چند استفساروں کے جواب میں مولانا محمد صادق کشمیری کی طرف صادر فرمایا ہے۔
حمد وصلوة اورتبلیغ و دعوات کے بعد واضح ہو کہ آپ کا مکتوب شریف پہنچا۔ چونکہ اس میں پسندیدہ احوال لکھے تھے، اس لیے بڑی خوشی کا موجب ہوا۔
آپ نے لکھا تھا کہ ورائیت(حق تعالیٰ کے وراء الوراء ہونے ) میں معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ صفات کوحق تعالی پر بڑی تکلف سےحمل کرتا ہے اور حق تعالی کو وراء الوراء جانتا ہے۔ آپ کوشش کریں تا کہ یہ حمل کرنا تکلف سے بھی میسر نہ ہو اور صرف حیرت تک معاملہ پہنچ جائے۔
آپ نے دریافت فرمایا تھا کہ رشحات(عین الحیات، شیخ علی بن حسین الواعظ الہروی کی تصنیف) میں باباء آبریز کی نسبت منقول ہے کہ اس نے کہا ہے کہ جب حق تعالی نے روز اول میں آدم علیہ الصلوة والسلام کی مٹی گوندھی تھی تو میں اس مٹی پر پانی گراتا تھا، اس کی تاویل کیا ہے۔
آپ کو جاننا چاہیئے کہ حضرت آدم علیہ الصلوة والسلام کی ظلیہ خدمات میں جس طرح ملائکہ کرام کودخل دیا ہوا تھا، شاید اس کی روح کو بھی دخل دیا ہو اور اس کی عنصری پیدائش اور اس کے کمال کے بعد اس امر سے اس کو اطلاع دی گئی ہو۔ جائز ہے کہ حق تعالی ارواح مجردہ کو وہ طاقت و قدرت د ے کہ ان سے اجسام کے سے افعال صادر ہوں اور اسی قسم کی ہیں وہ باتیں بھی جو بعض کبراء نے اپنے افعال شاقہ سے خبر دی ہے جو ان سے ان کے وجود عنصری سے کئی قرن پہلے صادر ہوئے تھے۔ وہ افعال ان کے ارواح مجردہ (غیر مادی) سے صادر ہوئے اور وجودعنصری کے بعد ان کو ان افعال پر اطلاع دی گئی۔ بعض لوگ اس قم کے افعال صادر ہونے سے تناسخ . کے وہم میں پڑ جاتے ہیں۔ حاشاو کلا کہ کسی دوسرے بدن کا اس سے تعلق ہوا ہو۔ روح مجرد ہے جو حق تعالی کی طاقت بخشنے سے بدن کا کام کرتا ہے اور ارباب زی یعنی کجروں کو خلاف میں ڈالتا ہے۔ اس مقام میں سخن کی بہت مجال ہے اور بہت سی عجیب و غریب تحقیقات فائض ہوئے ہیں۔ اگر توفیق شامل حال ہوئی تو کسی جگہ انشاء اللہ لکھی جائیں گی۔ اب وقت نے مساعدت اور یاوری نہیں کی۔
نیز آپ نے پوچھا تھا کہ رشحات میں لکھا ہے کہ جب خواجہ علاؤ الدین قدس سرہ مولانا نظام الدین خاموش سے رنجیده خاطر اور ناراض ہوئے تو چاہا کہ ان سے نسبت کو سلب کر لیں۔ مولانا نے اس وقت آنحضرت علیہ الصلوۃ والسلام کی روحانیت سے التجا کی اور حضرت علیہ الصلوة والسلام سے خواجہ(علاؤالدین) قدس سرہ کو خطاب ہوا کہ نظام الدین ہمارا ہے، اس پر کسی کا تصرف نہیں ہوگا۔
اور دوسری جگہ اسی کتاب میں لکھا ہے کہ بڑھاپے میں حضرت خواجہ احرار قدس سره نے مولانا سے نسبت کو سلب کرلیا۔ مولانا کہا کرتے تھے کہ خواجہ نے ہم کو بوڑھا جانا، اس لیے جو کچھ میرے پاس تھا، سب لے گئے اور آخر کار مفلس بنادیا۔ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ حضرت رسالت خاتمیت علیہ الصلوۃ والسلام جس شخص کو اپنا کہیں اور فرمائیں کہ اس پر کسی کو تصرف کی مجال نہیں۔ اس پر حضرت خواجہ احرار قدس سرہ تصرف کر جائیں۔
جاننا چاہیئے کہ ہمارے حضرت خواجہ قدس سرہ اس نقل کو پسند نہ کرتے تھے اور مولانا کی نسبت کے سلب ہونے میں توقف فرماتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ مولانا سعد الدین کاشغری (جو مولانا نظام الدین کے مرید ہیں)کے مریدوں میں سے مولانا عبدالرحمن اور دوسرے ان کے بے شمار مریدوں میں سے کسی نے اس نقل کو بیان نہیں کیا اور نہ اس کے ردو قبول کا ذکر کیا ہے۔ معلوم نہیں مولانا فخرالدین علی نے کہاں سے لکھا ہے۔ اگریہ خبر سچی ہوتی تو تواتر کے ساتھ نقل ہوتی چلی آتی کیونکہ تواتر کے طور پر اس کی نقل ہونے کے بہت سے اسباب تھے اور جب تواتر کے ساتھ منقول نہیں اور خبر واحد کے ساتھ قرار پا چکی ہے تو معلوم ہوا کہ اس کے صدق میں تردد ہے۔ رشحات کی اور اس قسم کی بہت سی نقلیں صدق سے دور ہیں اور اس سلسلہ عالیہ کے لوگ ان نقلوں میں تردد رکھتے ہیں۔ وهو سبحانه أعلم ( الله تعالی زیادہ جانتا ہے)۔
اور حضرت خواجہ قدس سرہ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ مفلس کرناسلب ایمان پر دلالت کرتا ہے۔ اعاذنا الله سبحانہ اللہ تعالی اس سے بچائے۔ اور یہ بات بہت مشکل ہے رَبَّنَا لَا تُزِغۡ قُلُوبَنَا بَعۡدَ إِذۡ هَدَيۡتَنَا وَهَبۡ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحۡمَةًۚ إِنَّكَ أَنتَ ٱلۡوَهَّابُیا اللہ ہدایت دے کر تو ہمارے دلوں کو ٹیڑھانہ کر اور اپنی جناب سے ہم پر رحمت نازل فرما۔ بے شک تو بہت بخشنے والا ہے۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ91 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی