مسئلہ وحدت الوجود مکتوب نمبر1 دفتردوم

 مسئلہ وحدت الوجودمیں شیخ محی الدین ابن عربی کے مذہب کے بیان میں جو حضرت ایشان سلمہ الله تعالی کے نزدیک مختار ہے۔شیخ عبد العزیزجونپوری کی طرف صادر فرمایا: ۔ 

اللہ تعالی کی حمد ہے جس نے امکان کووجوب کا آئینہ اور عدم کو وجود کا مظہر بنایا وجوب اور وجود اگر چہ حق تعالی کے کمال کی دوصفتیں ہیں لیکن حق  تعالی تمام اسماء و صفات اور تمام شیون (اس کا مُفرد شان ہے   شان کا معنیٰ حال اور امر ہے) و اعتبارات اور ظہور(ظاہر) وبطون(باطن) اوربروز (کسی شخصیت کی جگہ کوئی اور ظاہر ہوجائے  یا اسکی شکل اختیار کرلے) وکمون ( ضم یاپوشیدہ ہونا)اور تمام تجلیات و ظہورات اور تمام مشاہدات و مکاشفات اور تمام محسوس ومعقول اورتمام موہوم و متخیل سے وراء الوراءثم وراء الوراءثم وراء الوراءہے 

چوں گویم باتواز مرغ نشانہ           کہ باعنقا بود ہم آشیانہ

زعنقا ہست نامے پیش مردم     زمرغ من بود آں نام ہم گم

 ترجمہ: میں تجھے کیا بتاؤں کہ وہ کہاں ہےدراصل وہ عنقا کی طرح بے نشان ہے جس طرح عنقا کانام تو سب کو معلوم ہےمگر اس کا تو نام بھی کسی کو  پتہ نہیں

 کسی حمد کرنے والے کاحمد اس کی ذات بلند کی پاک بارگاہ تک نہیں پہنچتابلکہ اس کی عزت و جلال کے پردوں سے ورے ہی ورے جاتا ہے۔

  اس ذات پاک نے اپنی تعریف آپ ہی کی ہے اور اپنی حمد کو آپ ہی بیان کیا ہے بس وہ ذات تعالی آپ ہیں حامد اور آپ ہی محمودہے اس کے علاوہ تمام کائنات اس کی حمد مقصود کے ادا کرنے سے عاجز ہے ہے اور عاجز کیوں نہ ہو جبکہ اس سبحانہ و تعالی کی حمد سے وہ بزرگ ہستی حضور اکرم ﷺ بھی عاجز ہے جو قیامت کے دن لواء الحمد حمد کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہوگی

جس کے نیچے حضرت آدم اور تمام انبیاء علیہ الصلاۃ و السلام ہوں گے آپ ﷺ ظہور میں تمام مخلوقات سے افضل و اکمل مرتبے میں سب سے زیادہ قریب کمال میں سب سے زیادہ جامع، جمال میں سب سے زیادہ کامل، حسن و جمال کا چاند ہونے میں سب سے زیادہ اکمل،قدر میں سب سے زیادہ بلند، بزرگی اور شان میں سب سے زیادہ عظیم ،دین میں سب سے زیادہ مضبوط،ملت میں سب سے زیادہ عادل،حسب میں سب سے زیادہ کریم  وبزرگ،نسب  میں سب سے زیادہ شریف اور خاندان میں سب سے زیادہ معزز ہیں اگر اللہ تعالی ان کو پیدا نہ کرتا تو مخلوق کو بھی پیدا نہ کرتا اور نہ ہی اپنی ربوبیت ظاہر فرماتا آپ اس وقت بھی نبی تھے جب آدم علیہ السلام ابھی پانی اور مٹی کے درمیان تھے یعنی حضرت آدم علیہ السلام کے پتلے کے لیے ابھی گوندھی ہوئی مٹی تیار ہوئی تھی اور قیامت کے دن آپ تمام نبیوں کے امام اور خطیب اور صاحب شفاعت ہوں گے اور آپ نے اپنے حق میں یہ فرمایا کہ ظہور کے اعتبار سے ہم دنیا میں سب سے آخر میں ہیں اور قیامت کے دن ہم سب سے سابق اول ہوں گے اور میں یہ بات فخر سے نہیں کہتا اور میں اللہ تعالی کا حبیب اور خاتم النبیین ہوں اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں ہیں اور جب قیامت کے دن لوگ قبروں سے اٹھیں گے تو سب سے اول میں ہی اٹھوں گا اور جب لوگ بارگاہ خداوندی میں گروہ در گروہ حاضر ہوں گے تو میں ہی ان کا قائد ہونگا اور جب وہ خاموش کیے جائیں گے تو ان کی طرف سے  میں ہی خطیب اور کلام کرنے والا ہونگا اور جب وہ روک لیے جائیں گے تو میں ہی ان کی شفاعت کروں گا اور جب لوگ رحمت و کرامت سے مایوس ہو جائیں گے تو میں ہی ان کو خوشخبری دوں گا اس روز تمام کرامت اور بزرگی کی کنجیاں میرے ہاتھ میں ہو نگی

در قافلہ کہ اوست دانم نرسم ایں بس کہ رسد زدو ربانگ جرسم

ترجمہ   جس قافلہ میں یار ہے  اس تک  میں جا نہیں سکتا میں

 بس دور سے قافلے کی گھنٹیوں کی آواز سنتا ہوں 

اللہ سبحان اللہ کی طرف سے صلوۃ و سلام اور تحائف وبرکتیں آن  سرورعلیہ الصلوۃ والسلام پر اور آپ کے تمام بھائیوں  انبیاء والمرسلین  ملائکہ المقربین اورتمام اہل طاعت پر نازل ہوتے رہیں جو آپ کی شان کے لائق ہیں اور جن کے وہ اہل ہیں جب تک آپ کا ذکر کرنے والے ذکر میں مشغول رہیں اور جب تک غفلت والے آپ کے ذکر سے غافل رہیں۔

حمد و صلاۃ کے تبلیغ دعوات اور ارسال تحیات کے بعد واضح  ہو کہ آپ کا مکتوب گرامی جو اس فقیر کے نام تحریر کیا تھا میرے عزیز بھائی  شیخ محمد طاہر نے پہنچایا اس کی وجہ سے خوشی حاصل ہویہ  گرامی نامہ چونکہ ارباب کشف و شہود کے حقائق و معارف پر مشتمل تھا اس لئے فرحت پر فرحت حاصل ہوئی اللہ سبحانہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے آپ کے صحیفہ کی موافقت میں اس بزرگ جماعت صوفیائے کرام کے ذوق ومذاق کی چند باتیں تحریر کرکے آپ کو تکلیف دیتا ہے

میرے مخدوم یہ بات آپ کے علم شریف میں ہے کہ وجود ہر خیر و کمال کا مبدا ہے اور عدم ہر نقص و شرارت اور زوال کا منشاء ہے لہذا وجود واجب جل سلطانہ کے لیے ثابت ہے اور عدم ممکن کے نصیب ہے تاکہ تمام خیر  وکمال حق تعالی کی طرف عائد ہو اور تمام شر نقص ممکن کی طرف راجع ،ممکن کے لئے وجود ثابت کرنا اورخیرو کمال  کواس کی طرف منسوب درحقیقت حق تعالی شانہ کے مِلک و مُلک  میں اس کا شریک بنانا ہےاور اسی طرح ممکن   کو حق تعالیٰ  کہنااور ممکن کے صفات و افعالحق تعالی کے صفات وافعال  کاعین قرار دینا بڑی بے ادبی اور حق تعالیٰ کے اسماء و صفات میں شرک ہے بیچارا کمینہ خاکروب جو ذاتی نقص و خبائث سے داغدار ہےکیا مجال کہ اپنے آپ کو اس سلطان عظیم الشان کا عین تصور کرے  جو تمام خوبیوں اور کمالات کا منبع و منشا ہے اور اپنی بری صفات و افعال اس ذات عالی کی صفات و افعال جمیلہ کے عیں  ہونے کا وہم کرے علمائے ظواہر نے ممکن کے لئے وجود ثابت کیا ہے اور واجب تعالی کے وجود اور ممکن کے وجود کووجود کے افراد مطلق سے سمجھا ہے

 خلاصہ کلام یہ کہ اس بحث کی وجہ سےحق تعالی کے وجود کو قضیہ تشکیک (ایک منطقی اصطلاح) کے قاعدہ کے مطابق علمائے ظاہر نے اولی واقدم کہا ہے حالانکہ یہ معنی ممکن کو واجب تعالی کے ساتھ ان کمالات و فضائل میں جو اس وجود سے پیدا ہوئے ہیں شریک کرنے کا باعث ہے

تعالی  اللہ عن ذالک  علوا کبیرا

اللہ تعالی اس بات سے بہت بلند و برتر ہے

اور حدیث قدسی میں وارد ہے

الکبریاء ردائی والعظمۃ ازاری

کبریائی میری چادر ہے اور عظمت میرا آزار ہے

اگر علمائے ظوا ہر اس نکتہ سے آگاہ ہوتے تو ہرگز ممکن کے لئے وجود ثابت نہ کرتے اور جو خیر و کمال حضرت جل وعلا  کے ساتھ مخصوص ہے وجود کی خصوصیت کے اعتبار سے ممکن کے لئے ثابت نہ کرتے۔

رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا

اے رب ہمارے تو ہماری بھول چوک اور خطاب پر مواخذہ نہ کرنا

 اور اکثر صوفیاء بالخصوص ان کے متاخرین نے ممکن کو ہی واجب تعالی سمجھا ہے اور ان کے صفات و افعال کو حق تعالی کے صفات و افعال کا عین سمجھ لیا ہے اور کہتے ہیں

ہمسایہ وہم نشین و ہمراہ ہمہ اوست  دردلق گدا واطلس شاہ ہمہ اوست

 در انجمن فرق و نہان خانہ جمع   باللہ ہمہ اوست  ثم باللہ ہمہ اوست

ہمسائیگی اور ہمراہی اسی کے ساتھ ہے گدڑی والا ہو یا شہنشاہ ہو اسی کے ساتھ ہے فرق اور جمع کے مقامات  الگ الگ ہیں لیکن صرف وہی ہے اور اسی کے ساتھ ہر ایک چیز ہے۔

اگرچہ یہ بزرگوار وجود کے شریک کرنے سے پرہیز کرتے ہیں اور دوئی سے گریز کرتے ہیں لیکن غیر وجود کو وجود مانتے ہیں اور نقائص کو کمالات سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کسی چیز کی ذات میں شرارت اور نقص نہیں ہے اگر ہے تو صرف نسبی اور اضافی ہے مثلا زہر قاتل انسان کی نسبت سے شرارت رکھتا ہے کہ اس کی زندگی کو ختم کر دیتا ہے اور اس حیوان کی نسبت آب حیات ہے جس میں یہ زہر پیدا ہوتا ہے اور اس کے لیے تریاق نافع ہے اس معاملہ میں ان کا مقتدا اور راہنما ان کا کشف و شہود ہے جو کچھ ان پر ظاہر ہوا ہے انہوں نے اس کو ظاہر کر دیا

اللھم ارنا حقائق الاشیاءکما ھی

اے اللہ ہم کو اشیاء کی حقیقتیں جیسی کے وہ ہیں دکھا دے۔

اس باب میں فقیر پر جو کچھ ظاہر ہوا ہے اس کو تفصیل سے بیان کرتا ہے

  سب سے پہلے شیخ محی الدین ابن العربی  جوصوفياء متاخرین کے امام ومقتدا ہیں اس مسئلہ میں ان کامذ ہب بیان کیا جاتا ہے اس کے بعد جو کچھ اس فقیر پر مکشوف ہوا ہے تحریرکیاجائے گا تاکہ دونوں مذہبوں کے درمیان پورے طورپرفرق ظاہر ہوجائے اور باریک دقائق  کی وجہ سے ایک دوسر  ےکے ساتھ خلط ملط نہ ہوں شیخ  محی الدین اوران کےمتبعین فرماتے ہیں کہ حق تعالی جل وعلا کے اسماء وصفات ذات واجب تعالى وتقدس کا بھی عین ہیں اوراسی طرح ایک دوسرے کے بھی عین ہیں۔ مثلا علم وقدرت جس طرح حق تعالی کی عین ذات ہیں اسی طرح ایک دوسرے کے بھی عین ہیں  لہذا  اس مقام میں کسی اسم اور رسم ( نشان)  کی کوئی تعداد اور کثرت نہیں ہے اور نہ ہی کوئی تمایز و تباین (تمیز وفرق) ہے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ ان اسماء و صفات اورشیون واعتبارات نے حضرت علم میں اجمالی اور تفصیلی طورپر تمایز و تباین (تمیز وفرق)  پیدا کیا ہے۔  

اگر اجمالی تمیز ہے تو وہ تعین اول سے تعبیر کی جاتی ہے اور اگر وہ تفصیلی تمیز ہے تو وہ تعین ثانی سے موسوم ہے تعین اول کو وحدت کہتے ہیں اور اسی کو حقیقت محمدی سمجھتے ہیں اور تعین ثانی کو واحدیت  کہتے ہیں اور تمام ممکنات کے حقائق گمان کرتے ہیں اور ان حقائق ممکنات کو اعیان ثابتہ جانتے ہیں اور یہ دو علمی تعین جو کہ وحدت اور واحدیت ہے ان کو مرتبہ وجوب میں ثابت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان اعیان ثابتہ نے وجود خارجی کی بو تک نہیں پائی اور خارج میں احدیت مجردہ کے سوا کچھ بھی موجود نہیں ہے اور یہ کثرت جو خارج میں ظاہر ہوتی ہے ان اعیان ثابتہ کا عکس ہے

 جو ظاہر وجود کے آئینے میں منعکس ہوا ہے جس کا کوئی جز بھی خارج میں موجود نہیں ہے اور خیالی وجود پیدا کرلیا ہے جس طرح ایک شخص کی صورت آئینے میں منعکس ہو کر وجود تخیلی پیدا کر لے اس عکس کا وجود صرف تخیل میں ثابت ہے اور آئینے میں کسی شے نے حلول نہیں کیا ہے اور نہ ہی آئینے کی سطح پر کوئی چیز منقش ہوئی ہے بلکہ اگر کچھ منقش ہے تو صرف خیال میں ہے جو آئینے کی سطح پر  متوہم ہوگیا ہے اور یہ خیالی اور وہمی شے خدا وند جل سلطانہ کی ایک صنعت ہے جو بڑا استحکام اور ا ثبات کی حامل ہے اور وہم اور تخیل کے زوال کی وجہ سے زائل نہیں ہوتی اور آخرت کا دائمی ثواب و عذاب اسی پر مرتب ہوتا ہے

یہ کثرت جو خارج میں ظاہر ہوتی ہے تین قسموں میں منقسم ہے

 قسم اول تعین روحی ہے ہے اور قسم دوم تعین مثالی اور قسم سو م تعین جسدی جس کا تعلق عالم شہادت سے ہے ان تینوں تعینات کو تعینات خارجیہ کہتے ہیں اور امکان کے مرتبہ میں ثابت کرتے ہیں تنز لات خمسہ سے مراد یہی تعینات پنجگانہ  ہیں اور ان تنزلات خمسہ کو  حضرات خمس بھی کہتے  ہیں اور چونکہ علم اور خارج میں سوائے ذات واجب تعالی اور اسماء و صفات واجبی جل سلطانہ کے جوعین  ذات تعالی و تقدس ہیں ان کے نزدیک ثابت نہیں اور انہوں نے صورت علمیہ  کو ذی صورت  کا عین گمان کیا ہے نہ کہ شبہ )جسم( اور مثال  اور اسی طرح اعیا ن ثابتہ کو صورت منعکسہ کو جو ظاہری وجود کے آئینے میں پیدا ہوئی ہے انہوں نے ان اعیان کا عین تصور کرلیا ہے ہے نہ کہ ان کی شبہ  اس لیے انہوں نے اتحاد کا حکم لگا دیا اور ہمہ اوست(سب کچھ وہی ہے)   کہا ہے

یہ ہے مسئلہ وحدت الوجود میں شیخ محی الدین ابن العربی کے مذہب کا اجمالی بیان  اور یہی وہ علوم ہیں جن کو شیخ نے خاتم الو لایت کے ساتھ مخصوص جانا ہے اور کہا ہے کہ خاتم النبوۃ ایں علوم راہ از خاتم الولایۃ اخذ می نماید

خاتم النبوت نے ان علوم کو خاتم الولایت سے اخذ کیا ہے

اور فصوص کے شارحین اس قول کی وضاحت میں بڑے تکلفات کا اظہار کرتے ہیں

مختصر یہ کہ شیخ سے پہلے اس گروہ صوفیہ میں سے کسی نے ان علوم و اسرار میں زبان نہیں کھولی اس بات کو کسی نے بھی اس انداز میں بیان نہیں کیا اگرچہ توحید و اتحاد کی باتیں غلبہ سکر کی وجہ سے ان سے بھی ظاہر ہوئی ہیں اور انا الحق و سبحانی  جیسے الفاظ کہے ہیں لیکن یہ حضرات اتحاد کی وجہ اور منشائے توحید معلوم نہیں کر سکے۔ لہذا شیخ ہیں اس گروہ کے متقدمین کی برہان اورگروہ متاخرین کے لئے حجت اور دلیل  ہیں لیکن ابھی اس مسئلہ کے بہت سے دقیق نکات پوشیدہ رہ گئے ہیں اور اس باب میں بہت سے پوشیدہ اسرار منصہ شہود پر نہیں آئے ہیں کہ فقیر کو ان کے اظہار کی توفیق اور ان کے قید تحریر میں آنے کی بشارت ملی

وَاللَّهُ يَحقُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ

اللہ تعالی ہی حق کو حق ثابت کرتا ہے اور وہی ہدایت کی راہ دکھاتا ہے

میرے مخدوم واجب الوجود تعالی و تقدس کی صفات ثمانیہ ( آٹھ صفات )جو اہل حق شکر اللہ تعالی سعیہم کے نزدیک خارج میں موجود ہیں لازمی طور پر ذات تعالی و تقدس سے خارج میں متمیز ہیں اور تمیز بھی ذات و صفات کی طرح بیچونی (بے مثال)اور بیچگونی (بے کیف ہونا)قسم سے متمیز  ہے اور اسی طرح یہ صفات  بھی بیچونی  کے ساتھ ایک دوسرے سے متمیز ہیں بلکہ بیچونی کی تمیز حضرت ذات تعالی و تقدس کے مرتبہ میں بھی ثابت ہے لانہ الواسع  بالوسع المجھول  الکیفیۃ

کیونکہ واجب تعالی مجہول الکیفیت وسعت کے ساتھ واسع ہے یعنی وہ ہر شے کا احاطہ کیے ہوئے ہے جس کی کیفیت معلوم نہیں  اور وہ تمیز جو ہماری فہم و ادراک میں آسکے اس جناب  قدس سے مسلوب ہے کیونکہ وہاں تبعض و تجزی (بعض ہونا اور جزو جزوہونا) متصور نہیں اور تحلیل و ترکیب کو حضرت جل سلطانہ کی بارگاہ میں کچھ دخل نہیں اور حالیت (اس کا کسی میں سرائیت کرنا )اور محلولیت( اس میں کسی کا سرایت کرنا )کی بھی وہاں گنجائش نہیں  مختصر یہ کہ جو کچھ ممکن کی صفات و اعراض ہیں وہ سب اس جناب قدس سے مسلوب ہیں لیس کمثلہ  شئی فی الذات  ولا فی الصفات ولا فی الافعال کوئی اس کی مثل یا مانند نہیں ہے نہ ذات میں نہ صفات میں اور نہ افعال میں  اس بے چونی (بے مثال)   تمیز اور بے کیفی وسعت کے باوجود واجب جل سلطانہ کے اسماء و صفات خانہ علم میں بھی تفصیل اور تمیز رکھتے ہیں اور منعکس ہو گئے ہیں اور ہر اس صفت کی تمیز کے لیے مرتبہ عدم میں ایک مقا بل اور ایک نقیض ہے مثلا مرتبہ عدم میں صفت علم کا مقابل اور نقیض عدم علم ہے  جس کو جہل سے تعبیر کرتے ہیں اور صفت قدرت کے مقابل میں عجز ہے جس کو عدم قدرت کہتے ہیں اور علیٰ ہٰذا القیاس ان عدمات  متقابلہ نے بھی علم واجبی جل شانہٗ میں تفصیل و تمیز پیدا کی ہوئی ہے اور اپنے متقابلہ اسماء و صفات کے آئینے اور ان کے عکسوں کے ظہور کے جلوہ گاہ بن گئے  ہیں فقیر کے نزدیک وہ عدمات ان اسماء و صفات کے عکوس کے ساتھ ممکنات کے حقائق ہیں۔

خلاصہ کلام یہ کہ وہ عدمات ان ماہیتوں کے لیے اصول اور مواد کے رنگ میں ہیں اور وہ عکوس ان مواد حلول کرنے والی صورتوں کی مانند ہیں

شیخ محی الدین کے نزدیک ممکنات کے حقائق وہ تمام اسماء و صفات ہیں جو مرتبہ علم میں امتیازی کیفیت رکھتے ہیں ہیں اور فقیر کے نزدیک ممکنات کے حقائق وہ عدمات ہیں جو اسماء و صفات کے نقائض ( ضد برعکس) ہیں اسماء و صفات کے ان عکوس کے ساتھ جوان عدمات کے آئینوں میں خانہ علم میں ظاہر ہو کر ایک دوسرے کے ساتھ متمزج (باہم مل گئے) ہیں اور قادر مختار جل سلطانہ  نے جب چاہا کے ان ملی جلی ما ہیتوں میں سے کسی ایک ماہیت (حقیقت)  کو وجود ظلی کے ساتھ جو کہ حضرت وجود کا پرتو ہے متصف کرکے موجود خارجی بنا دیا یا مختصر یہ کہ حضرت وجود نے اس ماہیت ممتزجہ  پر پر تو ڈال کر خارجی آثار کا مبداء بنا دیا لہذا ممکن کا وجود علم میں اور خارج میں اس کی تمام صفات کے رنگ میں حضرت وجود کا ایک پرتو ہے اور اس کے کمالات کا تابع ہے مثلا ً ممکن کا علم واجب تعالی و تقدس کے علم کا پر تو اور ایک ظل ہے جو اپنے مقابل میں منعکس ہوا ہے اورممکن کی قدرت بھی ایک ظل ہے جو عجزمیں اس کے مقابل ہو کر منعکس ہوگئی ہے اور اسی طرح ممکن کا وجود حضرت وجود کا ایک ظل ہے جو عدم کے آئینے میں اس کے مقابل ہو کر منعکس ہو گیا ہے

نیا وردم از خانہ چیزے نخست تو دادی ھمہ چیز ومن چیز تست

میں نے اپنے گھر سے تو کچھ بھی نہیں لیا جب کہ میں تیرا ہوں تو سب کچھ تیرا ہے

لیکن فقیر کے نزدیک شے کا ظل اس شے کا عین نہیں بلکہ اس کا شبہ و مثال ہے اور ایک دوسرے کے ثبوت میں پیش کرنا ممتنع اور محال ہے  لہذا فقیر کے نزدیک ممکن واجب کا عین نہیں ہے اور ممکن اور واجب کے درمیان حمل کرنا ثابت نہیں ہے کیونکہ ممکن کی حقیقت عدم ہے اور اسماء و صفات کا وہ عکس ہے جو اس عدم  میں منعکس ہو گیا ہے اور ان اسماء و صفات کی شبہ و مثال ہے نہ کہ ان صفات کا عین لہذا ہمہ اوست کہنا درست نہیں ہوگا بلکہ ہمہ از اوست(ہر شے کا وجود حق(اللہ) سے ہے)  کہنا درست ہے۔

 کیوں کہ جو کچھ ممکن ذات میں ہے وہ عدم ہے  جو شرارت نقص اور خبث کامنشا  ہے اور جو کچھ ممکن میں کمالات کے قسم سے پیدا ہوا ہے وہ سب حضرت جل سلطانہ کے وجود اور اس کے توابع سے مستفاد ہیں اور اس پاک ذات سبحانہ کے کمالات ذاتیہ کا پرتو ہے پس لازمی طور پر وہ سبحانہ و تعالی آسمانوں اور زمین کا نور ہے اور اس کے سوا سب ظلمت ہی ظلمت ہے اور کیوں کر ظلمت نہ ہو جب کہ عدم تمام ظلمتوں سے بڑھ کر ظلمت ہے  اس بحث کی کما حقہٗ تحقیق  اس مکتوب نمبر 234 دفتر اول میں میں تحریر کی گئی ہے جو فرزندی اعظمی مرحومی خواجہ محمد صادق کے نام حقیقت وجود کے بیان میں اور ماہیات ممکنات کی تحقیق میں لکھا ہے وہاں ملاحظہ فرمائیے

پس شیخ محی الدین کے نزدیک عالم تمام کا تمام اسماء و صفات سے مراد ہے جنہوں نے خانہ علم میں تمیز پیدا کرکے خارج میں ظہور کے آئینے میں نمود و نمائش حاصل کر لی ہے

اور فقیر کے نزدیک عالم سے مرادعد مات ہیں جو کہ حضرت واجب جل سلطانہ کے اسماء و صفات خانہ علم میں منعکس ہو گئے  ہیں اور خارج میں حق سبحانہ کی ایجاد سے وہ عدمات مع  ان عکوس    کے وجود ظلی کے ساتھ موجود ہو گئے ہیں لہذا عالم میں ذاتی  خبث  پیدا ہو گیا اور جبلی شرارت ظاہر ہو گئی اور تمام خیر و کمال جناب قدس جل و علا  کی طرف راجع ہوگیا آیہ کریمہ

مَّآ أَصَابَكَ مِنۡ حَسَنَةٖ فَمِنَ ٱللَّهِۖ وَمَآ أَصَابَكَ مِن سَيِّئَةٖ فَمِن نَّفۡسِكَ

اے انسان جو کچھ بھلائی تجھے پہنچتی ہے وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے اور جو برائی تجھ کو پہنچے وہ تیرے نفس کی طرف سے ہے

اس معرفت کی تائید میں ہے اور اللہ سبحانہ  ہی صحیح الہام کرنے والا ہے

لہذا ذرا اس تحقیق سے معلوم ہوگیا کہ عالم خارج میں وجود ظلی کے ساتھ موجود ہے جس طرح حضرت حق سبحانہ وجود اصلی کے ساتھ بلکہ اپنی ذات کے ساتھ خارج میں موجود ہے خلاصہ یہ ہے کہ یہ خارج بھی وجود و صفات کے رنگ میں اس خارج کا ظل ہے لہذا عالم کو حق جل ؤ علا سلطانہ کا عین نہیں کہہ سکتے اور ایک کو دوسرے پر حمل کرنا جائز نہیں ہوگا کسی شخص کے ذہن کو اس کا عین نہیں کہا جا سکتا  کیونکہ خارج میں دونوں متغائر ہیں اس لیے کہ دو چیزیں ایک دوسرے کی متغائر ہوتی ہیں اور اگر کوئی شخص کسی کے سائے کو اس کا آئین کہے تو وہ تسامح اور تجوز  )چشم پوشی اور مجاز (کے طور پر ہوگا جو اس بحث سے خارج ہے.

گر کہا جائے کہ شیخ محی الدین اور ان کے متبعین بھی عالم کو حق تعالی کا ظل  جانتے ہیں تو پھر فرق  کیا ہوا؟ ہم کہتے ہیں کہ یہ لوگ اس کے وجود  کے ظل کو صرف وہم کے درجے میں نہیں سمجھتے اور وجود خارجی  کی بو بھی اس ظل کے حق میں تجویز نہیں کرتے مختصر یہ کہ کثرت موہومہ کو وحدت موجودہ کے ظل سے تعبیر کرتے ہیں اور خارج میں واحد تعالی ہی کو موجود جانتے ہیں۔شتان مابینھما  

 دونوں میں بڑا فرق ہے لہذا اصل پر ظل کے حمل کا منشا اور اس حمل کا عدم ظل کے لیے وجود خارجی کا ثابت کرنا ہے یہ لوگ چونکہ  ظل کے لیے وجود خارجی ثابت نہیں کرتے اس لیے اصل پر محمول کرتے ہیں اور یہ فقیر چونکہ ظل کو خارج میں موجود جانتا ہے اس لئے اس پر حمل کرنے کی پیش قدمی نہیں کرتا ظل  سے اصلی وجود کی نفی میں وہ سب شریک ہیں اور وجودظلی ا ثبات میں بھی متفق ہیں لیکن یہ فقیر  وجو دظلی خارج میں  ثابت کرتا ہے اوروہ  وجود ظلی کو وہم اور تخیل میں گمان کرتے  ہیں اور خارج  میں احدیت مجردہ کے سوا کچھ موجود نہیں جانتے اور صفات ثمانیہ کو بھی جن کا وجود اہل سنت و جماعت رضی اللہ تعالی عنہم کی آراء کے موافق خارج میں ثابت ہو چکا ہے ان کو بھی علم کے سوا ثابت نہیں کرتے علما ئے ظواہر اور  ان رضی اللہ عنہم  اعتدال اور میانہ روی کی دونوں طرفوں یعنی( افراط و تفریط) کو اختیار فرمایا ہے اور حق کا درمیانی درجہ اس فقیر کو نصیب ہوا ہے جس کی توفیق  فقیر کو دی گئی ہےاگر یہ لوگ بھی اس خارج کو اس خارج کا ظل مان لیتے تو عالم کے وجود خارجی کا انکار نہ کرتے اور وہم  وتخیل پر کفایت نہ فرماتے۔اور واجب الوجود کی صفات کے وجود خارجی کا بھی انکار نہ کرتے اگر ظاہری علماء بھی اس راز سے واقف ہوجاتے تو ہرگز ممکن کے لئے وجود اصلی کا اثبات نہ کرتے بلکہ وجود ظلی پر اکتفا کرتے اور جو کچھ فقیر نے بعض مکتوبات میں لکھا ہے کہ ممکن پر وجود کا اطلاق بطریق حقیقت ہے  نہ کہ بطریق مجاز وہ بھی اس تحقیق کے منافی نہیں ہے کیونکہ ممکن خارج میں ظلی وجود کے ساتھ بطریق حقیقت موجود ہے نہ کہ توہم  اور تخیل کے طور پر جیسا کہ یہ گمان کرتے ہیں ۔

سوال صاحب فتوحات مکیہ شیخ محی الدین نے اعیان ثابتہ( صور علمیہ) کے وجود و عدم کے درمیان برزخ کہا ہے ان کے مطابق ممکنات کے حقائق میں داخل ہوگیا بس اس تحقیق اور اس قول کے درمیان کیا فرق ہو گا؟

جواب برزخ ا س اعتبار سے کہا ہے کہ صورعلمیہ کی دو جہتیں ہیں ایک جہت یہ ہے کہ جو ثبوت علمی کے واسطے سے وجود کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور دوسری جہت وہ ہے جو عدم خارجی کے واسطے سے عدم کے ساتھ تعلق رکھتی ہے کیونکہ ان کے نزدیک اعیان ثابتہ کو وجود خارجی کی بو تک نہیں پہنچی اور وہ عدم جو اس تحقیق میں درج کیا گیا ہے وہ دوسری حقیقت رکھتا ہے اور اسی طرح جو کچھ بعض عزیزوں کی باتوں میں عدم کا اطلاق ممکن پر ہوا اس سے ان کی مراد معدوم خارجی ہے نہ کہ وہ عدم جس کی تحقیق مندرجہ بالا عبارت میں ہوچکی ہے اور وہ بلند و برتر ذات ان اسماء و صفات سے جنہوں نے تفصیل و تمیز حاصل کرلی ہے اور عدمات کے آئینوں میں منعکس ہوکر ممکنات کے حقائق ہوگئے ہیں وہ ذات ان سب سے ورا ءالورا ءہے۔

پس عالم کے ساتھ اُس سبحانہ و تعالی کو (خالق اور مخلوق ہونے کے علاوہ) کسی قسم کی بھی مناسبت نہیں

إِنَّ ٱللَّهَ لَغَنِيٌّ عَنِ ٱلۡعَٰلَمِينَ    بے شک اللہ تعالی تمام جہانوں سے بے نیاز ہے

حق تعالی کو عالم کا عین کہنا اور اس کے ساتھ متحد جاننا بلکہ ایسی کوئی بھی نسبت دینا اس فقیر پر بہت گراں ہے

آں ایشا نند و من چنینم  یا رب اے اللہ وہ وہی ہے اور میں ہوں

سُبۡحَٰنَ رَبِّكَ رَبِّ ٱلۡعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ  وَسَلَٰمٌ عَلَى ٱلۡمُرۡسَلِينَ وَٱلۡحَمۡدُ لِلَّهِ رَبِّ ٱلۡعَٰلَمِينَ  والسلام علیکم وعلی من لدیکم

تمہارا رب ان اوصاف سے جو یہ بیان کر رہے ہیں پاک ومنزہ ہے اور سلام ہو مرسلین پر اور اللہ رب العالمین کا بے حد شکر و احسان ہے آپ پر اور آپ کے ساتھیوں پر سلام ہو۔

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ16 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں