اسقاط

مقامات عالم

تصوف کی اصطلاحات میں عالم سے مراد ماسوی اللہ (اللہ کے سوا سب کچھ) ہے، جس کا وجود ظلی ہے اور وہ اللہ کی ذات کا آئینہ ہے۔ صوفیائے کرام نے کائنات کی تخلیق اور روحانی سفر کے حوالے سے عالم کے مختلف مقامات اور درجات بیان کیے ہیں، جنہیں مراتبِ ستہ یا تنزلاتِ ستہ کہا جاتا ہے  ۔

عالم کے مقامات اور ان کی اقسام کی تشریح درج ذیل ہے:

1۔ عالم کے بنیادی مراتب (داخلی و خارجی)

صوفیہ کے نزدیک وجود کے چھ بڑے مرتبے ہیں، جنہیں دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:

  • مراتبِ داخلی (بطون): یہ وہ مقامات ہیں جن میں ذات اور صفات کا اجمالی و تفصیلی علم ہوتا ہے۔ ان میں احدیت (ذاتِ بحت)، وحدت (حقیقتِ محمدی ﷺ) اور واحدیت (تفصیلِ صفات) شامل ہیں  ۔
  • مراتبِ خارجی (ظہور): یہ وہ مقامات ہیں جہاں کائنات خارج میں ظاہر ہوتی ہے۔ ان میں عالمِ ارواح، عالمِ مثال اور عالمِ اجسام شامل ہیں۔

2۔ عالم کے مشہور مقامات اور اقسام

تصوف میں کائنات کو پانچ بڑے عوالم یا حضرات (حضراتِ خمسہ) میں تقسیم کیا جاتا ہے:

  • عالمِ لاہوت (عالمِ ذات): یہ وہ مقام ہے جہاں سالک کو فنا فی اللہ کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ اسے روحوں کا پہلا وطن اور گنجِ مخفی کا مقام بھی کہا جاتا ہے ۔
  • عالمِ جبروت: یہ لاہوت اور ملکوت کے درمیان واقع ہے جہاں احکامِ خداوندی کے مطابق امور سرانجام پاتے ہیں۔ یہ اسماء و صفاتِ الٰہی کی عظمت اور مرتبہِ واحدیت کا مقام ہے۔
  • عالمِ ملکوت (عالمِ غیب/امر): یہ فرشتوں، عقول اور نفوس کا عالم ہے جو مادہ اور زمان و مکان سے پاک ہے ۔ اسے عالمِ ارواح بھی کہا جاتا ہے۔
  • عالمِ مثال (عالمِ برزخ): یہ عالمِ ارواح اور عالمِ اجسام کے درمیان ایک لطیف عالم ہے۔ یہاں روحیں اپنے اعمال کی مثالی صورتیں اختیار کرتی ہیں۔
  • عالمِ ناسوت (عالمِ شہادت/ملک): یہ مادی دنیا ہے جسے عالمِ اجسام اور عالمِ محسوسات بھی کہتے ہیں ۔ یہ وہ مقام ہے جہاں روحیں جسموں میں داخل ہوتی ہیں۔
  • عالمِ ہاہوت: یہ معرفت اور سلوک کے مقامات میں سے بلند ترین مقام ہے، جس کی طرف حدیثِ قدسی “کنت کنزاً مخفیا” میں اشارہ کیا گیا ہے ۔

3۔ عالمِ امر اور عالمِ خلق میں فرق

صوفیہ نے تخلیق کے اعتبار سے عالم کی دو بنیادی اقسام بیان کی ہیں:

  1. عالمِ امر: وہ عالم جو مادہ اور مدت (زمان و مکان) کے بغیر محض اللہ کے حکم “کُن” سے وجود میں آیا، جیسے عقول اور ارواح ۔
  2. عالمِ خلق: وہ عالم جو مادہ سے تخلیق ہوا اور جس میں ناپ تول، مقدار اور کمیت کو دخل ہو، جیسے اجسام اور افلاک۔

4۔ عالمِ صغیر اور عالمِ کبیر

صوفیہ کی اصطلاح میں انسان عالمِ صغیر ہے کیونکہ وہ تمام مراتبِ کائنات کا خلاصہ اور ان پر حاوی ہے ۔ جبکہ پوری کائنات عالمِ کبیر ہے۔ عالم کا وجود ظلی ہے، یعنی عالم صورتِ حق ہے اور حق تعالیٰ روحِ عالم ہے ۔

تمثیل: عالم کی حقیقت ایسی ہی ہے جیسے سورج اور اس کا عکس؛ جس طرح آئینہ میں سورج کا عکس نظر تو آتا ہے لیکن وہ اصل سورج نہیں ہوتا، اسی طرح یہ عالم اللہ کی صفات کا مظہر ہے مگر اس کی ذات کا عین نہیں ۔

صوفیاء جہان کو چار حصوں یامقاموں میں تقسیم کرتے ہیں اور ان مقاموں کے نام  رکھے ہیں۔

اول ناسوت۔

ناسوت عالم اجسام یعنی اس دنیا کو کہتےہیں

مفردون ہمیشہ مقام لاہوت میں رہتے ہیں۔اور لفظ مقام اس جگہ مجازًاستعمال ہوتا ہے۔ورنہ لاہوت کوئی مقام نہیں وہاں جہات ستہ نہیں ہیں۔وہ تو صرف ذاتِ الٰہی کانام ہے ۔

دوئم جبروت

جبروت صفات الہیہ کی عظمت و جلال کے مقام کو کہتے ہیں

۔سوئم ملکوت۔

۔ملکوت عالم فرشتگان یا عالم ارواح وعالم غیب وعالم اسماء کانام بتلاتے ہیں۔

چہارم لاہوت۔

۔لاہوت ذاتِ الہٰی کا عالم ہے۔جہاں جا کر سالک فنافی اللہ ہو جاتا ہے۔یعنی مفرد ومجرد ہوتا ہے۔

مراۃالاسرار میں لکھا ہے کہاس کے نیچے جبروت کا مقام ہے۔یعنی جبرو کسر کا مقام اور اس جگہ سے شش جہت کا انتظام شروع ہوتا ہےمعجزات و تصرفات اورتیرا میر بولنااور یہ اور وہ کا لفظ یہاں استعمال ہوتا ہےاور یہ خدا کے تخت کامقام ہے۔اور اس جگہ سے لے کر زمین کی خاک تک قطب عالم کا تصرف مانتے ہیں۔اور کہتے ہیں کہ لاہوت میں جبروت کا خیال کفر ہے۔وہ لوگ جو لاہوت میں پہنچتے ہیں مقام جبروت میں واپس آکر معجزات وغیرہ کیا کرتے ہیں۔اور اس وقت وہ لوگ لاہوت سے گرے ہوتے ہیں۔

عبدالرزاق کاشی سے منقول ہے کہ لاہوت صوفیہ کے نزدیک وہ حیات ہے جو تمام اشیا میں سرایت کیے ہوئے ہے۔اور مقام ناسوت اور روحِ انسانی اس لاہوت کا محل ہے۔اسی مضمون پر کسی صوفی کا یہ شعر ہے۔

روح شمع وشعاع اوست حیات خانہ روشن ازو داو از ذات
میں کہتا ہوں کہ اگرچہ عام صوفی لفظ جبروت سے عالم جبرع کسی مراد لیتے ہیں تو درحقیقت لفظ جبروت جبر سے مبالغہ ہے۔جس کے معنی ہیں بڑی زبر دستی اور بڑی بلندی پس خدا کی وہ شان جس سے وہ سب چیزوں حکومت اور بلندی رکھتا ہے اسی شان کانام جبروت ہے۔اور وہ ذات پاک جس کی وہ شان ہےاسی کا نام لاہوت ہے۔پس لفظ جبروت سے صفات قدیمہ پر اور لفظ لاہوت سے ذات پاک پر اور لفظ ملکوت سے عالمِ بالا پر اور لفظ ناسوت سے عالم ِ اجسام پر اشارہ ہوتا ہے۔اور اس نشان پربظاہر کچھ نقصان نہیں ہے۔البتہ وہ کیفیتیں جو ان مقاموں میں صوفیہ نے اپنی عقل سے اپنے ولیوں کے لیے فرض کی ہیں کہ یہاں یہ ہوتا ہے۔اور وہاں وہ ہوتا ہے۔اس کا ثبوت بدلیل ان کے ذمے ہے۔میں ان کے اس بیان کو محض وہم سمجھتا ہوں۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں