نفس کی رعونتیں حکمت نمبر18
نفس کی رعونتیں کے عنوان سے باب دوم میں حکمت نمبر18 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
دوسرا ادب:۔ بشری رعونتوں کا ترک کرنا، اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا ہے ۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں فرمایا:
18) إِحالَتُكَ الأَعْمالَ عَلَى وٌجودِ الفَراغِ مِنْ رُعُوناتِ النَفْسِ.
فرصت کے باوجود اعمال کی ادائیگی میں تمہاری غفلت اور ٹال مٹول نفس کی رعونتوں سےہے۔
یہ عارف کے آداب میں سے ہے کہ وہ کامل عقل اور روشن ذہن رکھنے والا ہو ۔ اور کامل عقل کی علامت عمل کے لئے فرصت کو غنیمت سمجھنا اور زندگی کی قدروقیمت سے آگاہ ہونا ، اور تا خیرا ور ٹال مٹول ، اور امید و آرزو کے بغیر عمل میں جلدی کرنا ہے۔ اس لئے کہ عمر کا جو حصہ ختم ہو گیا ، اس کا کچھ بدل نہیں ہے۔ لہذا اس کی تلافی نہیں ہو سکتی ہے۔ اور عمر کا جو حصہ موجود یا باقی ہے، وہ بہت قیمتی ہے۔ اتنا کہ اس کی قیمت کا اندازہ کرنا ممکن نہیں ہے۔
عقل مند کون ہے؟
حدیث شریف میں حضرت رسول کریم ﷺ سے روایت کی گئی ہے۔ حضرت محمد ﷺنےفرمایا ہے۔
أَلا وَإِنَّ مِنْ عَلامَاتِ الْعَقْلِ التَّجَافِي عَنْ دَارِ الْغُرُورِ، وَالإِنَابَةَ إِلَى دَارِ الْخُلُودِ، وَالتَّزَوُّدَ لِسُكْنَى الْقُبُورِ، وَالتَّأَهُّبَ لِيَوْمِ النُّشُورِ
خبر دار ہو جاؤ عقل کی علامات میں سے یہ ہیں: دنیائے فانی سے کنارہ کشی کرنی ، اور آخرت کی طرف متوجہ ہونا، اور قبر میں رہنے کے لئے تو شہ تیار کرنا، اور قیامت کے حساب کے لئے تیاری
نیز حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے۔
الْكَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْأَحْمَقُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهُ هَوَاهَا وَتَمَنَّى عَلَى اللَّهِ
عقلمندوہ ہے، جس نے اپنے نفس کو ذلیل کیا، اور آخرت کے لئے عمل کیا۔ اور احمق دہ ہے، جس کے نفس نے اپنی خواہشات کی پیروی کی، اور اللہ تعالیٰ سے وہی تمنا ئیں قائم کی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحیفوں میں ہے: عقلمند پر جب تک اس کی عقل مغلوب نہ ہو جائے ، واجب ہے۔ کہ وہ اپنا وقت اس طرح تقسیم کرے۔ ایک وقت اللہ عزوجل کی مناجات و عبادت کے لئے اور ایک وقت اپنے نفس کے حساب کیلئے اور ایک وقت، اللہ تعالیٰ کی صفات میں فکر کے لئے ۔ اور ایک وقت، اپنے کھانے پینے کی ضروریات پوری کرنے کے لئے مقرر کرے۔ اورعقلمند کے لئے ضروری ہے، کہ وہ صرف تین چیزوں کے لئے سفر کرے۔ ایک آخرت کے لئے سامان تیار کرنا۔ دوسری، روزی کی تلاش اور کاروبار کی درستی۔ تیسری ، غیر محرم سے نکاح اور بیوی سے ملاقات۔ اورعقلمند کے لئے لازمی ہے کہ وہ اپنے وقت کا خیال رکھے۔ اور اپنی شان کی طرف توجہ کرے۔ اور اپنی زبان کی حفاظت کرے۔ جو شخص اپنے قول کو اپنے عمل کے موافق بناتا ہے۔ اس کی باتیں کم ہو جاتی ہیں۔ وہ صرف اتنی ہی باتیں کرتا ہے جتنی ضروری اور مفید ہوتی ہیں۔ پس اعمال کے ادا کرنے میں ٹال مٹول کرنا، اور اس کو دوسرے وقت کے لئے ملتوی کرنا ، اس
خیال سے کہ اس وقت تمہارے قلب یا جسم کو فرصت ہوگی ، رعونت وحماقت اور دھوکا وفریب ہے۔ اور تم کو یہ یقین کہاں سے حاصل ہوا کہ تم اس وقت کو پا جاؤ گے ۔ حالانکہ موت تمہارے اوپر اس طرح اچانک آنے والی ہے کہ تمہیں خبر بھی نہ ہوگی۔ اور اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ تم اس وقت کو پا جاؤ گے۔ تو دوسرے کاموں کی مشغولیت سے جو تم کو پیش آیا کرتی ہیں، تم محفوظ نہ رہو گے۔ کیونکہ تمام کاموں سے فرصت حضرت نبی کریم ﷺ کے اس قول کے مطابق کم ہی ہوتی ہے:
تندرستی اور فرصت کی نعمت
نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ: الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ
اور نعمتیں ایسی ہیں جن کو اکثر لوگ ضائع کر دیتے ہیں ۔ وہ تندرستی اور فرصت ہے ۔
یعنی اکثر لوگ ان دونوں نعمتوں کو ضائع کر دیتے اور دھوکا کھا جاتے ہیں ۔ اس لئے کہ تم اکثر لوگوں کو دنیاوی کاموں میں مشغول ، یا نفسانی خواہشات میں مدہوش ، یا بیماریوں میں مبتلا پاؤ گے۔ اور اکثر کا مفہوم یہ ہے کہ ایسے لوگ بہت کم ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے تندرستی اور فرصت عطا فرمائی ہے۔ پس جن لوگوں نے اپنی تندرستی اور فرصت کو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں صرف کیا۔ انہوں نے ان نعمتوں کا شکر ادا کیا۔ اور بہت بڑی کامیابی حاصل کی۔ اور جن لوگوں نے ان دونوں نعمتوں کو ضائع کر دیا۔ وہ بہت بڑے گھاٹے میں رہے۔ اور انہوں نے ان نعمتوں کی ناشکری کی۔ لہذا وہ اس لائق ہیں کہ یہ نعمتیں ان سے چھین لی جائیں۔ اور یہ ذلت و رسوائی کی علامت ہے۔ اور اس موضوع پرمصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کا یہ کلام عنقریب آئے گا۔
بہت بڑی ذلت ورسوائی یہ ہے کہ تمہارے لئے رکاوٹیں اور مشغولیتیں کم ہوں پھر بھی تم اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ نہ ہو ۔
پس انسان پر واجب ہے کہ اپنے تعلقات اور رکاوٹوں کو ختم کرے۔ اور اپنی خواہشات کی مخالفت کرے۔ اور اپنے مولائے حقیقی کی خدمت کرنے میں جلدی کرے۔ اور دوسرے وقت کا انتظار نہ کرے۔ کیونکہ فقیر اپنے وقت کا پابند ہوتا ہے۔ لہذا تم اس کو غور و فکر میں ، یاذ کر میں ، یا مذا کرہ میں، یا شیخ کی خدمت میں، جو اللہ تعالیٰ تک پہنچاتا ہے مشغول پاؤ گے
سچا فقیر
میں نے اپنے بعض بر ادران طریقت سے کہا سچا فقیر وہی ہے جس کو بارگاہ الہٰی میں پہنچنے ، یابارگا ہ الہٰی میں پہنچانے والے کے سوا کوئی فکر نہ ہو ۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ