔ اور سالک اس مقام مشہور بہ نجم الدین اور ایک نقباء اولیا سے ہوتا ہے ۔ اور جو کچھ ولایت دوسری اور آسمان دوسرے میں ہے عیاں ہوتا ہے ۔ اس منزل میں بھی قرار نہ پکڑے بلکہ مسافر ہو ۔ آگےمنزل حقیقت کی آئیگی جیسا کہ حافظ غیب اللسان فرماتے ہیں ۔
تکیه بر تقوی و دانش در طریقت کا فری ست ره رو گر صدہنروار و در تو کل با یدش
جو کچھ آسمان دوم میں ہے تمام منکشف ہوتا ہے ۔
فصل یازدهم دربیان لطیفه سوم
تیسرا لطیفہ کہ سات لطائف میں سے ہے اور لطیفہ روحی سے بہت لطیف ہے منسوب ہے بفلک زہرا – جگہ اس لطیفہ کی دائیں طرف نیچے پہلو دائیں کے ہے اور منزل تیسری سالک کی جبروت ہے ۔ اس منزل میں و اردات حقیقت کے پیدا ہوتے ہیں ۔ ملکوت سے قدم اُٹھاتے ہی تیسری منزل جبروت میں پہنچتا ہے منزل جبروت میں علم مثال عالم ارواح ہے ۔ اور چشمہائے روشن اور سنگ ریزے تمام یاقوت و لعل زمرد ومروارید کے ہیں۔ اور ہردم ہرساعت تجلیات ربانی واردات سبحانی وارد ہوں اور اس مقام میں بزرگی و سلطنت ظاہر اور اس میں متصرف بھی ہو وجودمثالی اس منزل میں ساکن ہیں ۔
جان مغز حقیقت تن و پوست بہ بین در کسوت روح صور دوست بہ بیں
هرذره که اونشان هستی دارد یا پر تو نو را وست یا اوست بہ بیں
اس منزل میں کشف و کرا مات بینظیر حاصل ہوتے ہیں ۔
دریں منزل بود کشف و کرامات ولے باید گذشتن زیں مقامات
اگر دنیا و عقبی پیش آید نظر کردن براں ہر گز نشاید
بخاصاں تو به کردن از مقامات بهردم فیض باشد از کرامات
حسنات الابرارسيات المقربین – ابرار کی نیکیاں مقربین کے لئے گناہ ہیں۔ یہ مثل اس امر کی مخبر ہے ۔ اور مقام خلت ہے ۔ اور تیسرے ایمان کے کعبہ سے اور حقیقت حج سے واقف ہو جاتا ہے ۔
از فضل تست در دل حاجی ہو اے حج ور نه کرا مجال که رنج سفر کند
اور روح ملکی اس لطیفہ میں معائنہ ہوتا ہے ۔
مقام روح برمن حیرت آمد نشان ازوی گفتن غیرت آمد
اورا صل الاصول اس لطیفہ کی شیونات ذات اقدس کے ہیں جو ایک قدم صفات ثبوتیہ درگاہ حضرت اقدس میں نزدیک ہیں ۔ اور فنا سے اس لطیفہ میں تجلی شیونات ذاتیہ کی حاصل ہوگی ۔ اور اس لطیفہ کا سرخ کہتے ہیں ولایت اس لطیفہ کی نیچے قدم حضرت ابراہیم خلیل اللہ علےنبینا علیہالصلوۃ و السلام کے ہے ۔ اور جو شخص ابراہیمی مشرب ہے وصول اس کادرگاہ باری میں اسی لطیفہ کے راستہ سے ہو گا لیکن بعد طے کرنے پہلے لطیفوں کے ، اور صاحب اس منزل کو استعداد تین مرتبوں کی سات مراتب ولایت سے حاصل ہوتی ہے۔ اور مفتاح اس لطیفہ کی لا الہ الا الله ابراهیم خلیل اللہ کثرت سے مراقبہ کرنا اس کلمہ کا ہے اور خزانے اس لطیفہ کے اللہ مر ید اس پر ظاہر ہوں ۔ اور جب سالک اس مقام پر پہنچتا ہے تو آ یہ شریفه انى وجهت وجهي للذي فاطر السموات والارض حنيقا مسلما
اُس کو ظاہر ہو ۔ اور اس لطیفہ میں سیر عن اللہ حاصل ہوتی ہے اور مکان میکائیل علیه السلام اور نفس مطمئنہ معلوم ہو جاتا ہے فرمایا خدا تعالے نے یا ایھا النفس المطمئنةارجعی اور اوصاف نفس مطمئنہ کے حیا و سخاوت ، شب بیداری اور خلق اللہ کو نہ ستاناہے۔ سالک اس مقام میں مسمے نور الدین اور اولیا ئے نجبا ءسے ہوتا ہے ۔ اور جو کچھ ولایت تیسری و تیسرے آسمان میں ہے تمام مکشوف ہوتا ہے والعلم عند اللہ
فصل دوازدهم دربیان لطیفہ چہارم
لطائف سات سے لطیفہ سرّ السرّی جو منسوب ہے طرف فلک الشمس کے اور جگہ اس لطیفہ کی زیر ناف اور منزل لاہوت ہے ۔ واردات معرفت عالم حمدیہ کے ہوتے ہیں۔ اس عالم میں تجلیات جلالی وجمالی ہیں اور نور طرح طرح کے اس میں ہیں اور اسرار الہیہ اس مقام میں ہیں۔ شعلے نورانی اور انوار یزدانی معائنہ ہونگے ۔ بلکہ سالک ان شعلوں میں ایسا غرق ہوگا کہ اپنے آپ کو نہ پائیگا۔ اور اس لطیفہ میں اردت الہیہ وارد ہوتے ہیں۔ یہ مقام بہت نازک ہے ۔ کہنا اور ظاہر کرنا لائق نہیں کہ حق تعالے اپنے بھیدوں کو آپ ہی جانتا ہے۔ اور جو شخص اس مقام میں پہنچتا ہو اس کو معرفت ان اسرار کی حاصل ہوتی ہے ۔
میان عاشق و معشوق رمزی است کراما کا تبیں راہم خبر نیست
اور کعبہ ایمان چوتھے کا جو بیت المعمور ہے عیاں اور روح انسانی اس میں ظاہر ہوتا ہے۔ اور اصل الاصل اس لطیفہ کی صفات ارادیہ خدا وند تعالے کی ہیں کہ صفات شیونات سے درگاہ ذات اقدس میں کسی قدر نزدیک ہیں ۔ اس لطیفہ میں فنا ہونے سے بھید اسرار ذاتیہ حاصل ہوتے ہیں اور نور اس لطیفہ کا زر دکہتے ہیں۔ ولایت اس لطیفہ کی نیچے قدم حضرت مو سٰے علیہ السلام کے ہے ۔ اور جو کوئی موسی المشرب ہوگا وصول اس کا درگاہ باری میں اسی لطیفہ کی راہ سے ہوگا۔ لیکن بعد طے کرنے پہلے لطیفوں کے ، اور صاحب اس مشرب کو استعدا د چہار مرتبوں کی سات مراتب ولایت سے ہوتی ہے ۔ اور مفتاح اس لطیفہ کا لا الہ الا الله موسی کلیم الله ہے۔ اکثر مراقبہ کرنے نفی اثبات اس کلمہ کے لطیفہ مفتوح ہوتا ہے اور خزانہ اس لطیفہ کا اللہ سمیع اس پر کشف ہوگا سینکڑوں مثل مو سے علیہ السلام کے مست ہر گوشہ سے رب ارنی کہتے ہوئے طالب دیدار نظر آئیں اور آیت ارنی ولن تراني انظر اليك ، قال لن تراني ولكن انظر الى الجيل فان استقر مكانه نسوف تراني فلما تجلى ربه الجبل جعله دگا و خرموشى صعقا فلما افاق قال سبحانك تبت اليك وانا اول المسلمین اور اس کے ظاہر ہو۔
جسم خاک از عشق بر افلاک شد کوه در رقص آمد و چالاک شد
عشق جان طور آمد عاشقا طورمست و خرمو سے صعقا
نماز کی حقیقت اس مقام پرمعلوم ہوتی ہے۔ اس لطیفہ میں سیر باللہ اورمکان حضرت عزرائیل علیہ السلام کا حاصل ہوتا ہے ۔ اور سالک کا اس مقام میں نام شمس الدین ہوتا ہے نفس راضیہ پیدا ہوتا ہے یعنی ہر حال میں راضی رہتا ہے رضینا بقضائك وصابرين على رضائك یعنی راضی ہیں ہم تیری قضا پر اور صابر ہیں تیری بلا پر ۔ خدا وند کریم فرماتا ہے۔ الى ربك راضية اور سالک ایک اولیاءندبا سے ہوتا ہے ۔ جو کچھ آسمان چہارم اور ولایت چہارم میں ہے کشف ہوتا ہے۔ اور حقیقت حال خدا جانتا ہے ۔
فصل سیزدهم دربیان لطیفہ پنجم
پانچواں لطیفہ سات لطائف میں سے جو نام اس کا لطیفہ خفی ہے اور سرّالسرّی سے لطیف اور منسوب بفلک مریخ ہے اور اس کی جگہ بائیں طرف نیچے پہلو بائیں کے ہے منزل با ہوت۔ اور واردات واحدیت کے ظاہر ہوتے ہیں یعنی عالم تفصیل عالم نور وعالم شہود ہے ۔ جو اس عالم میں عجائبات و غرائبات ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور جو تجلیات واحدیت و اسرار الہیت کے اس مقام میں پوشیدہ ہیں عیاں ہوتے ہیں ۔ ان کی وصف کوئی نہیں کر سکتا۔ کعبہ ایمان پانچویں کا عیاں ہوتا ہے حقیقت زکوۃ کی واقف ہوتا ہے۔ روح امین سے خبردار ہوتا ہے۔ اصل الاصل اس لطیفہ کی صفات سلبیہ ہیں کہ کسی قدر جناب باری میں صفا ت اسراریہ سے نزدیک ہیں ۔ اور اس لطیفہ میں فنا ہونے سے ان صفات کا ظہور ہوتا ہے۔ اور نور اس لطیفہ کا سیاہ بہ سرخی مائل مقرر کرتے ہیں۔ اور ولایت اس لطیفہ کی نیچے قدم حضرت عیسے علیہ السلام کی ہے جو کوئی عیسے المشرب ہے راہ اُس کا جناب قدس میں اسی لطیفہ کی راہ سے ہوگا ۔ او رحصول فنا اس لطیفہ کا بھی ساتھ صفات سلبیہ کے ہوگا ۔ لیکن بعد قطع پہلے لطیفوں کے۔ اور صاحب اس مشرب کو استعداد پانچ مراتب کی سات مراتب ولایت سے حاصل ہوتی ہے اور کلید اس لطیفہ کی لا الہ الا اللہ عیسی روح الله ہے۔ کثرت مراقبہ اس کلمہ شریف کے یہ لطیفہ کھلتا ہے ۔ خزانہ اس لطیفہ کا اللہ البصیر اس کو منکشف ہوتا ہے ۔ اور یہ مکان حضرت جبریل علیہ السلام کا ہے۔ اور سالک جب اسی مقام پرپہنچتا ہے تو انی اخلق لكم من الطين كهيئة الطير فانفخ فيه فتكون طيرا باذن الله وابدئ الأمر واحی الموتی اس کو منکشف ہوتا ہے
جال رفت در صراحی وحافظ بعشق سوخت عیسٰے دمے کجا است که احیا بما کند
اور سالک کو اس منزل میں سیرالی اللہ حاصل ہوتی ہے۔ اس مقام میں سالک کا نام حسام الدین ہوتا ہے ۔ اور نفس راضیہ مرضیہ ہو جاتا ہے۔ سالک اس مقام میں ایک اولیاء سے ابدال سے ہوتا ہے اور جو کچھ عالم علوی و آسمان پانچویں میں اور جو کچھ عالم سفلی واقلیم پانچویں میں ہے معائنہ کرتا ہے ۔ والعلم عند الله :
فصل چہار دہم دربیان لطیفہ ششم
چھٹا لطیفہ سات لطیفوں میں سے لطیفہ اخفا ہے جو تمام لطیفوں سے بہت لطیف اور احسن واجمل لطائف عالم سے ہے اور بہت قریب ہے درگاه پروردگار میں کہ منسوب بفلک مشتری ہے ۔ جگہ اس لطیفہ کی درمیان سینہ کے جو مرکز محرابی ہے مقرر کرتے ہیں۔ اس لطیفہ میں واردات وحدت کے ہیں ۔ منزل چھٹی ھا ھوت کی ہے اور اصل الاصل اس لطیفہ کی ایک مرتبہ مثل برزخ درمیان واحدیت اور احدیت کے وحدة برزخ ہے۔ کیونکہ وحدۃ کا منشا احدیت اور وحدیت ہوتی ہے ۔ مراتب از لیت وابدیت کے مکشوف رابطہ اولیت و آخریت کا اور واسطہ باطنیت و ظاہریت کا پیدا ہوتا ہے۔ حد فاصل سے اشارہ طرف اسی کے ہے۔ برزخ جامع مراد اسی سے ہے حقیقت محمدی بھی یہی ہے یعنی وحدت جو اصل قابل جمیع اشیا ءہے احدیت و واحدیت سے پیدا ہے۔ اس واسطے کہ واحدیت مرتبہ تفصیل ہے اور وحدت مرتبہ اجمال لیکن انتہا احدیت کا اس مرتبہ میں ہے جو مراد مرتبہ اطلاق کا ہے۔ اس بنا پر کہ دریافت احدیت کی اس مرتبہ میں ہے۔ ورنہ در حقیقت مرتبہ احدیت کا منشاکل ہے ۔ اور آیہ مرج البحرين يلتقيان بينهما بزرخ لا یبغیان اس کی خبر دیتی ہے۔ او رحالت عشق ہے ۔ جو کہ غلبہ عشق سے بیقرار ہو کر نہایت بیقراری سے عین حضوری بے صبری سے شور ھل من مزید کا اٹھاتا ہے اور کہتا ہے یا لیت رب محمد لم يخلق محمدا کا ش کے رب محمد کانہ پیدا کرتا محمد کو، اور آنکھ کے چمکارے میں اس حال سے گذر جاتا ہے اور مقام فاولى على عبده ما اوحى – وما زاغ البصر وما طغى اور مقام قاب قوسین او ادنی میں پہنچ جاتا ہے ۔ اس جگہ پر قیام کر کے کہتا ہے۔ لی مع الله وقت لا يسعنى فيه . ملك مقرب ولا نبی مرسل مجھ کو پروردگار کے ساتھ ایسا وقت ہے کہ نہیں پہنچتا فرشتہ مقرب اور نہ نبی مرسل، مگر اس مقام پر کوئی نہیں پہنچا سوائے ذات پاک رسول اللہ ﷺ کے ۔ ہاں ہزاروں نے ایک ایک طناب خیمہ حبیب پاک علیہ الصلوۃ و السلام کو دیکھا ہو گا ۔ بہت سے میدان لا الہ میں گئے اور بعضے دائرہ میں پہنچے اور بعضے تھوڑی سی حقیقت محمد رسول اللہ ﷺ کو پہنچے۔ لیکن محمد رسول اللہ اُس جگہ پر ہیں کہ فرماتے ہیں من رانی فقد رای الحق جس نے دیکھا مجھ کو پر تحقیق دیکھا اُس نے حق کو ۔ قدم اس جگہ پر ہے اے سالک عوام کے لئے اسم مع جسم ہے اور خواص کے واسطے اسم بلا جسم ۔ اس واسطے کہ وہ محو ہیں جسم حقیقی میں ، پس بالضرور اسم سے زیادہ اور نہیں۔ اُن کی خودی ذات خدا میں فنا ہوگئی سواے خدا کے کچھ نہیں رہا ۔ سالک ھا ہوت میں معشوق اور با ہوت میں عشق اور لاہوت میں عاشق و جبروت میں عارف واصف ملکوت میں واقف ناسوت میں ہوتا ہے۔ جب اس جگہ پر نزول ہوا اور پھر خبرپائی طرف وصف کے دوڑا۔ اور وصف نے عرفان میں ڈالا تو معارف کے ساتھ مشغول ہوا۔ اور رویت عارف نے عاشق اپنا بنایا۔ جب اپنا عاشق ہوا تو معشوق کو ملا۔ پہلے نزول تھا ۔ اب یہ عروج ہوا
اور حقیقت محمدی معلوم کی کلمہ طیبہ کی حقیقت اس مقام میںمنکشف ہوتی ہے کعبہ آ سمان چھٹے کا دکھائی دیتا ہے۔ سالک جب اس مقام پر پہنچتا ہے ہمیشہ ہرقت ہر زمانہ میں جمال محمدی دیکھتا ہے اور فنا اس لطیفہ کی وہی مرتبہ مقدس جناب علی الاطلاق کا ہے اور نوراس لطیفہ کا سفید سبزی مائل ہے۔ ولایت اس لطیفہ کی نیچے قدم حضرت محمد مصطفے ﷺکے ہے ۔ اور صاحب اس مشرب عالی کو بذات خود لیاقت حاصل کرنی تمام و کمال چھ مرتبوں کی سات مراتب و لایت سے ہوتی ہے ۔ اور کثرت سے مراقبہ کرنالا الہ الا الله محمد رسول اللہ کا اس لطیفہ کی مفتاح ہے ۔ اور خزانہ اللہ علیم کا اُس پر واضح ہوتا ہے ۔ جب سالک اس مقام پر پہنچتا ہے ۔ تو قل الروح من امرد بی اُس پر عیاں ہوتا ہے ۔
فرمایا خداوند تعالیٰ نے يسئلونك عن الروح قل الروح من امر ربي وما اوتيتم من العلم الا قلیلا کا مقصد مکشوف ہوتا ہے ۔
مقام روح بر من حیرت آمد نشان از وی بگفتن غیرت آمد
فرمایانبی علیہ الصلوة و السلام نے اول ما خلق الله نوری و روحی انا من نور الله والمؤمنون من نوری اول وہ شے جو پیدا کی خدا وند تعالے نے میرا نور ہے اور بعضی روایت میں میرا روح میری پیدائش نورحق سے ہے اور تمام مومنین میرے نور سے پیدا ہیں۔ اور خداوند تعالیٰ کی طرف سے خطاب مستطاب لولاك لما خلقت الافلاك اور دوسر اخطاب لولاك لما اظهر الربوبية کے مخاطب ہیں
یعنی اے محبوب اگر نہ ہوتے تم تو نہ پیدا کرتا میں آسمان ۔ دوسرے اگر نہ ہوتے تم تو البتہ نہ ظاہر ہوتی ربو بیت اول اور آخر تمام اُسی سے ہے او حقیقت محمد خود دہ ہے۔
غزل
گفتا بصورت ارچه اولاد آدمم از روے مرتبه بہمه حال بر ترم
چوں بنگر در آئینه عکس جمال خویش کرده همه جہاں بحقیقت مصورم
خورشید بر آسمان ظہور م عجب مدار ذرات کائنات اگر گشته مظہرم
ارواح قدس چیست نمودار معنیم اشباح انس چیست نموداری پیکرم
بحر محیط رشحه از فیض فائضم نور بسیط لمئہ از نور ازہرم
از عرش تا بفرش ہمہ ذره وجود در نور افتاب ضمیر منورم
روشن شود ز روشنی ذات من جہاں گر پر دہ صفات خود را فرو ورم
آبے از و که خضر جا و وان بماند آن آب چیست قطره از حوض کوثرم
واں دم کز ومسیح ہمے مرده زنده کرد یک نفخه از نفس روح پرورم
فی الجمله مظهر ہمه اشیا است ذات من بل اسم اعظم بحقیقت چوبنگرم
اور اس لطیفہ میں سیر مع اللہ حاصل ہوتا ہے ۔ سالک جب اس مقام پر پہنچتا ہے ۔ نام اس کا جمال الدین ہوتا ہے۔ اور نفس کاملہ کا معائنہ ہوتا ہے۔ سالک ایک اولیا ءاوتاد سے ہوتا ہے۔ اور جو کچھ آسمان چھٹے اورا قلیم چھٹی میں ہوتا ہے تمام عیاں ہوتا ہے العلم عند الله وعند الرسول ۔
فصل پانزدهم دربیان لطیفہ ہفتم
ساتواں لطیفہ تمام لطیفوں سے قدس ہے کہ مخفی سے بہت لطیف اور اتم و اکمل و اوثق ہے ۔ منسوب ہے بطرف فلک زحل فلک منازل و فلک البروج اور آسمان عرش اور کرسی اور جسم کل شکل کل و جوہرہا وطبیعت کل ونفس و عقل کل کی ہے۔ اور زیادہ اس سے
علم خداوند تعالیٰ کو ہے ۔ ستر ہزار حجاب نورانی و ظلمانی ہیں اور جگہ اس لطیفہ کی شروع لطیفہ اخفیٰ کی بلندی سے ملی ہوئی سینہ اور سینہ سے بلند ہو کر حبل الورید تک اور جبل الورید سے گردن اور گردن سے سر اور سر سے ام الدماغ جو مقام عقل معاد کا ہے اس لطیفہ میں واردات تجلی ذات احد کی ہے اور فنافی اللہ اس مقام میں حاصل ہوتی ہے اگر تو نے توحید حاصل کی اور ہمیشہ کی زندگی تو نے خدا سے پائی ۔ فناو ترک خواہش کا نام ہے ۔ بقا تمام اُس کی صفات سے شمار کرتے ہیں ۔ اولیا و اصفیا میں سے کسی کے لئے ہر گزموت نہیں جب سالک اس مقام پر پہنچتا ہے تمام بدن زبان ہو جا تا ہے ۔
بدریائے فتاده ام که پایانش نمی بینم بدردے مبتلا گشتم که درمانش نے بینم
درین دریای یک در است من عشاق آن درم ولیکن کو که در جوید به فرمائش نےم بینم
فرمایا پیغمبرعلیہ الصلاة والسلام نے فاشتد وا السفينة فانه بحر عميق -مضبوط کرو کشتی کو کیونکہ دریا بہت گہرا ہے ۔
بحریست بحرعشق که ہیچش کناره نیست آنجا جز آنکه جان بسپارند چاره نیست
اور نور اس لطیفہ کا نور بے نشان جیسے كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شان ہے۔
اور مفتاح اس لطیفہ کی کلمہ لا اله الا الله الواحد القہار ہے کثرت سے مراقبہ کرنے اس کلمہ شریف کے لطیفہ مفتوح ہوتا ہے۔ اور خزانہ اس لطیفہ کا اللہ کلیم سالک کو مکشوف ہوتا ہے ۔
محبت گر شود ظاهر بصورت همان صوت شود عاشق ضرورت
بخواہد چشم سر معشوق دیدن کلامش را بگوش خوش شنیدن
ما بسامان کاروانم اے رفیق عزم کرده پا نہاده دطریق
احمد مختار اندر راه راست در میان قافله سالار ماست
جب سالک اس مقام پر بوسیلہ برزخ کامل اور جامع جمیع صفات شامل کے پہنچتا ہے۔ اس وقت محمد مصطفے ﷺسالک کو اپنی رکاب میں پکڑ کر بحرا حدیت میں غوطہ دیتے ہیں اور سالک گم ہو جاتا ہے اور حالت گم گشتگی میں جو کچھ دیکھتا ہے وہ وصال ہے اور یہ حالت گم گشتگی کی ہمیشہ نہیں رہتی ۔ بلکہ کسی کو ایک ہفتہ کسی کو تین روز کسی کو ایک دن کسی کو ایک پہر کسی کو لمحہ کی قدر ہوتی ہے ۔ اور اس حالت کاحال کہا نہیں جا سکتا ۔
حافظ مدام وصل میسر نمے شود شاہاں کم التفات بحال گدا کنند
اور محبت کی باتیں سنے مثل یا عِبَادِي أَنْت عَشِيَّقي وَ مُحِبِّي أَنَا عَشِقَك مَحَبَّتِك یعنی اے بندے میرے تو میرا عاشق و محب ہے اور میں تیرا عاشق و محب ہوں فرمایاپیغمبر علیه الصلاة والسلام نے مَن أحَبَّ لِقاءَ اللَّهِ أحَبَّ اللَّهُ لِقاءَهُ جو شخص دوست رکھتا ہے دیدار خدا کو تو خدا وند تعالےٰ دوست رکھتا ہے اس کے دیدار کو۔ اور فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ ( تم مجھے یاد کرو ،میں تمہیں یاد کروں گا)اُس پرمکشوف ہوتا ہے۔ اور آیہ وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍ نَّاضِرَةٌاِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ (کچھ چہرے اس دن تر و تازہ ہوں گے۔اپنے رب کو دیکھنے والے ہوں گے)اور وَ سَقٰىهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُوْرًا ( اور ان کا رب انہیں پاکیزہ شراب پلائے گا)- اور فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ(تم جدھر منہ کرو ادھر ہی اللہ کی رحمت تمہاری طرف متوجہ ہے)کے اسرار ظاہر ہوں
هر که راہست از ہوس جان پاک زود بیند حضرت ایوان پاک
چون محمد پاک شد از نا رو دود هر کجا رو کرد وجه الله بود
هر که را باشد زسینه فتح باب آں زذره مہر بیندآ فتاب
اور رسول علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا فَإِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ كَمَا تَرَوْنَ هَذَا الْقَمَرَ قریب ہے کہ دیکھو گے تم اپنے پروردگار کو جیسا کہ دیکھتے ہوتم چودھویں رات کے چاند کو۔
اگر خواهی سخن با حق بگوئی نمازے از حضور دل بجوئی
فرما یا نبی علیہ الصلوة و السلام نے اَلصَّلَاۃ مِعْرَاجُ الْمُؤْمِنِیْنَ(نماز مومنین کی معراج ہے)سالک کو جلوہ دکھلائے اور فرمایانبی صلے اللہ علیہ وسلم نے رَاَیتُ رَبِّي لَيْلَةَ الْمِعْرَاجِ فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ فَوَضَعَ أَنَامِل كَفٍّہ عَلَى كَتِفِي فَوَجَدْتُ بَرْدَهَا فی صَدْرِی یعنی دیکھامیں نے پروردگار اپنے کو معراج کی رات میں بہت اچھی صورت میں پس رکھا حق تعالے نے انگلیوں اپنی کو درمیان کندھوں میرے کے معلوم کی میں نے سردی ان کی سینہ اپنے میں۔
یقین ہے کہ سالک یکتا اور محب فرزانہ ہو، کہ بہت عمدہ صورت مثل آئینہ کے جو عکس جمال قدرت حق تعالے کا اور وجہ ذو الجلال کا اس آئینہ میں دیکھے۔ حق یہ ہے کہ تو جب آئینہ میں صورت دیکھنا ہے تو صورت تیری آئینہ میں نہیں آجاتی ۔ ہاں عکس اس کا بے شک آئینہ میں آ جاتا ہے ۔
مادر پیالہ عکس گرخ بار دیده ایم اے بےخبر لذت شراب مدام ما
ایسا ہی رسول خدا ﷺفرماتے ہیں، کہ میں نے ذات پر ور دگار کوبہت اچھی صورت میں دیکھا۔ اور اُس کے چہرے کے عکس کو میں نے مطالعہ کیا۔ اور میں اُس پر مطلع ہوا کہ ۔ ان متشابہات کے ساتھ دکھلائی دیتا ہے ۔ چنانچہ جبرائیل علیہ السلام رسول خدا ﷺپر صورت دحیہ کلبی میں آتے تھے، نہ یہ تھا۔ که جبر ائیل علیہ السلام صورت دحیہ کلبی کی رکھتے تھے ۔ یا صورت اپنی نہیں بدلتے لیکن ایسے معلوم ہوتے تھے ۔ اسی مثال پر اس کلام کو قیاس کرو۔ اور انہیں معنی پر خیال کرو، رکھنے انگلیوں ہاتھ کو اوپر کا ندھوں کے اور اُن سے معلوم کرنی ٹھنڈک سینہ میں شعور جو مجھ کو اُس وضع انامل سے ہوا ۔ وہ میرے دل کی ٹھنڈک تھی۔ جو اس سے شعو رمعرفت مطلق کا روشن ہوا ۔ اللّٰھم أَحْسِن بِعَمَل الأَحَدِيَّة وَالوَاحِدِيَّة بِحُرْمَةِ النَّبِيِّ الْعَرَبِيِّ وَإِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَهُوَ اللَّهُ – یہی ہے وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ (اور ہم دل کی رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں)- مقام قرب اور منزل بے نشان ہے ، سوائے کون و مکاں کے دوسرے کیا ہے۔ اس منزل میں سوائے جستجو کے کچھ نہیں ہوتا ۔ خداوند کریم کی مدد کے بغیر گفتگو کے پہنچے اس جگہ سالک ہر ایک چیز کا مالک ہوتا ہے . فرمایا رسول اللہ ﷺنے اتَّصَفُوا بِصِفَاتِ اللَّهِ وَتَخَلَّقُوا بِاَ خْلَاق ِاللَّهِ متصف ہوتا ہے۔ مثال اس کی اس طور پر سمجھنی چاہئے کہ کوئی شخص لوہے کو آگ میں کرے آگ سرخ اور لوہا بھی سرخ ہوتا ہے ۔ لوہا آگ ہے جب تک سرخی باقی ہے اور جب سرخی زائل ہو جائے ۔ لوہا لوہا ہے اور آگ آگ ہے۔ اُس وقت کہ سالک عشق حق تعالے میں فانی ہو جاتا ہے قیمت اس کے خون کی دیدار الہی ہے جیسا کہ پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا۔ مَنْ مَاتَ مِنْ الْعِشْقِ فَقَدْمَاتَ شَهِیدً ا یعنی جو مرگیا عشق میں تحقیق وہ شہید ہے ۔ اور شہید اکبر کود یدار اسی وقت حاصل ہوتا ہے ۔
خدا یا سخت مشتاقم زبہر شوق دیدارت بفضل خود مرا یا رب نما دیدار یا الله
اللَّهُمَّ اُرْزُقْنَا لِقَائِك بِحُرْمَتِ النَّبی الْعَرَبِی کیا اچھے ہیں نیک نصیب سالکان واثق اور عاشقان صادق کے جو فی الفور اس مرتبہ عظیمہ کو پہنچتے ہیں
دیگراں راو عده فردا بود سالکان را دید هم آنجا بود
جب کہ دریائے احدیت سے غوطہ مار کر باہر آتا ہے ۔ رجوع حالت ا صلی کی طرف کرتا ہے۔ کہ کہا ہے مَا لِنِهَايَت هُوَ الرُّجُوعُ إلَى الْبَدَایت یعنی سائل نے پوچھا کہ نہایت کیا ہے، کہا وہ لوٹنا ہے طرف ابتدا کی۔ فرمایا رسول علیہ الصلوة و السلام نے كُلِّ شَيْ يَرْجِعُ إلَى أَصْلِهِ یعنی ہر شے رجوع کرتی ہے طرف اصل اپنے کے اور اس لطیفہ میں سیر فی اللہ حاصل ہوتی ہے۔ اور روح قدسی عیاں ہوتا ہے نفس نیک ہو جاتا ہے ۔ سالک کا نام کمال الدین ہوتا ہے اور ایک مرتبہ کا قطب اور غوث زمانہ ہوتا ہے۔ اور جو کچھ بیچ چوداں آسمانوں اور سات زمینوں اور تحت الثرے اور سات و لایت کے ہے مکشوف ہوتا ہے۔ یعنی خداوند تعالیٰکے حکم سے واضح ہوتا ہے ۔ والعلم عند الله ۔
رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا بِحُرْمت النَّبِيَّ سَيِّدِ الْمُرْسَلِينَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
اور خاتمہ بالخیر بیان میں سلسلہ نقشبندیہ شریفہ عالیہ و شجرہ طیبہ کے ہمیشہ نازل ہواس پر برکت اور رحمت بحرمت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم :
سِلْسِلَہ مُتَوَاتِرَة انْتِسَابہ فِي الطَّرِيقَةِ النَّقْشَبَندیهُ قَدَّس اللّہ أَسْرًارَھم
اس فقير حقیر كثیر التقصير محمدا سلم نقشبندی نے اپنے باپ شیخ جلال الدین نقشبندی سے فیض پایا۔ اور اُنہوں نے شیخ المشائخ میاں فتح اللہ نقشبندی سے ۔ اور مولینا محقق میاں معصوم رحمہ اللہ علیہ سے ۔ اور انہوں نے اپنے والد و شیخ قطب ر بانی حبیب سبحانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی نقشبندی رحمتہ اللہ علیہ سے اور انہوں نے خواجہ محمدن الباقی نقشبندی رحمہ اللہ علیہ سے ۔ اور اُنہوں نے خواجہ امکنی رحمتہ اللہ علیہ سے۔ اور اُنہوں نے قطب ربانی خواجہ درویش ولی نقشبندی رحمہ اللہ علیہ سے ۔ اور انہوں نے قطب ر بانی خواجہ زاہدنقشبندی رحمتہ اللہ علیہ سے اور انہوں نے قطب ربانی خواجہ عبد اللہ الاحرار نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ سے اور انہوں نے قطب ربانی خواجہ یعقوب رحمہ اللہ علیہ ہے۔ اور اُنہوں نے خلیفہ الرحمانی السر السبحانی عاشق ربانی حضرت خواجہ بہاؤالحق والدین نقشبندی قدس الله سرہ العزیز ہے ۔ اور اُنہوں نے قطب ربانی خواجہ میر کلال رحمتہ اللہ علیہ سے۔ اور انہوں نے قطب ربانی محمد السماسی رحمتہ اللہ علیہ سے۔ اور وہ قطب ربانی خواجہ علی رحمتہ اللہ علیہ سے ۔ اور انہوں نے قطب ر بانی خواجہ محمود الخیر الفغنوی رحمتہ اللہ علیہ سے ۔ اور انہوں نے قطب بانی خواجہ عارف ریوگری سے ۔ اور وہ قطب ربانی خواجه عبد الخالق غجدوانی رحمتہ اللہ علیہ ے ۔ اور اُنہوں نے قطب ربانی خواجہ یوسف ہمدانی رحمتہ اللہ علیہ سے اور قطب ربانی خواجہ علی الفارمدی رحمتہ اللہ علیہ سے اور اُنہوں نے قطب ربانی خواجہ ابو الحسن الخرقانی رحمہ اللہ علیہ سے اور انہوں نے قطب ربانی خواجہ بایزید البسطامی رحمہ اللہ علیہ سے۔ اور انہوں نے امام الهام حضرت امام جعفر الصادق سبط حبیب اللہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے اپنے نانا قاسم بن محمدبن ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے حضرت سلمان الفارسی صاحب رسول اللہ ﷺسے اور انہوں نے شیخ المہاجرین و الانصار ثانی اثنين اذهما في الغار الى الصديق خیرالاخیار رضی اللہ تعالی عنہ سے۔ اور اُنہوں نے حضرت سید المرسلین خاتم النبین محمدن المصطفے ورسول المجتبے علیہ الصلوۃ والتسلیمات اورانہوں نے جبرئیل سے انہوں نے تمام رب العزت جل جلالہ العظیم الکریم الرحیم سے ۔
تمت بالخير
غزل حقیر
خاند خود اے صنم اندر دل ما کرده بود ویرا نہ مگرعر ش معلے کردہ
عاشق جانباز را کرده ہلاک از تیغ ناز بر سر راہش فگندی و تماشا کرده
من گرفتار بلا تنها نیم اے جان جان ہر کسےرا عاشق زلف چلیپا کرده
ابرویت تیغ و سلاسل زلف مژگانت سنان بہرقتل عاشقان سامان مهیا کرده
ساختی مومن کسے را کردہ کافر کسی رخته ها انداختی خود فتنہ بر پا کرده
جلوه خود برفگندی کرده روش طوررا زان کلیمی با صفار است پیدا کرده
خود توئی احمد شدی خود حامد و محمود وز برای دیدن خود را تمنا کرده
گر شدی یعقوب گاہے یوسف کنعاں شدی ہر دو عالم را بعشق خودزلیخا کرده
خود شدی فرهاد و شیریں وامق عذراست خود لیلی و مجنون شدی خود عزم صحرا کرده
آمدی برکشتند خودقم با ذنی گفته ای شوم قربانت اعجاز مسیحا کرده
خود عیاں کردی تو اسرار نهان خویش را پس چرا رسوا حقیر بےنوا را کرده