مقام صدق حکمت نمبر25
مقام صدق کے عنوان سے باب دوم میں حکمت نمبر25 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
آٹھواں ادب: یہ ہے کہ اس کا تصرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ ، اور اللہ تعالیٰ کے لئے ، اور اللہ تعالیٰ سے، اور اللہ تعالیٰ کی طرف ہو۔ اور یہ اس صدق کا مقام ہے جو اخلاص کا مغز ہے۔ اور خواص الخواص کا اخلاص ہے۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں فرمایا:
25) ماَ تَوَقَّفَ مَطْلَبٌ أَنْتَ طَالِبُهُ بِرَبِّكَ وَلَا تَيَسَّرَ مَطْلَبٌ أَنْتَ طَالِبُهُ بِنَفْسِكَ.
جو مقصد تم نے اپنے رب کے ساتھ طلب کیا ، وہ موقوف نہیں ہوا۔ اور جو مقصد تم نے اپنے نفس سے طلب کیا وہ آسان نہیں ہوا۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ جب تم کو دنیاو آخرت کی حاجتوں میں سے کوئی حاجت پیش آئے اور تم یہ چا ہو کہ وہ تمہارے لئے جلد پوری کر دی جائے تو تم اسے اللہ تعالیٰ کے ساتھ طلب کرو ۔ اپنے نفس کے ساتھ نہ طلب کرو ۔ کیونکہ جب تم اسے اللہ تعالیٰ کے ساتھ طلب کرو گے، تو اس کا پورا ہونا آسان ہوگا۔ اور اگر تم اسے اپنے نفس کے ساتھ طلب کرو گے۔ تو اس کا پورا ہونا دشوار ہو گا۔ جو کام تم اپنے رب کے ساتھ کرو گے ، وہ ہرگز موقوف نہ ہوگا اور جو کام تم اپنے نفس کے ساتھ کرو گے وہ آسان نہ ہو گا۔
اللہ تعالیٰ نے سیدنا حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ بیان فرمایا:
وَقَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ اسْتَعِينُوا بِاللَّهِ وَاصْبِرُو إِنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ يُؤْرِثُهَا مَنْ يَّشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ، وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ .
اور موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا: تم لوگ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو، اور صبر کرو ۔ یقیناً زمین اللہ تعالیٰ کی ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے۔ اور عاقبت پر ہیز گاروں کے لئے ہے۔
پس جس شخص نے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کی ۔ اور اپنی حاجت کی طلب میں صبر کیا۔ عاقبت اس کے لئے ہے اور وہ متقین میں سے ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ اور جو شخص اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے تواللہ تعالیٰ اس کیلئے کافی ہے
یعنی اسکی ہر مشکل اور پریشانی کے لئے کافی ہے۔
اور حضرت نبی کریم ﷺ نے اپنے ایک صحابی حضرت سوید بن غفلہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
لَا تَطْلُبِ الْإِمَارَةَ، فَإِنَّكَ إِنْ طَلَبْتَها فَأُوتِيتَها وُكِّلْتَ إِلَيْهَا، وَإِنْ لَمْ تَطْلُبْها أُعِنْتَ عَلَيْهَا
تم سرداری کی خواہش نہ کرو۔ کیونکہ اگر تم اس کی خواہش کرو گے تو تم اس کے سپرد کر دیئے جاؤ گے۔ اور اگر وہ تمہیں بغیر خواہش کے ملی تو اس پر تمہاری مدد کی جائے گی۔
طلب کرنے کی علامت
اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ طلب کرنے کی علامت ۔ اس کام میں زہد اختیار کرنا، اور اس کام کی طرف سے توجہ ہٹا کر اللہ تعالیٰ کے ساتھ مشغول ہونا ہے۔ کیونکہ جب اس کام کا وقت آئے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہو جائے گا۔ اور نفس کے ساتھ طلب کرنے کی علامت – حرص سے اس کی طرف بڑھنا ہے۔ اور اگر اس کا حاصل ہونا دشوار ہو جائے تو اس کے لئے دل میں رنج پیدا ہونا، اور اس کی حالت میں تغیر پیدا ہوناہے۔
اللہ تعالیٰ کے ساتھ طلب کرنے والے، اور اپنے نفس کے ساتھ طلب کرنے والے کی میزان یہی ہے۔ اسی سے دونوں میں امتیاز کیا جاتا ہے۔ لہذا جو شخص اپنی حاجتیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ طلب کرتا ہے، اس کی حاجت باطنی طور پر پوری کر دی جاتی ہے اگر چہ ظاہری طور پر پوری نہ ہوئی ہو ۔ اور جو شخص اپنی حاجتیں اپنے نفس کے ساتھ طلب کرتا ہے، اس کی کوشش ناکام ہوتی ہے اور اس کا وقت ضائع ہوتا ہے اگر چہ اس کی خواہش اور اس کی حاجت پوری ہو جائے ۔ اور یہاں ایک قاعدہ ہے: اس قاعدے کے ذریعے ذلت اور رسوائی والوں سے عنایت و مہربانی والے، اور گھاٹے میں رہنے والوں سے ولایت والے پہچانے جاتے ہیں اس قاعدے کو حضرت شیخ ابوالحسن شاذلی رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا ہے:
قاعدہ: جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو اس کی حرکات وسکنات میں بزرگی عطافرماتا ہے تو اس کو اپنی عبودیت میں قائم کرتا ہے۔ اور اس کے نفس کے حصے اس سے پوشیدہ کر دیتا ہے۔ لہذا وہ اللہ تعالیٰ کی عبودیت ہی میں مشغول رہتا ہے۔ اگر چہ اس کے نفس کے حصے قدر کے حکم کے موافق اس کو ملتے ہیں۔ لیکن وہ ان کی طرف متوجہ نہیں ہوتا ہے گویا کہ وہ ان سے علیحدہ ہے۔
اور جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو اس کی حرکات و سکنات میں ذلیل کرتا ہے تو اس کو اس کے نفس کے حصوں میں قائم کر دیتا ہے اور اپنی عبودیت اس سے پوشیدہ کر دیتا ہے۔ لہذا وہ نفس کی خواہشات ہی میں مشغول رہتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی عبودیت اس سے علیحدہ ہو جاتی ہے۔ اگر چہ بہ ظاہر عبادت کرتا رہتا ہو۔ حضرت شاذلی نے فرمایا ہے: ولایت اور اہانت کا قاعدہ یہی ہے۔ لیکن صدیقیت عظمی، اور ولایت کبری: تو حصے اور حقوق اہل بصیرت کے نزدیک برابر ہیں۔ کیونکہ وہ انہیں اختیار کرنے اور ترک کرنے میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوتے ہیں۔ حضرت شیخ زروق رضی اللہ عنہ نے اس کو اپنی بعض شرح میں نقل فرمایا ہے۔ حاصل یہ ہے: عارف کے کل تصرفات اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوتے ہیں۔ اور غیر عارف کے کل تصرفات نفس کے ساتھ ہوتے ہیں۔ اگر چہ وہ اللہ تعالیٰ کیلئے ہوں ۔ پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ عمل، قربت کا سبب ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے لئے عمل ، ثواب کا سبب ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ عمل، حجاب کے اندر داخل کر کے احباب کے مشاہدے میں مشغول کرتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے لئے عمل ، دروازے کے باہر رکھ کر ثواب واجب کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ عمل ، اہل حقیقت کا عمل ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے لئے عمل ، اہل شریعت کا عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ عمل کرنے والے، وہ لوگ ہیں جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے إِيَّاكَ نَعۡبُدُ فرمایا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے لئے عمل کرنے والے، وہ لوگ ہیں جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے وَإِيَّاكَ نَسۡتَعِينُ فرمایا ہے۔ ہمارے شیخ الشیوخ سیدی علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ کے ساتھ عمل، اور اللہ تعالیٰ کے لئے عمل کے درمیان اتنا فرق ہے، جتنا فرق دینار اور درم کے درمیان ہے۔ وباللہ التوفیق ۔