مقامات سلوک
قرآن وسنت اور اکا بر صوفیاء کے اقوال سے مزین مفید ومؤثر کتاب، تصوف کی تعریف ، سالک راہ کو پیش آنے والے احوال و مقامات کی تشریح سلیس اور سادہ انداز میں
مصنف
ڈاكٹر محمد عبد الرحمن عمیرہ المصری
اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ وَالصَّلٰوةَ وَالسَّلَامُ عَلٰى رَسُولِهِ النَّبِيِّ الْكَرِيْمِ وَعَلٰی آلِهِ وَصَحْبِهٖ أَجْمَعِينَ وَعَلٰی عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِينَ أَجْمَعِينَ بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِيْنَ
صوفیائے کرام نے مختلف ادوار میں تصوف کے متعلق گفتگو فرمائی اور اس کی مختلف تعریفات بیان فرما کر اس کو مختلف سلاسل میں تقسیم کیا ہے۔ یہ سلاسل ذکر واذکار کے طریقوں میں تو مختلف ہیں لیکن مقاصد واہد اف میں متفق ہیں یہ کثیر تعریفات جو صوفیائے کرام نے کی ہیں ان میں کوئی ایک تعریف تما م حقیقت تصوف کی مکمل نشاندہی نہیں کرتی البتہ مجموعی طور پر یہ تعریفات حقیقت تصوف اور اس کے اغراض و مقاصد پر دلالت کرتی ہیں
لفظ صوفی کے بارے میں علماء و محققین کا اختلاف ہے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ یہ لفظ صحابہ کرام اور تابعین کے دور کے بعد دوسری صدی ہجری میں مشہور ہوا جبکہ دوسرے گروہ کا موقف ہے کہ یہ لفظ قبل از اسلام زمانہ جاہلیت میں بھی معروف تھا۔
ان تمام تر اختلافات کے باوجود تصوف کی کتب معتبرہ اس بات پر متفق ہیں کہ سب سے پہلے جو شخص لفظ صوفی سے مشہور ہوا وہ ابو ہاشم کوفی (متوفی 150ھـ ) ہیں یہ کوفہ کے رہنے والے عربی النسل تھے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ شام میں گزارا جس طرح علماء نے لفظ صوفی کی تاریخی حیثیت کے متعلق اختلاف کیا ہے اسی طرح اس کے عربی الاصل ہونے میں اختلاف ہے اس بارے میں سب سے قدیم رائے البیرونی کی ہے وہ کہتے ہیں ” یہ یونانی لفظ ” سوف ” کی تحریف شدہ شکل ہے جس کا معنی حکمت ہے اس سے فیلسوف کا لفظ نکلا ہے جس کا معنی محب ا لحکمۃ (حکمت سے پیار کرنیوالا) ہے پس اسلام میں جن لوگوں کا رحجان حکمت و معرفت کی طرف ہوا ۔ انہیں صوفی کہا جانے لگا۔ لیکن مشہور مستشرق نویلڈ ک نے اس قول کا رد کیا ہے کہ یونانی حرف “س” کا ترجمہ ہمیشہ عربی میں حرف س” کے ساتھ ہی کیا جاتا ہے نہ کہ “ص” کے ساتھ اگر لفظ صوفی یونانی زبان سے لیا جاتا تو “س” کے ساتھ “سوفی ” لکھا جاتا۔
ڈاکٹر عبد الحلیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں علماء کا ایک گروہ البیرونی کی اس یات سے متفق ہے کہ تصوف کا لفظ یونانی کلمہ ”صوفیا” سے نکلا ہے فون ھاؤ مستشرق نے اسی رائے کو اختیار کیا اور بہت سے محققین کا بھی یہی نقطہ نظر ہے محمد لطفی جمعہ مرحوم نے بھی اسی قول کی تائید کی ہے۔
لیکن ڈاکٹرذکی مبارک مرحوم نے اس رائے کی سخت مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ علماء عرب کی غیر عربی الفاظ پر گہری نظر تھی ۔ اگر یہ لفظ غیر عربی ہو تا تو اسے اپنی مؤلفات میں ذکر کر دیتے پھر ” سوفیاء” کلمہ کا معنی یونانی زبان میں حکمت ہے قدیم یونانیوں کے نزدیک علوم طبیعہ میں فلسفہ کو بڑی اہمیت حاصل تھی ۔ اور ان کے بہت سے فلاسفی طبیب تھے عربوں نے طب کا ترجمہ ” حکمت ” کیا ہے اور حکیم کا کلمہ طبیب کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور اسی طرح فلسفہ کو بھی حکمت کا نام دیا گیا ہے عرب عام طور پر تاریخ حکماء سے تاریخ فلاسفہ مراد لیتے ہیں اور لفظ سوفیاء سے بھی انہوں نے طب اور فلسفہ کا معنی مراد لیا ہے جہاں تک روحانی حکمت کا تعلق ہے تو یہ بات بعید ہے کہ وہ یہ معنی یونانیوں سے لیتے جن کو وہ بتوں کی پوجا کرنے والے شمار کرتے تھے لفظ “صوفی” کے بارے میں البیرونی کی رائے کے علاوہ اور بھی بہت سی آراء زمانہ قدیم سے موجود ہیں، رسالہ قشیریہ کے مصنف ان آراء کو ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں کا یہ قول ہے کہ لفظ صوفی صوف سے نکلا ہے جس کا معنی اون ہے اور عربی زبان میں تصوف کا معنی اونی لباس پہننا ہے از روئے لغت تو یہ رائے قرین قیاس ہے لیکن تمام صوفیاء اونی لباس نہیں پہنتے تھے۔
بعض نے کہا ہے کہ یہ اصحاب صفہ کی طرف منسوب ہے لیکن صفہ سے بعض نے کہا ہے کہ صفا سے مشتق ہے لیکن یہ بات قوانین صرف کے موافق نہیں اور بعض نے کہا کہ یہ ”صف ” سے مشتق ہے کیونکہ صوفیاء کرام ہمیشہ صف اول میں ہوتے ہیں یہ مفہوم بھی صحیح ہے لیکن قواعد لغت اس کی تائید نہیں کرتے۔
آخر میں مصنف رسالہ قشریہ فرماتے ہیں کہ یہ لفظ صوفیاء کرام کے ساتھ خاص ہو گیا ہے ایک آدمی کو صوفی اور جماعت کو صوفیاء کہتے ہیں اور جو شخص ان کے ساتھ ملے اس کو متصوف اور جماعت کو متصوفین کہتے ہیں ڈاکٹر ذکی مبارک لکھتے ہیں کہ ممکن ہے لفظ سوفیاء بمعنی روحانی حکمت قدیم عربی کے لفظ ” صوف” سے لیا گیا ہو کیونکہ عربوں کے نزدیک لفظ صوف بہت قدیم ہے اور یہ مسیحی مذہب کی بنیاد تھا۔ اور صوف (اون) کا پہننا زہد کی علامت متصور ہوتا تھا۔ اور یہ بعید نہیں ہے کہ کلمہ صوف عربی زبان سے یونانی زبان میں منتقل ہو گیا ہو اس رائے کو ابو نصر سراج طوسی صاحب کتاب اللمع، شیخ الاسلام ذکریا انصاری ابن تیمیہ ابن خلدون اور مستشرق مرجیلوٹ وغیرہ نے اختیار کیا ہے دور جدید کے محققین میں سے ڈاکٹر عبد الحلیم محمود اور ڈاکٹر مصطفی علمی کا خیال ہے کہ یہ کلمہ ” تصوف ” صوف سے مشتق ہے یہاں ہم صاحب کتاب اللمع کا یہ قول ذکر کرتے ہیں کہ صوفیاء کرام کو ان کے ظاہری لباس (صوف) کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور ان کا یہ اسم ان کے تمام معارف و علوم اعمال و اخلاق اور احوال پر دلالت کرتاہے جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اصحاب کا ذکر کیا ہے تو ان کو انکے ظاہری لباس کی طرف منسوب کر دیا اور ارشاد فرمایا اذ قال الحواریون یہ لوگ سفید لباس پہنتے تھے اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو اس کی طرف منسوب کیا ہے اور ان کے دوسرے مختلف احوال و اعمال جن کے ساتھ وہ متصف تھے کی طرف منسوب نہیں کیا ہے ۔ ان کا لباس پہننا انبیاء کرام اور صدیقین کی عادات میں سے ہے مساکین اور عبادت گزاروں کا شعار ہے بعض نے کہا کہ اصحاب عیسی کو “حواریین” اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ وہ دھوبی تھے۔
بہر حال ان تمام ذکر کردہ کلمات کا تصوف سے گہرا تعلق ہے مثلا لفظ “صفا” اس کا تصوف سے تعلق ظاہر ہے کیونکہ تصوف ظاہری و باطنی صفائی کا نام ہے
(2) : دوسرا اشتقاق
صف ” : صوفیاء کرام جہاد اکبر اور جہاد اصغر کے ہر میدان میں ہمیشہ صف اول میں ہوتے تھے۔
(3) صفہ
یہ مسجد نبوی شریف کا وہ چبوترہ ہے جس میں وہ صحابہ کرام مقیم تھے جنہوں نے اپنے آپ کو جہاد فی سبیل اللہ اور علم کے لئے وقف کیا ہوا تھا امام طوسی اہل صفہ کے بارے میں فرماتے ہیں ” یہ تین سو سے زائد صحابہ کرام رضوان الله علیهم اجمعین عربی تھے جن کا کوئی تجارت اور کاروبار نہیں تھا۔
ان کا کھانا پینا اور سونا مسجد میں ہی ہوتا تھا ” ۔ نبی کریم ﷺ ان کے ساتھ خصوصی انس کا اظہار فرماتے ان کے ساتھ تشریف فرما ہوتے، کھاتے پیتے، اور لوگوں کو انکی تعظیم کیلئے ابھارتے تھے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے کئی مقامات پر ان لوگوں کا ذکر کیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے
لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أَحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ(272:2)
ترجمہ : ان فقیروں کیلئے جو راہ خدا میں روکے گئے (کنز الایمان)
اور ارشاد فرمایا
لا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ
ترجمہ : دور نہ کروا نہیں جو اپنے رب کو پکارتے ہیں ۔
اور ایک جگہ ارشاد فرمایا
وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ
اور اپنی جان ان سے مانوس رکھو جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں۔
اور حدیث پاک میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اہل صفہ کو دیکھا کہ وہ کپڑے کی کمی کی وجہ سے اپنے جسموں کو چھپانے کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک قرآن کریم کی تلاوت کر رہا تھا۔ اور باقی تلاوت سن کر رو رہے تھے (الحدیث) اور صفہ ایک خوبصورت صفت ہے اور سوفیاء کا لفظ یونانی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ غیب پر بطریقہ خاص معرفت حاصل کی جائے ۔و اللہ اعلم بالصواب
تصوف کے متعلق صوفیاء کرام کی آراء
تصوف کے متعلق اگر صوفیاء کرام کی آراء کو یہاں تفصیلاً بیان کیا جائے تو بحث طویل ہو جائے گی لہٰذا اختصاراً – چند اقوال کے ذکر پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے جن سے تصوف کی حقیقت واضح ہو جائے ۔ بعض صوفیاء کرام کے نزدیک تصوف الہام اور بصیرت کا نام ہے اور
بعض کے نزدیک علم الہی اور علم لدنی ہی تصوف ہے ۔ امام طوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کسی بزرگ سے تصوف کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے تین جوابات دیئے
(1) شرط علم : اس سے مراد کدورتوں سے تصفیہ قلوب ، مخلوق کے ساتھ حسن سلوک اور شریعت میں رسول اللہ ﷺ کی اتباع کرنا ہے
(2) زبان حقیقت : اس سے مراد راہ خدا میں سب کچھ لٹا دینا خواہشات نفسانی سے کنارہ کشی اختیار کرنا اور خالق کا ئنات پر مکمل اعتماد کرنا ہے۔
(3) زبان حق : اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی خصوصی عنایات سے ان لوگوں کو ان کی صفات میں پاکیزگی عطا کرتا ہے اور پھر ان کو ان کی صفات سے مصفی کر دیتا ہے اسی وجہ سے ان کا نام صوفیاء رکھا گیا ۔ امام ابو بکر قطانی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ تصوف صفائے قلبی اور مشاہدہ حق سے عبارت ہے امام شعرانی کے نزدیک تصوف احکام شرعیہ پر عمل کا نچوڑ ہے جبکہ یہ عمل ریا کاری اور خواہشات نفسانیہ سے خالی ہو امام شبلی رحمۃ اللہ سے تصوف کے بارے میں سوال کیا گیا جو کہ جلیل القدر صوفیاء کرام میں سے تھے فاس میں پیدا ہوئے اور بغداد شریف میں بقیہ زندگی گزار دی۔ آپ سے پوچھا گیا کہ تصوف کی ابتداء اور انتہاء کیا ہے؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ اس کی ابتداء اللہ کی معرفت اور اس کی انتہاء توحید ہے۔
حقیقتاً تمام تعریفات کا لب لباب وہی ہے جس کی طرف امام شبلی رحمۃ اللہ علیہ نے اشارہ فرمایا ہے اور یہی تمام تعلیمات اسلامیہ کا مرکز و محور ہے حدیث پاک میں ہے کہ ایک اعرابی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! میری آواز میں تو وہ سوز نہیں جو آپکی اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی آواز میں ہے مگر میں گواہی دیتا ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اس اعرابی نے نبی کریم ﷺ اور ابو بکر صدیق کو بڑے خشوع و تضرع کے ساتھ خدا کی بارگارہ میں دعا کرتے ہوئے سنا تھا ۔ لیکن خود وہ اعرابی اس پر قادر نہیں ۔ تھا۔ تو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہمارا مقصد بھی اس رب کو راضی کرنا ے جس کی توحید کا اقرار تم نے کیا ہے۔
بس تمام صوفیاء عظام بھی توحید کے متعلق ہی گفتگو فرماتے ہیں اگر چہ ان کی عبارات اور طریقوں میں قدرے اختلاف ہے لیکن مقصود سب کا اللہ کی رضا ہی ہے
عِبَاراتُنَا شَتَّى وحُسْنُكَ وَاحِدٌ فَكُلَّ إِلَى ذَاك الجَمَالِ يُشِيرُ
ہماری عبارات مختلف ہیں اور تیرا حسن سرمدی یکتا ہے اور ان میں سے ہر ایک اسی جمال جہاں آراء کی طرف اشارہ کر رہا ہے ”
ڈاکٹر عبد الحلیم محمود فرماتے ہیں کہ البیرونی نے بڑےبڑے ادیان کی امتیازی خصوصیات کو بڑے حسین انداز میں بیان کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ موجودہ نصرانیت کی امتیازی خصوصیت تثلیث ہے جو تثلیث پر ایمان نہیں لاتا اسے مسیحی شمار نہیں کیا جاتا اور یہودیت کی خصوصیت یوم سبت (ہفتے کا دن) کا اہتمام ہے جو اس پر ایمان نہ رکھے وہ دائرہ یہودیت سے خارج متصور ہوتا ہے ہندی عقائد میں عقیدہ تاریخ کو امتیازی حیثیت حاصل ہے جو اس پر عدم اعتقاد رکھے گا وہ ہندو نہیں ہے اور اسی طرح مذہب اسلام کی امتیازی خصوصیت توحید ہے۔
امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تصوف وہ نور ہے جو صوفیائے کرام کے دل میں اس وقت اترتا ہے جب ان کے دل قرآن وسنت سے مستنیر ہوتے ہیں قرآن وسنت پر عمل کرنے سے قلوب واذہان پر وہ اسرار ورموز اور حقائق آشکارا ہوتے ہیں جن کو زبان بیان کرنے سے عاجز ہے۔
صوفیائے کرام کا طریق کار
صوفیائے کرام کا طریقہ کار کتاب و سنت کے احکام اور انبیاء و صالحین کے اخلاق پر مبنی ہے اور یہ طریقہ کار اسی وقت مذموم ہوتا ہے جب یہ صریح قرآن و سنت یا اجماع کے مخالف ہو۔ صوفیائے کرام کے نزدیک طریق تصوف وصول الی اللہ کا ذریعہ ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
فَفِرُّوْۤا اِلَى اللّٰهِ(الذاريات : 50)
ترجمہ: تو تم اللہ کی طرف بھاگو ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے
وَقَالَ إِنِّي مُهَاجِرٌ إِلَىٰ رَبِّي (العنكبوت : 26)
ترجمہ : میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرتا ہوں
مرید وہ ہے جو طریقہ تصوف کو اختیار کرے یا رب کو پانے کیلئے سفر کرے وہ قدم بقدم مرحلہ بمرحلہ ، مقام بمقام اپنے رب تک پہنچ جائے گا۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس منزل کی ابتداء مکاشفات اور مشاہدات سے ہوتی ہے اور پھر منازل طے کرتے کرتے اس مقام تک پہنچ جاتے ہیں کہ حالت بیداری میں فرشتوں اور ارواح انبیاء علیهم السلام کا مشاہدہ کرتے ہیں ان کی آوازیں سنتے اور فائدہ اٹھاتے ہیں اور پھر صور اور امثال کے مشاہدہ سے ترقی کرتے کرتے ایسے درجات کو پالیتے ہیں جن کے بیان سے زبان قاصر ہے لیکن یہ منزل جلد اور بآسانی حاصل ہونے والی نہیں کہ ہر کوئی ان مقامات کو پالے بلکہ یہ منزل مشکلات و مصائب سے بھر پور اور دشوار گزار ہے۔ مصائب کے ساتھ ساتھ اس راہ میں سالک کو شدید قسم کے دشمنوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے اس لیے سالک کو ارادت و عبادت کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ رغبت آرزوئے عمل اور جہاد اکبر میں مصروف رہے جس طرح کہ فرمان رسول ﷺ ہے۔
رَجَعْنَا مِنَ الْجِهَادِ الْأَصْغَرِ إِلَى الْجِهَادِ الْأَكْبَرِ
ترجمہ: ہم نے جہاد اصغر سے جہادا کبر کی طرف رجوع کیا ۔
شیطان، نفس، خواہش نفسانی یہ تمام سالک کے دشمن ہیں یہ تمام کے تمام فتنے اور گمراہی کا سبب ہے
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مقصد تک کیسے آ سکتے ہیں اور وہ کونسی کشتی ہے جو ہم کو ساحل مراد تک پہنچا سکتی ہے کیا یہ ممکن ہے کہ ہم عقلی کوڑے پر سوار ہو کر عقلی نتائج اور تحقیقات کے ذریعے اس کو پاسکتے ہیں یا علم کے راستے سے اس تک پہنچیں۔
یا کہیں ایسا تو نہیں کہ تصوف کی منزل مشکل اور کٹھن ہے کہ نہ تو عقل اس کے دروازے پر پہنچ سکتی ہے اور نہ ہی علم اس کے دروازے پر دستک دے سکتا ہے تو پھر کیا ایسا ممکن ہے کہ ہم روحانی قوت کے ذریعے اس منزل تک پہنچ جائیں اگر ہمیں روحانی قوت کے ذریعہ بحر تصوف کی گہرائیوں تک رسائی نہیں ہو سکتی تو کیا یہاں کوئی اور بھی وسیلہ ہے جو اس کیلئے ممد معاون ہو سکے ؟
شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ” اس منزل مراد کو پانے کا طریقہ ایمان اور تقوی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے
وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰۤى اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ
ترجمہ: اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور ڈرتے تو ضرور ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے ۔
وہ اس آیہ کریمہ کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ ” لَفَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَرَكٰتٍ ” کا معنی یہ ہے کہ ہم انہیں انوار ملکوت واسرار جبروت اور علوی و سفلی علوم کے متعلق آگاہ کرتے ہیں۔
نیزار شاد خداوندی ہے
وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقَهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ
ترجمہ: اور جو اللہ سے ڈرے اللہ اس کیلئے نجات کی راہ نکال دے گا اور اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں اس کا گمان نہ ہو ۔
امام ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک رزق کی دو قسمیں ہیں
(1) روحانی (2) جسمانی
ارشاد باری تعالیٰ ہے
واتَّقُوا اللهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللهُ (البقرة : 282)
ترجمہ: اور اللہ سے ڈرو اور اللہ تمہیں سکھاتا ہے ۔
اس آیت کریمہ کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں وہ علوم سکھائے گا جو تم نہیں جانتے پس ایمان اور تقوی ہی اس منزل مقصود کا راستہ اور زینہ ہے جس کے ذریعے سالک اپنی منزل تک پہنچ سکتا ہے اس کی مؤید قرآن کریم کی یہ آیت مبارکہ ہے ارشاد ربانی ہے
الَّا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (یونس : 62)
ترجمہ: سن لو بے شک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ کچھ غم ۔
ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کی رائے کے بعد ہم حکیم ترمذی کی بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں تاکہ ان کی رائے معلوم ہو سکے وہ فرماتے ہیں کہ یہ منزل نظر و فکر اور عقل کے ذریعے حاصل نہیں ہوتی ۔ بلکہ یہ تو وہ نور ہے جو قرآن و سنت کے اتباع کے ذریعے حاصل ہوتا ہے اس لیے اس کا علم یقینی ہے نہ کہ ظنی و تخمینی – اس سے معلوم ہوا کہ یہ منزل نہ تو فکر و عقل سے اور نہ ہی مطالعہ کتب اور ان کے حفظ سے حاصل کی جاسکتی ہے بلکہ عبادت ، سلوک، ترک معاصی اور اتباع قرآن وسنت سے اس کے دل میں ایک نور پیدا ہوتا ہے جو تمام معاملات میں اسے راہنمائی دیتا ہے یہ تقوی اور ایمان کا نور ہے اور جب تک بنده قرآن و سنت کے اوامر کی پیروی کرتا ہے اور اس کے نواہی سے اجتناب کرتا ہے تو اس کا دل نور سے بھرا رہتا ہے اور وہ سراپا نور بن جاتا ہے اور یہ نور ہی اکثر معارف ربانیہ تک پہنچنے کا ذریعہ ہے جس طرح امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے ” جب بندے کا دل نور سے بھر جاتا ہے تو بندے اور خدا کے درمیان تمام حجابات ہٹ جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو علم لدنی عطا فرماتا ہے ”
امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس منزل تک پہنچنے کے دو ذرائع بتائےہیں
(1) جذب الہی (اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایات)
(2) بیعت شیخ ۔ کسی شیخ کامل کے ہاتھ میں ہاتھ دینا تاکہ وہ اسے سلوک کی منازل طے کرائے
جو شخص ان دونوں راستوں میں سے کسی ایک کو اختیار نہیں کرتا تو اس کے لئے اس منزل کو پانا محال ہے ۔ پہلا طریقہ : جذب الہی کا طریقہ ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ جذبات الہی میں سے ایک جذبہ جن وانس کے عمل کے برابر ہے
دوسرا طریقہ : شیخ کامل کے ہاتھ پر بیعت کرنا ہے تاکہ مرید اپنے شیخ کے سلسلہ سے منسلک ہو جائے اور اس کا تعلق اس طرح ہو جائے جس طرح لوہے کی زنجیر کا ایک حلقہ ہوتا ہے جب ایک حلقے کو حرکت دی جائے تو ساری زنجیر متحرک ہو جاتی ہے ہر ولی اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان وہ تعلق ہے جو زنجیر کا اپنے حلقوں سے ۔ بخلاف اس شخص کے جو بلا مرشد ہو وہ ٹوٹی ہوئی زنجیر کی طرح ہوتا ہے اگر کوئی مشکل آن پڑے تو وہ زنجیرا سے عدم ارتباط کی وجہ سے اسے کچھ فائدہ نہیں دیتی ۔ اسی تعلق کے بارے میں ڈاکٹر عبد الحلیم محمود فرماتے ہیں کہ یہ روحانی تاثیر تصوف کی بنیادی شرط ہے اور یہ شیخ کے واسطہ کے بغیر حاصل نہیں ہوتی اسی وجہ سے تصوف اسلامی میں بہت طرق اور سلاسل موجود ہیں دراصل ہر سلسلہ اس روحانی تاثیر پر قائم ہوتا ہے جو مرید کو اپنے شیخ سے حاصل ہوتی ہے اور ممکن ہے کہ یہی مرید آئندہ شیخ کامل بن کر دوسروں کو روحانی فیض پہنچائے امام شعرانی کی رائے شیخ سہروردی سے ملتی ہے کیونکہ شیخ سہروردی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ صوفیائے کرام میں بعض ایسے ہیں جو محنت اور کوشش سے منازل سلوک طے کرتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جن کو رب کی خاص عنایات سے بغیر محنت کے یہ مقام ملتا ہے اور یہ حال محبو بین کا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بغیر محنت کے اپنی عنایات اور نوازشات سے نوازتا ہے اور دوسرا طریقہ مریدین کا ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں رجوع اور محنت سے مقام حاصل ہوتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے
وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنكبوت: (69)
اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انہیں اپنے راستے دکھا دیں گے
یعنی اللہ تعالیٰ انہیں مختلف قسم کی ریاضتوں اور عبادتوں سے گزار کر بلند مقام سے نوازتا ہے اور یہ حال اس مالک کا ہے جو محب اور مرید ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد دونوں طریقوں کو جامع ہے ارشاد رب جل وعلیٰ ہے
اَللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَن يُنِيبُ
ترجمہ: اللہ اپنے قرب کیلئے چن لیتا ہے جسے چاہے اور اپنی طرف راہ دیتا ہے اسے جو اس کی بارگاہ کی طرف رجوع کرے ۔
قرآن اور تصوف
بعض افراد کی رائے ہے کہ تصوف قرآن میں موجود نہیں اگر یہ بات مبنی بر حقیقت ہے تو پھر تصوف کا اسلام سے دور کا واسطہ نہیں اور نہ ہی اس کے اصول اور مبادی اس کے ساتھ متفق ہیں اس بنا پر تصوف اسلامی کا تعلق قدیم یونانی فلاسفہ کے افکار اور ہندی افکار کی ترقی یافتہ شکل ہے بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ مشہور مستشرق کریمر بڑی بے باکی سے کہتا ہے کہ تصوف اسلامی رہبانیت کی مرہون منت ہے اور رہبانیت کی اساس اللہ تعالیٰ اور دوزخ کے خوف پر مبنی ہے وہ کہتا ہے کہ اسی طرح قرآن مجید میں بھی دوزخ اور قیامت کے خوفناک مناظر موجود ہیں کریمر کی یہ بات حقیقت سے بعید ہے کہ امام حارث محاسبی کا تصوف مسیحی تھا با وجود اس کے کہ شیخ حارث خالص سنی تھے اور اسلامی تصوف کی بلندیوں پر فائز امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے پیش رو تھے ۔ علماء کرام اور شرق و غرب کے مفکرین میں اختلاف نہیں ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں صادقین اور صادقات، عبادت گزار مرد اور عورتیں اللہ سے ڈرنے اور اس پر پختہ یقین کرنیوالے مخلصین ، محسنین ، صابرین ، متوکلین، مقربین ، اولیاء و صالحین کا ذکر کیا ہے اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں مشاہدین کا ذکر کیا ارشاد فرمایا
اَوْ اَلْقَى السَّمْعَ وَ هُوَ شَهِیْدٌ( سورة ق : 37)
ترجمہ : یا کان لگائے اور متوجہ ہو
مطمئن القلوب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا
أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبِ
ترجمہ : سن لو۔ اللہ کی یاد میں ہی دلوں کا چین ہے ۔
اور نیکیوں کی طرف سبقت لے جانے والے اور میانہ روی اختیار کرنے والے لوگوں کا ذکر کیا ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا “میری امت میں مکلمین اورمحد ثین ہوں گے ۔ ” اور عمر رضی اللہ عنہ ان میں سے ہیں ” ۔
اور آپ نے ارشاد فرمایا بہت سے غبار آلود اور پھٹے پرانے ” : کپڑوں والے ایسے ہیں کہ اگر وہ قسم اٹھا لیں تو اللہ تعالیٰ اسے پورا کر دیتا ہے اور حضرت براء رضی اللہ عنہ ان میں سے ہیں اور حضرت وابصہ رضی اللہ عنہ سے کہا اسْتَفْتِ قَلْبَكَ
اپنے دل سے سوال کرو) اور آپ کے علاوہ کسی اور کو یہ ارشاد نہیں فرمایا۔ قرآن کریم ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم اپنے دنیاوی مقدر کو ترک نہ کریں اور ہم کو دعوت دیتا ہے کہ ہم بہادر اور قوی رہیں اور اس چیز کی راہنمائی کرتا ہے کہ دانت کے بدلے دانت ، آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے میں ناک بطور قصاص ہوگا اور اس طرح قرآن ہمیں دعوت دیتا ہے کہ جہاد ہر مسلمان پر واجب ہے اسی طرح قرآن کریم نے دنیاوی مشکلات کو حل کرنے کیلئے متبادل نظام دیا ہے لیکن آیات قرآنیہ میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی نظر میں اخروی زندگی بہتر اور باقی رہنے والی ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہتر اور معزز وہی ہے جو اس سے زیادہ ڈرتا ہے اس کے مقابلے میں دنیاوی زندگی لہو و لعب اور باہمی فخر سے عبارت ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتی ۔ اور قرآن کریم میں جو یہ ارشاد ہوتا ہے کہ بندے کو چاہئے کہ وہ دنیاوی زندگی سے اپنا حصہ لے لے تو یہ محض اس لیے ہے کہ مومن کسی غیر کا محتاج نہ ہو پھر قرآن کریم مومنین کی صفات بیان کرتا ہے کہ وہ زمین پر آہستہ آہستہ اور وقار کے ساتھ چلتے ہیں اور جب ان کا واسطہ کسی جاہل کے ساتھ پڑتا ہے تو بڑی سنجیدگی سے اپنا دامن بچا لیتے ہیں اور اپنی راتوں کو رکوع و سجود میں گزار دیتے ہیں یہ تمام آیات اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ اس دار فانی میں مومن کی تمام زندگی آخرت کی تیاری کیلئے وقف ہے کیونکہ آخرت ہی مومن کیلئے زیادہ بہتر اور دائمی ہے لیکن اگر کوئی شخص اخروی زندگی کا ہی ہو کر رہ جائے تو یہ بھی اسلامی تعلیم کے منافی ہے حقیقی صوفی آخرت کی تیاری کے ساتھ ساتھ دنیاوی حقوق و فرائض کا بھی خیال رکھتا ہے شادی کرتا ہے کسب حلال کا اہتمام کرتا ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے قوی مومن اللہ کے نزدیک زیادہ محبوب ہوتا ہے ضعیف اور کمزور مومن ہے۔
صوفیائے کرام قرآن کریم کی آیات بینات سے اپنی آراء پر استدلال کرتے ہیں ارشاد باری تعالیٰ ہے
وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ رَمَىٰ (سوره انفال:17)
ترجمہ : اور نہیں پھینکا آپ نے ، جب پھینکا، لیکن اللہ تعالیٰ نے پھینکا ۔
یہ آیت کریمہ ان کے اس مذہب پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ فاعل مطلق ہے اور ہر فعل کا صدور اسی سے ہوتا ہے اور بندے کی اپنے رب کی سامنے وہی حیثیت ہوتی ہے جیسے کاتب کے ہاتھ میں قلم وہ اپنی مرضی سے جو چاہتا ہے لکھتا ہے
اور ارشاد باری تعالیٰ ہے
فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ
ترجمہ: تو تم جدھر منہ کرو۔ ادھر وجہ اللہ ہے ۔
صوفیائے کرام ان دو آیات کو ہی نظریہ وحدت الوجود اور وحدت الشہود کیلئے بنیاد بناتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا جلوہ ہر شے میں جلوہ افروز ہے ارشاد ربانی ہے۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰهُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّهُمْ وَ یُحِبُّوْنَهٗۤ اَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّةٍ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ یُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآىٕمٍ ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُؕوَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ
ترجمہ : اے ایمان والو ا تم میں کوئی اپنے دین سے پھرے گا تو عنقریب اللہ ایسے لوگ لائے گا کہ وہ اللہ کو پیارے اور اللہ ان کا پیارا ۔ مسلمانوں پر نرم اور کافروں پر سخت اللہ کی راہ میں لڑیں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا اندیشہ نہ کریں گے یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے ۔
اس آیت کریمہ سے صوفیاء کرام نے اخذ کیا ہے کہ حب الہی کی دوقسمیں ہیں۔
(1) حب الہی انسان کیلئے (2) انسان کی محبت اللہ کیلئے
ارشاد رب ذو الجلال ہے
اَوَ لَمْ یَرَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا
ترجمہ کیا کافروں نے یہ خیال نہ کیا کہ زمین اور آسمان بند تھے تو ہم نے انہیں کھولا ۔
اس آیت کریمہ سے انہوں نے حقیقت محمدیہ کا استدلال کیا ہے جسے وہ تعیین اول سے تعبیر کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ یہ تعیین اول ہی تمام تعینات علویہ اور سفلیہ کو جامع ہے دراصل حقیقت محمد یہ ہی تمام اشیاء کا اجمالا سرچشمہ ہے اور بعد میں تمام اشیاء کا ظہور اس حقیقت سے ہوا اور آسمان و زمین کا وجود بھی اس اجمال کی تفصیل ہے۔
درج ذیل آیات سے توبہ اور اس کی اقسام پر استدلال کرتے ہیں ارشاد خداوندی ہے۔
توبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
ترجمہ: اور اللہ کی طرف توبہ کرواے مسلمانو اسب کے سب اس امید پر کہ تم فلاح پاؤ۔
نیزارشاد خداوندی ہے۔
وَإِنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ
ترجمہ : اور یہ کہ اپنے رب سے معافی مانگو اور اس کی طرف تو بہ کرو۔
ارشاد ربانی ہے
يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا
ترجمہ اے ایمان والو! اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو جو آگے کو نصیحت ہو جائے۔
ان آیات کریمہ سے صوفیاء کرام مقام صبر پر استدلال کرتے ہیں
ارشاد ربانی ہے
اصْبِرُوْا وَ صَابِرُوْا وَ رَابِطُوْا(آل عمران : 220)
ترجمہ: صبر کرو اور صبر میں دشمنوں سے آگے رہو اور سرحد پر اسلامی ملک کی نگہبانی کرو۔
ارشاد خداوندی ہے
إنَّمَا يُوَ فِى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ
ترجمہ: صابروں کو ہی ان کا ثواب بھر پو ر دیا جائے گا بے گنتی ۔
ارشاد خداوندی ہے
وَلِمَنْ صَبَرَوَ غَفَرَانَ ذَلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ
ترجمہ اور بے شک جس نے صبر کیا اور بخش دیا تو یہ ضرور ہمت کے کام ہیں۔
ارشاد خداوندی ہے
وَلَنَبْلُونَكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجَاھدِينَ مِنكُمْ وَالصَّابِرِينَ (سوره محمد : 31)
ترجمہ : اور ضرور ہم تمہیں جانچیں گے یہاں تک کہ دیکھ لیں تمہارے جہادکرنے والوں اور صابروں کو
ان آیات کریمہ سے وہ مقام توکل پر استدلال کرتے ہیں ارشادخداوندی ہے
وَتَوَكَّلْ عَلَى الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ (الفرقان : 58)
ترجمہ: اور بھروسہ کرو اس زندہ پر جو کبھی نہ مرے گا ۔
ارشاد خداوندی ہے
وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (ابراهيم : 11)
ترجمہ : اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیئے ۔
ارشاد خداوندی ہے
فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى الله (آل عمران : 159)
ترجمہ : اور جب کسی بات کا ارادہ پکا کر لو تو اللہ پر بھروسہ کرو۔
ان آیات کریمہ سے صوفیاء کرام تفکر فی الافاق کے نظریہ پر استدلال کرتے ہیں۔
ارشاد ربانی ہے
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ اللَّیْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ (آل عمران : 190)
ترجمہ : بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کی باہم بدلیوں میں نشانیاں ہیں عقلمندوں کیلئے ۔
نیزارشاد خداندی ہے
وَ اذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَ تَبَتَّلْ اِلَیْهِ تَبْتِیْلًا (المزمل:8)
اور اپنے رب کا نام یاد کرو اور سب سے ٹوٹ کر اس کے ہو رہو ۔
ارشاد خداوندی ہے۔
وَاعْبُدُ رَبِّكَ حَتَّى يَأْتِيكَ الْيَقِينُ (الحجر: 99)
ترجمه : اور مرتے دم تک اپنے رب کی عبادت میں رہو۔
ارشاد رب العالمین ہے
وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَا وَ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ولا تعد عَيْنَاكَ عَنْهُمْ ( الکہف : 28)
ترجمہ: اور اپنی جان ان سے مانوس رکھو جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اس کی رضا چاہتے ہیں اور تمہاری آنکھیں انہیں چھوڑ کر اور کسی پر نہ پڑیں۔
ان آیات سے صوفیاء کرام زہد پر استدلال کرتے ہیں ۔ارشاد ربانی ہے۔
وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاءِ أَنْزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ فَأَصْبَحَ هَشِيمًا تَذْرُوهُ الرِّيَاحَ وَكَانَ اللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْ مُقْتَدِرًا(الکہف:45)
ترجمہ: اور ان کے سامنے دنیاوی زندگی کی مثال بیان کرو جیسے ایک پانی ہم نے اتارا تو اس کے سبب زمین کا سبزہ گھنا ہو کر نکلا ۔ پھر سوکھی گھاس ہو گیا جسے ہوائیں اڑائیں، اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے ”
ارشاد پرورد گارہے
اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٌ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ(الحدید:20)
ترجمہ : جان لو کہ دنیا کی زندگی تو نہیں مگر کھیل کود اور آرائش اور تمہارا آپس میں بڑائی مارنا اور مال اور اولاد میں ایک دوسرے پر زیادتی چاہنا اس بارش کی طرح جس کا اگایا سبزہ کسانوں کو بھایا پھر سوکھا کہ تو اسے زرد دیکھے پھر ریزہ ریزہ ہو گیا اور آخرت میں سخت عذاب ہے اور اللہ کی طرف سے بخشش اور اس کی رضا اور دنیا کا جینا تو نہیں مگر دھو کے کا مال ۔
ارشاد رب کریم ہے۔
إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَنَكُمُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَلَا يَغْرَنَكُمْ بِاللَّهِ الْغُرُورُ(لقمان:33)
ترجمہ: بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے تو ہرگز تمہیں دھوکہ نہ دے دنیا کی زندگی اور ہرگز تمہیں اللہ کے علم پر دھوکہ نہ دے وہ بڑا فریبی ۔
اس کے علاوہ قرآن کریم طالبان حق کی معرفت الہی کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور معرفت کا حصول حواس ظاہری اور باطنی سے ممکن نہیں اور نہ ہی کتب مقدسہ سے اس کا حصول صراحتاً ممکن ہے ڈاکٹر عبد الحلیم محمود فرماتے ہیں کہ معرفت الہی کا بہترین طریقہ وہ الہام ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو خواب میں فرماتا ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں حضرت یوسف علیہ السلام کے کئی خواب ذکر کئے ہیں ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
إِذْ قَالَ يُوسُفَ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبَاً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رأيتهُمْ لِي سَاجِدِينَ (يوسف : 4)
ترجمہ: یاد کرو جب یوسف (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے کہا اے میرے باپ میں نے گیارہ تارے اور سورج اور چاند دیکھے۔ انہیں اپنے لیے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔
حضرت یعقوب علیہ السلام نے ان کی اس خواب پر یقین کا اظہار کیا اور نصیحت کرتے ہوئے فرمایا ۔
قَالَ یٰبُنَیَّ لَا تَقْصُصْ رُءْیَاكَ عَلٰۤى اِخْوَتِكَ فَیَكِیْدُوْا لَكَ كَیْدً (یوسف : 5)
ترجمہ: کہا اے میرے بچے ! اپنا خواب اپنے بھائیوں سے نہ کہنا وہ تیرےساتھ کوئی چال چلیں گے ۔
جب عزیز مصر نے حضرت یوسف علیہ السلام کو قید کیا تو قید خانے میں ان کے ساتھ دو نوجوان بھی داخل ہوئے ان میں سے ایک نے کہا
اِنِّیْۤ اَرٰىنِیْۤ اَعْصِرُ خَمْرًاۚ-وَ قَالَ الْاٰخَرُ اِنِّیْۤ اَرٰىنِیْۤ اَحْمِلُ فَوْقَ رَاْسِیْ خُبْزًا تَاْكُلُ الطَّیْرُ مِنْهُؕ
ترجمہ : میں نے خواب دیکھا ہے کہ شراب نچوڑتا ہوں اور دوسرا بولا میں نے خواب دیکھا میرے سر پر کچھ روٹیاں ہیں جن میں سے پرندے کھاتے ہیں۔
وہ دونوں حضرت یوسف علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں اس کی تاویل بیان کرنے کے لئے عرض کی ، آپ نے انہیں اس کی تاویل سے آگاہ کیا اس کے علاوہ بھی سورۃ یوسف میں بادشاہ کا ایک خواب مذکور ہے جس کی تعبیر حضرت یوسف علیہ السلام نے کی جب حضرت یوسف علیہ السلام کے والد اور بھائی مصر میں آئے اور ان کو سجدہ تعظیمی کیا تو حضرت یوسف علیہ السلام نے حضرت یعقوب علیہ السلام کو وہ خواب یاد دلایا جو انہوں نے بچپن میں دیکھا تھا ۔
وَ قَالَ یٰۤاَبَتِ هٰذَا تَاْوِیْلُ رُءْیَایَ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّیْ حَقًّا-
اور یوسف نے کہا “اے میرے باپ یہ میرے پہلے خواب کی تاویل ہے بے شک میرے رب نے اسے سچا کیا ہے ”
نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا
إن الرؤيا جزء مِنْ سِتَّة وَأَرْبَعِينَ جَزْء مِنَ النبوة
ترجمہ : حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ” خواب اجزاء نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے ”
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی وہ مضبوط رسی ہے جس کے عجائب ختم ہونے والے نہیں اور بار بار پڑھنے سے اس کی دلچسپی کم نہیں ہوتی جس نے قرآن کریم پر عمل کیا کامیاب ہوا۔ اور جس نے اس کے ساتھ فیصلہ کیا اس نے عدل کیا جس نے اس کو مضبوطی سے تھام لیا وہ صراط مستقیم پر گامزن ہوا ۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” جو علم سیکھنا چاہتا ہے اسے چاہیئےکہ قرآن کی طرف رجوع کرے کیونکہ اس میں علم اولین و آخرین ہے ”
ارشاد باری تعالیٰ ہے
الم – ذلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ
ترجمہ : وہ بلند رتبہ کتاب کوئی شک کی جگہ نہیں اس میں ہدایت ہے ڈروالوں کے لئے جو بے دیکھے ایمان لائیں ۔
ہزار معانی بتا دئیے جائیں تب بھی ان معانی کی انتہاء تک نہیں پہنچ سکتا۔ جن کو اللہ تعالیٰ نے ایک آیت میں سمو دیا ہے کیونکہ یہ کلام اللہ ہے ۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات لامتناہی ہیں اسی طرح اس کے کلام کے معانی کا کوئی شمار نہیں لیکن ان معانی کو صرف اولیائے کرام ہی سمجھ سکتے ہیں جن کے قلوب کو اللہ تعالیٰ روشن کر کے اپنے کلام کے سمجھنے کی توفیق دیتا ہے وگر نہ اللہ تعالیٰ کا کلام غیر مخلوق ہے اور مخلوق کے اذہان وافکار کی اس تک رسائی نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ حادث اور مخلوق ہیں۔
تصوف اور مذہب اسلام
مستشرقین اور دوسرے لوگ جو تصوف کے موضوع پر لکھتے ہیں وہ اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ تصوف کا تعلق غیر اسلامی ماخذ سے ہے یا یہ مختلف اسلامی ماخذ کا مجموعہ ہے اور ان ماخذ میں قرآن و حدیث بھی شامل ہیں
اور بعض کا نظریہ ہے کہ اسلام میں تصوف باہر سے داخل ہوا ہے یا تو یہ شام کی رہبانیت سے ماخوذ ہے جیسا کہ مار کس کا خیال ہے یا جدید یونان کے افلاطونیت سے یا ایران کے زرتشی مذہب سے ‘ یا ہندی وید جوگیوں سے ماخوذ ہے اور یہ جانسن کی رائے ہے لیکن جب ہم ” نکلسن ” کی رائے کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کی رائے یہی ہے کہ مطلق طور پر یہ حکم صادر کرتا کہ تصوف اسلام میں کہیں اور سے داخل ہوا ہے غیر معقول بات ہے ۔ حقیقت یہ ہے۔ کہ صوفیاء کرام کے مخصوص افکار ، ظہور اسلام سے ہی مسلمانوں میں موجود تھے جس وقت مسلمان قرآن وحدیث پر سختی سے کاربند تھے ۔ شیخ عبد الواحد یحییٰ فرماتے ہیں کہ تصوف دین اسلام کا جزو لاینفک ہے کیونکہ دین اس کے بغیر نا مکمل ہے بلکہ اسلام تصوف کے بغیر اپنے اہم مقصد سے محروم ہو جاتا ہے کیونکہ اس کو اسلام میں مرکزی اہمیت حاصل ہے اس لیے ان لوگوں کی آراء کی کوئی حیثیت نہیں جو تصوف کو غیر اسلامی ماخذ کی طرف منسوب کرتے ہیں اگر صوفیائے کرام اور ان لوگوں کے درمیان جو دوسرے مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں مشابہت پائی جاتی ہے تو اس میں کوئی استحالہ نہیں کیونکہ تمام مذاہب کی اصل اور حقیقت ایک بھی ہے اور تمام عقائد اپنے اجزاء ترکیبی میں متحد ہیں اگر چہ ظاہری طور پر مختلف ہیں
بعض مستشرقین کا یہ گمان کہ صوفیائے کرام نے نصرانیت سے اخذ کیا ہے محض باطل ہے کیونکہ قرآن کریم کی بہت سی آیات اور احادیث کثیرہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ تعلیمات تصوف خالصتاً ” اسلامی ہیں قرآن کریم میں زہد کا واضح طور پر ذکر ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے اور ان کے سامنے دنیاوی زندگی کی مثال بیان کرو جیسے ایک پانی ہم نے آسمان سے اتارا تو اس کے سبب زمین کا سبزہ گھنا نکلا پھر سوکھی گھاس ہو گیا جسے ہوائیں اڑائیں اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قابو پانے والا ہے (الکہف : 45)
اسی طرح نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی بھی اس پر دال ہے آپ نے ارشاد فرمایا ” میں اپنے بعد سب سے زیادہ جس چیز سے ڈرتا ہوں وہ دنیا کی زیب و زینت ہے “(بخاری ۔ مسلم – نسائی)
آپ نے ارشاد فرمایا :
لَوْ كَانَ لِي مِثْلُ أُحُدٍ ذَهَبًا، لَسَرَّنِي أَنْ لَا تَمُرَّ عَلَيَّ ثَلَاثُ لَيَالٍ وَعِنْدِي مِنْهُ شَيْءٌ، إِلَّا شَيْئًا أَرْصُدُهُ لِدَيْنٍ ( بخاری – مسلم – دارمی )
اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہوتا تو میں اس چیز کو پسند نہ کرتا کہ میرے پاس تین راتوں کے بعد میری ملکیت میں کچھ ہو مگر یہ کہ کچھ حصہ ادائیگی قرض کے لئے رکھ لوں ۔ نبی پاک میں ہم نے ارشاد فرمایا ۔
الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةَ الكَافِرِ (مسلم – ترمذی)
ترجمہ : دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کیلئے جنت ہے ۔
ارشاد فرمایا
ازْهَدْ فِي الدُّنْيَا يُحِبَّكَ اللَّهُ، وَازْهَدْ فِيمَا فِي أَيْدِي النَّاسِ يُحِبُّكَ النَّاسُ (ابن ماجہ )
ترجمہ دنیا میں زہد اختیار کرو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس میں رغبت نہ کرو تو لوگ تم سے محبت کریں گے۔
یہ تمام آیات اور احادیث نبویہ بڑے واضح طور پر دلالت کر رہی ہیں کہ وہ زہد جسکو صوفیائے کرام نے اختیار کیا ہے اس کی اصل کتاب وسنت میں موجود ہے اسی طرح فقر کا ذکر بھی قرآن کریم میں آیا ہے
ارشاد باری تعالیٰ ہے
لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ یَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ اَغْنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِۚ-تَعْرِفُهُمْ بِسِیْمٰىهُمْۚ-لَا یَسْــٴَـلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًاؕ (البقرة : 273)
ترجمہ: ان فقیروں کیلئے جو راہ خدا میں روکے گئے زمین میں چل نہیں سکتے نادان انہیں تونگر سمجھے بچنے کے سبب تو انہیں ان کی صورت سے پہچان لے گا۔ لوگوں سے سوال نہیں کرتے کہ گڑ گڑانا پڑے ۔
ارشاد باری تعالٰی ہے
لِلْفُقَرَآءِ الْمُهٰجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ اَمْوَالِهِمْ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا وَّ یَنْصُرُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ (الحشر: 8)
ترجمہ: ان فقیر ہجرت کرنیوالوں کیلئے جو اپنے گھروں اور مالوں سے نکالے گئے اللہ کا فضل اور اس کی رضا چاہتے اور اللہ اور رسول کی مدد کرتے ہیں وہی سچے ہیں۔
اس وجہ سے گولڈ زھیر کا یہ قول صحیح نہیں کہ فقر کی تعریف اور اس کو غنا پر ترجیح دینا نصرانی تعلیمات سے حدیث پاک میں منتقل ہوا ہے بلکہ صحیح یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کی زندگی اور احادیث طیبہ ، قرآن کریم کی صحیح تصویر تھیں۔ اور آپ نے اس چیز کی دعوت دی جس کا ذکر قرآن پاک میں تھا اسی طرح نکلسن کا یہ قول بھی مردود ہے کہ خاموشی اور ذکر جن کو صوفیاء کرام منازل سلوک میں اپناتے ہیں نصرانیت سے ماخوذ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے رب کو اپنے دل میں یاد کرے بہت سی آیات کریمہ اور احادیث طیبہ ذکر پر برانگیختہ کرتی ہیں اور ان میں بیان کیا گیا ہے کہ ذکر بلند کرنے والوں کی شان بلند اور اجر کثیر ہوتا ہے ان میں سے چند ایک کے ذکر اکتفا کیا جاتا ہے
فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ (البقرة : 152)
ترجمہ : پس تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا تم میرا شکر ادا کرو اور کفران نعمت نہ کرو۔
ار شاد باری تعالیٰ ہے
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّـٰهَ ذِكْرًا كَثِيْـرًا وَسَبِّحُوْهُ بُكْـرَةً وَّّاَصِيْلًا (هُوَ الَّـذِىْ يُصَلِّىْ عَلَيْكُمْ وَمَلَآئِكَـتُهٝ لِيُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمَاتِ اِلَى النُّوْرِ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَحِيْمًا (الاحزاب : 41 تا 43)
ترجمہ : “اے ایمان والو! اللہ کو بہت یاد کرو اور صبح و شام اس کی پاکی بولو وہی ہے جو درود بھیجتا ہے تم پر وہ اور اس کے فرشتے کہ تمہیں اندھیروں سے اجالوں کی طرف نکالے اور وہ مسلمانوں پر مہربان ہے ”
اور اسی طرح ذکر کی فضیلت میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا “اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو چکر لگاتے اور مجالس ذکر کو تلاش کرتے رہتے ہیں اور جب کسی مجلس ذکر کو پالیتے ہیں تو اس میں بیٹھ جاتے ہیں اور اپنے پروں سے اس کو ڈھانپ لیتے ہیں یہاں تک کہ آسمان تک کی فضا کو بھر دیتے ہیں ” اور اس سے ہم اس قول کا رد آسانی سے کر سکتے ہیں جس میں یہ کہا گیا ہے که تصوف اسلامی میں حب الہی کا نظریہ نصرانیت سے مستعار ہے ۔ مگر ہم قرآن و سنت کا گہری نظر سے مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ صوفیائے کرام کے اس عظیم نظرئیے کے بنیادی عناصر قرآن و سنت سے ہی اخذ کیے گئے ہیں اور بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ تصوف اسلامی یونانی یا ہندی افکار سے ماخوذہے تو اس کے بارے میں عرض ہے کہ پانچویں صدی تک جو کہ تصوف کے عروج کا دور ہے اسلامی ماخذ کے مقابلہ میں یونانی مصادر کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔
صرف امام غزالی کو ہی لے لیجئے آپ بہت بڑے متکلم اور فلسفی تھے اور فلسفہ یونان پر آپ کی گہری نظر تھی آپ نے ”مقاصد فلاسفہ” میں ایرانی فلسفہ کو بڑی شرح وبسط کے ساتھ لکھا ہے اس کے بعد آپ نے مذاہب فلسفہ کے رد اور انکے عقلی دلائل کے بطلان کیلئے تحافه الفلاسفہ لکھی لیکن فلسفہ میں اتنی مہارت کے باوجود اپنی روحانی زندگی کے اعتبار سے خالصتاً ۔ مسلمان صوفی تھے۔ ان کے ذکر و اذکار اور طریقہ تصوف، قرآن و سنت سے ماخوذ تھا۔ اور اس بات کی سب سے بڑی دلیل آپ کی بے مثل کتاب ” احیاء العلوم ” ہے یہ کتاب اس بات پر شاہد ہے کہ امام غزالی بہت بڑے صوفی تھے اگر چہ آپکی دوسری تالیفات میں یونانی فلسفے کے آثار پائے جاتے ہیں لیکن روح اسلام آپ پر غالب تھی ۔ اور آپ اکثر و بیشتر قرآن وسنت سے استدلال کرتے تھے آپ کے مسلم صوفی ہونے پر اس سے بڑھ کر کیا دلیل ہو گی کہ آپ نے اتحادیہ کی رائے کی تردید کی جس کو ابن سینا نے “کتاب النجاة ” میں اختیار کیا اور دوبارہ کتاب ” الاشارات” میں اس رائے سےدست بردار ہوئے۔
ڈاکٹر عبد الحلیم محمود رحمۃ اللہ علیہ اس اختلافی موضوع کی وضاحت بڑے منفرد انداز میں کرسکتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ تصوف کے موضوع پر لکھنے والوں نے تصوف کو ان کسبی عوامل پر قیاس کیا ہے جو بیرونی عوامل کا اثر قبول کرتے ہیں۔
عام طور پر کاتب ، شاعر اور مفکر اپنے افکار اور خیالات کو اپنے ارد گرد کے ماحول سے اخذ کرتے ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بیرونی ماحول ان کے افکار پر اثر انداز ہوتا ہے لیکن صوفی اور صوفیاء کا تعلق ان چیزوں سے نہیں ہوتا۔ اس مفہوم کی وضاحت کیلئے اس مسئلہ کو ہم دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔
سلوک تصوف کا رحجان
شعور تصوف
جہاں تک تصوف کی طرف رحجان کا تعلق ہے اس میں انسان کے داخلی اثرات کا عمل دخل ہے۔ اور ان اسباب کا تعلق خارجی عوامل سے زیادہ داخلی عوامل سے ہوتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ انسان میں فطری طور پر یہ استعداد موجود ہو کیونکہ منزل سلوک کا آغاز کسی ایک کلمہ اشارہ یا حادثہ سے ہوتا ہے جو سالک کی زندگی میں اثر انداز ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ اس راہ پر چل نکلتا ہے
ارشاد باری تعالیٰ ہے
إِنِّي ذَاهِبٌ إِلَى رَبِّي سَيَهْدِيْنِ
ترجمہ: میں اپنے رب کی طرف جاتا ہے ہوں وہی مجھے ہدایت دے گا۔
وہ ایک کلمہ جو اس عزم مصم کا باعث ہوتا ہے اس کیلئے فطری استعداد لازمی امر ہے اور اس فطری استعداد کا تعلق نہ تو افلاطونی اور ہندی افکار سے ہے اور نہ ہی ایرانی نظریات ہے۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ سالک افلاطونی افکار اور ہندی عقائد کا علم رکھتاہے لیکن اس کا یہ علم اس کے صوفی ہونے کے منافی نہیں ہوتا۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی صوفیائے کرام کی کتب کا مطالعہ کیا اورخود ہی اس کے بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ میں نے صوفیاء کرام کے علوم کو حاصل کرنے کی ابتداء ان کی کتابوں کے مطالعہ سے کی میں نے ابو طالب مکی کی ” قوت القلوب ” حارث محاسبی کی کتب، جنید ، شبلی، ابو یزید بسطامی سے منقول اقوال کا مطالعہ کیا حتی کہ میں علمی مقاصد کی حقیقت پر مطلع ہو گیا تعلیم اور سماع کے ذریعے جو بھی علوم ممکن تھے حاصل کر لیے لیکن ان کتب اور فلسفہ یونان کےگہرے مطالعہ کے باوجود صوفی نہ بن سکے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعض علوم ایسے بھی ہیں جو محض تعلیم سے حاصل نہیں ہوتے بلکہ ذوق ، حال اور تبدیلی صفات کی ضرورت ہوتی ہے المختصر یہ کہ تصوف ان امور کسبیہ سے نہیں جو اپنے اردگرد ماحول کا اثر قبول کرتے ہیں بلکہ خالص ذوق اور مشاہدے کا نام ہے ۔
یہ ذوق اور مشاہدے کا حصول، خلوت، ریاضت، مجاہدہ اور اشتیاق کے ساتھ ساتھ تزکیہ نفس، تہذیب اخلاق اور تصفیہ قلوب سے ہوتا ہے اور صوفیائے کرام کے مشاہدہ کو غیر اسلامی ماخذ کی طرف منسوب کرنا قرین قیاس نہیں مسئلہ تصوف کی حقیقت سے نا آشنا لوگوں کا تصوف کو موضوع بحث بنانا سراسر خطا ہے۔
اس تمام بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ تصوف کی طرف رحجان اور میلان فطری امر ہے صوفیاء کرام کا ذوق شعور اور معرفت منبع نور وہدایت سے مستفاد ہے ۔ سابقہ بحث کا حاصل کی ہے کہ تصوف عربی اور اسلامی ہے جس طرح کہ وہ قرآن مجید جس سے اصول بنائے گئے ہیں تصوف کے اصول براہ راست اخذ کیےگئے ہیں عربی اور اسلامی ہیں ۔
اور جب اصول تصوف قرآن مجید سے ہی مستنبط ہیں اور یہ بھی ظاہر ہے کہ یہ استنباط فہم قرآن، تدبر اور تفسیر قرآن کے بعد ممکن ہوا ہے تو سب سے پہلے قرآن کریم کی لغوی، منطقی اور کلامی تفسیر ہوئی اور پھر مزید گہرائی میں جانے کیلئے صوفیانہ تفسیر کی ضرورت پیش آئی۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ کلام اللہ کی تین آیات انسان کیلئے کافی ہیں
ارشاد باری تعالیٰ ہے
وَ اِنْ یَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗۤ اِلَّا هُوَؕوَ اِنْ یَّمْسَسْكَ بِخَیْرٍ فَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ( سورة الانعام :17)
ترجمہ : اور اگر اللہ تجھے کوئی برائی پہنچائے تو اس کے سوا اس کو کوئی دورکرنے والا نہیں اور اگر تجھے بھلائی پہنچائے تو وہ سب کچھ کر سکتا ہے۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے جان لیا کہ اللہ تعالیٰ اگر میرے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرے تو کوئی مجھے محروم کرنے والا نہیں اور اگر اس نے میرے مقدر میں شرلکھ دیا ہے تو کوئی طاقت اسے دور نہیں کر سکتی۔
دوسری آیت:
فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ
ترجمہ: پس تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا
فرماتے ہیں کہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز کو چھوڑ کر اس کے ذکر میں مشغول ہو گیا
تیسری آیت و
َومَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا
ترجمہ : اور زمین پر چلنے والا کوئی ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمہ کرم پر نہ ہو۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب میں نے اس آیت کریمہ کو پڑھا تو پھر کبھی حصول رزق کی فکر نہ کی درج ذیل اشعار بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہیں
يا مَن تَرَفَّعَ لِلدُنيا وَزينَتِها لَيسَ التَرَفُّعُ رَفعَ الطينِ بِالطينِ
إِذا أَرَدتَ شَريفَ القَومِ كُلّهم فَاِنظُر إِلى ملكٍ في زِيِّ مِسكينِ
لا تَخضَعَنَّ لِمَخلوقٍ عَلى طَمَع فَإِنَّ ذَلِكَ وَهنٌ مِنكَ في الدينِ
اے وہ شخص جو دنیا اور اس کی زینت سے بڑائی چاہتا ہے مٹی پر مٹی کو ، بڑائی چاہتا ہے مٹی بلند کرنے سے بڑائی حاصل نہیں ہوتی
جب تو تمام لوگوں سے شریف آدمی کو چاہتا ہے پس تو مسکینوں کے بادشاہ کی طرف نظر کر۔
وہ وہ شخص ہے جس کا مرتبہ لوگوں میں بڑا عظیم ہے وہ وہ ہے جو دین و دنیا میں صالح ہے ۔
حیات نبویہ اور تصوف
رسول کریم ﷺ تمام انسانیت کیلئے معلم اور جمیع خلائق کیلئے رحمت بن آئے آپ کے رب نے ہی آپ کو بہترین آداب سکھائے جیسا کہ آپ سے مروی ہے۔ اد بني ربي فاحسن تادينيمجھے میرے رب نے ادب سکھایا اور بہترین سکھایا
نبی کریم ﷺ جب اس دنیا میں تشریف لائے تو یتیم تھے اللہ تعالیٰ کی رحمت اور عنایت کے سوا کوئی سہارا نہ تھا اس میں حکمت یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام رسولوں سے اعلیٰ اور خاتم النبین بنا کر معبوث فرمایا تھا اس لیے حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ اللہ تعالیٰ خود آپکی تربیت فرماتا اللہ تعالیٰ نے آپ کیلئے ایسے بہترین خاندان کا انتخاب فرمایا جو پاکیزگی اور عفت و عصمت اور ایمان میں اپنی مثال آپ تھا۔ آپ کے جد امجد خوبرو ، کریم ، خوش خلق اور بڑے شیریں بیان تھے آپ بڑے قوی الایمان تھے آپ کے دل و دماغ پر مذہبی چھاپ تھی آپ نوجوانان قریش کی طرح بڑے ہی ذہین فطین ، غیور اور بہادر تھے لیکن آپ کو یہ امتیازی خصوصیت حاصل تھی کہ آپ سنجیدہ طبیعت کے مالک تھے جبکہ نوجوانان قریش اس سے عاری تھے۔
آپ دین کے معاملے میں بڑے سخت تھے جبکہ وہ لوگ اس بات کو ناپسندکرتے تھے آپکو غیبی طاقت حاصل تھی جس کی وجہ سے آپ مختلف امور کو سر انجام دیتے تھے اور اکثر اوقات آپ کو خواب میں ایک شخص دکھائی دیتا جو آپ کو مشورہ دیتا کہ فلاں کام کرو۔
نبی کریم ﷺ کے والد ماجد بھی حضرت عبدالمطلب کے طریقہ پر کار بند تھے اور آپ کی زندگی کا یہ نصب العین تھا کہ حرام کھانے سے موت بہتر ہے نبی کریمﷺ قبل از بعثت بھی قریش میں امین کے لقب کے مشہور تھے ۔ آپ کی زندگی بڑی پاکیزہ اور عبادت و زہد سے عبارت ، اور خالص فکر و روحانیت کا مرقع تھی۔ اسی حالت پر آپ نے ایام شباب گزارے ۔ لیکن آپ اپنے ہم عمروں کی طرح کھیل کو د میں مشغول نہ ہوتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت سے ان چیزوں سے محفوظ رہے ۔ اور وہ قبل از نزول وحی بھی دنیا و ما فیها کو ترک کر کے غار حراء میں عبادت کیلئے تشریف لے جاتے ہیں اور جب تنہائی میسر ہوتی، تو کائنات میں غور و فکر کرتے وسیع و عریض ریگستان اور بلند و بالا پہاڑوں، نیلگوں آسمانوں میں چمکتے ہوئے ستاروں میں اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال اور کبریائی کا مشاہدہ کرتے کیونکہ یہ تمام چیزیں خالق کائنات کی طرف دلالت کرتی تھیں۔ اس لیے آپ ان کے مشاہدہ میں اس قدر مستغرق ہو جاتے کہ اہل مکہ کہنے لگے
ان محمدا قد عشق رَبَّةبے شک محمد اللہ اپنے رب کے عاشق ہو گئے ڈاکٹر محمد حسین حیکل اپنی کتاب ” حیات محمد ” میں رقمطراز ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب غار حراء میں تنہا ہوتے تو کائنات کی حقیقت میں غور و تدبر کیا کرتے ۔ تو آپ کو طمانیت قلبی حاصل ہوتی اور آپ کا میلان خلوت کی طرف ہونے لگا غار حراء شمال مکہ میں بلند پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے جو کہ خلوت اور عبادت کا بہترین مقام ہے آپ ہر سال رمضان شریف میں اس غار میں آرام فرماتے اور قلیل زاد راہ اپنے ساتھ لے جاتے معرفت خداوندی کے حصول میں دنیا کے شور و غل سے الگ تھلگ رہنا آپ کا مقصد حیات تھا۔ اور بعض اوقات معرفت خداوندی کی طلب میں استغراق اس حد تک بڑھ جاتا کہ کھانا پینا اور دیگر دنیاوی مشاغل بھول جاتے اس طرح تقریبا چھ مہینے بیت گئے ایک دن آپ غار حراء میں شریف فرماتھے کہ ایک فرشتہ آیا جس کے ہاتھ میں ایک صحیفہ تھا اس نے کہا ” اقراء ” غار حراء میں حضور نبی کریمﷺ کا سلسلہ عبادت و ریاضت ایک حقیقی صوفی کے لئے کامل نمونہ ہے خالق کا ئنات کی عظمت و کبریائی میں غور و فکر منازل سلوک کی بنیاد ہے فرق صرف اتنا ہے کہ حضور ﷺ نبی تھے۔ اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ صوفیائے کرام آپ کی سنت کے متبعین ہیں تصوف ابتداء طہارت عبادت اور زہد سے عبارت ہے پھر کشف فیض الہی اور تجلیا ت الہی کا درجہ ہے بعد ازاں وصال بالحق کی منزل ہے۔ مروی ہے کہ نبی کریم ﷺکام پر بعض اوقات ایسی حالت طاری ہو جاتی جو وجد کے مشابہ ہوتی انسان وجد کی حالت میں اپنی ذات اور اردگرد کے ماحول
سے بے خبر ہو جاتا ہے۔
ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ نبی کریم ﷺ اسی حالت میں تھے کہ سیدہ عائشہ ” تشریف لائیں ۔ جب آپ نے ان کو دیکھا تو فرمایا کون؟ انہوں نے جواب دیا میں عائشہ ! آپ نے دوبارہ پوچھا کون عائشہ ؟ انہوں نے عرض کیا ابو بکر صدیق کی بیٹی لیکن حضور نے پھر سوال کیا۔ کون صدیق ؟ جواب میں عرض کیا محمد کے سسر لیکن نبی پاک ﷺ نے دریافت فرمایا کون محمد ؟ تو وہ خاموش ہو گئیں کیونکہ انہیں معلوم ہو گیا تھا ۔ کہ حضور ﷺ عام حالت پر نہیں ہیں اگر یہ قصہ صحیح ہو تو صوفیائے کرام پر وارد ہونے والے وجد ، سکر اور فنا پر قوی دلیل ہے۔
اسراء و معراج
اپنی ذات سے بے خبری کا سلسلہ یہیں منقطع نہیں ہوتا بلکہ اس کا تعلق ایسے عظیم واقعہ ہے سے ہوتا ہے جس کا اسلامی روحانی تاریخ سے گہرا تعلق ہے۔ اس سے مراد قصہ اسراء و معراج جس کا تفصیلی ذکر قرآن مجید اور کتب احادیث میں موجود ہے مروی ہے کہ حضورﷺ معراج کی رات حضرت ام ھانی رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف فرما تھے۔ وہ بیان فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺنماز عشاء ادا کرنے کے بعد استراحت فرما ہو گئے تو ہم بھی سو گئے فجر سے پہلے میں نے حضور ﷺ کو جگایا ۔ تو آپ نے نماز فجر ہمارے ساتھ ادا فرمائی اور ارشاد فرمانے لگے اے ام ہانی ! رات عشاء کی نماز اس وادی میں تمہارے ساتھ ادا کی ۔ پھر بیت المقدس پہنچا۔ وہاں نماز پڑھی اور پھر نماز صبح تمہارے ساتھ ادا کی ام ھانی نے عرض کی کہ یہ واقعہ لوگوں کو نہ بتائیں وہ آپ کی بات کو تسلیم نہیں کریں گے بلکہ الٹا تکلیف اور اذیت پہنچائیں گے تو آپ نے ارشاد فرمایا ” قسم بخدا میں انہیں ضرور بتاؤں گا۔
اسراء و معراج میں اختلاف ہے کہ روح کے ساتھ تھا یا روح وجسد دونوں کے ساتھ بعض لوگوں کی رائے ہے کہ مکہ سے بیت المقدس اور وہاں سے آسمان کی طرف بالروح تھا۔ بعض کا کہنا ہے کہ اسراء و معراج دونوں بالجسد تھے جبکہ فریق ثالث کہتا ہے کہ اسراء معراج آپکی روح کو ہوا نہ کہ آپ کے جسد مبارک کو ۔
اسراء بالجسد کی رائے کے قائلین نے اس روایت سے استدلال کیا ہے کہ حضورﷺنے فرمایا کہ انہوں نے دوران اسراء صحراء اور بہت سی چیزوں کا مشاہدہ فرمایا اور اسراء بالروح کی رائے رکھنے والوں کی رائے وہ روایت ہے جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا” سے مروی ہے وہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ کا جسد اطہر تو موجود رہا لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح کو معراج کرائی۔ ہمیں اس سے غرض نہیں کہ ان میں سے کونسا قول اصح ہے ہم صرف اس بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں کہ اسراء بالروح کا قول اگر صحیح ہو تو یہ حضور کی روح مبارک کے انتہائی لطیف ہونے اور قلب اطہر کے شفاف ہونے میں بہت بڑی دلیل ہے اور ایسی عظیم قوت پر دلالت کرتی ہے جس کی وجہ سے آپ ملکوت ارض سماء کی سیر فرماتے اور تمام کائنات میں موجود حقائق ، علوم اور دقائق غیبیہ کا احاطہ فرماتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قلب اطہر سے غم کو دور فرما دیا تھا تمام حجابات ہٹا دئیے تھے صوفیائے کرام کے مشاہدات مکاشفات اور فیوضات کے لئے یہی دلیل کافی ہے۔ صوفیائے کرام بھی عالم شہود سے عالم ملکوت کی طرف ترقی فرماتے ہیں کیونکہ ارواح و قلوب بھی بہت سے علوم اور معارف کا احاطہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ان تمام امور کا تعلق اسراء بالروح سے ہے۔
تصوف اور روحانیت کے سلسلہ میں ارشادات نبویہ :
حضور ﷺ کی احادیث طیبہ اور اقوال صحابہ میں تعلیمات تصوف کا واضح طور پر ذکر موجود ہے آپ نے ایک دن حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا اے ابو ہریرہ کیا میں تمہیں دنیا اور مافیھا نہ دکھاؤں ؟ انہوں نے عرض کی ضرور یا رسول اللہ اور فرماتے ہیں کہ میرا ہاتھ پکڑ کر مدینہ طیبہ کی ایک دادی میں لے گئے۔ وہاں دیکھا کہ گندگی کا ایک ڈھیر پڑا تھا۔ جس میں کچھ کھوپڑیاں اور بوسیدہ ہڈیاں اور دوسری گندگی پڑی ہوئی تھی۔ تو آپ نے ارشاد فرمایا اے ابو ہریرہ یہ سب تمہاری طرح لالچی تھے اور تمہاری طرح آرزو ئیں کرتے تھے آج یہ بغیر جلد کے ہڈیاں ہیں پھر کچھ عرصہ بعد خاک ہو جائیں گے ۔ اور یہ “گندگی” وہ کھاتے ہیں جن کو تم نے کھایا ۔ نہ جانے کہاں سے کمایا ۔ پھر پیٹوں میں ڈال دیا۔ اب ان کی یہ حالت ہے کہ لوگ ان سے نفرت کرتے ہیں یہ پھٹے پرانے چیتھڑے ان کا لباس اور باعث زینت تھے ۔ اب ہوائیں انہیں اڑاتی پھرتی ہیں اور یہ ان کے چوپاؤں کی ہڈیاں ہیں جن پر وہ دور دراز کا سفر کرتے تھے پس جو دنیا پر روتا ہے اسے چاہیے کہ وہ روئے دنیا کی یہ تصویر کشی نبی کریم ﷺ نے اس حدیث پاک میں فرمائی اور حضور ﷺکے نزدیک بھی دنیا کی یہی حیثیت ہے پس اس دنیا کو جو پسند کرتا ہے کرتار ہے اور جو آخرت اور معرفت الہی کا طالب ہے اس کے لیے راستہ بالکل واضح ہے۔
نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں ایک آدمی نے ہدیہ پیش کیا۔ آپ اس کیلئے بر تن تلاش کرنے لگے ۔ تاکہ اس کا برتن خالی کر کے واپس کر دیں۔ لیکن کوئی برتن نہ مل سکا تو آپ نے ارشاد فرمایا ! اسے زمین پر ہی رکھ دیں پھر اس سے کچھ حصہ تناول فرمایا ۔ اور ارشاد فرمایا ! میں ایسے ہی کھاتا پیتا ہوں ۔ جس طرح ایک عام انسان کھاتا ہے اگر دنیا کی قدر اللہ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو کافر کو ایک گھونٹ بھی عطا نہ کرتا۔ یہ دنیا جس کی قدر مچھر کے پر سے بھی کم ہے یہ ایک وسیلہ ہے منزل مقصود نہیں ۔ پس جو انسان منزل مقصود سے منہ پھیر کر اس وسیلہ سے دل لگا لیتا ہے اس کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جن کے دلوں پر اللہ تعالیٰ نے مہر ثبت کر دی۔
حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے میرا دنیا کے ساتھ کیا تعلق ہے ؟ میری اور دنیا کی مثال اس مسافر کی طرح ہے جو سخت گرمی میں دوپہر کے وقت تھوڑا سا آرام کرتا ہے اور پھر اس جگہ کو چھوڑ کر چلا جاتا ہے اور ارشاد فرمایا کہ دنیا کے مقابلہ میں آخرت کی مثال ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی سمندر میں انگلی ڈالے پھر نکال کر دیکھے کہ کتنا پانی اس کے ساتھ نکلتا ہے۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئے اور آپ نے دیکھا کہ آپ ﷺسخت چٹائی پر آرام فرما ہیں جس کی وجہ سے آپ کے جسم مبارک میں نشان پڑ گئے ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب یہ منظر دیکھا تو آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ نبی پاکﷺ نے ارشاد فرمایا۔ عمر کیوں روتے ہو؟ آپ نے عرض کی کہ قیصر و کسری تو ریشم اور استبرق پر آرام کریں۔ اور آپ اس چٹائی پر۔ یہ بات سن کر آپ جلال میں آگئے۔ اور فرمایا کیا تم اس بات پر راضی نہیں ۔ کہ قیصر و کسری دنیا کے مزے لوٹیں اور ہم آخرت کی سعادت پائیں۔
نبی کریم ﷺ کا اخلاق اور دین دنیاوی فکر پر مبنی نہیں تھا۔ بلکہ آپ کااخلاق اور دین عبادت تواضع پر مبنی تھا۔ اور دنیاوی زیب و زینت سے اعراض پر مبنی تھا۔ صوفیائے کرام بھی انہی اصولوں پر کار بند تھے ۔
ارشاد نبوی ہے: ” درہم و دینار اور کپڑے پر فریفتہ ہلاکت اور تباہی سے دوچار ہوا
ان احادیث کی روشنی میں ہم نبی کریم ﷺکی اس دعاء کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں ہمیشہ آپ ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے
اَللّٰھُمَّ اَحْیِنِیْ مِسْکِیْنًا وَّ اَمِتْنِیْ مِسْکِیْنًا وَّاحْشُرْنِیْ فِیْ زُمْرَۃِ الْمَسَاکِیْنِ اے اللہ مجھے حالت مسکینی میں زندہ رکھنا مسکینی میں موت دینا اور مساکین کے ساتھ میرا حشر کرنا۔
یہ بڑی عظیم دعا ہے جس کو سید الانبیاء ﷺ نے پسند فرما کر اپنے لیے منتخب فرمایا ۔ آپ نے دنیا و آخرت میں مساکین کی معیت کو پسند فرمایا ۔ یہاں مسکین سے مراد ضعیف اور گھٹیا نہیں بلکہ اس سے مراد مطیع اور پرہیز گار اور دنیا سے اعراض کرنے والا ہے ۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول الله ﷺ مجھے نصیحت فرمائیں آپ میں نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ اسے دیکھ رہے ہو۔ اور اپنے آپ کو بزرگوں میں شمار کرو۔ یہ نصیحت بڑی عظیم اور معنی خیز ہے اس لیے اپنی جان کو محفوظ رکھو کیونکہ گناہوں کی کثرت کا مصدر انسان ہی ہے۔
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے عرض کی یا رسول اللہ نجات کیا ہے ؟ تو آپ ﷺنے فرمایا اپنی زبان کو لگام دو گھر میں رہو ۔ اور اپنی خطاؤں کے اوپر روؤ ۔ یہ حضور ﷺ کے فضائل و شمائل ہیں ۔ صوفیاء کرام نے انہی کو مشعل راہ بنایا اور انہی پر گامزن رہے۔
احوال و مقامات
احوال و مقامات کا آغاز
صوفیائے کرام کے قلوب پر مختلف قسم کے معانی و خواطر کا ورود ہوتا رہتا ہے اصحاب تصوف اور سالکین اس بات پر متفق ہیں کہ ان میں بعض کو احوال کا نام دیا جائے اور بعض کو مقامات کا یہی اوصاف واحوال جب ثابت ہو جائیں اور سالک کی زندگی کا لازمی جز بن جائیں تو ان کو مقام کہتے ہیں ۔
امام غزالی فرماتے ہیں کہ یہ سونے کی زردی کی مثل ہے جو ہمیشہ باقی رہتی ہے زائل نہیں ہوئی لیکن اگر یہی چیز عارضی اور سریع الزوال ہو ۔ تو اس کو حال کہتے ہیں اور یہ اس زردی کی مانند ہے جو خوف کے وقت طاری ہوتی ہے یا وہ پیلے پن کی مانند ہے جو بحالت بیماری لاحق ، اور بحالت صحت زائل ہو جاتی ہے ۔ ان مقامات کے حصول کیلئے انسان کو ، نفس اور شیطان کے وسوسے سےبچنے کیلئے مجاہدے کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔ ابو نصر طوسی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مقام کا معنی بندے کا اپنے رب کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عبادات ، مجاہدہ اور ریاضت کا بجالانا ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے
ذَٰلِكَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِي وَخَافَ وَعِيدِ(ابراهیم : 14)
ترجمہ: ” یہ اس کیلئے ہے جو میرے حضور کھڑا ہونے سے ڈرے اور میں نے جوعذاب کا حکم سنایا ہے اس سے خوف کرے ”
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
وَمَا مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقَامُ مَّعْلُومٌ (الصافات : 164)
ترجمہ: اور فرشتے کہتے ہیں کہ ہم میں ہر ایک کا ایک مقام معلوم ہے۔
امام طوسی” کے نزدیک مقام سے مراد وہ شے ہے جو بندے کو تو بہ زہد اور ورع سے حاصل ہوتی ہے ۔ امام قشیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ کہ مقام سے مراد ادب کی وہ منزل ہے جو محنت مشقت اور تکالیف برداشت کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ احوال من جانب اللہ عطا ہوتے ہیں اور مقامات محنت و مشقت ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام قشیری اپنے استاد امام طوسی کے ساتھ متفق ہیں کہ انسان کو مقام ، محنت و مشقت سے حاصل ہوتا ہے کوشش اور عمل پیہم کے بغیر یہ چیز حاصل نہیں ہوتی۔ سالک کسی مقام کو اس وقت تک حاصل نہیں کر سکتا جب تک وہ اپنے نفس کو ہر اس چیز سے پاک نہ کر دے جو اس کو اپنے رب سے غافل کر دے اور دل کو غیر اللہ سے خلاصی دلا دے جب بندہ تزکیہ نفس اور تصفیہ، قلب پر دوام اختیار کرتا ہے ۔ تو وہ بہت سے مقامات طے کرتے ہوئے معرفت الہی تک رسائی حاصل کر لیتا ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ توفیق ربانی کے ساتھ ساتھ بندے کا محنت اور کوشش کرنا مقام کہلاتا ہے۔
امام شہاب الدین سہروردی فرماتے ہیں کہ صوفیائے کرام میں اس بات کا چر چا ہے کہ مقامات محنت اور کوشش سے حاصل ہوتے ہیں اور احوال عطاء خداوندی ہے ۔
امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ” مقام ” انسان کو زہد تو بہ ” تقوی اور ورع سے حاصل ہوتا ہے ان کا خیال ہے کہ حال کا درجہ مقام سے پہلے ہے حال رفتہ رفتہ مقام کی صورت اختیار کر لیتا ہے ان کے نزدیک بندہ مقام کو اس وقت حاصل کرتا ہے جب مجاہدہ نفس پر دوام حاصل کرلے اور اپنے قلب و نفس کو دنیاوی مشاغل سے باز رکھے ۔ اپنے رب کے ذکر پر دوام اور مامورات پر عمل پیرا ہو۔ توکل اور اس کی قضا پر راضی اور مصائب پر صابر رہے نبی کریمﷺ کی اطاعت کرے اور آپ کی سنت کو لازم سمجھے، تو اس پر تجلیات الہیہ کا ظہور اور عنایات ربانیہ کا نزول ہوتا ہے اس وقت وہ مقام میں رسوخ حاصل کر لیتا ہے۔
حال
ابو نصر طوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ” حال سے مراد وہ کیفیت ہے جو دل پر وارد ہوتی ہے یا وہ کیفیت ہے جس کا تعلق دل کے ساتھ ہوتا ہے جس کی وجہ سے صاحب حال کو ذکر و اذکار میں لذت محسوس ہونے لگتی ہے ۔ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حال سے مراد وہ کیفیت ہے جو دلوں پر طاری ہوتی ہے لیکن دائمی نہیں ہوتی۔
امام قشیری رحمۃ اللہ تعالیٰ ، علیہ فرماتے ہیں ” حال وہ معنی ہے جو دلوں پر وارد ہوتا ہے اور صاحب دل کے کسب ، قصد اور محنت کا اس میں کوئی دخل نہیں ہوتا ۔
عارف بالله احمد ابن عجیبہ حسنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں “مجاہدے میں جسم کی حرکت کو اعمال ، محنت و مشقت میں حرکت : قلب کو احوال اور سکون قلب کو مقامات کہتے ہیں ” ۔
امام سہروردی حقیقت حال کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں حال کو اس لئے حال کہا جاتا ہے کیونکہ یہ تغیر پذیر ہوتا اور مقام کو اس لئے مقام کہتے ہیں کیونکہ اس میں دوام اور ثبوت ہوتا ہے ۔
امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ” احوال وہ عطایائے خدا ندوی ہیں جن کیلئے محنت اور کسب کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ پاکیزہ دل والوں کو حاصل ہوتے ہیں نتیجہ یہ نکلا کہ احوال عطایائے خداوندی ہیں جو دائمی نہیں بلکہ تغیر پذیر ہیں ۔ اس لئے کسی بزرگ نے فرمایا ہے کہ حال اپنے نام کی طرح ہے یعنی جیسے ہی دل میں وارد ہوتا ہے ایسے ہی زائل ہو جاتا ہے۔
لَوْ لَمْ تَحُلْ مَا سُمِّيْتَ حَالًا وَكُلُّ مَا حَالَ فَقَدْ زَالَا
ترجمہ : اے حال ! اگر تو تغیر پذیر نہ ہوتا تو تیرا نام حال نہ رکھا جاتا اور ہر وہ چیز جو تغیر پذیر ہے زائل ہو جاتی ہے ”
حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا
خَيْرُ الذِّكْرِ الْخَفِيُّ
ترجمہ : بہترین ذکر ذکر خفی ہے ۔
کہا گیا ہے کہ حال سے مراد ذکر خفی ہے ۔ امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حال ، مقام سے مقدم ہے مقام کیلئے حال کا پایا جانا ضروری ہے اور حال جب دوام اور استقرار کی صفت سے مزین ہو جائے تو مقام بن جاتا ہے امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ کو تو بہ زہد، تجرید اور خوف ورجاء میں سے بہت سے احوال و مقامات حاصل تھے لیکن آپ کی توجہ ان سے اعلی مقامات اور درجات کی طرف تھی۔ عنایات ربانیہ اور توجہات الہیہ سے آپ کو یہ تمام درجات حاصل ہوئے اور آپ عبد مخلص کے کے مقام پر فائز ہو گئے جس کا مطلوب و مقصود صرفذات باری تعالیٰ ہوتا ہے۔
مقام تو بہ
اللہ جل مجدہ نے ارشاد فرمایا :-
وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ(النور : 31)
ترجمہ: اور اللہ کی طرف تو بہ کرو اے مسلمانو !سب کے سب اس امید پر کہ تم فلاح پاؤ۔
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا
النَّدَمُ تَوْبَةٌ
ترجمہ: ندامت ہی توبہ ہے۔
ابو یعقوب موسی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ” مقامات طریقت میں پہلا مقام تو بہ ہے ۔ امام سوسی سے تو بہ کے متعلق سوال ہوا تو فرمایا تو بہ ہر اس چیز سے رجوع کا نام ہے جو قابل مذمت ہو ۔ سہل بن عبد الله تستری رحمۃ اللہ علیہ نے توبہ کے متعلق سوال پر فرمایا
تیرا اپنے گناہوں کو نہ بھولنا تو بہ ہے ” شیخ جنید بغدادی رحمۃ اللہ نے فرمایا تو یہ گناہ کو بھولنے کا نام ہے۔ امام طوسی فرماتے ہیں کہ شیخ سوسی نے توبہ کے متعلق جو بیان کیا ہے اس سے مراد ابتدائی مریدین اور سالکین طریقت کی تو بہ ہے کیونکہ مبتدین کی تو بہ پختہ نہیں ہوتی اس لیے سہل بن عبد الله تستری رحمۃ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ گناہ کو نہ بھولنے کا نام تو بہ ہے اور جنید بغدادی رحمۃ اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ تو بہ گنا ہوں کو بھولنے کا نام ہے تو یہ محققین کی تو بہ ہے کیونکہ ان کے دلوں پر اللہ تعالیٰ کی عظمت غالب ہوتی ہے اس لیے وہ گناہوں کو یاد نہیں کرتے۔ عربی زبان میں توبہ کا معنی “لوٹنا”. ہے کہا جاتا ہے “تاب فلان ” فلاں آدمی لوٹا اور تو بہ ہر اس چیز سے رجوع کا نام ہے جو شرع میں مذموم ہو ۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں “ستار العیوب اور علام الغیوب کی طرف رجوع کر کے گناہوں سے تو بہ سالکین طریقت کی ابتداء منزل تک پہنچنےوالوں کا سرمایہ اور مریدین کا پہلا قدم ہے ؟ امام سہروردی رحمۃ اللہ علیہ امام غزالی رحمۃ اللہ کے ساتھ اس بات میں متقق ہیں کہ تو بہ ہر مقام کی اصل اور ہر حال کا سہارا اور ہر خیر کی چابی ہے اور یہ مقامات طریقت میں سے سب سے پہلا مقام ہے اور یہ عمارت کیلئے زمین کے قائم مقام ہے.
تو بہ اور توبہ کے آثار و نتائج
(1)ظاہری گناہوں سے پاکیزگی حاصل ہوتی ہے یعنی زیادتی ظلم اور غضب وغیرہ سے
(2) اسی طرح باطنی گناہوں سے بھی چھٹکارا حاصل ہوتا ہے اس سے مراد حقد ، حسد ، بد خلقی وغیرہ ہے۔
امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تو بہ سالک کے لئے ایک نئی چیز ہے اس سے بندہ اپنے رب کی بارگاہ میں رجوع کرتا ہے، اور اپنے قلبی خواطر کی طرف توجہ دیتا ہے اور خواب غفلت سے بیدار ہوتا ہے جب بندہ اپنے رب کی بارگاہ میں حاضر ہوتا ہے اور ہرشے سے کٹ کر اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اس کی روح صاف اور دل پاکیزہ ہو جاتا ہے اس کی بصیرت کی آنکھ روشن ہو جاتی ہے اور وہ اپنے رب کے نور سے روشنی حاصل کر کے اپنے مولی کی معرفت حاصل کر لیتا ہے اور یہ مقامات طریقت میں پہلا مقام ہے ۔
امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تو بہ کا ضابطہ یہ ہے کہ ہر اس چیز سے رجوع کرنا جو مذموم ہے اس چیز کی طرف جو شرعاً محمود ہو یعنی پہلے کبائر سے پھر صغائر سے پھر مکروہات سے پھر نیکیوں میں ریاء سے اور پھر اس گمان سے تو بہ کرنا کہ اس کا شمار زمانہ کے فقراء میں ہوتا ہے ۔
ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عوام کی تو بہ گناہوں سے اور خواص کی تو بہ غفلت ہے ۔
امام قشیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ” میں نے محمد بن احمد اور انہوں نے عبد الله بن محمد تمیمی سے سنا ہے وہ فرماتے ہیں کہ گناہوں اور غفلتوں سے تو بہ کرنے والوں کے درمیان بہت بڑا فرق ہے ۔
امام شعرانی فرماتے ہیں ” مرید صادق دن رات اپنی حرکات و سکنات پر کثرت سے استغفار کرتا ہے اور اس کے لئے برابر ہے کہ وہ جانے کہ اس نےگناہ کیا ہے کہ نہیں ۔
اللہ جل مجدہ نے فرمایا ۔
وَ الَّذِیۡنَ اِذَا فَعَلُوۡا فَاحِشَۃً اَوۡ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ ذَکَرُوا اللّٰہَ فَاسۡتَغۡفَرُوۡا لِذُنُوۡبِہِمۡ وَ مَنۡ یَّغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ اِلَّا اللّٰہ۟ وَ لَمۡ یُصِرُّوۡا عَلٰی مَا فَعَلُوۡا وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ ( آل عمران : 135)
ترجمہ : اور وہ کہ جب کوئی بے حیائی یا اپنی جانوں پر ظلم کریں اللہ کو یاد کر کے اپنے گناہوں کی معافی چاہیں اور گناہ کون بخشے سوا اللہ کے اور اپنے کئےپر جان بوجھ کر اڑ نہ جائیں ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔
فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَكَ (ھود:112)
ترجمہ: تم قائم رہو جیسا تمہیں حکم ہے اور جو تمہارے ساتھ رجوع لایا ہے
اللہ تعالیٰ نے آپ کو استقامت کا حکم فرمایا اور آپ کو اپنی امت سمیت تو بہ کا حکم فرمایا ۔
امام شعرانی فرماتے ہیں تو بہ میں استقامت اور اس کے سچے ہونے کی دلیل یہ ہے کہ بندہ اپنے دل میں ایسی لذت پائے جس کا اندازہ لگانا مشکل ہے ۔ اور جو انسان تو بہ کے بعد اپنے دل میں لذت نہیں پاتا وہ جھوٹا ہے اسے چاہیے کہ وه از سر نو تو بہ کرے کیونکہ توبہ کا دروازہ ہر وقت ہر ایک کے لئے کھلا ہے ؟ امام قشیری رحمۃ اللہ علیہ شیخ ابو علی دقاق سے روایت کرتے ہیں کہ کسی مرید نے تو بہ کی پھر کچھ عرصہ بعد گناہوں میں ملوث ہو گیا پھر ایک دن سوچنے لگا کہ اگر وہ دوبارہ توبہ کرے تو کیا اس کی توبہ قبول ہو گی ۔ غیب سے نداء آئی ۔ تو نے ہماری اطاعت کی تو ہم نے تیری اطاعت کو قبول کر لیا پھر جب تم نے ہمیں چھوڑ دیا تو ہم نے تمہیں مہلت دے دی ۔ اور اگر اب پھر ہماری بارگاہ میں تو بہ کرو گے تو ہم قبول کر لیں گے ۔
امام شعرانی رحمۃ اللہ تعالیٰ بھی اس روایت کی تائید کرتے ہیں۔ اور توبہ کرنے والے کو مژدہ جانفزا سناتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔
يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعاً ( الزمر:53)
ترجمہ :۔ اے میرے وہ بندو !جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو بے شک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے ۔
امام شعرانی کے نزدیک تو بہ از سر نو اسلام لانا ہے اور اسلام ما قبل گناہوں کو ختم کر دیتا ہے اس طرح حقیقت تو بہ میں ایک نئی بات کا اضافہ کرتے ہیں اور اس جدید بات سے مرید کو ہر اس بات سے دور کرتا ہے جو اس کو اپنےرب سے غافل کر دے۔ تاکہ وہ کسی حالت میں اپنے رب سے غافل نہ ہو ۔ تو بہ کرنے والا اپنے رب کی بارگاہ میں رجوع کرتا ہے جب تو بہ صحیح ہو تو انابت صحیح ہو جاتی ہے۔
حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ” جب بندہ سچے دل سے توبہ کر لیتا ہے تو منیب بن جاتا ہے کیونکہ انابت تو بہ کا دوسرا درجہ ہے ” ابو سعید قرشی فرماتے ہیں کہ منیب وہ ہوتا ہے جو ہر اس چیز سے رجوع کرے جو اسے اپنے رب سے غافل کر دے ۔
بندے کا اپنے تمام احوال میں رب کی طرف رجوع کرنا تو بہ ہے۔ اپنے ہر ہر سانس میں اور دل کی ہر ہر دھڑکن میں رب کو یاد کرتا ہے اور اسے نہیں بھولتا۔ جب بندہ اس مقام کو حاصل کرلے تو اسے مقام زہد حاصل ہوتا ہے کیونکہ تو بہ نفس کو پاک کرتی ہے دل کے آئینہ کو جلا بخشتی ہے ۔ سالک دنیا کے فساد کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے اس لیے اس کو زہدحاصل ہو جاتا ہے اور جس کے پاس زمین ہی نہ ہو عمارت کیسے تعمیر کرے گا۔ اسی طرح جس کی تو بہ نہ ہو ۔ اس کا نہ کوئی حال ہے اور نہ مقام ۔ وہ کہتے ہیں کہ ابتداء میں توبہ کو کچھ امور کی ضرورت ہوتی ہے انہی امور میں سے نفس کو زجر و توبیخ کرنا ہے اور یہی نفس کی کنجی ہے اور دوسرا امراحتیاط اور بیداری ہے ابو داؤد نے فرمایا بیداری کی پانچ علامتیں ہیں۔
جب اپنی ذات کا ذکر آئے تو وہ اللہ کی طرف رجوع کرے اور جب اپنے گناہوں کو یاد کرے تو استغفار کرے جب دنیا کا ذکر کرے تو اس سے عبرت حاصل کرے اور جب آخرت کا ذکر آئے تو شاداں و فرحاں ہو جائے اور جب مولا کا ذکر آجائے تو رونگٹے کھڑے ہو جائیں ۔
امام شعرانی کے نزدیک تو بہ کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اپنے اکثر احوال میں اپنے دل کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کرے تاکہ اپنے رب اور نفس سے غافل نہ ہو جائے تو بہ کا یہ کمال ہے کہ شب و روز کے کیے ہوئے گناہوں کو وہ اس طرح حرف غلط کی طرح نیست و نابود کر دیتی ہے جس طرح کلمہ شہادت شرک کو ختم کر دیتا ہے اور صوفیائے کرام کے نزدیک تو بہ ہر اس چیز سے رجوع کرنا ہے جو مذموم ہو۔
یہ مومنین کی صفت ہے اور پہچان بھی اور پاکیزگی دل کا سامان کیونکہ مومن تو بہ کی وجہ سے اپنے دل کا محاسبہ کرتا ہے۔
مقام زہد
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے !
وَقَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَيْلَكُمْ ثَوَابُ اللهِ خَيْرٌ (القصص: 80)
ترجمہ: اور بولے وہ جنہیں علم دیا گیا ۔ خرابی ہو تمہاری اللہ کا ثواب بہتر ہے
رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ” جب تم دیکھو کہ دنیا میں کوئی شخص زہد اور سلیقہ گفتگو سے بہرہ ور ہے تو اس کے قریب ہو جاؤ کیونکہ وہ حکمت کی تعلیم دے گا ”
قول ماثور ہے کہ جو دنیا میں چالیس دن زہد اختیار کرے اللہ تعالیٰ اس کے دل میں حکمت کے چشمے رواں کر دیتا ہے اور اس کی زباں کو حکمت کے ساتھ کھول دیتا ہے زہد کے بارے میں صوفیائے کرام اور علماء کرام کی بہت سی آراء ہیں ۔ ہر ایک اپنے مقام اور مشرب کے مطابق اس کی تعریف کرتا ہے
امام طوسی کا قول
زہد بڑا ہی عظیم مقام ہے اور یہ اعلیٰ مراتب اور پسندیدہ احوال کی بنیاد ہے جس کی بنیاد زہد میں محکم نہ ہو اسے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ کیونکہ دنیا کی محبت ہر خطا کی اصل ہے اور دنیا میں زہد ہر اچھائی اور خیر کی اصل ہے (کتاب اللمع ص 72)
کسی بزرگ نے فرمایا
صحابہ کرام یا کثرت صوم و صلوٰۃ سے ہی سبقت نہیں لے گئے بلکہ وہ دنیا میں زہد کے اعلی ترین مقام پر بھی فائز تھے
جنید بغدادی کا قول
حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا زہد یہ ہے کہ تو دنیاوی املاک سے ہاتھوں کو خالی کر دے ۔ اور دل کو برے خیالات سے محفوظ کرے
شیخ شیلی کا قول
حقیقی زہد ” دنیا میں موجود نہیں کیونکہ یا تو زہد اس چیز میں ہوگا جو اس کی اپنی نہیں، تو یہ زہد نہیں کہلاتا۔ یا اس چیز میں زہد اختیار کرے گا جو اس کی اپنی ہے۔ تو اس چیز میں زہد کیسے ہو گا جو اس کے پاس ہے۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان
فرماتے ہیں کہ دنیا سے اعراض اور آخرت کی رغبت کا نام زہد ہے۔ یا غیر اللہ سے اللہ کی طرف رجوع زہد کہلاتا ہے اور یہ زہد کا بلند ترین درجہ ہے ۔ حضور نبی کریم ﷺ کی حدیث امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کےاس قول کی موئید ہے
آپ ا نے حضرت حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا ” كَيْفَ أَصْبَحْتَ يَا حَارِثة؟ اے حارثہ ! تو نے کیسے صبح کی؟ قال اصْبَحْتَ مُؤْمِنًا حَقًّا ۔ عرض کی۔ میں نے خالص مومن ہونے کی حالت میں صبح کی۔ آپ ﷺ نے انتفصار فرمایا کہ ہر حق کی حقیقت ہوتی ہے۔ تمہارے ایمان کی کیا حقیقت ہے ۔ انھوں نے عرض کی کہ میرا دل دنیا سے اچاٹ ہو گیا ہے۔ میرے نزدیک سونا اور پتھر برابر ہیں۔ گویا کہ میں اہل جنت کی طرف دیکھ رہا ہوں، وہ ناز و نعم میں ہیں۔ اور اہل نار کو دیکھ رہا ہوں کہ ان کو عذاب دیا جا رہا ہے ۔ گویا کہ میں اپنے رب کے عرش کو ظاہر دیکھ رہا ہوں ۔ اس کیلئے میں نے راتیں قیام میں اور دن صیام میں گزارے ہیں تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم نے حقیقت کو پالیا ہے پس اس کو لازم پکڑو ۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں کہ حضرت حارثہ رضی اللہ عنہ نے اپنے ایمان کی حقیقت کا اظہار کیا اور دنیاسے اعراض کرنے کے ساتھ پھر یقین کو ایمان کے ساتھ ملا دیا ۔ حضور ﷺنے ان کی تصدیق فرمائی اور ارشاد فرمایا عبد نور الله قلبه حارثہ وہ بندہ ہے کہ اللہ نے جس کا دل نور (ایمان) سے منور اور تاباں کر دیا ہے۔
جب نبی کریم سے پوچھا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد ”
فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ یَّهْدِیَهٗ یَشْرَحْ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ
اور اللہ جسے راہ دکھانا چاہے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے۔
میں شرح کا معنی کیا ہے ؟
ارشاد فرمایا اس سے مراد وہ نور ہے جو دل میں اتر جاتا ہے تو وہ کشادہ ہو جاتا ہے۔ اور کھل جاتا ہے۔ عرض کیا یا رسول اللہ اس کی کوئی علامت ہے؟ فرمایا ہاں، داری غرور (دنیا) سے پہلو تہی کرنا اور دار خلود (آخرت) کی طرف رجوع کرنا ہے۔ اور قبل از موت اس کی تیاری کرنا ہے۔
اس حدیث پاک میں قابل غور بات یہ ہے حضور ﷺ نے زہد کو اسلام کے لئے شرط قرار دیا ۔
امام شعرانی رحمۃ اللہ کے نزدیک زہد کے تین مراتب ہیں :۔
(1) پہلا مرتبہ = یہ ہے کہ بندہ حرام اور مشتبہات سے پہلو تہی کرے ۔ خالص حلال کی تلاش کرے ۔ پھر امام شعرانی سالکین کے لئے اپنے اس مقام زہد کو بیان کرتے ہیں جو انہیں اپنی زندگی میں پیش آیا۔ فرماتے ہیں کہ میں زہد کے اس مقام تک پہنچ چکا ہوں کہ اگر آسمان سونا بر سادے اور لوگ اپنی جھولیاں بھرنے لگیں تو میرا ایک بال بھی حرکت نہ کرے ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ پر روز جزاء کا انتہائی خوف طاری تھا “ اسی طرح اگر میں سونے چاندی کے پہاڑوں سے گذروں تو ایک دن کی قوت لا يموت سے زیادہ ایک دینار بھی نہ اٹھاؤں ۔ لوگ مجھے سونا چاندی اور کپڑے پیش کرتے ہیں۔ کبھی تو میں انہیں لوٹا دیتا ہوں اور کبھی غرباء و مساکین کیلئے صحن میں پھینک دیتا ہوں ۔ فقراء و مساکین اس کو اٹھا لیتے ہیں فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک سونا ، مٹی، چاندی اور پتھر ، فقر و غنا اور
منع و عطاء سب برابر ہیں
(2) دوسرا مرتبہ : یہ ہے کہ انسان دنیا سے زہد اختیار کرے اور اس کو نا پسند کرے اس وجہ سے کہ یہ اللہ کے ہاں مبغوض ہے نہ کسی اور سبب سے یعنی راحت بدن یا تخفیف حساب ۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو وحی فرمائی اے داؤ د تم نے دنیا میں جو زہد اختیار کیا ہے تو یہ اپنے نفس کیلئے راحت کو جلد حاصل کیا ہے ؟ اور جو تو نے مجھے ہی مرکز التفات بنایا ہے اس کی وجہ سے تو میرے بندوں پر معزز ہو گیا ہے لیکن تم یہ بتاؤ کیا تم نے میرے کسی دوست یا کسی دشمن سے دشمنی کی ہے۔
امام شعرانی رحمہ اللہ کے نزدیک جو شخص دنیا میں اخروی نعمتوں کے حصول کیلئے زہد اختیار کرتا ہے وہ کامل زاہد نہیں۔ کیونکہ اس نے فانی زندگی کے عوض باقی اور دائمی کو حاصل کر لیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے سودے بازی کرلی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا معاملہ خالص نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ اس وقت خالص ہوتا ہے جب دنیا اور آخرت کی کسی چیز کو اپنی ملک نہ سمجھے ۔
(3) تیسرا مرتبہ :
زہد کا تیسرا مرتبہ یہ ہے کہ بندہ ماسوی اللہ کو ترک کر دے یعنی اللہ کے سوا ہر چیز سے زہد اختیار کرے دنیا کو کلیتا ترک کر کے اللہ کی بارگاہ میں رجوع کرے۔ اپنے ارادے اور اختیار کی نفی کرے ۔ اس کے نزدیک عزت اور ذلت ، شہرت و گمنامی مدح وذم بلندی و پستی برابر ہوں۔
حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا “میں تمہیں حق بات کہتا ہوں کہ دنیا کی محبت ہر خطا کی اصل ہے اور مال بہت بڑی بیماری ہے ۔ حواریوں نے عرض کی کہ مال کی بیماری کیا ہے؟ فرمایا کہ اس کا حق ادا نہیں کیا جاتا۔ عرض کی کہ اگر اس کا حق ادا کر دیا جائے۔ فرمایا اس میں فخرو تکبر ہوتا ہے۔ عرض کی ، اگر اس میں فخر و تکبر نہ ہو ۔ فرمایا ” مال کی مشغولیت ، بندے کو ذکر اللہ سے غافل کر دیتی ہے۔
(4) چوتھا مرتبہ :
زہد کا مرتبہ چہارم یہ ہے کہ بندہ ہر اس چیز کو ترک کر دے جو اس کو اپنے رب سے غافل کر دے ۔ اس کے پاس دنیا تو ہو لیکن اس کا دل اس کی طرف نہ ہو کیونکہ : ازْهَدْ فِي الدُّنْيَا يُحِبَّكَ اللَّهُ. ” کا معنی یہ ہے کہ اللہ کی اجازت کے بغیر تیرے دل میں کسی چیز کی محبت نہ ہو ۔ نہ کہ تو اس مال کو بھی ترک کر دے جس کے ساتھ اپنی اور اپنے اہل وعیال کی پرورش کر سکے ۔ کیونکہ یہ بات سلف صالحین کے عمل کے منافی ہے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی تعریف فرمائی ہے جو رزق حلال کی تلاش میں کوشاں رہتے ہیں لیکن ان کا دل دنیا کی طرف مائل نہیں ہوتا ارشاد باری تعالیٰ ہے
رِجَالٌ لَّا تُلْهِیْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَیْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ (النور :37)
ترجمہ : وہ مرد جنہیں غافل نہیں کرتا کوئی سودا اور نہ خرید و فروخت اللہ کی یا د سے۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں مسائل تجارت کو قابل ستائش گردانا ہے اور فرمایا ہے کہ ان کی تجارت ان کو ذکر اللہ سے غافل نہیں کرتی۔ امام شعرانی رحمۃ اللہ کے نزدیک زہد کا جو مفہوم ہے بعینہ وہی مفہوم شاذلیوں کے نزدیک ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ جب دل متاع دنیا کی طرف مائل نہ ہو تو فقیروں اور محتاجوں پر خرچ کرنے کیلئے سعی حصول مال ممنوع نہیں ۔
عارف باللہ امام ابو الحسن شاذلی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں “دنیا میں زہداختیار کرنے والے کو دو مرتبہ ثواب ملتا ہے۔
پہلا مرتبہ :
جب وہ دنیا کی محبت کے باوجود اسے ترک کر دیتا ہے۔
دوسرا مرتبہ :
جب اس کو ترک کرنے اور اس کی محبت دل سے نکلنے کے بعد اسے دوبارہ پاتا ہے جب دنیا کو ترک کرتا ہے۔ تو اللہ کے حکم ہے۔ اور جب اسے اختیار کرتا ہے تب بھی اللہ کے حکم سے ۔ زبان معرفت اور حقیقت اسے مخاطب کرتی ہے۔ اے مومن تیرے ہاتھ میں کیا ہے ؟ وہ کہتا ہے یہ میری دنیا ہے ۔ جس کو اپنی ذات اہل و عیال اور بھائیوں پر خرچ کرتا ہوں۔ اسے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ تمہارے ہاتھ میں ہے اسے پھینک دو۔ وہ اسے پھینک دیتا ہے۔ اور یہ دنیا اس کے نزدیک رینگتے ہوئے سانپ کی مانند ہے ۔ جس طرح کہ حضرت موسی علیہ السلام کا عصا مبارک سانپ بن گیا تھا ۔ پھر دوبارہ مومن کو کہا جاتا ہے کہ اس دنیا کو اختیار کر لو اور نہ ڈرو جس طرح کہ حضرت موسی علیہ السلام کو واقعہ پیش آیا۔ تو مومن ان دونوں حالتوں میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے۔ اس میں اس کا اپنا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔
ان اہل طریقت کے نزدیک زہد دل سے دنیا کا خیال نکال دینے کا نام ہے۔ اس کے بعد اگر ان کے پاس متاع دنیا ہو تو یہ چیز ممنوع نہیں ۔ کیونکہ جب تک وہ دنیا میں ہے۔ اسے زندگی گزارنے کے لئے اس کی ضرورت ہے۔ تاکہ وہ باعزت زندگی گزار سکے، دوسروں پر بوجھ نہ بنے۔ دنیا کی محبت اس وقت مذموم ہے ۔ جب نفسانی خواہشات کی وجہ سے ہو ۔ اگر اللہ کی محبت سے کوئی اس سے محبت کرے تو قابل مذمت نہیں۔ بلکہ شرعاً محبوب ہے۔ اسی وجہ سے بعض اولیاء کرام مال سے بہت محبت کرتے ، تاکہ اللہ کی راہ میں اسے خرچ کریں ۔ نہ کہ اللہ کے بندوں پر بخل کریں ۔ کسی بزرگ کے بارے میں مروی ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے ۔ کہ مال سے محبت اس لئے کرتا ہوں تاکہ لذت اطاعت الہی کا حصول ہو ۔ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
َ اَقْرَضُوا اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا (الحديد : 18)
ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ کو قرض حسنہ دو۔
اللہ تعالیٰ کا یہ خطاب اہل ثروت اور اہل غنا کے لئے ہے ۔ امام سہروردی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں’ زاہد جب اپنی مرضی اور ارادت سے زہد اختیار کرتا ہے تو اس کے ارادے کا تعلق اس کے علم سے ہوتا ہے حالانکہ اس کا علم کو تاہ ہوتا ہے۔ لیکن جب اس کو ترک ارادہ کے مقام پر لایا جاتا ہے تو اپنے اختیارات کو ترک کر دیتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ اس پر اپنے مقصد کا انکشاف کردیتا ہے تو وہ اللہ کے علم سے اسے ترک کر دیتا ہے نہ کہ نفس کے حکم ہے ۔ اس وقت اس کے زہد کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہی ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا مقصد و منشا یہی ہے کہ وہ دنیا کی کسی چیز سے وابستہ ہو جائے جب اس کا تعلق دنیا کی کسی چیز سے ہوتا ہے تو اس کے زہدمیں کمی واقع نہیں ہوتی۔ اسی طرح امام شعرانی اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا موقف ایک ہی ہے، کیونکہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے آپ نے فرمایا ۔ ” زہد کے تین درجات ہیں۔
ترک حرام :-
یہ عوام کا زہد ہے۔
حلال اشیاء میں فضول کا ترک کرنا:
اور یہ خواص کا زہد ہے
رب سے غافل کرنے والی ہر چیز کا ترک کرنا:
اور یہ عارفین کا زہدہے
عارف بالله ابن عطا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ترحل عن مقام الزهد قلبي. . . فأنت الحق وحدك في شهودي
أأزهد في سواك وليس شيء. . . أراه سواك يا سر الوجودي
(لطائف المنن )
ترجمہ: “میرا دل مقام زہدسے کوچ کر گیا۔ میرے شہود میں فقط تو ہی ہے۔تیرے بغیر کسی چیز میں زہد اختیار کروں ۔ حالانکہ اے سرو جودا تیرے بغیر کوئی شے نظر ہی نہیں آتی۔
جب بندہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے تو صوفیائے کرام کے نزدیک زہد در زہد کا مقام حاصل ہو جاتا ہے اور وہ اپنے ارادے اور اختیارات کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔ اس کے نزدیک وجود دنیا اور اس کا عدم برابر ہو جاتے ہیں ۔ نہ وہ دنیا کی مذمت کرتا ہے اور نہ ہی وہ تعریف کرتا ہے ۔ جب اسے دنیا حاصل ہوتی ہے ۔ تو وہ خوش نہیں ہوتا اور جب دنیا اس سے منہ پھیر لے تو وہ غم نہیں کرتا۔ اس کا ارادہ تدبیر کے تابع ہو جاتا ہے ۔ وہ اللہ تعالیٰ کی مشیئت اور اختیار سے کسی چیز کو چاہتا اور اختیار کرتا ہے۔ تصفیہ ظاہر و باطن کے بعد بالآخر وہ مقام تجدید تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔
مقام تجرید
صوفیائے کرام کے نزدیک تجرید کی تین قسمیں ہیں۔ (1) تجرید ظاہر ۔ (2) تجرید باطن (3) تجرید ظاہر و باطن
تجرید ظاہر
اس سے مراد دنیاوی اسباب اور جسمانی فوائد کو ترک کرنا ہے ۔
تجرید باطن :
اس سے مراد نفسانی علائق اور وہمی رکاوٹوں کو ترک کرنا ہے ۔
تجرید ظاہر و باطن :
اس سے مراد باطنی علائق اور جسمانی لذات سے کنارہ کشی کرنا ہے۔
یا تجرید ظاہری کا مفہوم یہ ہے کہ ہر اس چیز کو ترک کرنا جو اطاعت خداوندی سے مانع ہو۔ تجرید باطن کا معنی یہ ہے ہر اس چیز کو ترک کرنا جو دل کو اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونے سے روکے اور تجرید ظاہر و باطن کا مفہوم یہ ہے کہ دل اور جسم کو اللہ تعالیٰ کے لئے خاص کر دیا جائے۔
امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، “مجھے تجرید باطن کا مقام حاصل ہو گیا ہے اور اللہ کے فضل و احسان سے دنیا کی کسی چیز کی خواہش باقی نہیں رہی ۔ اور نہ ہی کسی چیز کے ملنے پر افسوس ہوتا ہے۔ کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ کائنات کی کوئی شے میری ملکیت میں نہیں ۔ پس جس شخص کی یہ حالت ہو جائے وہ مقام تجرید پر فائز ہو جاتا ہے ”
جب بندہ دنیا سے قطع تعلقی کرے اور کلیتاً دل سے اس کا خیال نکال دے ۔ اور ترک دنیا پر اسے کوئی افسوس نہ ہو۔ اور یہ جان لے کہ کائنات کی ہر شے اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں ہے۔ وہی عطا کرتا ہے اور وہی محروم کرتا ہے ۔ اور اس کے قبضہ قدرت میں عزت و ذلت ہے ۔ جو بندہ اس کیفیت کو حاصل کر لے تو وہ مقام تجرید پر فائز ہو جاتا ہے ۔
امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تجرید کے دو مرحلے ہیں ۔
پہلا مرحلہ لباس ظاہری سے تجرید کا ہے ۔ لباس ظاہری سے تجرید کم فہم لوگوں پر بہت شاق گزرتی ہے۔ کیونکہ وہ ڈرتے ہیں کہ لوگ انہیں حقیر اور مجنوں کہیں گے۔ جیسا کہ ابتدائے مجاہدہ میں مجھے اس کا تجربہ ہوا ہے لیکن جب سالک اس مقام میں پختہ فکر ہو جاتا ہے اور اس کے نزدیک بھوک اورسیرشکمی ، لباس اور عدم لباس برابر ہو جاتا ہے تو لباس ظاہری سے تجرید آسان ہوجاتی ہے ۔ کیونکہ اس کے لئے دونوں حالتیں برابر ہو جاتی ہیں۔
دوسرا مرحلہ:
دوسرا مرحلہ لباس ظاہری کو اختیار کرنے کا ہے امام شعرانی” فرماتے ہیں کہ لباس ظاہری کی تجرید کے بعد انسان ایک اور مقام کی طرف ترقی کر جاتا ہے ۔ جو کہ پہلے سے اعلی ہے ، اور وہ مقام اہل طریقت اور معرفت کی اتباع اور پیروی میں لباس ظاہری کو اختیار کرنا ہے ۔ کیونکہ اس سے سالک شہرت اور ریاء سے محفوظ رہتا ہے ۔ نبی کریم میں ﷺ کا ارشاد ہے ۔
مَنْ لَبِسَ ثَوْبَ شُهْرَةٍ فِي الدُّنْيَا، أَلْبَسَهُ اللَّهُ ثَوْبَ مَذَلَّةٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ثُمَّ أَلْهَبَ فِيهِ نَارًا-
(ابو داود ابن ماجہ)
ترجمہ : ” جس نے دنیا میں شہرت کا لباس پہنا ۔ اللہ تعالیٰ آخرت میں اس کو آگ کا لباس پہنائے گا ۔ ”
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کو لباس ظاہری سے تجرد کب حاصل کرنا چاہئیے ؟
امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔ اے سالک تجھے لباس ظاہری سے تجرد کا حق اس وقت تک حاصل نہیں ہو گا جب تک پہلے دل کو نفسانی خواہشات ، صفات مذمومہ ، علائق دنیوی اور شیطانی صفات سے پاک نہ کرے۔ اگر تو نے ایسا نہ کیا۔ تو تو ہلاکت کے گڑھے میں گر جائے گا۔ لیکن تجھے خبر تک نہ ہو گی ۔ پس مقام تجرید صفات مذمومہ اور شیطانی وساوس سے تطہیر کا نام ہے ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ظاہر و باطن کو خالصتہ اللہ تعالیٰ کے لئے مختص کر دینا ہے۔ جب بندہ یہ مقام حاصل کر لیتا ہے تو مزید مجاہدے اور تصفیہ قلب سے مقام صدیقیت تک پہنچ جاتا ہے۔
مقام صد یقیت و شہادت
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا ( مريم : 56)
ترجمہ: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بے شک وہ صدیق نبی تھے ۔ ”
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَأُمُّهُۥ صِدِّيقَةٌ كَانَا يَأْكُلَانِ ٱلطَّعَامَ – (المائده : 75)
ترجمہ: اور ان کی والدہ صدیقہ تھیں ، دونوں کھانا کھایا کرتے تھے ۔ ”
صدیقیت بھی مقامات طریقت کا ایک مقام اور مراتب ولایت کا ایک مرتبہ ہے۔
امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک صد یقیت تمام منہیات کو ترک کرنے کا نام ہے ۔ جس نے تمام منہیات کو ترک کر دیا ۔ اور موت کو یاد رکھا۔ اور مرغوب اشیاء کو چھوڑ دیا ۔ درشتی طبع اور خواہشات نفسانیہ سے کنارہ کش ہوا۔ تو اسے استقامت حاصل ہو جاتی ہے۔
شریعت اوا مر اور منہیات کا مجموعہ ہے۔ اوامر بندے کی تربیت کے لئے ہوتے ہیں ۔ تاکہ اس کے دل کے راستے کھل جائیں اور حجابات منکشف ہو جائیں اور اسے اپنے رب کا وصال حاصل ہو جائے۔ یہ اوا مر خالق انسان کی طرف سے ” انسان کے لئے ہوتے ہیں۔ تاکہ اس کے راستہ کو واضح اور متعین کریں ۔ برائی کی نشاندہی اور رب تک پہنچنے کے لئے قریب ترین راستے کی نشاندہی کریں ۔ یہ اوا مر رب کی جانب سے زمین پر بسنے والی مخلوق کے لئے ہوتے ہیں۔ تاکہ وہ عزم و ہمت سے اس کائنات کی تعمیر کریں۔ اپنی عقل سے زندگی کے پہئے کو گھمائیں ۔ اور اپنی روح کے ذریعے معرفت الہی کو حاصل کر سکیں ۔ اس کے مقابلے میں شریعت کا دوسرا حصہ نواہی پر مشتمل ہے ۔ اور اس کا معنی یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود میں رہتے ہوئے اس سے تجاوز نہ کرے دین نے جن چیزوں سے منع اور دور رہنے کا حکم دیا ہے ۔ عقل انسانی کبھی تو آسانی سے اس کو قبول کر لیتی ہے کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ اگر اس نے ان حدود سے تجاوز کیا جن کو شریعت نے مقرر کیا ہے تو اس میں اس کا نقصان ہو گا۔ کیونکہ وہ چیز منطق، تجربہ اور لوگوں کے عرف کے مطابق ہوتی ہے کہ انسانی منطق تجربہ اور لوگوں کے عرف کے مطابق ہوتی ہے۔ لیکن کبھی کبھی ہماری عقلیں اس حقیقت کو پانے سے قاصر ہوتی ہیں ۔ کہ انسانی منطق کے ذریعے کسی حقیقت تک پہنچ سکیں ۔ لیکن ہم پر یہ لازم ہے کہ شریعت نے ہمیں جس چیز سے منع کیا ہے ، اس سے منع ہو جائیں ۔ کیونکہ دین کا تعلق انسانی عقل سے نہیں بلکہ وحی الہی سے ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں۔ کہ اگر دین کا تعلق عقل سے ہوتا تو موزہ کے نچلے حصے پر مسح کرنا، اوپر والے حصے پر مسح کرنے سے اولی ہوتا لہذابندے پر واجب ہے کہ وہ استقامت پر قائم ہو کر اپنے رب کے حکم کو بجالائے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :
فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَ مَنْ تَابَ مَعَكَ – (ھود :112)
ترجمہ : ” تم قائم رہو جیسا تمہیں حکم ہے اور جو تمہارے ساتھ رجوع لایا ہے”
سب سے بلند مقام صدیقیت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوا، آپ کو مقام تسلیم اور تصدیق سے وافر حصہ ملا اور حدیث پاک کی رو سے آپ پر خلت ” کا اطلاق ہوا ۔
اللہ تعالیٰ آخرت میں اخلاء پر تجلی فرمائے گا۔ اور وہ محمد ﷺ کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے: حضور ﷺنے فرمایا کہ تمہاری مثال ابراھیم علیہ السلام کی طرح ہے ۔ ” اس حدیث پاک میں جان، مال اور اولاد اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنے سے جو مقام خلت حاصل ہوتا ہے اس کی طرف اشارہ ہے۔ ده مقام شہود جس کے حصول کے لئے امام شعرانی اعمال کے ذریعے حریص تھے ۔۔ اس سے مراد تمام اوامر کا بجا لانا ہے ۔ اور اس کا اطلاق دین کے تمام احکام پر ہوتا ہے۔ سب سے پہلے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس مقام پر فائز ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ باوجود اس کے کہ آپ تمام احکام الہی پر عمل پیرا تھے ۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے جاتے اور فرماتے: تم رسول اللہ ﷺ کے رازدان تھے۔ اور تم منافقین کی تعداد کو جانتے ہو ۔ دیکھو کہیں مجھ میں نفاق کی کوئی علامت تو نہیں ہے؟ اور اگر ہے تو ضرور بتاؤ۔ تو وہ عرض کرتے ۔ یا امیر المومنین میں آپ میں نفاق کی کوئی علامت نہیں پاتا۔ آپ فرماتے : دقت نظر سے دیکھو تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بھی رو پڑتے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی ان کے ساتھ رونے لگ جاتے ۔ اور اتنا روتے کہ غشی طاری ہو جاتی۔ حضرت حذیفہ حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی گفتگو کے اس انداز سے روتے لیکن حضرت عمر اس خوف سے روتے کہ کہیں ان میں نفاق کی علامت تو نہیں ۔ جس کا انہیں علم نہیں ہے ۔ قابل غور امر یہ ہے کہ انہیں رضائے خداوندی اور حصول جنت کی خوشخبری کا بھی علم تھا۔
کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
لَقَدْ رَضِيَ اللَّهَ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يا عونك تحت الشجرة (الفتح:18)
ترجمہ : ” بے شک اللہ راضی ہوا ایمان والوں سے ۔ جب وہ اس پیڑ کے نیچے تمہاری بیعت کر رہے تھے۔
اور وہ یقینا ان بیعت کرنے والوں میں تھے ۔
امام شعرانی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے نفس سے جہاد کیا۔
اور مقام شہود و صدیقین پر متمکن ہوئے ۔ اور آپ پر ان مقامات کے آثار ظاہر ہوئے ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے کھانے میں برکت ڈال دی۔ اور اپنے غیب کے خزانوں سے رزق عطا فرمایا۔ اور نامعلوم امور کا الہام فرمایا ۔ آپ جمادات کی تسبیح سنا کرتے تھے۔ انہیں اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایت و رعایت حاصل تھی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
الَّا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُو يَتَّقُونَ -(یونس :62،63)
ترجمہ :۔ سن لوبے شک اللہ تعالیٰ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ کچھ غم وہ جو ایمان لائے اور پر ہیزگاری کرتے ہیں ”
اور صد یقیت کا تقاضا رضاء ہے ۔
مقام رضا
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ اَكْبَرُؕ
اللہ کی خوشنودی سب سے بڑھکر ہے ۔(التوبہ : 72)
ذَاقَ طَعْمَ الْإِيمَانِ مَنْ رَضِيَ بِاللهِ رَبًّا (مسلم ، ترمذی)
ترجمہ :۔ اس نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا جو اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر راضی ہوگیا۔
بھلائی رضائے الہی میں مضمر ہے۔ اگر تم اس مقام کو حاصل کر سکتے ہو تو کر لو ۔
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی طرف لکھا کہ تمام تر بھلائی رضائے الہی میں مضمر ہے اگر تم اس مقام کو حاصل کر سکتے ہو توکر لو ور نہ صبر کا دامن تھامو
امام ابو نصر سراج طوسی نے فرمایا ” رضا انتہائی عظیم مقام ہے۔ اللہ تعالیٰ نےاس کا ذکر اپنی پاک کلام میں کیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوعَنْهُ
ترجمہ: اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے۔
رضا معرفت خدا کا سب سے بڑا ذریعہ اور دنیا کی جنت ہے ۔ رضا کا معنی یہ ہے کہ اللہ کے حکم کے سامنے بندے کا دل جھک جائے ۔ ابن عطاء سکندری فرماتے ہیں، “رضا سے مراد یہ ہے کہ دل کی نظر اللہ جل شانہ کے اختیار پر ہو۔ کیونکہ بندہ جانتا ہے کہ اس کا رب اس کے لئے بہترین چیز کا انتخاب کرتا ہے۔ پس وہ اس پر راضی ہو جاتا ہے نفس جب اللہ سے راضی ہو جائے تو اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کر دیتا ہے ۔ اس کے حکم کی اطاعت کرتا ہے۔ اور اس کی ربوبیت پر مطمئن اور اس کی الوہیت پر مکمل اعتماد کرتا ہے ۔ اور اس کی قضاء و قدر کے سامنے سرتسلیم خم کر دیتا ہے ۔ امام قشیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔ کہ عراق و خراساں کے صوفیاء کرام کا اس امر میں اختلاف ہے کہ کیا رضا مقامات میں سے ہے یا احوال میں سے ؟ اہل خراساں فرماتے ہیں کہ رضا کا تعلق مقامات سے ہے۔ اور توکل کی انتہاء رضا ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ رضا منجملہ ان امور سے ہے جن تک بندہ اپنے کسب کے ذریعے پہنچ سکتا ہے لیکن اہل عراق فرماتے ہیں کہ رضا احوال میں سے ہے اور بندے کے کسب کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ بلکہ دوسرے احوال کی طرح دل پر بھی وارد ہوتی ہے۔ ان دونوں اقوال میں تطبیق اس طرح ہو سکتی ہے کہ رضا کی ابتداء کب سے ہوتی ہے اس لئے یہ مقامات میں سے ہے۔ اور اس کی انتہا منجملہ احوال میں سے ہے۔ اور یہ اکتسابی نہیں ہے۔
ذوالنورین مصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ کہ رضا کی تین علامات ہیں۔
(1)قضا سے پہلے اختیار کو ترک کرنا۔ (2) قضا کے بعد کسی قسم کا افسوس نہ کرتا۔(3) مصائب میں حب الہی بڑھتے رہنا۔
رابعہ عدویہ اور حقیقت رضا:
امام غزالی احیاء العلوم میں فرماتے ہیں ، سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے رابعہ عدویہ کے پاس ایک دن فرمایا : اے رب : ہم سے راضی ہو جا۔ تو انہوں نے کہا
تمہیں اللہ سے حیاء نہیں آتی ۔ کہ تم اس سے رضا کا سوال کرتے ہو۔ حالانکہ تم خود راضی برضا نہیں ۔ تو انہوں نے فرمایا: استغفر الله
حضرت جعفر بن سلیمان السبعی نے فرمایا : کہ بندہ رب سے کب راضی ہوتا ہے۔ تو رابعہ عددیہ نے جواب دیا ۔ بندہ اپنے رب سے اس وقت راضی ہوتا ہے۔ جب مصیبت میں ایسا خوش ہو جیسا وہ نعمت میں خوش ہوتا ہے ۔
ابو سلیمان درانی کا قول بھی اس کا مؤید ہے۔ فرماتے ہیں ۔ کہ رضا یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ سے نہ جنت کا سوال کرے اور نہ نار جہنم سے پناہ مانگے ۔
صوفیائے کرام کی ان آراء سے واضح ہو جاتا ہے کہ رضا ان کے نزدیک بندے کا اپنے آپ کو رب کے سپرد کر دینا اور اس کے ارادے کی مطلقاً اطاعت کرنا ہے۔ یعنی خالق زمین و آسمان اور مالک موت وحیات کی بارگاہ میں سر کو جھکا دینا اور فقر و غناء منع و عطاءدنیاوی زندگی اور اخروی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں متوجہ ہوتا ہے۔
امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک رضا مقامات سالکین میں سے ایک مقام ہے اورسالک تین مراحل کے عبور کرنے کے بعد اس کو حاصل کرتا ہے۔
پہلا مرحلہ :۔
یہ اس وقت متحقق ہوتا ہے کہ جب بندہ اپنے اوپر ہونے والی مشکلات کو ظاہر نہ ہونے دے۔ کسی سے بھی شکایت نہ کرے ۔ چاہے دوست ہو یا دشمن ۔ اور ہر مصیبت پر راضی برضا ر ہے ۔ اور اسے رب قدوس کی نعمت شمار کرے ۔ اس لئے امام شعرانی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں۔ کہ بندے کے لئے ضروری ہے کہ تمام مصائب و مشکلات چھپائے ۔ اور کسی دوست دشمن کے آگے ظاہر نہ کرے ۔ اور حقوق کے سامنے شکوہ و شکایت نہ کرے ۔ اگرچہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جائیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
وَلَمَنْ صَبَرَ وَ غَفَرَانَ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ (الشوری: 43)
ترجمہ : بے شک جس نے صبر کیا اور بخش دیا تو یہ ضرور ہمت کے کام ہیں۔
دوسرا مرحلہ: بندے کا پختہ یقین ہو کہ اس پر نازل ہونے والے مصائب ومشکلات تین صورتوں سے خالی نہیں ہیں ۔
(1)یہ مصائب اس کے گناہوں کے لئے کفارہ ہیں ۔ (2) کسی گزشتہ گناہ کی سزاہیں۔ (3) بلندی درجات اور نیکیوں میں اضافے کا باعث ہے ۔
امام شعرانی اپنے ذاتی تجربہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میرے جسم پر پے درپے بہت سی تکالیف آئیں۔ میں نے ان تکالیف کو اللہ تعالیٰ کی نعمت خیال کیا۔ کیونکہ یہ تکالیف و مصائب اگر تو کسی گزشتہ گناہ کی سزا تھی۔ تو یہ بہتر ہے اور اگر یہ گناہوں کا کفارہ تھیں۔ تب بھی اچھا ہے ۔ اگر بلندی درجات کے لئے تھیں ۔ تو یہ بھی خیر ہے۔ اس طرح کوئی بھی آزمائش تین صورتوں سے خالی نہیں ۔ رابعہ عدویہ کا قول بھی اس کا مؤید ہے ۔ آپ سے پوچھا گیا کہ بندے کو رضا کا مقام کب حاصل ہوتا ہے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا : جب بندہ مصیبت پر اس طرح خوش ہو جس طرح وہ نعمت پر خوش ہوتا ہے۔
تیسرا مرحلہ : سالک کے لئے مصیبت اور نعمت دونوں برابر ہوں۔ کیونکہ وہ دونوں من جانب اللہ ہیں ۔ ارشاد خداوندی ہے
قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِندِ اللَّهِ (النساء :78)
ترجمہ :۔ تم فرما دو سب اللہ کی طرف سے ہے۔
حضرت رویم فرماتے ہیں۔ ” رضا یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ جہنم دائیں ہاتھ پر رکھ دے تو وہ بائیں ہاتھ پر رکھنے کا سوال نہ کرے۔
شیخ ابو الحسن نوری فرماتے ہیں۔ “رضا یہ ہے کہ قضا کے واقع ہونے پر بندےکا دل خوش ہو ۔
امام شعرانی فرماتے ہیں کہ جب میں مقام رضا پر فائز ہو گیا۔ مجھے اس بات کا یقین ہو گیا تھا۔ کہ ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے۔ اور ہر مصیبت کی کوئی نہ کوئی انتہاءوانجام ہے۔ کوئی چیز اس کے حکم کے بغیر آگے پیچھے نہیں ہو سکتی ۔ آزمائش کے اوقات، عافیت میں تنگی کے اوقات فراخی میں اور فقر کے اوقات غنا میں تبدیل نہیں ہو سکتے۔ اگر میں مقام رضا کو حاصل کرنے سے عاجز رہتا۔ تو صبر کرتا اور کشادگی کا انتظار کرتا۔ یہاں تک کہ اس کا وقت مقرر آجاتا ۔
حضرت یحیی بن معاذ رحمۃ اللہ علیہ بھی اس قول میں امام شعرانی کے ساتھ متفق ہیں ۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ بندہ رضا کے مقام کو کب سے حاصل کرتا ہے ۔ فرمایا: اس وقت جب وہ چار اصولوں پر عمل پیرا ہو ۔
(1) وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرے ۔ اے باری تعالیٰ ! اگر تو نے عطا کیا تو قبول کر لوں گا۔ (2) اگر منع کیا تو تب بھی راضی رہوں گا۔ (3) اور اگر تو نے اپنی بارگاہ میں دھتکار دیا ۔ تب بھی تیری ہی عبادت کروں گا۔ (4) اور اگر تو نے اپنی بارگاہ میں بلا لیا تو حاضر ہو جاؤں گا۔
ابن شمعون فرماتے ہیں کہ رضا کی تین قسمیں ہیں ۔ (1) الرضا بالله (2) الرِّضَا لِلّٰہ (3) الرَّضَا عَنِ الله
الرضا بالله : – یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو مدبر اور مختار تسلیم کرے۔
الرضا لله – یہ ہے کہ اس کو قاسم اور صاحب عظمت و جلال مان لے۔
الرضا عن الله : یہ ہے کہ اس کو اپنا معبود اور پروردگار تسلیم کرے۔
ابو سعید سے پوچھا گیا کہ کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ بندہ راضی بھی ہو اور ناراض بھی فرمایا: ہاں ایسا بھی ممکن ہے کہ بندہ اپنے رب سے راضی ہو اور ہراس چیز سے ناراض ہو جو بارگاہ خداوندی سے دوری کا سبب ہے۔ اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے۔ کہ مخالف شرح پر اعتراض کرنا کیا رضا کے منافی تو نہیں ہے ؟ امام شعرانی فرماتے ہیں بندے کے لئے ضروری ہے کہ تمام اعمال و افعال الله جل وعلا کے سپرد کر دے ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ چاہئے ۔ کہ مخالف شرع کام کرنے والے کو روکے۔ کیونکہ بندہ اس میں انبیاء کرام علیہم السلام کی اتباع کرنے والا ہے۔
امام شعرانی فرماتے ہیں کہ بندے پر واجب ہے کہ مخلوق کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے تمام احکام کے سامنے سر تسلیم خم کرے ۔ اور اس پر راضی رہے اور اس بات کا خیال رکھے ۔ کہ مخلوق کا کنٹرول اس کے قبضہ قدرت میں ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ مخلوق میں سے اگر کوئی حکم خداوندی کی خلاف ورزی کرے اور اس کی مخالفت کرے ۔ جب بندہ کسی کو کسی کام سے روکتا ہے۔ تو وہ اپنے اس فعل میں انبیاء و رسل علیہم السلام کی پیروی کرتا ہے۔ کیونکہ انبیاء اور رسل (علیہم السلام) نے بھی کفار کے ساتھ جہاد کیا با وجود اس کے کہ وہ جانتے تھے کہ ان کا کافروں کے خلاف جہاد کرنا اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر ہے اور ان کے علم میں یہ بھی تھا کہ روز اول سے جو فیصلہ ان کے بارے میں صادر ہوا ہے۔ وہ اس سے متخلف نہیں ہو سکتے ۔ اگر کوئی اعتراض کرے کہ رضا قضائے الہی کے بارے میں بہت سی آیات اور احادیث وارد ہیں ۔ پس معصیت کو نا پسند کرنا رضائے الہی کو نا پسند کرنا ہے ۔ اور ایک ہی شے میں رضا اور کراہت کو جمع کرنا کیسے ممکن ہے ؟ امام شعرانی فرماتے ہیں کہ معصیت کی دو جہتیں ہیں ایک جہت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس حیثیت سے کہ یہ اس کا فعل اختیار اور ارداہ ہے اس اعتبار سے اس پر راضی برضا ہونا ضروری ہے کیونکہ بندے کو چاہئے کہ اس کار خانہ قدرت کو اس کے مالک کے سپرد کر دے ۔ وہ مالک جو کچھ بھی کرے اس پر راضی ہو جائے ۔ دوسری جہت بندے کی طرف ہے اس حیثیت سے کہ وہ بندے کا کسب ہے اور اللہ کے نزدیک مبغوض اور ناپسندیدہ ہے اور اللہ جل جلالہ سے دوری اور ناپسندیدگی کا سبب ہے۔ اس اعتبار سے معصیت نا پسندیدہ اور مذموم ہے۔ اور مقام رضا محبت کا مقتضی ہے۔
مقام محبت
ارشاد رب ذو الجلال ہوتا ہے؟
فَسَوْفَ يَاْتِى اللّـٰهُ بِقَوْمٍ يُّحِبُّـهُـمْ وَيُحِبُّوْنَه(المائدۃ:73)
تو عنقریب اللہ تعالیٰ ایسے لوگ لائے گا۔ کہ وہ اللہ کے پیارے اوراللہ ان کاپیارا
اس کے متعلق مزید ارشاد ربانی ہوتا ہے۔
قُلْ اِنْ كُنْتُـمْ تُحِبُّوْنَ اللّـٰهَ فَاتَّبِعُوْنِىْ يُحْبِبْكُمُ اللّـٰهُ (آل عمران: 31)
ترجمہ اے محبوب آپ فرما دو کہ لوگوں اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے معاذ بن جبل سے روایت کی ہے کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا “اے اللہ میں تجھ سے نیکی کرنے برائی ترک کرنے اور مساکین کی محبت کا سوال کرتا ہوں اور تیری رحمت اور مغفرت کا سوال کرتا ہوں۔ اورجب تو کسی قدم کو آزمانے کا ارادہ کرے تو مجھے بغیر کسی آزمائش کےہی اپنی بارگاہ میں بلالے اورتجھ سے تیری محبت اور تیرے چاہنے والوں کی محبت اور ایسے عمل کا سوال کرتا ہوں جومجھے تیری محبت کے قریب کردے۔
ابن ساریہ سے مروی ہے کہ وہ فرماتے ہیں ۔ نبی کریم ﷺان الفاظ سے دعا فرمایا کرتے تھے ۔ اے اللہ ! اپنی محبت کو میری جان، سمع و بصر اور میرے اہل و عیال سے بھی زیادہ محبوب بنا دے ۔ حضور ﷺ آقائے دو جہاں نے اس حدیث پاک میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے خالص محبت کا سوال کیا ہے ۔ اور خالص محبت یہ ہے کہ کائنات کی ہرشے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے محبت کی جائے ۔ محبت اسلام کا جو ہر اور اصل ہے۔ اور محبت ہی روح تصوف اور اس کا منبع ہے ۔ اور محبت پر ہی اسلام کا دارو مدار ہے۔ اور یہی اسلام کے انوار و تجلیات کا محور ہے۔
اور یہ انتہائی ضروی ہے کہ محبت خالصتا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے لئےہو۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ۔
فَسَوْفَ يَأْتِيَ اللهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ (المائده :54)
ترجمہ : عنقریب اللہ تعالیٰ ایسی قوم لائے گا۔ کہ وہ اللہ کے پیارے اور اللہ ان کاپیارا
فرمان رب ذو الجلال ہے :
يُّحِبُّوْنَـهُـمْ كَحُبِّ اللّـٰهِ ۖ وَالَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّـٰهِ (البقره: 165)
ترجمہ: “وہ انہیں اللہ کی طرح محبوب رکھتے ہیں۔ اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت نہیں ۔
صوفیائے کرام کا محبت کے حال یا مقام ہونے میں اختلاف ہے۔ امام طوسی فرماتے ہیں ” محبت حال ہے ، مقام نہیں ۔ ” اور ان کے نزدیک محبت کے تین مراتب ہیں ۔
(1) عوام الناس کی محبت ۔ یہ محبت اللہ تعالیٰ کے ان پر احسان اورمہربانی کرنے سے پیدا ہوتی ہے اور اس کی دلیل رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد عالیشان ہے ۔ آپ نے فرمایا ” دلوں کی فطرت ہے کہ کوئی ان پر احسان کرے اس سے محبت کرتے ہیں اور جو ان کے ساتھ اساءت کرے اس کے ساتھ وہ نفرت کرتے ہیں۔
(2) صادقین اور محققین کی محبت : اور یہ محبت دل میں اس وقت پیدا ہوتی ہے جب دل اللہ تعالیٰ کی عظمت اور بزرگی اور علم و قدرت کی طرف متوجہ ہوتا ہے ۔
(3) صدیقین اور محققین کی محبت : یہ لوگ محبت خداوندی کو بغیر سبب اور علت کے مقدم رکھتے ہیں ۔ اور وہ باری تعالیٰ کو بغیر کسی علت کے چاہتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ امام طوسی کے نزدیک محبت ایک حال ہے جو بندے کو بغیر محنت اور بغیر کسی عمل کے عطا کیا جاتا ہے۔ لیکن امام سہروردی کے نزدیک محبت حال بھی ہے اور مقام بھی۔ وہ فرماتے ہیں کہ محبت کی دو قسمیں ہیں۔
(1) محبت عام (2) محبت خاص
وہ اپنی کتاب عوارف المعارف میں فرماتے ہیں بعض مشائخ نے محبت کو روحانی مقامات میں شامل کیا ہے ایسی صورت میں اس سے مراد وہ عام محبت ہے۔ جس میں انسان کی تدبیر اور کوشش کو دخل حاصل ہو ۔ محبت خاص ، محبت ذات ہے۔ جو مشاہدہ روح سے پیدا ہوتی ہے۔ اور اسی محبت میں سکرات لاحق ہوتے ہیں ۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندے پر احسان اور عنایت ہے۔ اس کا تعلق احوال سے ہے۔ کیونکہ یہ محض عطیہ خداوندی ہے۔ اس میں تدبیر اور کوشش کا کوئی دخل نہیں جب ان کی یہ خاص محبت صحیح طریقے سے نمودار ہو جائے ۔ تو یہ لوگ ارشاد خدواندی کے مطابق مومنوں سے عاجزی اختیار کرتے ہیں۔ کیونکہ عاشق صادق محبوب اور اس کے پسندیدہ لوگوں کے سامنے عاجزی اختیار کرتا ہے۔
اسی طرح امام شعرانی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ” محبت کا تعلق حال سے بھی ہے اور مقام سے بھی۔ ان کے نزدیک محبت وہ مقام ہے جو بندے ہے جو بندے کو مجاہدے” ریاضت اور تصفیہ قلب سے حاصل ہوتا ہے یہاں تک کہ اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد صادق آتا ہے :
وَالَّـذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَـنَهْدِيَنَّـهُـمْ سُبُلَنَا (العنكبوت : 69)
ترجمہ : ” اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم اپنے راستے دکھا دیں گے۔”
محبت حال بھی ہے جو بندے کو بغیر کسی محنت کے من جانب اللہ عطا ہوتا ہے ۔ قطب الاقطاب امام ابو الحسن شاذلی رحمۃ اللہ علیہ محب کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حقیقی محب وہ ہے جو اپنے دل کو غیر اللہ سے پاک رکھتا ہے اور اپنے دل کے دروازے پر پہرے دار بن کر کھڑا ہو جاتا ہے اور شیطان اور اس کے وسوسے،نفس اور اس کی خواہشات اور مختلف قسم کے امراض سے دفاع کرتا ہے ۔ ابن عطاء سکندری فرماتے ہیں کہ حقیقی محب وہ ہے کہ جس کے دل پر اس کے محبوب کے علاوہ کسی دوسرے کا غلبہ نہ ہو۔ اور محبوب کی مشیئت کے علاوہ اس کی کوئی مرضی نہیں ۔
امام شعرانی” جن کو یہ مقام حاصل تھا۔ اپنے دل کی کیفیت کو یوں بیان کرتے ہیں ۔ کہ اللہ تعالیٰ کا مجھ پر خاص احسان ہے کہ اس نے میرے دل کو محفوظ کر لیا ہے۔ اب اس دل میں مخلوق خدا میں سے کسی کی محبت نہیں ٹھہرتی مگر اس کے حکم ہے۔ جب دل میں اللہ کی محبت کے سوا اور کچھ نہ ہو۔ تو وہ خود ہی اس کی حفاظت کا ضامن ہوتا ہے۔ اور اس بندے کو توحید ، عظمت اور جبروت کی تلوار عطا کر دی جاتی ہے۔ اور جو بھی اس کے دروازے کے قریب جاتا ہے اس کے سر کو اڑا دیتا ہے۔ اور جب بندہ اپنے دل کی حفاظت پر قادر ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس بندے کے دل پر اپنے خاص لشکر میں سے پہرے دار مقرر کر دیتا ہے۔ تاکہ شیطان اور خواہش نفسانیہ کی اس تک رسائی نہ ہو اور مخلوق خدا کے اس کی طرف توجہ ہونے اور پے در پے دنیاوی نعمتوں کی بارش سے اس کے اجر میں کمی نہ ہو۔
خالص توحید اور معرفت جب بندے کو حاصل ہوتی ہے۔ تو بندے کا دل محبت سے بھر جاتا ہے۔ اور جب بندے کو مقام محبت حاصل ہو جائے تو شیطان اس کے دل سے نکل جاتا ہے۔ اور وہ بندہ اس کے وساوس سے محفوظ ہو جاتا ہے جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سَلْطَانُ – (الحجر: 42)
ترجمہ : بے شک میرے بندوں پر تیرا کچھ قابو نہیں۔
تو بندہ جب اس مقام پر فائز ہو جاتا ہے تو مال و اولاد اس کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ اور نہ ہی اس کو اپنے رب سے غافل کرتے ہیں۔ کیونکہ اس کے ہاتھوں میں ہوتا ہے نہ کہ اس کے دل میں۔ جب مخلوق اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے تو دنیا اس کے قدموں میں آجاتی ہے۔ اور اس کو عزت مرتبہ اور عظمت حاصل ہوتی ہے۔ اور وہ ان چیزوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتا کیونکہ اس کے دل کی لو تو رب کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَعِبَادُ الرَّحْمَٰنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا – (الفرقان :63،64)
اور رحمان کے وہ بندے جو زمین پر آہستہ آہستہ چلتے ہیں۔ اور جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں میں سلام ۔
اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا محبین کے کچھ اوصاف جن کی وجہ سے وہ پہچانے جاتے ہیں۔ اور ایسی علامات ہیں جن سے یہ معلوم ہو کہ انہیں مقام محبت مل چکا ہے کیونکہ محبت دلوں میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ اس کو کیسے پہچانا جا سکتا ہے ؟ اور شوق و عشق کی آگ بغیر دھوئیں کے ہوتی ہے۔ تو اس کا ادراک کرنا کیسے ممکن ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح عمدہ عمدہ خوشبو کستوری کی موجودگی کا پتہ دیتی ہے اور لق و دق صحراء میں سبزے کا پایا جانا پانی کے وجود پر دلالت کرتا ہے ۔ اسی طرح محبین کے اوصاف اور علامتیں ہوتی ہیں۔ جو ان پر دلالت کرتی ہیں۔
محبین کی صفات
مشائخ کرام کی ایک جماعت نے شیخ جنید بغدادی رحمہ اللہ سے محبین کی صفات کے بارے میں دریافت کیا تو آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ اور فرمایا میں اس بندے کے اوصاف کیسے بیان کر سکتا ہوں ؟ جس کو اپنی ذات کا ہوش نہ ہو ہمیشہ اپنے رب کے ذکر میں مشغول اور اس کے حقوق کی ادائیگی میں مصروف ہو اور اپنے دل کی آنکھ سے اس ذات کا مشاہدہ کرنے والا ہو۔ اور حال یہ ہو کہ اس کے دل کو عظمت وہیبت کی آگ نے جلا ڈالا ہو۔ اور شراب طہور اسے میسر ہو۔ غیب کے پردے اس کیلئے منکشف ہو جائیں اگر وہ گفتگو کرے تو اللہ کے حکم سے اور الہام خداوندی ہی اس کا کلام ہو اس کی حرکت اور سکون بھی اللہ کے حکم سے ہو۔ اور اس کا ہر کام اللہ کی مدد سے اللہ کیلئے رب زو الجلال کی معیت میں سرانجام پاتا ہے۔
شیخ جنید بغدادی رحمہ اللہ کے نزدیک محب صادق وہ ہوتا ہے جو ہمیشہ اپنے رب کا ذکر کرتا ہے اور کبھی اس سےغافل نہیں ہوتا۔ اور اپنے فرائض وو اجباب کی ادائیگی میں کو تاہی اور سستی کا مرتکب نہیں ہوتا۔ جب بندے کو یہ مقام حاصل ہو جائے تو پر دے منکشف ہو جاتے ہیں وہ اپنےعمل اور ترک عمل نیند اور بیداری میں عبد ربانی بن جاتا ہے۔
ابن قیم نے اپنی کتاب ” طریق ہجر تین ” میں صفات محبین کا تذکرہ کیا ہے کہ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے دل معرفت الہی سے مملو اور اس کی محبت اور خشیت اور اجلال اور مراقبے سے معمور ہوتے ہیں مگر یہ محبت ان کے ہر ہر جزومیں سرایت کر جاتی ہے اور یہ محبت اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر چیز کے ذکر کو بھلا دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسری چیز میں سکون حاصل نہیں ہوتا۔ وہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے مقابلے میں تمام محبتوں سے دل پھیر لیتے ہیں اور ماسوی اللہ ہر چیز کو ترک کر دیتے ہیں اس وقت رب ہی ان کی سماعت بن جاتا ہے جس سے وہ سنتے ہیں۔ بصر بن جاتا ہے جس سے وہ دیکھتے ہیں۔ اور ان کا ہاتھ بن جاتا ہے۔ جس سے وہ پکڑتے ہیں۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جن کا دل کائنات کی ہرشی سے ترقی کر کے اللہ کے سامنے سر بسجود ہو جاتا ہے ابن قیم کے نزدیک محب وہ ہوتا ہے جسے اللہ تعالیٰ کی سچی محبت حاصل ہو۔ وہ اللہ تعالیٰ کے غیظ و رحمت عظمت و کبریائی ، جمال و جلال ، فضل و احسان سے آگاہ ہوتا ہے اور اس کا دل محبت الہی سے مملوء ہوتا ہے اور غیر کیلئے کوئی جگہ نہیں ہوتی اور جب اس کو خالص محبت اور کامل عبودیت حاصل ہو جاتی ہے تو اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد صادق آتا ہے
عَبْدِي أَطِعْنِي تَكُنْ رَبَّانِيَّاً، تَقُولُ للشَّيْءِ كُنْ فَيَكُونُ
ترجمہ : اے میرے بندے ! اس سے محبت کر تو تو ربانی ہو جائے گا اور جس چیز کو “کن” کہے گاوہ اسی وقت ہو جائے گی ۔
سلطان العاشقین ، امام المحبین شیخ ابن فارض ہمارے لئے محبت کے اوصاف بیان کرتے ہیں ڈاکٹر مصطفی حلمی فرماتے ہیں کہ ابن فارض کے نزدیک محبت وہ جو ہر ہے جو انسانی نفس کو انتہائی بلندی پر فائز کر دیتا ہے اور اس کو ہر قسم کی علائق اور خواہشات نفسانیہ سے پاک کر کے اس کو مادی قیود سے آزاد کر دیتا ہے اور نفس کو وساوس اور خطرات سے مبراء و منزہ کر دیتا ہے ۔ پھر نفس، ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے ایک خالص لطیف روح کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور اس میں اتنی قوت ہوتی ہے کہ ملاء اعلی تک رسائی حاصل کر کے جمال جہاں آراء کا مشاہدہ کر لیتا ہے۔
امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ بھی محب صادق کی صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ محب صادق وہ ہے جس میں درج ذیل صفات جمع ہو جائیں ذوق و شوق دل کی تپش حزن وشغف آه وبکا، شب بیداری و سحر خیزی دہشت و حیرت خشوع و خضوع اخفاء و اظہار و غیره
محبت کی یہی تعریف بعینہ شیخ ابراہیم دسوقی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تعلیم میں بیان کی ہے۔
ألا قل لمن يدعي حبنـــــــا ويزعم أن الهوى قد علـــــــق
اسے کہہ دو جو ہماری محبت کا دعویدار ہے اور گمان کرتا ہے کہ محبت دل میں پیوست ہو گئی ہے ”
لو كان فيما إدعى صادقـــا لكان على الغصن بعض الـورق
اگر وہ اپنے دعوی میں سچا ہوتا تو پتوں کی طرح ترو تازہ نہ ہوتا
وأين الخضوع وأين الدمــوع وأين السهاد وأيــــــــن الأرق
کہاں ہے وہ کمزوری اور لاغری ؟ کہاں ہیں وہ آنسو اور کہاں ہے راتوں کا جاگنا۔
محب صادق کیلئے ان صفات کا ہونا ضروری ہے شریعت مطہرہ کی پیروی کرے اور جو محب اوامر الہیہ کی مخالفت اور نواہی سے اجتناب نہیں کرتا وہ اپنے دعوی محبت میں کبھی صادق نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ محب ، محبوب کا مطیع ہوتاہے اس کے اوامر کو بجا لاتا ہے اور اس کی منع کردہ چیزوں سے دور رہتا ہے اور محب صادق اللہ تعالیٰ کے وعده و وعید میں شک نہیں کرتا یہ کیسے ممکن ہے کہ محب ہو اور اپنے محبوب کے قول میں شک کرے اسی طرح اخلاص اور صدق بھی محبین کی صفات ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے
رجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنتَظِرُ(الاحزاب : 23)
ترجمہ : مسلمانوں میں کچھ وہ مرد ہیں جنہوں نے سچا کر دیا جو عہد اللہ سے کیا تھا۔ تو ان میں کوئی اپنی منت پوری کر چکا ۔ اور کوئی راہ دیکھ رہا ہے۔
مصیبت میں صبر کرنا اور رضا بالقضاء کو بھی صفات محبین میں شمار کیا جاتا ہے صوفیاء کرام کے نزدیک حصول محبت کا ذریعہ اللہ تعالیٰ ٰ کا ذکر اور اس کی وحدانیت کو استعمال کرنا ہے توحید دل کو خواہشات نفسانیہ کینہ وحسد اور وساوس شیطان سے پاک کر دیتی ہے یہ تمام اشیاء بندے کو اپنے رب سے دور کر دیتی ہیں اور اس کے اور مولی کے مابین حائل ہو جاتی ہیں جب دل شہوات سے خالی ہو اور نفس انسانی خواہشات سے پاک ہو۔ اس وقت بندے کا دل رب کی محبت کا گھر ہوتا ہے جیسا کہ حدیث قدسی میں آیا ہے
مَا وَسِعَنِي لَا سَمَائِي وَلَا أَرْضِي وَلَكِنْ وَسِعَنِي قَلْبُ عَبْدِي الْمُؤْمِنِ
ترجمہ : اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ” میں نہ تو زمین میں سما سکتا ہوں اور نہ آسمان میں مگر بندہ مومن کے دل میں سما جاتا ہوں”
جب دل شہوات سے خالی ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی توحید اور محبت اس میں بس جاتی ہے (تو وہ) علوم غیبیہ اور اسرار و معارف کا محل بن جاتا ہے پس وہ رب کی ایسی معرفت حاصل کر لیتا ہے کہ کبھی اس سے دور نہیں ہوتا۔ اور اس طرح راضی برضائے الہی ہو جاتا ہے کہ ناراضگی کا شائبہ تک نہیں رہتا اور ہمیشہ ذکر میں مصروف رہتا ہے یہاں تک کہ کبھی وہ ذکر محبوب کو نہیں بھولتا ۔
حال شوق
شیخ الواسطی نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد
وَ عَجِلْتُ اِلَیْكَ رَبِّ لِتَرْضٰى ” کی تفسیر بیان کرتے ہوئے بیان فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام نے جلدی کی کیونکہ ان کا شوق غالب تھا۔ اور اپنے پیچھے آنے والوں کی پرواہ نہ کی اور اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کے ذوق میں انہیں پیچھے چھوڑ آئے
مروی ہے کہ حضور اپنی دعا میں ارشاد فرمایا کرتے تھے
اے رب تیرے دیدار کی لذت اور ملاقات کے شوق کا سوال کرتا ہوں” شوق کا تعلق احوال محبت سے ہے کیونکہ ہر محب مشتاق ہوتا ہے اور شوق بندے کا اختیاری عمل نہیں ہے یہ اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت ہوتی ہے اپنے محبین میں سے جسے چاہتا ہے عطا فرما دیتا ہے امام طوسی فرماتے ہیں ” شوق سے مراد بندےکی وہ حالت ہے کہ محبوب کی ملاقات کے شوق میں اپنی زندگی سے اکتا جائے ”
امام قشیری رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ محبوب کی ملاقات کیلئے دل میں جو ہیجان پیدا ہوتا ہے اسے شوق کہتے ہیں اور محبت کی مقدار کے مطابق شوق ہوتا ہے
ابن عطاء اللہ سکندری سے شوق کے متعلق سوال کیا گیا تو فرمایا ” دل کے جلنے اور جگر کے ٹکڑے ہونے کا نام شوق ہے جب ان سے پوچھا گیا کہ شوق اعلیٰ ہے یا محبت تو فرمایا محبت کا درجہ بلند ہے کیونکہ شوق محبت سے ہی پیدا ہوتا ہے
امام سہروردی فرماتے ہیں کہ محبت اور شوق کا تعلق اسی طرح ہے جیسے زہد اور توبہ کا جب تو بہ پختہ ہو جائے تو زہدکا آغاز ہوتا ہے اسی طرح جب محبت میں بس جاتی ہے تو شوق کا آغاز ہوتا ہے بعض لوگوں نے حالت شوق کا انکار کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ شوق اس کیلئے ہوتا ہے جو غائب ہو اور محبوب کب محب سے غائب ہوتا ہے کہ اس کا مشتاق ہو ۔
امام شعرانی فرماتے ہیں کہ حالت شوق کا انکار کرنا صحیح نہیں کیونکہ شوق محبین میں موجود ہوتا ہے اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ان کے نزدیک مشاہدہ اور ملاقات کا شوق بعد اور غیبوبت کے شوق سے دور ہوتا ہے۔
بایزید بسطامی رحمۃ اللہ کا قول بھی امام شعرانی کے قول کا مؤید ہے فرماتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ اہل جنت کو اپنے دیدار سے محروم کر دے تو وہ جنت سے پناہ مانگیں گے جن طرح جہنم والے آگ سے پناہ مانگتے ہیں کسی شاعر نے اس مفہوم کو یوں بیان کیا ہے
مَا يَرجعُ الطَّرفُ عَنها حِينَ يُبصِرُها حَتَّى يَعودَ إِليها الطَّرفُ مشتَاقَا
ترجمه : دیدار آنکھ اس کے چہرے سے نہیں ہٹتی کہ اس کی طرف اشتیاق سےلوٹے ۔ ۔
حال انس
حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ سے انس کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا محب کا محبوب سے بے تکلف ہونا انس ہے اور کہا گیا ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قول ”
اَرِنِیۡ کَیۡفَ تُحۡیِ الۡمَوۡتٰی ( البقرہ : 260) اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قول رَبِّ اَرِنِیْۤ اَنْظُرْ اِلَیْكَؕ ا سی قبیل سے ہے۔
امام طوسی فرماتے ہیں اللہ کے ساتھ انس کا معنی یہ ہے کہ بندہ اس کے ساتھ اعتماد کرے اور اسی سے سکون کا طالب ہو فرماتے ہیں کہ اس سے زیادہ انس کی وضاحت نہیں ہو سکتی
مروی ہے کہ مطرف ابن عمیر نے عمر بن عبد العزیز کی طرف لکھا ” چاہیے کہ تیرا انس صرف اللہ کے ساتھ خاص ہو۔ اور سب کو چھوڑ کر اس کے ہو رہو ۔ اللہ تعالیٰ کے بعض بندے ایسے بھی ہیں کہ جب انہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ انس ہو جاتا ہے تو انہیں خلوت میں بھی وہ سکون میسر ہوتا ہے جو دوسرے لوگوں کو جلوت میں میسر نہیں
حضرت رابعہ بصر یہ رحمۃ اللہ علیھا فرماتی ہے کہ ہر مطیع صاحب انس ہوتاہے اور کسی شاعر نے اس طرح بیان کیا ہے
فَالْجِسْمُ مِنِّي لِلْجَلِيسِ مُؤَانِسٌ وَحَبِيبُ قَلْبِي لِلْفُؤَادِ أَنِيسِي
ترجمہ: “میں نے تجھے اپنے دل میں چھپا لیا تیرے ساتھ گفتگو کرنے کیلئے اوراپنے جسم کو مباح کر دیا جو کہ میرے پاس بیٹھنے کا ارادہ کرے میرا جسم ظاہری ہم نشین سے مانوس ہے حالانکہ میرے دل کا محبوب میرے دل ہی میں بسا ہوا ہے ”
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مقام انس پر بندہ کب فائز ہوتا ہے امام شعرانی فرماتے ہیں
” انس باطن کی پاکیزگی ، کمال تقوی ، قطع اسباب اور خواطر قلبیہ کے خاتمہ سے ہوتا ہے ؟
امام شعرانی فرماتے ہیں کہ انسان کو اپنے ہم جنس سے انس حاصل ہوتا ہے رب اور بندے کے درمیان مجانست موجود نہیں اس لیے انس سے مراد وہ لذت قرب ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو عطا فرماتا سے ہے اس سے انس مراد نہیں ، اور محققین کے نزدیک انس باللہ صحیح نہیں ۔ جس طرح کہ امام شعرانی کی رائے ہے اور بندے کو جو انس اور محبت حاصل ہوتی ہے یہ اللہ تعالیٰ کی اس کے دل کی طرف خاص توجہ اور عنایت سے ہوتی ہے
حال قرب
ارشاد خداوندی ہے !
وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌؕ (البقره : 182)
ترجمہ : اور اے محبوب ! جب تم سے میرے بندے مجھے پوچھیں، تو میں نزدیک ہوں ۔
اور ارشاد فرمایا
وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ( الواقعہ : 16)
ترجمہ: اور ہم دل کی رگ سے بھی اس کے زیادہ پاس ہیں ۔
ایک اور مقام پر اللہ جل مجدہ نے اپنے نبی مکرم کو فرمایا
وَاسْجُدْ وَاقْتَرَب (العلق:19)
ترجمہ: اور سجدہ کرو اور رب کے قریب ہو جاؤ
ارشاد نبوی ہے۔
أَقْرَبُ مَا يَكُونُ الْعَبْدُ مِنْ رَبِّهِ وَهُوَ سَاجِدٌ ( المسلم – ابوداؤد)
ترجمہ: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔ بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب اس کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوتا ہے ۔
ڈاکٹر عبد الحلیم محمود فرماتے ہیں کہ سجدے کو دین اسلام میں بڑی اہمیت حاصل ہے سجدہ انسان کو جنت میں داخل کر دیتا ہے۔
حضرت امام مسلم اپنی صحیح میں ربیعہ ابن کعب الاسلمی” سے جو کہ خادم رسول میں اور اصحاب صفہ میں سے تھے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا
میں نبی کریم ﷺ کے کاشانہ انور کے دروازے پر سوتا تھا۔ جب آپ بیدار ہوتے تو میں وضو کا پانی اور دیگر اشیاء ضرورت حاضر کرتا ایک دن رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔ اے ربیعہ !ما نگو جو چاہتے ہو۔ میں نے عرض کی جنت میں آپ کی رفاقت کا طالب ہوں فرمایا اس کے علاوہ بھی کچھ مانگ لو میں نے عرض کی میری بس یہی طلب ہے ارشاد فرمایا کثرت سجود کے ساتھ حصول مقصد کیلئے تعاون کرو ۔ ”
امام طوسی فرماتے ہیں ” حالت قرب اس بندے کو حاصل ہوتی ہے جو اپنے دل کے ساتھ اللہ عزوجل کا مشاہدہ کرتا ہے اور اپنی اطاعت کے ساتھ مزید قرب حاصل کر لیتا ہے اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہتا ہے
حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ جس قدر اپنےبندوں کے دلوں کو اپنے قریب دیکھتا ہے اس قدر وہ بھی انکے قریب آجاتا ہے۔ اب دیکھنا یہ چاہیے کہ وہ تمہارے دل کے کتنا قریب ہے۔
شیخ نصر بازی فرماتے ہیں معرفت اتباع سنت سے حاصل ہوتی ہے قربت ادائیگی فرض سے اور محبت نوافل پر مواظبت کرنے سے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بندہ کو کب قرب حاصل ہوتا ہے۔ امام شعرانی فرماتے ہیں کہ بندے کو اپنے رب کا قرب اس وقت حاصل ہوتا ہے ۔ جب مخلوق کے دل اس کیلئے سخت ہو جاتے ہیں ان کی زبانیں اس کی مذمت کیلئے کھل جاتی ہیں اور اس کی تعریف و توصیف سے رک جاتی ہیں اوراس کے ساتھ میل جول کو ترک کر دیا جاتا ہے۔
امام شعرانی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بندے کو اپنے رب کا قرب اس وقت تک نہیں نواز تا جب تک وہ کسی غیر سے نفع و نقصان کی امید رکھتا ہے۔
اے بندے ! اپنے رب کے ساتھ حسن ظن رکھ۔ اور اس ذات کی طرف دیکھ جو ہر وقت تیری نگہبان ہے۔ اور اس ذات کی طرف متوجہ ہو جا۔ جو تیری طرف متوجہ ہے ۔
امام قشیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قرب کا سب سے پہلا مرتبہ یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور عبادت میں مصروف ہو جائے۔
حدیث قدسی ہے کہ مقربین کو قرب ادائیگی فرض سے بڑھکر کسی اور چیز سے حاصل نہیں ہوتا۔ بندہ نوافل کے ذریعے قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اسے محبوب بنا لیتا ہوں اور جب محبوب بنالیتا ہوں تو میں اس کی سمع و بصر بن جاتا ہوں تو وہ میری طاقت سے ہی دیکھتا اور سنتا ہے ۔
حال حیاء
حیا کی دو قسمیں ہیں (1) عام (2) خاص
حیاء عام: اس سے مراد وہ حیاء ہے جس کا حکم نبی ﷺ نے اپنی اس حدیث پاک میں فرمایا ۔ ارشاد فرمایا ”
اللہ تعالیٰ سے حیاء کرو جس طرح اس سے حیاء کرنے کا حق ہے ” صحابہ کرام نے عرض کی یا رسول اللہ ہم سب اللہ سے حیا کرتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ حیا مقصود نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ سے جو حقیقی حیا کرتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اپنے سر اور ذہنی افکار کی حفاظت کرے اپنے پیٹ اور جو کچھ اس میں ڈالا ہے اس کا خیال رکھے موت اور ہڈیوں کے بوسیدہ ہونے کا خیال رکھے اور جو آخرت کا ارادہ رکھتا ہے وہ دنیا کی زینت کو ترک کر دیتا ہے جو انسان ان تمام امور کو انجام دے وہی اللہ تعالیٰ سے حقیقی حیاء کرنے والا ہے (الترمذی)
حیا کی اس قسم کا تعلق مقامات سے ہے مگر حیاء خاص کا تعلق احوال سے ہے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کاحیا بھی اسی قبیل سے ہے آپ فرماتے ہیں کہ جب میں اندھیرے کمرے میں غسل کرتا ہوں تو اس وقت بھی خدا سے حیا کی وجہ سے پانی پانی ہو جاتا ہوں۔
حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میری اس بات کو ذہن نشین کر لو ۔ حیا اور انس دونوں دل کا طواف کرتے ہیں جب دل میں زہد و ورع پاتے ہیں تو وہاں اتر آتے ہیں ورنہ کوچ کر جاتے ہیں اللہ تعالیٰ کی عظمت کے سامنے روح کا سرنگوں ہونا ” حیا” ہے اور اس کے جمال کامل سے لذت حاصل کرنا ” انس ” کہلاتا ہے اور جب یہ دونوں جمع ہو جائیں تو یہ اللہ تعالیٰ کی نہایت درجہ کی عنایت ہے ۔ کسی شاعر نے کیا خوب ترجمانی کی ہے۔
أَشْتَاقُهُ فَإِذَا بَدَا أَطْرَقْتُ مِنْ إِجْلَالِهِ
لَا خِيفَةً بَلْ هَيْبَةً وَصِيَانَةً لِجَمَالِهِ
فَالْمَوْتُ في إعْرَاضِهِ وَالْعَيْشُ فِي إقبَالِهِ
وَأَصُدُّ عَنْهُ تَجَلُّدًا وَأَرُومُ طَيْفَ خَيَالِهِ
ترجمہ :میں اس کا انتہائی مشتاق ہوں جب وہ ظاہر ہوتا ہے تو اس کے رعب و جلال میں نظریں نیچی کر لیتا ہوں ۔
تو یہ رعباور خوف کی وجہ سےنہیں ہے بلکہ اس کی نیت اور اس کے جمال کی حفاظت کی وجہ سے ہے۔
اس کی رو گردانی میں موت اور اس کی توجہ سے زندگی ہے ۔
جب دو ظا ہر ہوتا ہے تو میں منہ پھیر لیتا ہوں اور پھر اس کے خیال اور تصور میں محو رہتا ہوں۔
یہ محبین اور مخلصین کے بعض احوال ہیں جن کا ہم نے ذکر کیا ہے اور امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ کو یہ تمام احوال حاصل تھے۔ وہ اپنے رب کے مشتاق اور اس کے فضل و کرم سے مانوس اور اس کی نعمتوں اور احسان میں مستغرق تھے اپنے مولی کے قریب تھے اور مولی سے دور کرنے والی ہر چیز سے کنارہ کشی اور دور تھے رب ذوالجلال سے انتہائی حیاء کرتے تھے اور انہیں ہمیشہ یہ خوف طاری رہتا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ انہیں کسی ایسے کام میں مشغول پائے جس کا اس نے حکم نہیں دیا اور یہ چیز اللہ تعالیٰ سے دوری کا باعث ہو اور انہیں ہمیشہ یہ خوف لاحق ہوتا تھا کہ ان کے دل میں کوئی ایسا خاطر نہ کھٹکے جو ان کو ان کے مولی سے دور کردے ۔
مقام رحمت
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ۔
محَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشَدَاءٌ عَلَى الْكَفَّارِ رُحَمَاء بَيْنَهُمْ ( الفتح : 29)
ترجمہ : محمد اللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت ہیں آپس میں نرم دل ۔
نبی کریم ﷺ دعوت محمدیہ کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔
أَنَا رَحْمَةٌ مُهْدَاةٌ ترجمہ: “میں ہدایت یافتہ رحمت ہوں ”
دین اسلام میں رحمت کو بڑی شان اور اہمیت حاصل ہے اسلام اپنے پیروکاروں کو رحمت کی تعلیم دیتا ہے اس وجہ سے رحمت ایک مقام ہے جس کو طالب تگ ودو اور سعی سے حاصل کرتے ہیں۔
امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ رسول اللہ ﷺ کی سنت کی پیروی کیا کرتے اور سرور کائنات ﷺ کے ہر ہر فعل کی اتباع کرتے تھے انہوں نے اپنی ذات کیلئے کچھ شرائط اور قواعد مقرر کیے ہوئے تھے جس کے مطابق وہ زندگی بسر کیا کرتے تھے ان شرائط کو وہ خود ہی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ” میں اپنے گھر سے اس وقت نکلوں گا جب مجھ میں لوگوں کی تکالیف دور کرنے کی طاقت ہو گی یعنی ان کی زندگی کا مقصد لوگوں کی تکالیف کو دور کرنا اور ان کے لئے اسباب راحت مہیا کرنا تھا۔ جب بھی مسلمانوں پر کوئی مصیبت نازل ہوتی یا فصلیں برباد ہو جاتیں یا پیداوار میں کمی ہو جاتی تو فرماتے نہ کھاؤں گا نہ پیوں گا اور نہ ہی ازدواجی تعلقات قائم کروں گا۔ اور نہ ہی ہنسوں گا ۔ اس طرح وہ اہل وطن کے مصائب و آلام میں شریک ہوتے یہاں تک کہ ان مصائب کا خاتمہ ہو جاتا یا ان میں نمایاں کمی واقع ہو جاتی۔
امام شعرانی امت مسلمہ کے جسم کا ایک حصہ تھے وہ مسلمانوں کو محبت اور الفت کے بندھن میں باندھنے والی زنجیر کا ایک حلقہ تھے۔ اس وجہ سے جب امت اسلامیہ کے کسی ایک فرد کو تکلیف یا اذیت پہنچتی تو آپ بھی تکلیف محسوس کرتے جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے
مَثَلُ المُؤْمِنِينَ في تَوَادِّهِمْ وتَرَاحُمِهِمْ وتَعَاطُفِهِمْ، مَثَلُ الجَسَدِ إذا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى له سَائِرُ الجَسَدِ بالسَّهَرِ والحُمَّى (صحیح مسنداحمد)
ترجمہ: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا “مسلمانوں کی مثال باہمی محبت رحمت اور مہربانی میں جسم کی طرح ہے کہ جب اس کا ایک عضو تکلیف زدہ ہو تو ساراجسم بیماری اور بیداری میں اس کے ساتھ شریک ہوتا ہے۔
اور جو لوگ مقام رحمت پر فائز ہوتے ہیں وہ انتہائی رقیق القلب ہوتے ہیں وہ دوسروں کی تکلیف اور مصائب میں ہمیشہ مضطرب اور پریشان رہتے ہیں۔ اور انہیں صرف اس وقت ہی سکون اور چین ملتا ہے جب قوم کا کوئی فرد مصیبت سے دوچار نہ ہو۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جب کسی لشکر کو اشاعت دین اور تادیب اہل شرک و کفر کیلئے روانہ کرتے تو فرماتے کہ اللہ کی برکت سے چلو اور میں تمہارے اہل و عیال کیلئے باپ کی مثل ہوں۔ یہاں تک کہ واپس لوٹ آؤ غور کرنے کا مقام ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو مجاہدین کے اہل و عیال کیلئے باپ کے قائم مقام قرار دیا۔ کیونکہ باپ اپنی اولاد کیلئے انتہائی رحمدل اور از حد مہربان ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنا سب کچھ اولاد کی سعادت کیلئے نچھاور کر دیتا ہے ایک اور روایت میں ان کے بارے میں آتا ہے کہ جب بھی مسلمانوں پر کوئی آزمائش آجاتی یا وہ کسی مصیبت سے دوچار ہوتے تو آپ بیمار ہو جاتے۔ لوگ ان کی عیادت کے لئے جاتے۔ یہی حالت حضرت علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر بن عبد العزیز اور امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ کی تھی۔
امام شعرانی صحابہ کرام اور تابعین عظام کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جب بھی مسلمان کسی مصیبت سے دوچار ہوتے تو یہ کھانا پینا چھوڑ دیتے۔ کیونکہ وہ مسلمانوں کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتے ۔ اور ان کی یہ حالت برقرار رہتی۔ یہاں تک کہ مصیبت ختم ہو جاتی حقیقتاً وہ نبی کریم ﷺ کے اس فرمان عالیشان پر کار بند تھے ارشادرسول عربی ہے
وَمَنْ لَّمْ يَتُم بِأَمْرِ الْمُسْلِمِينَ فَلَيْسَ مِنْهُمْ( رواه الطبرانی )
ترجمہ: اور جس نے مسلمانوں کے امور کا صحیح طور پر اہتمام نہ کیا وہ ہم میں سے نہیں ۔
امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ کو خواب میں اس مقام کے حصول کی خوشخبری ملی فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں عالم شباب میں ہوں اور بلور کے وسیع و عریض میدان میں کھڑا ہوں جس کے اردگر آسمان تک بغیر دروازے کے دیوار ہے۔ میں شیخ نور الدین شونی کے پیچھے تھا( یہ وہ بزرگ ہیں جنہوں نے مصر اور اس کے گرد و نواح میں نبی کریم ﷺ پر درود و سلام کی محافل کا اجراء کیا تھا) اسی اثناء میں کہ میں جا رہا تھا کہ آسمان سے سونے کی زنجیر میں معلق ایک مشکیزہ اترا۔ اور بلندی پر ٹھہر گیا کہ کھڑے آدمی کا منہ اس تک پہنچ جائے پہلے شیخ نور الدین شونی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مشکیزے سے پانی پیا۔ اور باقی ماندہ مجھے عطا کر دیا ۔ پھر چلتے چلتے میں ان سے آگے بڑھ گیا یہاں تک کہ وہ غائب ہو گئے پھر چاندی کی زنجیر میں معلق سختی کی مثل ایک شی نازل ہوئی یہ بھی مشکیزے کی مقدار پر ٹھہر گئی میں نے دیکھا کہ اس میں ٹھنڈے پانی کے ابلتے ہوئے تین چشمے تھے جو شکر سے بھی زیادہ شیریں تھے ۔ میں نے اوپر والے چشمے پر لکھا ہوا دیکھا کہ یہ عرش کے چشموں سے لیا گیا ہے اور نیچے والے چشمے پر لکھا ہوا تھا کہ اس کا تعلق کرسی کے چشموں سے ہے۔ مجھے الہام ہوا کہ عرش کے چشمے سے پانی پی لو۔ میں نے یہ خواب شیخ شہاب الدین الہوازمی کو سنایا کیونکہ وہ خوابوں کی تعبیر بیان کرتے تھے انہوں نے فرمایا ” تم عالم دنیا کیلئے رحمت کی صفت سے متصف ہو گے ؟
نبی کریم ﷺ جب بھی کوئی خواب دیکھتے تو صبح کے وقت وہ چیز بعینہ رونما ہو جاتی اور آپ کے بعد آپ کے امتیوں کو بھی یہ مقام حاصل ہے کیونکہ نبی پاک کا ارشاد گرامی ہے
الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْءًا مِنْ النُّبُوَّةِ ( صحیح بخاری ۔ صحیح مسلم)
ترجمہ: مومن کا خواب اجزاء نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔
اور رحمت خوف کا تقاضا کرتی ہے۔
مقام خوف
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ (الرحمن : 46)
ترجمہ: اور جو اپنے رب کے حضور کھڑا ہونے سے ڈرے اس کیلئے دو جنتیں ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے وہ فرماتی ہے کہ میں نے عرض کی یا رسول اللہ ! کیا اس آیت کریمہ
وَ الَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَاۤ اٰتَوْا وَّ قُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ سے مراد وه شخص ہے جو چوری کرتا ہے زنا کرتا ہے اور شراب پیتا ہے فرمایا نہیں بلکہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو روزہ رکھتا ہے نماز پڑھتا ہے اور راہ خدا میں صدقہ کرتا ہے مگر ڈرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو قبول کرتا ہے یا نہیں ”
امام قشیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ خوف کا تعلق زمانہ مستقبل سے ہے کیونکہ انسان ہمیشہ اس بات سے ڈرتا ہے کہیں اس پر کوئی مصیبت نازل نہ ہو جائے یا اس کی کوئی محبوب چیز نہ چھن جائے اور ان دونوں کا تعلق مستقبل سے ہے ۔ اور اللہ سے خوف کا مطلب یہ ہے کہ بندہ دنیا اور آخرت میں عذاب الہی سے ڈرے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر فرض کیا ہے کہ وہ اس سے ڈریں ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے
وَ خَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ( آل عمران : 175)
ترجمہ: اور تم مجھ سے ڈرو اگر تم مومن ہو۔
اور اللہ نے ان مومنین کی مدح فرمائی ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اللہ جل مجدہ نے ارشاد فرمایا
يخَافُونَ رَبَّهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ (النحل :50)
ترجمہ: وہ اپنے اوپر اپنے رب کا خوف کرتے ہیں۔
امام طوسی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک خوف کی تین قسمیں ہیں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جب خوف کا ذکر کیا یا تو ایمان کو اس کے ساتھ ملا دیا
ارشاد خداوندی ہے
فَلَا تَخَافُوْهُمْ وَخَافُونَ إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ
ترجمہ : “پس ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو اگر تم مومن ہو۔”
یہ خواص کا خوف ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے مزید ارشاد فرمایا
وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ (الرحمان 46)
ترجمہ : اور جو اپنے رب کے حضور کھڑا ہونے سے ڈرا اس کیلئے دو جنتیں ہیں
یہ متوسطین کا خوف ہے ۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔
یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْهِ الْقُلُوْبُ وَ الْاَبْصَارُ( النور : 37)
ترجمہ :ڈرتے ہیں اس دن سے جس میں الٹ جائیں گے دل اور آنکھیں ۔
یہ عوام کا خوف ہے)
امام ابن عجیبہ رحمۃ اللہ علیہ بھی امام طوسی کی طرح خوف کی تین قسمیں بیان کرتے ہیں (1) مبتدی لوگوں کا خوف (2) متوسطین کا خوف (3) منتہی درجہ والوں کا خوف ۔
مبتدین کیلئے ضروری ہے کہ ان پر جانب خوف غالب رہے ۔ اور متوسطین کیلئے ضروری ہے کہ ان پر خوف و رجاء برابر رہے، اور منتہین کیلئے ضروری کہ ان پر جانب رجاء کا غلبہ رہے وجہ یہ ہے کہ مبتدین پر جانب خوف غالب ہوگی تو اعمال میں مزید کوشش کریں گے اور متوسطین کی عبادت ظاہر سے باطن کی طرف منتقل ہو جائے گی ۔ یعنی ان کی عبادت قلبی ہوتی ہے اگر ان پر جانب خوف غالب آجائے تو پھر ظاہری اعضاء کی طرف پلٹ آئیں گے ۔ حالانکہ مقصود قلبی عبادت ہے اور جو واصلین ہیں ان کا عمل اور ترک اپنی ذات کیلئے نہیں ہو تا بلکہ خالصتا اللہ تعالیٰ کیلئے ہوتا ہے اور ان کی نگاہ مشاہدہ حق اور قضا و قدر پر ہوتی ہے انہیں جو بھی بارگاہ ایزدی سے میسر آتا ہے اسے قبول کر لیتے ہیں۔ امام طوسی اور امام ابن عجیبہ نے خائفین کے احوال اور مراتب بیان فرمائے ہیں لیکن امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ خوف کے نتیجہ اور ثمر کو بیان فرماتے ہیں کہ خوف بواسطہ انداز و تخویف نیکی کی طرف مائل کرتا ہے۔ جس طرح کہ رجاء بواسطہ رغبت نیکی کا سبب بنتی ہے ۔
امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مومن جب تک اس دنیا میں رہتا ہے تو اس کے دل پر خوف طاری رہتا ہے اور اس کے کئی ایک اسباب ہیں۔
(1) مومن معصوم عن الخطاء نہیں ۔
(2) فطری طور پر انسان شہوات نفسانیہ کے مقابلہ میں کمزور ہے ۔
(3)شیطان کا وجود جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے لَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَ اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِیْنَ (الحجر: 40)
ترجمہ: اور ضرور میں ان کو سب کو بے راہ کردوں گا مگر جو ان میں تیرےچنے ہوئے بندے ہیں۔
اسی وجہ سے اپنے مریدین کو متنبہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ” اے مریدا اگر چه تو شب و روز مراقبے میں مشغول رہے پھر بھی کسی گناہ میں مبتلا ہونے کو بعید نہ جان ۔ ” فرماتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کے علاوہ کوئی بھی معصوم عن الخطاء نہیں جب تک ہم اس دنیا میں ہیں ہمیں بے خوف نہیں ہونا چاہیے کیونکہ شیطان نے بہت سے ایسے لوگوں کو گمراہ کیا ہے جو اپنے آپ کو بڑے متقی اورپار سا گمان کرتے تھے ارشاد باری تعالیٰ ہے
فَلَا يَا مَن مكر اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الخَاسِرُونَ (الاعراف : 99)
ترجمہ: تو اللہ کی مخفی تدبیر سے نڈر نہیں ہوتے مگر تباہی والے
شیخ حاتم الاصم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کسی اچھی جگہ سے دھو کہ نہ کھا جنت سے بڑھ کر کوئی اچھی جگہ نہیں لیکن اس میں حضرت آدم علیہ السلام کا قصہ معروف ہے ۔ اور کثرت عبادت سے دھوکہ نہ کھا۔ کیونکہ شیطان بھی بہت بڑا عابد تھا اور کثرت علم سے دھوکہ نہ کھا۔ بلعام بھی اسم اعظم کو جانتا تھا۔ اس کا جو حال ہوا وہ سب کو معلوم ہوا ۔ صالحین کی زیارت سے دھوکہ نہ کھا کیونکہ نبی کریم سے بڑھ کر کوئی بھی صالح و پارسا نہیں ۔ لیکن آپ کے دشمن اورکئی اقارب آپ کی زیارت و ملاقات سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔
خوف اگر امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نیکیوں کا سبب ہے تو امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک وہ استقامت اور احکام دین کی اتباع کا سبب ہے ۔ جب بندہ بسبب خوف الہی اس کے احکام کو بجالاتا ہے اور اسے استقامت حاصل ہو جاتی ہے تو وہ گناہوں میں واقع ہونے سے بچ سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عمر فاروق نے حضرت صہیب رضی اللہ عنہما کے بارے میں فرمایا ” اللہ تعالیٰ صہیب پر رحم فرمائے اگر اسے اللہ تعالیٰ کا خوف نہ ہو تب بھی اس کی نافرمانی نہ کرتے اس سے مراد یہ ہے کہ اگر انہیں جہنم کی آگ سے نجات کا پروانہ بھی مل جائے تو ان کو اللہ تعالیٰ کی جو معرفت حاصل ہے اس کی وجہ سے حق عبودیت کو ادا کرنےمیں قائم رہیں ۔ یہ بندہ ہر ہر سانس اور اپنی ہر ہر حرکت میں اللہ سے ڈرتا ہے ۔ اس کا مولی ہمیشہ اس کے پیش نظر ہوتا ہے وہ گناہوں سے بچنے یا ظاہری و باطنی گناہوں کے عدم وقوع کا دعویدار نہیں ہوتا ، مگر جب اسے مقام احسان حاصل ہو جائے (جو انبیاء اور ملائکہ کو حاصل ہوتا ہے ۔ لیکن پھر بھی گناہ میں واقع ہونے کا خدشہ لاحق رہتا ہے۔ امام شعرانی فرماتے ہیں کہ کوئی بھی بندہ گناہ سے محفوظ نہیں رہتا مگر جب وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرے گویا کہ وہ اسے دیکھ رہا ہے۔ یا یہ اعتقاد رکھے کہ وہ اسے دیکھ رہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ” تو اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کر گویا کہ تو اس کا مشاہدہ کر رہا ہے اگر تو اس کا مشاہدہ نہیں کر رہا تو یہ خیال کر کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے ۔
اور خوف رجاء اور امید کا تقاضا کرتا ہے ”
مقام رجاء
ارشاد خداوندی ہے
فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَـآءَ رَبِّهٖ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٓ ٖ اَحَدًا (الکہف :110)
ترجمہ : اور جسے اپنے رب سے ملنے کی امید ہو تو اسے چاہیے کہ نیک کام کرےاور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کرے ۔ حدیث قدسی ہے اے میرے بندے جب تو میری عبادت کرتا ہے اور مجھ سے امید وابستہ کرتا ہے میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا تو میں تیرے سارے گناہ معاف کردوں گا ۔ اگر تو تمام کرہ ارض جتنے گناہ اور خطا میں لے کر آئے تومیں اتنی ہی مغفرت کے ساتھ تیرا استقبال کروں گا۔ اور تجھے معاف کر دوں گااور مجھے کسی چیز کی پروا نہیں۔
امام طوسی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک رجاء کی تین قسمیں ہیں
( 1) رجاء فی الله (2) اللہ تعالیٰ کی وسعت رحمت کی امید (3) اللہ تعالیٰ کے ثواب کی امید
اللہ تعالیٰ کی وسعت رحمت اور اس کے ثواب کی امید اس مرید کیلئے ہوتی ہے جو رب قدوس کے احسانات کا ذکر سنتا ہے اور اس کی بارگاہ سے رجاء وابستہ کر لیتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ جود و سخاوت، فضل واحسان اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں اس لیے اس کا دل فضل و کرم کے بھروسے سے مرجوع چیز کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔
اور رجاء فی اللہ اس بندے کا مقام ہے جو مقام رجاء پر فائز ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے اس کی ذات کے علاوہ کسی چیز کی رجاء نہیں کرتا امام قشیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رجاء مستقبل میں حاصل ہونے والی کسی محبوب شے سے دل کا لگاؤ ہے ۔ رجاء اور تمنا کے درمیان فرق واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں
تمنا کسل اور سستی کا باعث ہوتی ہے ۔ صاحب تمنا محنت اور کوشش کا راستہ اختیار نہیں کرتا بخلاف صاحب رجاء کے اس کی حالت اس کے بر عکس ہوتی ہے
نتیجہ یہ اخذہ ہوا کہ رجاء محمود ہے اور تمنا مردود :۔ اس طرح امام قشیری رحمۃ اللہ علیہ کی رائے امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ سے ملتی ہے کیونکہ وہ فرماتے ہیں کہ رجاء بواسطہ رغبت نیکیوں کی طرف لے جاتی ہے حضرت زید الخیر رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی اس پر دلالت کرتی ہے انہوں نے نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کی میں آپ کی خدمت میں اس لیے حاضر ہوا ہوں ۔ تاکہ میں پوچھوں کہ اللہ تعالیٰ کے اپنے محبوب بندے سے راضی ہونے کی علامت کیا ہے ؟ حضور نے ارشاد فرمایا کہ تم نے کیسے صبح کی ؟ عرض کی کہ میں نے اس حال میں صبح کی کہ نیکی اور نیک لوگ میرے نزدیک پسندیدہ تھے جب کسی پر قدرت رکھتا ہوں اس میں جلدی کرتا ہوں اور اس کے ثواب کا یقین رکھتا ہوں اور جب کوئی نیکی مجھ سے رہ جائے میں اس پرغمگین ہوتا ہوں اور اس کیلئے مشتاق رہتا ہوں۔ تو رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہی علامت ہے اللہ تعالیٰ کے اپنے بندے سے راضی ہونے کی (اگر اللہ تعالیٰ تیرے ساتھ دوسری چیز کا ارادہ کرے تواس کو تیرے لیے مقرر کر سکتا ہے، پھر اسے کوئی پرواہ نہیں ہوتی تو کس وادی میں ہلاکت ہوا۔ نبی کریم ﷺ نے اس حدیث پاک میں اس آدمی کی علامت بیان فرمائی جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کیا گیا ہو جو آدمی خیر کی امید رکھتا ہو اور جو بغیر عمل کے طلب کرتا ہے وہ مغرور ہے ۔ بعض تفاسیر میں آیا ہے کہ رسول باب بنی شیبہ سے اپنے صحابہ کرام کے ہاں تشریف لائے آپ نے انہیں مسکراتے ہوئے دیکھا اور فرمایا کہ تم ہنس رہے ہو اگر تم جان لیتے جو میں جانتا ہوں تو تم تھوڑا ہنستے اور زیادہ روتے پھر آپ آگے گزر گئے تھوڑی دیر بعد آپ واپس تشریف لائے فرمایا جبریل علیہ السلام یہ آیت لے کر نازل ہوئے ہیں
نَبِّئْ عِبَادِىٓ اَنِّـىٓ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِيْـمُ (الحجر:49)
میرے بندوں کو خبر دو کہ بے شک میں ہی ہوں بخشنے والا مہربان ۔
امام شعرانی علیہ الرحمۃ کے نزدیک ضروری ہے کہ رجاء عاجزی اور انکساری کے اظہار کے طور پر ہو۔ اور جس چیز کی امید کر رہا ہے، اس کے وقوع کو طلب نہ کرے ، ان کے نزدیک یہ عارفین کی رجاء ہے ۔ کیونکہ وہ لوگ انتہائی صاحب بصیرت ہوتے ہیں۔ کسی چیز کی امید نہیں رکھتے ان کے نزدیک محرومی کی حلاوت عطا کی حلاوت اور شیرینی جیسی ہوتی ہے ۔
جب بندہ ان مقامات پر فائز ہوتا ہے ۔ تو یہ مقامات اس کے لیے طریق و منہج بن جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فیوضات اور تجلیات کی اس پر بارش ہوتی ہے تو خوف رجاء اور زہد کی منزل سے گزر کر عبد خالص بن جاتا ہے۔ اور اپنے رب کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو جاتا ہے اور مشیت ایزدی پر راضی ہو جاتا ہے امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ مقامات طالبین اور احوال راغبین سے گزر کر خالص عبودیت کے مقام پر فائز ہو چکے تھے اس لئے اب ہم مقام عبودیت کی حقیقت بیان کرتے ہیں۔
مقام عبودیت
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات : 52)
ترجمہ: اور میں نے جن اور آدمی اس لیے ہی بنائے کہ میری بندگی کریں۔
ارشاد نبوی ” میں اللہ کا بندہ ہوں تکیہ لگا کر نہیں کھاتا بلکہ اس طرح کھاتا ہوں جس طرح ایک انسان کھاتا ہے۔ (الحدیث بخاری)
ابن عطا اللہ سکندری رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ” سب سے عظیم تر مقام جو بندے کو عطا کیا جاتا ہے وہ مقام عبودیت ہے باقی تمام مقامات کی حیثیت خادموں کی سی ہے اور اس کے عظیم ترین مقام ہونے کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے
سبْحانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا (الاسراء : 1)
ترجمہ: پاکی ہے اسے جو اپنے بندے کو لے گیا۔
وَمَآ أَنزَلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا يَوْمَ ٱلْفُرْقَانِ (الانفال : 31)
ترجمہ: اور جو ہم نے اپنے بندے پر فیصلہ کے دن اتارا۔
كٓـهٰـيٰـعٓـصٓ ذِكْرُ رَحْـمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهٝ زَكَرِيَّا (مریم : 1،2)
ترجمہ : یہ ذکر ہے تیرے رب کی اس رحمت کا جو اس نے اپنے بندہ زکریا پرکی ۔
حضرت ذوالنون مصری رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں “مقام عبودیت یہ ہے کہ تو ہر حال میں اس کا بندہ رہے جس طرح وہ ہر حال میں تیرا رب ہے اس کا معنی یہ ہے کہ تو تقدیر کے معاملے میں اپنے اختیار کو ترک کر دے کیونکہ مقام عبودیت تمام مقامات میں افضل ترین ہے اس لیے ترک تدبیر کے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔ بندے کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے تمام امور کو اللہ کے سپرد کر دے۔
شیخ زورق رحمۃ اللہ علیہ ‘ ربوبیت اور ربوبیت کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ربوبیت کے چار اوصاف ہیں جس طرح عبودیت کے چار اوصاف ہیں
(1) بندہ فقیر ہے جبکہ مولی غنی (2) بندہ ذلیل ہے اور رب صاحب عزت (3) بندہ عاجز ہے جبکہ مولی قادر (4) بندہ ضعیف ہے اور مولی قوی وطاقتور ہے ۔
جو بندہ اللہ تعالیٰ سے غنا طلب کرتا ہے وہ اس کا محتاج ہوتا ہے اور جو اس کا محتاج ہوتا ہے وہ غنی ہو جاتا ہے اور جو اللہ سے عزت طلب کرتا ہے وہ اس کیلئے ذلیل ہوتا ہے اور جو اس کی خاطر ذلیل ہوتا ہے وہ حقیقتاً عزت دار بن جاتا ہے۔ اس وجہ سے ہماری یہ رائے ہے کہ ربوبیت اور عبودیت کے درمیان کوئی مناسبت نہیں۔ عبودیت کی صفات عجزو ذلت اور رویت تقصیر ہیں ۔
شیخ الاستاذ ابو علی دقاق رحمۃ اللہ علیہ ، عبادت ، عبودیت اور عبودۃ کے درمیان فرق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ” یہ وہ مراحل ہیں جن کو طے کر کے بندہ اپنے رب تک پہنچتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ عبودیت ، عبادت سے اتم اور اکمل ہے۔ پہلے عبادت کا درجہ ہے پھر عبودیت اور آخر میں عبودۃ کا درجہ ہے۔ عبادت کا تعلق عام مومنین سے ہے اور عبودیت کا خاص سے عبودۃ کا خاص الخواص سے وہ فرماتے ہیں کہ عبادت اصحاب مجاہدہ کے لیے ہے اور عبودیت ارباب مکابدہ کیلئے اور عبودة اہل مشاہدہ کی صفت ۔ جو اپنے جسم کو اپنے رب کیلئے مختص کر دے صاحب عبادت ہے اور اپنے دل کو اپنے رب کے لئے قربان کر دے وہ صاحب عبودیت ہے اور جو اپنی روح کو اس کے حضورپیش کرنے والا صاحب عبودة ہے۔
امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ” بندے سے عبودیت ہی مقصود ہےکیونکہ یہی اللہ تعالیٰ تک پہنچانے کا قریب ترین راستہ ہے ”
اور عبودیت انتہائی عجز و انکساری کا نام ہے اور انبیاء وصد یقین کے مراتب میں یہی سب سے اعلیٰ مرتبہ ہے اس لیے حضور ﷺ کو جب اختیار دیا گیا چاہیں تو وہ بصورت فرشتہ نبی بن جائیں اور چاہیں تو بصورت بندہ بن جائیں تو آپ نے عبودة کو اختیار کیا۔ اور آپ کا یہ ارشاد ” أَنَا سَیِّدُ وَلَدِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَلَا فَخْرَ ” ( قیامت کے دن میں اولاد آدم کا سردار ہوں گااور مجھے اس بات پر کوئی فخر نہیں) کا معنی یہ ہے کہ میں سرداری پر فخر نہیں کرتا بلکہ مجھے عبودیت پر فخر ہے جو میرے رب کی عطا کردہ ہے اس عبودیت کیلئے نظام کائنات کو وجو د عطا ہوا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاريات : 56)
ترجمہ: اور ہم نے نہیں پیدا کیا جن وانس کو مگر یہ کہ وہ عبادت کریں۔
بندے کی تخلیق اصلاً اس لیے ہے کہ وہ اپنے رب کا بندہ بن جائے اور جب اللہ تعالیٰ اس بندے کو سرداری کی خلعت عطا فرماتا ہے اور اس خلعت میں ظاہر ہونے کا حکم دیتا ہے تو وہ دیکھنے میں تو سردار ہوتا ہے لیکن اپنی ذات میں عبد ہوتا ہے۔ یہ سرداری تو رب کی عطا کردہ زینت ہوتی ہے ۔ حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا گیا کہ لوگ آپ کے جسم کو چھوتے امر برکت حاصل کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ وہ مجھے نہیں چھوتے بلکہ اس زیور کو چھوتے ہیں جو میرے رب نے مجھے پہنایا ہے۔ اور فرمایا کیا میں انہیں اس چیز سے منع کردوں جو میری ملکیت نہیں ۔ ” امام شعرانی کے نزدیک عبودیت کے کچھ آداب ہیں۔ مخلصین کو چاہیے کہ وہ ان آداب اور اوصاف سے اپنے آپ کو مزین اور آراستہ کریں۔ بندے کو اس کی محنت کے مطابق ہی اجر ملتا ہے، اور جس قدر اوصاف حمیدہ سے متصف ہوتا ہے اس قدر ا سے مقامات حاصل ہوتے ہیں اور جو چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے قدرت خارقہ عطا فرمائے اسے چاہیے کہ وہ عجزو انکساری کا اظہار کرے۔ اور جو یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنی اطاعت کی قوت اور مجاہدہ نفس عطا فرمائے اسے چاہیے کہ وہ تمام امور کو اللہ کے سپرد کر کے اپنی کمزوری اور ضعف کا اظہار کرے ۔
آداب عبودیت
امام شعرانی فرماتے ہیں ” بندے کو زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے مولی کے عطا کر دہ عطیات میں گم ہو جائے اور اپنے مولی کے حقوق کو بھول جائے۔ کیونکہ دنیا و آخرت کی ہر چیز بندے کو اپنے مولی کے خزانے سے حاصل ہوتی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے
وَإِنْ مِنْ شَيْ إِلَّا عِندَنَا خَزَائِنه(الحجر: 21)
ترجمہ : اور کوئی چیز نہیں جس کے ہمارے پاس خزانے نہ ہوں
بندے کی ڈیوٹی یہی ہے کہ وہ اپنے رب کے حکم کو بجالائے اور منہیات سے اجتناب کرے اور اس کا یہ عمل کسی طمع یا خوف سے نہ ہو۔ بلکہ اجلال باری تعالیٰ کی وجہ سے ہو۔ اور یہ بھی مناسب نہیں کہ بندہ اپنے عمل پر اجرت کا طالب ہو کیونکہ وہ تو اپنی ذات کیلئے عمل کرتا ہے اور اجرت مانگنا کیسے مناسب ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے
واللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ (الصافات : 96)
ترجمہ: اور اللہ نے تمہیں پیدا کیا اور جو کچھ تم کرتے ہو
بندے کی کوئی ایک عبادت بھی خلل ، نقص اور سوء ادب سے خالی نہیں ہوتی اسلئے اسے ثواب کے مطالبے کا کیا حق ہے حالانکہ وہ اس طرح کی عبادت سے عتاب اور سزا کا مستحق ہے ۔ ادب تو یہ ہے کہ وہ اپنی تمام عبادات اور عاجزی وانکساری کو قلت ادب اور نقص پر معمول کرے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ (الزمر : 67)
ترجمہ : اور انہوں نے اللہ کی قدر نہ کی جیسا کہ قدر کرنے کا حق تھا۔
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے باری تعالیٰ ! ہم تیری ثنا کا حق ادا نہیں کر سکتے ۔ باوجود اس کے کہ طویل قیام سے آپ کے قدم مبارک متورم ہو گئے تھے۔
امام غزالی ” ارشاد فرماتے ہیں “بعض اوقات بندہ بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ سجدہ کرتا ہے اور یہ گمان کرتا ہے کہ وہ اس سجدے سے اعلی علین تک پہنچ گیا ہے ، حالانکہ اس سجدے میں کو تاہیوں کے گناہوں کو پورے اہل ارض پر تقسیم کیا جائے تو یہ اسے ہلاک کر دیں۔
اور انہی آداب میں سے ہے کہ بندہ ہر حال میں اپنے رب سے راضی سے رہے اور آنے والی کسی مصیبت پر اظہار ناراضگی نہ کرے اور اس کی بارگاہ سے جو کچھ بھی عطا ہو اسے حقیر نہ سمجھے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
رضي الله عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ (المائده : 119)
ترجمہ : اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ۔
رسول پاک ﷺ نے فرمایا : د
ذَاقَ طَعْمَ الْإِيمَانِ مَنْ رَضِيَ بِاللهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا (صحیح مسلم – ترمذی ۔ مسند امام احمد)
ترجمہ: اس نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا جس نے اللہ کو اپنا رب اسلام کو اپنا دین اور محمد ﷺ کو اپنا نبی تسلیم کر لیا ”
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا
أَنْ تَعْمَلَ لِلَّهِ بِالرِّضَا فِي الْيَقِينِ، وَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَإِنَّ فِي الصَّبْرِ عَلَى مَا تَكْرَهُ خَيْرًا كَثِيرًا
ترجمہ : “اللہ کی رضا کیلئے عبادت کر ۔ اگر تجھ سے یہ نہ ہو سکے تو نا پسندیدہ چیزوں پر صبر کرنے میں بڑی خیر ہے ”
(عارف باللہ ابن عطاء اللہ سکندری فرماتے ہیں کہ جو اللہ سے راضی ہو جاتا ہے وہ اپنے آپ کو اس کے سپرد کر دیتا ہے اور جو اسلام سے راضی ہو جاتا ہے وہ اس کے احکام پر عمل کرتا ہے اور جو محمد ﷺ پر راضی ہو جاتا ہے وہ آپ کی اتباع کرتا ہے ۔
امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رب اپنے بندوں کے معاملات کو خوب جانتا ہے اور ان کے ساتھ بہتر سلوک کرتا ہے کیونکہ فرمان باری تعالیٰ ہے
وَعَسٰٓى اَنْ تَكْـرَهُوْا شَيْئًا وَّهُوَ خَيْـرٌ لَّكُمْ ( البقره : 216)
ترجمہ: اور قریب ہے کہ کوئی بات تمہیں بری لگے اور وہ تمہارے لیے بہترہو۔
حکمت الہیہ کا یہ تقاضا ہے کہ وہ بندے کو اس کے ظرف کے مطابق عطا کرے کیونکہ اگر اسے اعلیٰ یا ادنی عطا کر دیا جائے تو اس کی حالت بگڑ جائے گی۔
اور اس حدیث قدسی میں بھی اسی چیز کی طرف اشارہ ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” میرے بعض بندے ایسے ہیں جن کیلئے فقرہی مناسب ہے اگر میں انہیں غنی کر دوں، ان کی حالت خراب ہو جائے اور بعض بندے ایسے ہیں جن کے لئے غنا مناسب ہے۔ اور میں اگر انہیں فقیر کردوں تو ان کی حالت بگڑ جائے ۔ ” بندے کا موجودہ حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقل ہونے کے مطالبے کا معنی یہ ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کی اختیار فرمودہ حالت پسند نہیں ہے اور اس کے اس مطالبے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ جاننے والا ہے نعوذ بالله من ذلک اور یہ جہالت اور کفر کے سوا کچھ نہیں ۔ اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے ۔
اَعْطٰى كُلَّ شَىْءٍ خَلْقَهٝ ثُـمَّ هَدٰى (طہ: 50)
اس نے ہر چیز کو اس کے لائق صورت عطا کی پھر راہ دکھائی۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔
وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتارُ ما كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ سُبْحَانَ اللهِ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ (القصص : 68)
ترجمہ: ” اور تمہارا رب پیدا کرتا ہے جو چاھتا اور پسند فرماتا ہے ۔ ان کو کچھ اختیار نہیں پاک اور برتر ہے اللہ تعالیٰ ان کے شرک سے ۔
انہی آداب میں سے ہے کہ بندے کو چاہیے کہ وہ ظاہری و باطنی طور پر کسی چیز کو اپنی ملک خیال نہ کرے ۔ قاصر فقیر پر ملکیت باری تعالیٰ کے شہود کا غلبہ ہوتا ہے وہ مخلوق کی ملکیت سے قطع نظر کر لیتا ہے کیونکہ اس کے نزدیک ہرشے کا مالک خدا ہے اس لئے اس کے نزدیک کسی چیز کو غصب کر لینا یا سود وغیرہ لینا حرام نہیں ہوتا جبکہ فقیر کامل اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ کائنات کی ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فضل و احسان سے کسی کو مجازی ملکیت عطا فرمادے تو وہ اس کا اعتبار کرتا ہے ۔ اس لئے غضب ، غصب اور چوری وغیرہ اس کے نزدیک حرام ہے کیونکہ ہر چیز کا حقیقی مالک اگر چہ اللہ تعالیٰ ہے
لیکن اس نے اپنے بندے کو بھی مجازی اختیارات سے نوازا ہے ۔ ابوالحسن شاذلی” فرماتے ہیں ” ہر قسم کی ظاہری اور باطنی ملکیت کا دعوی کرنے سے بچو۔ کیونکہ جو بندہ حقیقی ملکیت کا دعوی کرتا ہے وہ مومن ہی نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ۔
إِنَّ اللهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ ( التوبه : 11)
ترجمہ : بے شک اللہ نے مسلمانوں سے ان کے مال اور جان خرید لیے ہیں۔
مومن وہی ہے جو اپنے آپ کو اللہ کی راہ میں بیچ دے اور پھر اپنی ذات پر اس کا اپنا کوئی دعوی باقی نہ رہے ” اور آداب عبودیت میں سے ہے کہ بندے کو یقین رکھنا چاہیے کہ اس پر کی جانے والی نعمتوں کی دو صورتیں ہیں
( 1) وہ نعمتیں جو بطور انعام ہوتی ہیں
(2) وہ نعمتیں جو بطور آزمائش و ابتلا ہوتی ہیں۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مصائب کے دوران نعمتوں سے نوازا جاتا ہے ۔
امام شعرانی” فرماتے ہیں کہ بندے کو چاہیے کہ ان دونوں صورتوں کا خیال رکھے اور ان کا حق ادا کرے ۔ انعام کی صورت میں یہ خیال کرے کہ میں اس نعمت کا شکر ادا کرنے سے عاجز ہوں۔ اور آزمائش کی صورت میں مکرو استدراج سے ڈرے ۔ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے
سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ( القلم : 44)
ترجمہ: قریب ہے کہ ہم انہیں آہستہ آہستہ لے جائیں گے جہاں سے انہیں خبر نہ ہوگی۔
دنیاوی زندگی میں نعمتوں کے مقابلہ میں آزمائشیں کثیر ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ہر نعمت کے پس پردہ آزمائش مضمر ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو حکم دیتا ہے کہ وہ اس کا شکر ادا کرے اور اس کی نسبت خالق حقیقی کی طرف کرے اور اللہ کے حکم مطابق اسے خرچ کرے اسی طرح مصائب میں بھی بندے کو چاہیے کہ صبر کرے اور اس کے ازالہ کیلئے رب کی بار گارہ میں رجوع کرے اور اس پر نازل ہونے والے تمام مصائب پر صبرو تحمل سے کام لے ۔ یعنی کسی غیر سے شکوہ نہ کرے کیونکہ اس مصیبت کو وہی دور کر سکتا ہے جو اس کو نازل کرنے والا ہے ۔
اور انہی آداب میں سے ہے کہ بندے کو چاہیے کہ اپنے رب کے سامنے مؤدب رہے اپنے علم کے مطابق بات کرے اور مشابہات قرآن پر ایمان رکھے اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز نہ کرے اور بغیر تحقیق علوم میں مشغول نہ ہو اور اگر عمل کا ارادہ رکھتا ہو تو اس کیلئے قرآن کریم کے احکام کا علم کافی ہے اور بندہ جن علوم سے ناواقف ہو ان علوم سے توقف کرنا ہی مناسب ہے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کسی آیت کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا کہ میں اس کی تفسیر نہیں جانتا۔ تو سائل نے اس پر حیرانگی کا اظہار کیا تو آپ نے فرمایا کونسا آسمان مجھ پر سایہ فگن ہو گا اور کونسی زمین مجھے اٹھائے گی ۔ اگر میں نے اللہ کی کتاب کے بارے میں کوئی ایسی بات کہہ دوں جو مراد نہ ہو ؟
امام شعرانی فرماتے ہیں ” ان علوم و معارف میں بات کرنا اس کے لیے جائز ہے جس پر یہ حدیث قدسی صادق آتی ہے ” وہ بندہ میری طاقت سے دیکھتا ہے سنتا اور کلام کرتا ہے ” اللہ تعالیٰ کی آیات میں تاویل کرنے سے تسلیم ہی بہتر ہے کیونکہ اکثر لوگ رب کے کلام کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور اہل فہم سے نہیں اور جس کی یہ حالت ہو اللہ تعالیٰ نے اس کو توبیخ فرمائی ہے ارشاد رب العلیٰ ہے
فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْعٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهُ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا الله (آل عمران : 7)
ترجمہ : اور جن کے دلوں میں ہے کجی وہ اشتباہ والی آیات کے پیچھے پڑتے ہیں گمراہی چاہنے اور اس کا پہلو ڈھونڈنے کو اور اس کا ٹھیک پہلو اللہ کو ہی معلوم ہے ”
کتاب اللہ کو سمجھنے کا طریقہ یہ ہے کہ تقوی و پرہیزگاری اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ فرمان و معرفت کا دروازہ اس کیلئے کھول دیتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اس وقت خود بندے کی تعلیم کو اپنے ذمہ کرم میں لے لیتا ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ،
وَاتَّقُواْ اللّهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللّهُ (البقره: 282)
ترجمہ : اور اللہ سے ڈرو۔ اور اللہ تمہیں سکھاتا ہے ۔
اور جس کو اللہ تعلیم دے وہ ہر چیز کو سمجھ جاتا ہے اور انہی آداب میں سے ہے کہ وہ اپنے تمام امور کو خدا کے سپرد کر دے ۔
امام شعرانی فرماتے ہیں کہ یہ محال ہے کہ مومن کسی ایسے گناہ کا ارتکاب کرے جس پر اللہ نے عقاب کی وعید فرمائی ہے اور اگر اس سے گناہ سرزد ہو بھی ہو جائے تو وہ فورا ندامت کا اظہار کرتا ہے۔ حدیث پاک میں ہے
النَّدَمُ تَوْبَةٌ
” ندامت ہی تو بہ ہے ”
گناہ گار مومن سے ترک ندامت کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت پسند نہیں کرتا اور نہ ہی اس پر راضی ہوتا ہے اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ معصیت ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان صادق آتا ہے
ارشاد باری تعالیٰ ہے خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّ اٰخَرَ سَیِّئًا (التوبه : 102)
ترجمہ : اور ملایا ایک کام اچھا اور دوسرا کام برا
عمل صالح سے مراد یہ ہے کہ اسے معلوم اور یقین ہوتا ہے کہ یہ معصیت ہے اور عمل سیئ سے مراد اس معصیت کا ارتکاب کرنا ہے امام شعرانی فرماتے ہیں کہ بندہ اس قابل نہیں ہے کہ قضائے الہی کے بغیر اس کے حکم کو ظاہرا اور باطنا – مخالفت کرے کیونکہ ایسا تو وہی بندہ کرتا ہے جو خود مختار ہو اور یہ محال ہے ۔ تمام مخلوقات قہر و قضا کے تحت الوہیت کا دعوی بھی کر دیں تو وہ اس کے حکم سے خارج نہیں ہو سکتے ارشاد باری تعالیٰ ہے
اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ ﳓ نَّبْتَلِیْهِ فَجَعَلْنٰهُ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًااِنَّا هَدَیْنٰهُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّ اِمَّا كَفُوْرًا (الدھر:2،3)
ترجمہ : ” بے شک ہم نے آدمی کو پیدا کیا ملی ہوئی منی سے کہ ہم اسے جانچیں تو ہم نے اسے سننے والا دیکھنے والا بنا دیا بے شک ہم نے اسے راہ دکھائی یا حکم مانتا یا ناشکری کرتا ”
شیخ ابو الحسن شاذلی” فرماتے ہیں کہ شیطان مذکر کی طرح ہے اور نفس مونث کی طرح ان دونوں کے درمیان گناہ کا پیدا ہونا ایسے ہی ہے جیسے ماں باپ سے بچہ پیدا ہوتا ہے اس کا معنی یہ نہیں کہ ماں باپ نے اسے وجود بخشا ہے بلکہ اس کا ظہور ان سے ہوا ہے عارف باللہ ابن عطا السکندری فرماتے ہیں کہ شیخ کے اس کلام کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح عاقل اس میں شک نہیں کرتا کہ بچہ ماں باپ کی تخلیق نہیں اور نہ ہی وہ اس کے موجد ہیں۔ ان کی طرف صرف اس لیے منسوب کیا جاتا ہے کہ اس کا ظہور ان سے ہوتا ہے ۔ اسی طرح مومن شک نہیں کرتا کہ معصیت شیطان اور نفس کی تخلیق نہیں یہ تو صرف ان سے ظہور ہونے کی وجہ سے ان کی طرف منسوب کی جاتی ہے ۔ معصیت کی شیطان اور نفس کی طرف نسبت نسبت اضافی و اسنادی ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت تخلیق و ایجاد کی نسبت ہے وہ مولی جس طرح اپنے فضل و احسان سے طاعت کا خالق ہے
اسی طرح اپنے عدل سے معصیت کا بھی خالق ہے ۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے
قُلْ كُلَّ مِنْ عِندِ اللَّهِ فَمَا لِهُولَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقُونَ حَدِيثًا(النساء : 78)
ترجمہ : ” تم فرما دو سب اللہ کی طرف سے ہے ۔ تو ان لوگوں کو کیا ہوا کہ کوئی بات سمجھتے معلوم نہیں ہوتے ”
اللہ تعالیٰ نے مزید ارشاد فرمایا
الله خَالِقَ كُلَّ شَيْ
ترجمہ: اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے
ابن عطاء فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ ان بدعتیوں کا قلع قمع کرنے والی ہے جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ” طاعت ” کا تو خالق ہے لیکن معصیت کا خالق نہیں اگر وہ یہ کہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ۔
وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ
ترجمہ : اور اللہ تعالیٰ نے ہی تمہیں پیدا کیا اور تمہارے اعمال کو
تو اس کا جواب یہ ہے کہ امر قضا کا غیر ہے ۔ اگر وہ کہیں کہ اللہ تعالیٰ ٰ کاارشاد ہے
مَا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنْ اللَّهِ وَمَا أَصَابَكَ مِنْ بَيِّنَةٍ فَمِنْ نَفْسِكَ (النساء:79)
ترجمہ : اے سننے والے تجھے جو بھلائی پہنچے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو برائی پہنچنے وہ تیری اپنی طرف سے ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تفصیل لوگوں کو ادب سکھانے کیلئے ہے اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم محاسن اور خوبیوں کی نسبت اس کی طرف کریں کیونکہ محاسن اور خوبیاں اسی ذات کو زیبا ہیں اور برائیوں کو اپنی طرف منسوب کریں کیونکہ یہی ہمارے لیے مناسب ہے اور یہی حسن ادب کا تقاضا ہے جس طرح کہ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا
فَاَرَدْتُّ اَنْ اَعِیْبَهَا( الكہف :79)
ترجمہ : میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کردوں
ارشاد خداوندی ہے
فَاَرَادَ رَبُّكَ اَنْ یَّبْلُغَاۤ اَشُدَّهُمَا ( الکہف : 82)
ترجمہ : تو آپ کے رب نے چاہا کہ وہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچیں۔
ترجمہ: جب میں بیمار ہوتا ہوں وہی مجھے شفا دیتا ہے
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا یا
إذا مَرِضْتُ فَهُوَ ا يشفين (الشعراء : 80)
پس مرض کی نسبت اپنی ذات کیطرف کی اور شفا کی نسبت اپنے رب کی طرف حالانکہ اللہ تعالیٰ ہی دونوں کا خالق ہے اور ارشاد باری تعالیٰ ہے
مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ وَ مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِكَؕ
ترجمہ ” اے سننے والے تجھے جو بھلائی پہنچے وہ اللہ کی طرف سے اور برائی تیری اپنی طرف سے ”
اس کا معنی یہ ہے کہ تخلیق اور ایجاد کے اعتبار سے اس کی نسبت اللہ کی طرف ہے اور اضافت اور استاد کے اعتبار سے اس کی نسبت تمہاری ذات کی طرف ہے۔ اسی طرح حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے
الْخَيْرُ فِي يَدَيْكَ وَالشَّرُّ لَيْسَ إِلَيْكَ
ترجمہ : خیر تیرے ہاتھوں میں ہے اور شرکی نسبت تیری طرف نہیں۔
نبی کریم بخوبی جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی خیر و شر اور نفع و نقصان کا مالک ہے ۔ لیکن ادبا شر کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں کی۔
مقامات سالکین
ارشاد باری تعالیٰ ہے
یا أَهْلَ يَثْرِب لَا مَقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوا(الاحزاب : 13)
ترجمہ : “اے مدینہ والو ا یہاں تمہارے ٹھہرنے کی جگہ نہیں لوٹ جاؤ”
نیز ارشاد خداوندی ہے
وَأَنَّ إِلَىٰ رَبِّكَ الْمُنتَهَىٰ (النجم : 42)
ترجمہ: اور یہ کہ تمہارے رب کی طرف ہی انتہاء ہے ۔
امام شعرانی فرماتے ہیں ” عبد مخلص کے نزدیک ان تمام مقامات کی کوئی حیثیت نہیں ہے اس لیے اعمال صالح اور سیئہ کی طرف اس کی توجہ نہیں ہوتی کیونکہ جو مقام عبودیت اختیار کر لیتا ہے اور ظاہرا” اور باطنا عجز و انکساری کا اظہار کرتا ہے اور اپنے تمام تر احوال میں اپنے آپ کو کو تاہ سمجھتا ہے ۔ اس کو ان بیماریوں کے علاج کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ وہ اپنے سب سے اعلیٰ احوال کو بھی رب ذوالجلال کے سامنے حیثیت نہ دیتے ہوئے نقص خیال کرتا ہے اس کے نزدیک سب سے اعلیٰ مرتبہ اس بندے کا ہوتا ہے جس کا کوئی مقام ہو اور وہ خیال کرتا ہے کہ اصحاب مقامات کی ہمتیں غایات میں مقید اور منحصر ہو جاتی ہیں اور جب وہ ان غایات تک پہنچتے ہیں تو ان کے دلوں میں نئی غایات پیدا ہو جاتی ہیں وہ اسی طرح ان غایات کے حصول میں لگے رہتے ہیں۔ لیکن عبد مخلص کا یہ حال نہیں ہوتا کیونکہ اسے ذات باری تعالیٰ کا مشاہدہ حاصل ہوتا ہے جب انہیں یہ مشاہدہ حاصل ہو جاتا ہے تو وہ مقامات کی تلاش میں نہیں پھرتا بلکہ ہمیشہ مشاہدۂ حق میں مستغرق رہتا ہے ۔ وہ اللہ تعالیٰ کی معیت میں ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی خصوصی عنایات سے اس کے ساتھ ہوتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے
وهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَمَا كُنتُمْ (الحديد : 4)
ترجمہ: اور وہ تمہارے ساتھ ہی ہے تم جہاں کہیں بھی ہو۔
امام شعرانی اپنے نفس کی حالت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ میں ان مقامات کو کیوں نہ حاصل کرلوں جن پر اولیاء عظام فائز ہوتے ہیں اور میں نے اپنی موجودہ حالت کو حقیر سمجھا اور میری طبیعت مکدر ہو گئی کیونکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر راضی نہ ہونے کےمترادف ہے اس لئے مجھے سوء خاتمہ اور اللہ تعالیٰ کی ناراستگی کا خوف لاحق ہوا۔ اور میں اس حالت میں گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ ابھی میں فرستاد کے مقام پر ہی پہنچا تھا کہ مجھ پر نیم خوابی کی حالت طاری ہو گئی اور میں نے ہاتف غیبی کو سنا۔ اے بندے ! اگر میں تجھ کو تمام کائنات ریت کے ذرات نباتات اور ان کے اسماء اور ان کی عمریں، حیوانات اور ان کی عمریں اور مختلف نسلوں پر آگاہ کردوں اور تیرے لیے زمین و آسمان کے ملکوت اور جنت دوزخ اور مافیہا کو مشرف کردوں اور تیری دعا پر بارش نازل کردوں مردوں کو زندہ کر دوں اور تجھے تمام کرامات عطا کر دوں۔ جو میں نے اپنے مومن بندوں کو عطا کی ہیں تو پھر تیرے لیے مقام عبودیت میں کوئی حصہ نہیں ہو گا ۔ امام شعرانی فرماتے ہیں کہ اس کلام کے مکمل ہوتے ہی دنیا و آخرت کے مقامات اولیاء میں سے کسی کی خواہش باقی نہ رہی جس پر میں نے اللہ تعالیٰ کی اس عطا پر شکر یہ ادا کیا ۔
مخلص بندو نہ تو کسی چیز کا مطالبہ کرتا ہے اور نہ ہی خواہش وہ ہمیشہ رضا کا دامن تھامے رکھتا ہے اور اپنے تمام تصرفات اور احوال میں پر سکون رہتا ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ گروہ مخلصین میں سے سب سے اعلیٰ مرتبہ ( عبودیت) اپر فائز بندے کا کوئی مقام نہیں ہوتا۔ کیونکہ مقام ” صاحب مقام پر حاکم ہوتا ہے اور مرد تو وہ ہوتا ہے جو دوسروں پر حکمرانی کرے نہ کہ اس کے برعکس۔
مقام عبودیت سے محروم کر دینے والےاحوال و مقامات
اب ہم سالکین کے چند احوال و مقامات ذکر کرتے ہیں جو انہیں مرتبہ عبودیت سے محروم کر دیتے ہیں ۔
(1)بندے کا یہ خیال کرنا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز سے رجوع کر لیا ہے اس کو درجہ عبودیت سے خالی کر دیتا ہے پس اسے چاہیے کہ وہ اس خیال سے اللہ تعالیٰ کے حکم کی اتباع کرتے ہوئے تو بہ کرے ارشاد باری تعالیٰ ہے
أَنْ لَا يَتَّخِذُ مِنْ دُونِهِ وَكِيلاً
ترجمہ: کہ تم اس کے علاوہ کسی کو کار ساز نہ بناؤ۔
امام شعرانی” فرماتے ہیں ” جب بندہ عطا اور ھدیہ میں مشغول ہو جائے تو صاحب عطا سے محجوب ہو جاتا ہے
” شیخ شبلی” فرماتے ہیں کہ توبہ کی حد یہ ہے کہ پوری کائنات میں اللہ کے سوا تیری نگاہ میں کوئی نہ ہو
(2) سلطنت ارض و سماء میں غور و فکر کرنا
امام شعرانی فرماتے ہیں یہ دراصل اس تعلق کی جستجو ہے جو بندے کا اپنے رب سے ہوتا ہے بندہ ہر جگہ بلا قید مکان اپنے مولی کا مشاہدہ کرتا ہے اور ہمیشہ اس کی بارگاہ میں حاضر رہتا ہے اور دل و زبان کے ساتھ جب بھی کسی چیز کا مطالبہ کرتا ہے تو بڑی عاجزی کے ساتھ عبد مخلص عطا کو عدم عطا پر ترجیح نہیں دیتا ۔ کیونکہ عطا کو عدم عطا پر اور سعادت کو شقاوت پر ترجیح نہ دینے کا مقصد یہ ہے ۔ کہ وہ ابھی تک نفس کے دھوکہ میں مبتلا ہے ۔ مع هذا یہ اللہ تعالیٰ پر حکم صادر کرنے کے مترادف ہے بندے کو چاہیے کہ وہ پہلے اپنی ذات میں غور و فکر کرے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے
وَفِي أَنفُسِكُمْ أَفَلَا تَبْصِرُونَ
ترجمہ : اور تمہارے نفسوں میں کیا تم سوچتے نہیں ہو
شاید اللہ تعالیٰ نے اپنی معرفت کے لئے اپنی ذات میں غور و فکر کرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ہم اپنی ذات کی حقیقت کا ادراک نہیں کر سکتے اور جب ہم اپنی ذات کی حقیقت کے ادراک ہی سے عاجز ہیں تو اس کی ذات کی سے معرفت تو اس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ حادث قدیم کا احاطہ کیسے کر سکتا ہے (فانی باقی ذات کی حقیقت سے کیسے پردہ اٹھا سکتا ہے) نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے تَفَكَّرُوا فِي خَلْقِ اللَّهِ وَلَا تَتَفَكَّرُوا فِي الله فَتَهْلكُوا (البيہقي)
ترجمہ: ارشاد فرماتے ہیں “اللہ کی مخلوق میں غور و فکر کرو اور اس کی ذات میں غور و فکر نہ کرو ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے ۔
ذات خداوندی کا ادراک عقل و فکر سے نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ہر عقلی دلیل شک و شبہ سے خالی نہیں ہو سکتی ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے
وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِهٖ عِلْمًا( طہ : 110)
ترجمہ: اور ان کا علم اسے نہیں گھیر سکتا ۔
غایت معرفت ، معرفت سے عجز ہے، جس طرح حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے امام شعرانی فرماتے ہیں کہ عجز سے مراد یہ ہے کہ عقلی دلیل کے ساتھ اللہ کی ذات پر ایسا حکم لگانا جو اس کی ذات کے شایان شان نہ ہو۔
ابو الحسن نوری” سے دریافت کیا گیا کہ اللہ کی معرفت کیسے حاصل ہوئی فرمایا اللہ ہے ۔عرض کی گئی عقل کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ فرمایا عقل تو خود عاجز ہے اس لیے وہ صرف عاجز چیز کی طرف اشارہ کر سکتی ہے جس نے عقل کے ذریعے اللہ کا علم حاصل کیا نہ کہ اس کے دلائل اور غور و تدبر سے۔ تو یہ چیزعلم باللہ کے حصول میں منافی نہیں ہے۔ کیونکہ اس کا علم بھی تو اس حکیم دانا اور قابل صد ستائش کا عطا کردہ ہے۔
(3) کیفیت حزن عبد کسی چیز کی محروی پر غمگین نہیں ہوتا کیونکہ اگر وہ چیز اس کی قسمت میں ہوتی ہے تو اسے مل جاتی اور جس وقت میں اللہ تعالیٰ ٰ کی طاعت مقدر ہوتی ہے اس وقت کا طاعت سے خالی ہونا ممکن نہیں اور جس وقت میں سستی و کاہلی مقدر ہے وہ اس سے خالی نہیں ہو سکتا۔ نیند کا وقت بیداری میں اور بیداری کا نیند میں تبدیل نہیں ہو سکتااسی طرح غیر ولی ولی نہیں بن سکتا ایسا نہیں کہ جس چیز سے بندہ محروم ہوتا ہے وہ پہلے اس کی قسمت میں لکھی ہوئی تھی بعد ازاں اس سے محروم کر دیا گیا کہ وہ اس پر غمگین ہو بلکہ یہ تو ایک غیر حاصل چیز کا وہم ہے۔ ا
مام شعرانی فرماتے ہیں کہ حزن توجہ الی اللہ میں خلل انداز ہوتا ہے حالانکہ بندہ کو حکم ہے وہ اپنی پوری سانس میں اللہ کی طرف متوجہ رہے اور اگر اسباب کی طرف توجہ ہو تو یہ سمجھے کہ یہ اسباب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیدا کیے گئے ہیں جو انسان دنیا و آخرت کی کسی چیز پر ناراض ہوتا ہے اور یہ خیال کرتا ہے کہ اس کے بر عکس اس کیلئے بہتر تھا تو وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی میں مبتلا ہونے والا ہے کیونکہ کسی چیز پر غمگین ہونا اللہ تعالیٰ کے خلاف ادب ہے کیونکہ وہ ایسی چیز کو طلب کرتا ہے جو اس کے مقدر میں نہیں گویا یہ شخص اپنے نفس کے تابع ہے اگر وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے تابع ہوتا تو ہر حال میں راضی رہتا۔
امام قشیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جسے رضا اور موافقت کا نور حاصل ہو جائے وہ کیسے غمگین ہو سکتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے
اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ (یونس:62)
ترجمہ : سن لو بے شک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ غم ۔
امام شعرانی فرماتے ہیں کہ ہماری مذکورہ بحث سے امرالہی پر ترک عمل لازم نہیں آتا۔ امرو نہی کے بعد بندہ پر جب موافقت و مخالفت لازم آتی ہے تو وہ ازل سے ہی علم الہی میں ہوتی ہے اور بندے کیلئے ضروری ہے کہ اس سے جو بھی افعال سرزد ہوں اس کا خیال رکھے اور اگر تو اس میں امرالہی کی مخالفت ہو تو اس سے توبہ کرے اور مغفرت طلب کرے ۔ اور اگر موافقت ہو تو اس کا شکریہ ادا کرے اور جس آدمی کو نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد
فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ ترجمہ :۔ ہر برا انسان کے لیے آسان کر دیا جاتا ہے جس کے لیے اس کی تخلیق ہوتی ہے )
کا معنی سمجھ آجائے تو اسے یہ مقام حاصل ہو جاتا ہے ۔
(4) خوف و رجاء اس سے مراد وہ خوف ہے جو عظمت و جلال خداوندی سے پیدا ہوتا ہے ہر انسان اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کی پہچان اپنے رتبہ اور معرفت الہی کے مطابق کرتا ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ”
أَنَا أَعْرَفُكُمْ باللَّه، وَأَخْوَفُكُمْ مِنْهُ
ترجمہ : میں تم سب سے زیادہ معرفت الہی رکھنے والا اور سب سے زیادہ خوف الہی رکھنے والا ہوں۔
امام قشیری ” فرماتے ہیں ” ولی کی صفت یہ ہے کہ اسے کسی قسم کا خوف نہیں ہوتا کیونکہ خوف مستقبل میں کسی ناپسندیدہ چیزکی بنا پر ہوتا ہے اور ولی اپنے حال میں اتنا مست ہوتا ہے کہ اسے اپنے مستقبل کی خبر ہی نہیں ہوتی ۔ اس لیے اسے کسی چیز کا خوف کیسے ہو ؟ ولی کیلئے خوف کی طرح کوئی رجاء بھی نہیں ہوتی کیونکہ رجاء کسی محبوب چیز کے حصول یا کسی مکروہ چیز سے نجات ہے ۔ عقاب کی وجہ سے خوف رکھنا محبو بین کا خاصہ ہے اور عبد کامل کو اپنے مولی سے کوئی حجاب نہیں ہوتا اور رضائے الہی کے سامنے اس کی اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی ۔ تو وہ عقاب وغیرہ کے سبب سے کیسے ڈر سکتا ہے ۔ کیونکہ اس کا یہ خوف اس گمان کی بنیاد پر ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات سے کسی ناپسندیدہ چیز کو دور کرے حالانکہ وہ اس چیز سے عاجز ہے اور ایسا سوچنا خلاف ادب بھی ہے ۔ وہی رجاء مطلوب و مقصود ہے جو بطور اظہار عجز و انکساری ہو نہ کہ کسی چیز کے مطالبہ کیلئے ہو۔ اور یہ عارفین کی رجاء ہے کیونکہ یہ لوگ صاحب بصیرت ہوتے ہیں۔ اور ان کے نزدیک کسی چیز کی رجاء مطلوب و مقصود نہیں ہوتی اور عطاء و حرمان ان کیلئے برابر ہوتے ہیں اور جو یہ مطالبہ کرے کہ ہر چیز اس کی امید کے مطابق واقع ہو تو یہ حق باری تعالیٰ کے مقابل آنے اور رب قدوس کی ملکیت کو مقید کرنے کے مترادف ہے اور اس میں سوء ادب بھی ہے کیونکہ وہ اس طرح غیر مستحق چیز کا مطالبہ کر رہا ہے امام شعرانی” فرماتے ہیں ” یہ تو نفس کی رعونیت اور اس کی متابعت کرنا ہے حالانکہ مخلص بندے کا اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے کوئی ارادہ و اختیار نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
وَرَبِّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ مَا كَانَ لَهُمُ الْخَيْرَةِ سُبْحَانَ اللهِ وَتَعَالَى عمَّا يُشْرِكُونَ (القصص )
ترجمہ : اور تمہارا رب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور پسند کرتا ہے ۔ ان کا کچھ اختیار نہیں ۔ اللہ تعالیٰ پاک اور بدتر ہے شرک ہے۔
عارف با اللہ ابن عطاء اللہ سکندری فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ نے بندے پرترک تدبیر کو لازم کر دیا ہے ۔ اور ہر چیز پر اختیار کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص کر دیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اس چیز سے پاک ہے کہ بندہ اس کے اختیار میں شریک ہوار شاد باری تعالیٰ ہے۔
امْ لِلْإِنْسَانِ مَا تَمَنَّى فَلِلَّهِ الْآخِرَةُ وَالأولى (النجم : 25:24)
ترجمہ : کیا آدمی کو مل جائے گا جس کی وہ تمنا کرے تو آخرت اور دنیا کا مالک اللہ ہی ہے ۔
امام شعرانی فرماتے ہیں کہ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اختیار اور ارادہ کا دعوی کرتا ہے وہ حقیقتاً مشرک اور لسان حال سے ربوبیت کا مدعی ہے ۔ اگر چہ زبان قال سے وہ اسے نامناسب خیال کرتا ہے۔ امام شعرانی کے نزدیک وہ اختیار جو ہر فعل کو لازم ہے وہ قابل مذمت نہیں ۔ بلکہ یہ تو لوازم عبودیت میں سے ہے۔ کیونکہ امرالہی کو بجالانا اور منہیات سے اجتناب اسی وقت ممکن ہے جب دل فعل یا ترک فعل کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور بغیر اختیار کے کسی فعل کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے مگر اس شخص سے جو مجبور ہو اور جس کے اعضاء رعشہ کی وجہ سے کانپتے ہوں ۔
قلب سلیم وہی ہوتا ہے جس کا اللہ کے سوا کسی سے تعلق نہ ہو۔ کسی بزرگ نے فرمایا ” اگر مجھے اس چیز پر مجبور کیا جائے کہ میں اللہ کے سوا کسی چیز کو دیکھوں تو یہ میں نہیں کر سکتا کیونکہ اس کے ساتھ تو کوئی غیر ہے ہی نہیں۔
( 5) بندے کا یہ خیال کرنا کہ وہ اہل تبتل میں سے ہے ۔
اورتبتل کا معنی یہ ہے کہ بندہ تمام لوگوں سے منہ موڑ کر اللہ کا ہو جائے اس سے یہ مفہوم اخذ ہوتا ہے کہ بندہ مخصوص طریقے اور مخصوص حال کے ذریعے قرب و وصال کا طالب ہے۔ چاہے یہ حالت اور طریقہ خلوت ہو بھوک ہو یا کوئی اور ۔
امام شعرانی فرماتے ہیں کہ عبد کامل اپنی خلوت اور جلوت اور سکون و حرکت میں کسی چیز کا طالب نہیں ہوتا اور شیخ ابوالحسن شاذلی فرماتے ہیں کہ بعض اللہ والوں کے نزدیک طاعت اور اوراد کے ذریعے حصول قرب کا طالب ہونا بھی گناہ ہے کیونکہ مستقبل میں پیش آنے والے تمام امور لوح محفوظ میں لکھے جاچکے ہیں ۔ کسی کا تقوی اس میں زیادتی نہیں کر سکتا اور نہ ہی کسی کا فجور اس میں کمی کر سکتا ہے اس لئے اے بندے ! اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے مطابق زندگی بسر کر۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : – الا لله الدِّينُ الخَالِصُ
ترجمہ : خبردار! اللہ کا دین ہی خالص ہے
اس سے عمل کے حکم کو ترک کرنا لازم نہیں آتا۔ کیونکہ اسے ترک کرنا صحیح نہیں پس بندے کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس سے سرزد ہونے والے افعال کا خیال رکھے اگر تو ان میں اللہ کے حکم کی مخالفت ہو تو تو بہ واستغفار کرے ۔ اور اگر اللہ کے حکم کی موافقت ہو تو اس کا شکر ادا کرے ۔ اور جو نبی کریم کے اس ارشاد ” فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ ” کا معنی سمجھ گیا اس نے اس معنی کو پالیا ۔ اور متبتل کا یہ دعوی کرنا کہ وہ اللہ کے سوا ہر چیز کو ترک کر کے اللہ کی طرف نکل گیا ہے ۔ یہ محض جہالت ہے۔ کیونکہ اس کا یہ گمان ہے کہ عالم اللہ سے جدا اور اللہ عالم سے جدا ہے ۔ اس لیے اپنے وہم و گمان کے مطابق فرار الی اللہ کو اختیار کیا اس کا سبب یہ ہے کہ اس نے اشیاء کی حقیقت کو نہیں پایا۔
امام شعرانی فرماتے ہیں کہ اگر اس نے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ” فَفِرُّوْۤا اِلَى اللّٰهِ” سن کر یہ بات کی ہو ۔ تو یہ صحیح ہے لیکن اس نے بعد والی آیت میں غور نہیں کیا۔ کیونکہ اسی آیت کے بعد ارشاد باری تعالیٰ ہے
وَلَا تَجْعَلُوا مَعَ الله إلها آخر (الذاريات : 59)
ترجمہ: اور اللہ کے ساتھ معبود نہ ٹھہراؤ
اگر وہ اس آیت میں غور کرتا تو جان لیتا کہ یہاں فرار سے مراد جہالت سے علم کی طرف فرار ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ بندے کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔
(6) بندے کا یہ خیال کرنا کہ وہ اہل استقامت سے ہے بنده استقامت کا دعوی کیسے کر سکتا ہے حالانکہ سید الانبیاء علیہ التحیہ والثناء
ارشاد فرماتے ہیں ”سورہ ھود اور اس کی مثل دوسروں سورتوں نے مجھ پر بڑھاپا طاری کر دیا۔
صحابہ کرام فرماتے ہیں کہ آپ کا یہ ارشاد سورہ ھود کی آیت فَاسْتَقِمْ كَمَاۤ اُمِرْتَ کی وجہ سے تھا۔
امام شعرانی فرماتے ہیں کہ اگر بندے کو مقام استقامت حاصل ہو جائے تو یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہوتا ہے کیونکہ بندے کو استقامت میں قائم کرنے والی وہی ذات ہے اس لیے بندے کو چاہیے کہ وہ اس قسم کا دعوی نہ کرے ۔ تاکہ کہیں وہ اس سے محجوب نہ ہو جائے۔ امام ابو الحسن شاذلی” فرماتے ہیں کہ ولی کو ہرگز وصال نہیں ہو سکتا۔ جب تک وہ حیلہ و تدبیر اور ذاتی اختیارات میں مشغول ہو۔
(6) دنیا اور آخرت سے زہد اختیار کرنا۔
کیونکہ بندے کا اپنے آپ کو زاہد خیال کرنا اسے اپنے مولی سے محجوب کر دیتا ہے اس لیے بندۂ مخلص عطا اور عدم عطا میں اپنے مولیٰ پر نظر رکھتا ہے۔ اور کسی چیز کے ترک واخذ کو اپنی ذات کی طرف منسوب نہیں کرتا۔ کیونکہ جو چیز اس کی قسمت میں ہے اس میں زہد کرنا صحیح نہیں ۔ اور جو چیز اس کی قسمت میں نہیں ہے اس سے اجتناب کیلئے زہد کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ وہ چیز اس کے لیے ہے ہی نہیں ۔ اللہ تعالیٰ غیر مطلوب چیز کی طرف زاہد کا دل مائل نہیں کرتا۔ اور اس کو تنگی معیشت سے راہ دیتا ہے کیونکہ وہ اپنی حکمتوں کو خود ہی بہتر جاننے والا ہے شیخ شبلی سے زہد کے متعلق سوال ہوا۔ تو فرمایا ” حقیقت میں زہد کا کوئی وجود نہیں کیونکہ زاہد کا زہد یا تو ایسی چیز کے لئے ہو گا جو اس کے مقدر میں نہیں ہے تو اسے زہد نہیں کہہ سکتے ۔ یا اس کا زہد ایسی چیز میں ہو گا جو اس کیلئے ہو تو وہ اپنے پاس موجود چیز میں زہد کیسے کر سکتا ہے ؟
امام شعرانی فرماتے ہیں کہ زاہد کا دنیا کو ترک کرنا اس وجہ سے ہوتا ہے کہ یہ دنیا اللہ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتی۔ اور ترک دنیا قرب الہی کا ذریعہ اس وقت بن سکتا ہے۔ جب اس کو اس طریقہ پر ترک کیا جائے جو رب کے نزدیک محمود ہو ۔ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَ اِلَّا مَنْ اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ (الشعراء : 89٬88)
ترجمہ : جس دن نہ مال کام آئے گا۔ نہ بیٹے مگر وہ جو اللہ کے حضور حاضر ہواسلامت دل لے کر۔
بلکہ ترک دعوی ہی استقامت ہے خواہ مدعی اس بات کا خواہاں ہو یاابطال کا ۔ خواہ ظاہر ہو یا باطن ۔
(7) بندے کا اپنے آپ کو متوکلین سے شمار کرنا کیونکہ یہ مقام تو عوام کا ہے ۔ اور عبد مخلص کو یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام امور کو اپنے ذمہ لے لیا ہے اور بندے کو اس میں کوئی اختیار نہیں ہے عبد مخلص تو کل کے عام مرتبے سے بلند مرتبے پر فائز ہوتا ہے ۔ اور مخلصین کا توکل یہ ہوتا ہے کہ انہیں یہ یقین حاصل ہو جائے کہ تمام امور اللہ کے سپرد ہیں اور ان کا یہ قول توكلنا على الله حکم الہی کی پیروی اور خشوع و خضوع کیلئے ہوتا ہے وہ اپنے عجز کا اقرار کرتے ہیں کہ ہم کسی چیز کے مالک نہیں ۔ یہ لوگ حکم الہی کی بجا آوری میں مشغول ہو گئے ۔ اور جن امور کا اللہ تعالیٰ ضامن تھا ان کی طرف انہوں نے توجہ نہ دی کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کے نفسوں کے سپرد نہیں کرے گا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے مراتب کو بلند کر دیا اور ان کے انوار کو مکمل کیا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اپنے فضل واحسان سےروز قیامت ان سے حساب ہی نہ لے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے
سَبْعُونَ الْفَا مِنْ أُمَّتَى يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابِ (البزار)
میری امت کے ستر ہزار افراد بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے ۔
اور اللہ تعالیٰ اس بندے سے حساب کیسے لے جس کی کوئی شی ہی نہیں اور اسے اس کے فعل کے متعلق کیسے سوال کرے جس کا اپنا کوئی فعل ہی نہیں۔
امام شعرانی فرماتے ہیں کہ وہ عوام الناس جن کو اس حقیقت سے شناسائی نہیں ہوتی کہ تمام امور اللہ کیلئے ہی ہیں ان کا تو کل یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے امور میں اللہ تعالیٰ کو وکیل بنا دیتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں یہ ان کی ملکیت ہے اور وہ ان اموال کے مالک ہیں کیونکہ جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کا ارشاد” اموالكم” (تمہارے مال) سنا انہیں یہ وہم ہو گیا۔ کہ اس سے مراد ملکیت کی نسبت ہے اور وہ یہ نہ جان سکے کہ یہ نسبت اس طرح ہے جو “سرج الدابه ” (گھوڑے کی زین) اور ” باب الدار” (گھر کا دروازہ) میں ہے ان متوکلین سے یہ پوچھا جائے گا کہ تم نے کس چیز میں اپنے رب کو وکیل بنایا ہے اگر تو امر میں اس کو وکیل بنایا ہے تو وہ تمہارے وکیل بنانے سے قبل ہی مالک تھا۔ بندے کا یہ گمان کرنا کہ وہ اہل تسلیم میں سے ہے اور تعلیم کا معنی یہ ہے کہ ہر چیز کو اللہ کے سپرد کر دیتا۔ اور بندے کے اس قول میں جہالت اور دعوی ہے وہ مخفی نہیں کیونکہ بندہ تو ظاہراً وباطنا کسی چیز کا مالک ہی نہیں وہ اس چیز کو کسی کے سپرد کیسے کر سکتا ہے ۔ اور مخلصین نے جب یہ مشاہدہ کیا کہ ان کی ذوات وصفات اور تمام تر کائنات اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے وہ جیسے چاہتا ہے اس میں تصرف فرماتا ہے اور کوئی چیز بھی اس کے تصرف سے خارج نہیں ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیں تو وہ اس وجہ سے اس دعوی سے سلامت رہے بندے کا یہ گمان کرنا کہ وہ اہل رضا میں سے ہے۔ کیونکہ رضا ارادے کی قسم ہے اور مخلص بندے کا کسی حال میں بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے کوئی ارادہ نہیں ہوتا اس لیے وہ اپنی ذات کیلئے رضا اورسخط کو اختیار نہیں کرتا۔ اور وہ ایک شی کو دوسری شئی پر اور ایک حال کو دوسرے حال پر ترجیح نہیں دیتا۔ بلکہ وہ ہر حال میں اللہ سے راضی رہتا ہے۔ اگر وہ شرعاً معصیت ہو تو وہ اس سے اس حیثیت سے راضی ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ فعل باری تعالیٰ ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ وہ تو بہ واستغفار بھی کرتا ہے کیونکہ اس میں اس کا کسب بھی شامل ہے کیونکہ اس نے حکم خداوندی کی مخالفت کی ہے ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بندے کیلئے دلائل نصب کیے اور اپنے رسولوں کو بھیجا۔ اور عقل کی تخلیق کی۔ بندہ قضا سے تو راضی ہوتا ہے لیکن مقضی پر نہیں ۔
امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ادب کا تقاضایہ ہے کہ بندہ نہ تو عطا میں زیادتی کا طالب ہو اور نہ ہی مصائب میں کمی کا کسی عارف نے اس کا مطالبہ کیا تو ندا آئی اے بندے !ہم نے جو تیرے لیے منتخب کیا ہے وہ تیرے ذاتی اختیار سے بہتر ہے ہمارے احکام کے سامنے سرتسلیم خم کرو۔
حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سوال کیا کہ وہ مجھے نماز تہجد کی توفیق عطا فرمائے ۔ تو مجھے تین دن تک فرائض سے محرومی کی سزا ملی پھر ندا آئی ہمارا بندہ بن جا تو آرام پالے گا۔ اگر ہم تمہیں سلا ئیں تو سوجا۔ اور اس حالت پر راضی رہ۔ اور اگر ہم قیام لیل کی توفیق دیں تو قیام کر۔ اور اس حالت پر شکر کر اور ان دونوں کے سوا تیرے لیے کوئی راستہ نہیں ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں اللہ کا بندہ بن گیا تو مجھے راحت حاصل ہو گئی میرے لیے نیند اور بیداری برابر ہو گئی کیونکہ مجھے معلوم ہو گیا کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ نے مقدر کر رکھی ہے اور اسی میں ہی میری بھلائی ہے۔
امام شعرانی فرماتے ہیں اگر زیادتی خیر کی طلب عاجزی و انکساری کے طور پر ہو ۔ تو اس میں کوئی حرج نہیں جس طرح ارشاد خداوندی بر زبان موسیٰ علیہ السلام ہے
رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنزَلْتَ إِلَى مِنْ خَيْرٍ فَقِير” (القصص: 24)
ترجمہ: اے میرے رب ! میں اس آنے کا جو تو میرے لیے اتارے محتاج ہوں۔
اس سے معلوم ہوا کہ بندے کو صرف اسی پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے جو کچھ اس کے پاس ہو کہ وہ غنا کا اظہار کرے ۔ اس طرح وہ اپنی حدود سے فارغ ہو جائے گا رب کے علاوہ کسی اور منعم کو نہیں پائے گا۔ بندہ ہر حال میں رب ذو الجلال کا محتاج ہوتا ہے چاہے وہ اقرار کرے یا انکار ۔ اگر اختیاراً سوال نہ کرے تو”اضطرارا ” سوال کرنا پڑتا ہے
عارف بالله ابن عطاء اللہ سکندری” فرماتے ہیں ” اللہ تعالیٰ سے طلب مقام عبودیت کے منافی نہیں کیونکہ موسیٰ علیہ السلام کو مقام عبودیت میں کمال حاصل تھا۔ اس کے باوجود بھی آپ نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دامن طلب پھیلایا۔ اور یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے طلب کرنا عبودیت کے منافی نہیں اگر آپ یہ کہیں کہ طلب مقام عبودیت کے منافی نہیں ہے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی بارگارہ سے طلب کیوں نہیں کیا تھا جب آپ کو منجنیق میں رکھا گیا۔ تو جبرائیل علیہ السلام نے عرض کی ۔ کیا آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہے ؟ آپ نے فرمایا مجھے تجھ سے کوئی حاجت نہیں مگر اللہ کی بارگارہ سے ” حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کی کہ مجھ سے سوال کرو ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا “میرا مولیٰ میرے حال کو خوب جانتا ہے یہاں آپ نے بارگاہ خداوندی سے سوال نہیں کیا اس کا جواب یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام ہر مقام پر وہی عمل کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں سمجھ عطا ہوتی ہے اور یہ کام مناسب ہے۔ اس مقام پر حضرت ابراہیم علیہ السلام یہی سمجھے کہ عدم سوال اور اللہ تعالیٰ کے علم پر اکتفا ہی کافی ہے ۔ اور موسیٰ علیہ السلام نے یہ جان لیا تھا کہ اس مقام پر فقر اور اظہار سوال ہی مطلوب ہے ۔
اس لیے بارگاہ خداوندی میں دست سوال دراز کیا۔ کیونکہ ارشاد خداوندی ہے
وَ لِكُلٍّ وِّجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّیْهَا
ترجمہ: اور ہر ایک کے لئے توجہ کی ایک سمت ہے کہ وہ اسی کی طرف منہ کرتا ہے ۔