نمازاستخارہ

عَنْ سَعْدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ سَعَادَۃِ ابْنِ آدَمَ رِضَاہُ بِمَا قَضَی اللَّہُ لَہُ وَمِنْ شَقَاوَۃِ ابْنِ آدَمَ تَرْکُہُ اسْتِخَارَۃَ اللَّہِ وَمِنْ شَقَاوَۃِ ابْنِ آدَمَ سَخَطُہُ بِمَا قَضَی اللَّہُ لَہُ (سنن الترمذی۔کتاب القدر:باب مَا جَاء َ فِی الرِّضَا بِالْقَضَاء :ِمستدرک حاکم: شعب الایمان)

 حضرت سعد رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ابن آدم کی سعادت اسی میں ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی قضاء و قدر پر راضی رہے اور اس کی بدبختی یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ سے خیر طلب نہ کرے اور اس کی قضاء پر ناراضگی کا اظہار کرے ۔

 اس حدیث میں استخارہ کی اہمیت کا ذکر ہے استخارہ کا مطلب ہے کسی معاملے میں خیراور بھلائی کا طلب کرنا،ہروہ جائز کام جس میں انسان متردّد ہو چاہے وہ بہت اہم کام ہو جیسے سفراور نکاح وغیرہ یااہم نہ ہواﷲ تعالی کی طرف رجوع کرنا اور اﷲ سے اس کام میں خیر، بھلائی اور رہنمائی طلب کرنا استخارہ کہلاتا ہے، استخارہ ایک مسنون عمل ہے، جس کا طریقہ اور دعا نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے احادیث میں منقول ہے ،حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم حضرات صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کو ہرکام سے پہلے استخارے کی تعلیم دیا کرتے تھے، استخارہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ ارادہ ابھی کر لو پھر برائے نام استخارہ بھی کرلو ، استخارہ تو ارادہ سے پہلے کرنا چاہیے تاکہ ایک طرف قلب کو سکون پیدا ہوجائے ، اس میں لوگ بڑی غلطی کرتے ہیں ، استخارہ اس شخص کے لیے مفید ہوتا ہے جو اﷲ پہ اعتماد اور توکل رکھتا ہے۔ مندرجہ ذیل حدیث کے الفاظ پر غور فرمائیے حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

إِذَا ہَمَّ أَحَدُکُمْ بِالأَمْرِ، فَلْیَرْکَعْ رَکْعَتَیْنِ مِنْ غَیْرِ الفَرِیضَۃ

(بخاری: کتاب التوحید)

جب تم میں سے کوئی شخص کسی بھی کام کا ارادہ کرے تو اس کو چاہیے کہ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھے ۔

استخارہ حدیث نبوی کی روشنی میں

کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُعَلِّمُنَا الاِسْتِخَارَۃَ فِی الأُمُورِ کُلِّہَا کَمَا یُعَلِّمُنَا السُّورَۃَ مِنَ الْقُرْآن (ترمذی : کتاب الصلاۃ)

 رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم صحابہء کرام رضی اﷲ تعالی عنہم کو تمام کاموں میں استخارہ اتنی اہمیت سے سکھاتے تھے جیسے قرآن مجید کی سورت کی تعلیم دیتے تھے ۔

 اس سے استخارہ کی اہمیت کا علم ہوتا ہے جس طرح قرآن کی تعلیم ہر نماز کیلئے لازمی اسی طرح ہر حاجت کیلئے استخارہ ضروری ہے،اسی طرح دعائے استخارہ بغیر ردو بدل کے پڑھنا بھی ثابت ہوا ۔

استخارہ کرنے والا ناکام نہیں ہوگا۔ایک حدیث میں حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

مَا خَابَ مَنِ اسْتَخَارَ، وَلَا نَدِمَ مَنِ اسْتَشَارَ(المعجم الاوسط طبرانی)

یعنی جو آدمی اپنے معاملات میں استخارہ کرتا ہو وہ کبھی ناکام نہیں ہوگا اور جو شخص اپنے کاموں میں مشورہ کرتا ہو اس کو کبھی شرمندگی یا پچھتاوے کا سامنا نہ کرنا پڑے گا۔

 اس حدیث میں جو یہ فرمایا کہ استخارہ کرنے والاناکام نہیں ہوگا، گویاکہ انجام کے اعتبار سے استخارہ کرنے والے کو ضرور کامیابی ہوگی ، چاہے کسی موقع پر اس کے دل میں یہ خیال بھی آجائے کہ جو کام ہوا وہ اچھا نہیں ہوا ، لیکن اس خیال کے آنے کے باوجود کامیابی اسی شخص کو ہوگی جو اﷲ تعالی سے استخارہ کرتا رہے ،اسی لئے کہا گیا ولیقدم الاستخارۃ فإنہا سراج الاستنارۃپہلے استخارہ کرو یہی روشنی کا چراغ ہے۔کیونکہ جو شخص مشورہ کرکے کام کرے گا وہ کبھی پچھتائے گا نہیں، اس لیے کہ خدا نخواستہ اگر وہ کام خراب بھی ہوگیا تو اس کے دل میں اس بات کی تسلی ہوگی کہ میں نے یہ کام اپنی مرضی سے نہیں کیا تھا بلکہ اپنے دوستوں اور بڑوں سے مشورہ کے بعد کیا تھا ، اب آگے اﷲ تعالی کے حوالے ہے کہ وہ جیسا چاہیں فیصلہ فرمادیں۔ اس لیے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دوباتوں کا مشورہ دیا ہے کہ جب بھی کسی کام میں تردد ہو تو دو کام کرلیا کرو ، ایک استخارہ اور دوسرے استشارہ یعنی مشورہ۔

استخارہ کا مقصد

                 استخارۂ مسنون کا مقصد یہ ہے کہ اگر دینی معاملہ ہے تو علماء سے مشورہ کرے دنیاوی ہے تو صاحبان علم وعقل سے پوچھے اگر پھر بھی تردد اور شک ہو تو استخارہ کرے ، گویا استخارہ کرنے سے بندہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوگیا ، ظاہر ہے کہ اگر کوئی انسان کسی تجربہ کار، عاقل اور شریف شخص سے مشورہ کرنے جاتا ہے تو وہ شخص صحیح مشورہ ہی دیتا ہے گویا استخارہ کیا ہے ؟ حق تعالی سے اچھے کاموں کیلئے مشورہ لینا۔استخارہ کیلئے خالی الذہن ہونا لازمی ہے اﷲ سے مشورہ طلب کرنا ہے متعین فیصلہ نہیں کرانا ۔استخارہ کا مفہوم اپنے دائرہ اختیار سے نکل کر اﷲ پہ توکل کرنے کا نام ہے فیصلے کے بعد راضی ہونا اور فیصلے سے پہلے استخارہ کرنا اہل ایمان کا شیوہ ہے۔ایک لمبی حدیث ہے جب بیت اﷲ کو دوبارہ تعمیر کی ضرورت پیش آئی تو حضرت ابن زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرمانے لگے کہ اگر تم میں سے کسی کا گھر جل جائے تو وہ خوش نہیں ہوگا جب تک کہ اسے نیا نہ بنالے تو اپنے رب کے گھر کو کیوں نہ بنایا جائے؟ میں تین مرتبہ استخارہ کروں گا پھر اس کام پر پختہ عزم کروں گا جب انہوں نے تین مرتبہ استخارہ کرلیا تو انہوں نے اسے توڑنے کا ارادہ کیا تو لوگوں کو خطرہ پیدا ہوا کہ جو آدمی سب سے پہلے بیت اﷲ کو توڑنے کے لئے اس پر چڑھے گا تو اس پر آسمان سے کوئی چیز بلا نازل نہ ہو جائے تو ایک آدمی اس پر چڑھا اور اس نے اس میں سے ایک پتھر گرایا تو جب لوگوں نے اس پر دیکھا کہ کوئی تکلیف نہیں پہنچی تو سب لوگوں نے اسے مل کو توڑ ڈالا یہاں تک کہ اسے زمین کے برابر کردیا( مسلم کتاب الحج)

                 استخارہ فرائض و واجبات ،گناہ،حرام اور مکروہ میں نہیں۔ عبادات ،جہاد اورکوئی نیک عمل نہ کرنے کیلئے استخارہ نہیں استخارہ کا محل مباحات ہے ،جو مباح یعنی جائز کام ہیں ان میں استخارہ کرناچاہیے ۔جبکہ برائی کیلئے استخارہ کرنا گناہ عظیم ہے۔بعض لوگ استخارہ کی یہ غرض بتلاتے ہیں کہ اس سے آئندہ ہونے والا واقعہ معلوم ہوجاتا ہے ، ایسااستخارہ شریعت میں اس غرض سے کہیں منقول نہیں ، بلکہ محض کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا تردد اور شک دور کرنے کے لیے ہے ، نہ کہ واقعات معلوم کرنے کے لیے ،بلکہ ایسے استخارہ کے نتیجے پر یقین کرنا بھی ناجائز ہے ۔ یہ بالکل باطل اعتقاد ہے،اسی طرح کسی کے ہاں چوری ہوجائے تو اس غرض کے لیے کہ چور کا پتہ معلوم ہوجائے استخارہ کرنا نہ تو جائز ہے اور نہ مفید ہے ۔

استخارہ کی حکمت

حضرت شاہ ولی اﷲ رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنی شہرہء آفاق تصنیف ’’حجۃ اﷲ البالغہ‘‘ میں فرماتے ہیں :

’’ زمانہ جاہلیت میں دستور تھا کہ جب کوئی اہم کام کرنا ہوتا مثلا سفر یا نکاح یا کوئی بڑا سودا کرنا ہوتا تو وہ تیروں کے ذریعے فال نکالا کرتے تھے ، یہ تیر کعبہ شریف کے مجاور کے پاس رہتے تھے ، ان میں سے کسی تیر پر لکھا ہوتا امرنی ربی(میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے)اور کسی پر لکھا ہوتا نہانی ربی(میرے رب نے مجھے منع کیا ہے)اور کوئی تیر بے نشان ہوتا، اس پر کچھ لکھا ہوا نہیں ہوتا تھا، مجاور تھیلا ہلا کر فال طلب کرنے والے سے کہتا کہ ہاتھ ڈال کر ایک تیر نکال لے ،اگرامرنی ربی(کام کے حکم )والا تیر نکلتا تو وہ شخص کام کرتا اورنہانی ربی(کام سے منع)والا تیر نکلتا تو وہ کام سے رک جاتا اور بے نشان تیر ہاتھ میں آتا تو دوبارہ فال نکالی جاتی، سورۃ مائدہ کے ذریعے اس کی حرمت نازل ہوئی ، اور حرمت کی دو وجہیں ہیں :

یہ ایک بے بنیاد عمل ہے اور محض اتفاق ہے ، جب بھی تھیلے میں ہاتھ ڈالا جائے گا تو کوئی نہ کوئی تیر ضرور ہاتھ آئے گا ۔

 اس طرح سے فال نکالنا یہ اﷲ تعالی پر جھوٹا الزا م ہے ، اﷲ تعالی نے کہاں حکم دیا ہے اور کب منع کیا ہے ؟اور اﷲ پر افتراء حرام ہے ۔

نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے لوگوں کو فال کی جگہ استخارہ کی تعلیم دی ہے، اس میں حکمت یہ ہے کہ جب بندہ رب علیم سے رہنمائی کی التجاء کرتا ہے تو اپنے معاملے کو اپنے مولیٰ کے حوالے کرکے اﷲ کی مرضی معلوم کرنے کا شدید خواہش مند ہوتا ہے اور وہ اﷲ تعالیٰ کے دروازے پر جا پڑتا ہے اور اس کا دل ملتجی ہوتا ہے تو ممکن نہیں کہ اﷲ تعالی اپنے بندے کی رہنمائی اور مدد نہ فرمائیں ، اﷲ تعالی کی طرف سے فیضان کا باب کشادہ ہوتا ہے ، اور اس پر معاملہ کا راز کھولاجاتا ہے ، چنانچہ استخارہ محض اتفاق نہیں ہے، بلکہ اس کی مضبوط بنیاد ہے ۔

                 استخارہ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان فرشتہ صفت بن جاتا ہے ، استخارہ کرنے والا اپنی ذاتی رائے سے نکل جاتا ہے اور اپنی مرضی کو خدا کی مرضی کے تابع کردیتا ہے ،اس کی بہیمیت (حیوانیت)ملکیت(فرشتہ صفتی)کی تابعداری کرنے لگتی ہے اور وہ اپنا رخ پوری طرح اﷲ کی طرف جھکادیتا ہے تو اس میں فرشتوں کی سی خو بو پیدا ہوجاتی ہے ، ملائکہ الہام ربانی کا انتظام کرتے ہیں اور جب ان کو الہام ہوتا ہے تو وہ داعیہ ربانی سے اس معاملے میں اپنی سی پوری کوشش خرچ کرتے ہیں ، ان میں کوئی داعیہ نفسانی نہیں ہوتا ، اسی طرح جو بندہ بکثرت استخارہ کرتا ہے وہ رفتہ رفتہ فرشتوں کے مانند ہوجاتا ہے ،ملائکہ کے مانند بننے کا یہ ایک تیر بہدف مجرب نسخہ ہے ‘‘۔ (حجۃاﷲ البالغہ قسم دوم نوافل کا بیان )

استخارہ کا سنت طریقہ

                 استخارہ کا طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی وقت (بشرطیکہ وہ نفل کی ادائیگی کا مکروہ وممنوع وقت نہ ہو)دو رکعت نفل عام نوافل کی طرح استخارہ کی نیت سے پڑھے،پہلی رکعت میں سورۃ الکافرون اور دوسری میں سورہ اخلاص پڑھے ( رد المختار)نیت یہ کرے کہ میرے سامنے یہ معاملہ یا مسئلہ ہے ، اس میں جو راستہ میرے حق میں بہتر ہو ، اﷲ تعالی اس کا فیصلہ فرمادیں ۔

                 نماز کے بعد استخارہ کی وہ مسنون دعا مانگے جو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے تلقین فرمائی ہے،اگرکسی کو دعا یاد نہ ہو توکوئی بات نہیں کتاب سے دیکھ کریہ دعا مانگ لے ،اگر عربی میں دعا مانگنے میں دقت ہورہی ہو تو ساتھ ساتھ اردو میں بھی یہ دعا مانگے، بس ! دعا کے جتنے الفاظ ہیں، وہی اس سے مطلوب ومقصود ہیں ،

استخارہ کی مسنون دعا کے الفاظ یہ ہیں :

                اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْتَخِیرُکَ بِعِلْمِکَ وَأَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ، وَأَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ العَظِیمِ، فَإِنَّکَ تَقْدِرُ وَلاَ أَقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ، وَأَنْتَ عَلَّامُ الغُیُوبِ، اللَّہُمَّ إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہَذَا الأَمْرَ خَیْرٌ لِی فِی دِینِی وَمَعَاشِی وَعَاقِبَۃِ أَمْرِی أَوْ قَالَ عَاجِلِ أَمْرِی وَآجِلِہِ فَاقْدُرْہُ لِی وَیَسِّرْہُ لِی، ثُمَّ بَارِکْ لِی فِیہِ، وَإِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہَذَا الأَمْرَ شَرٌّ لِی فِی دِینِی وَمَعَاشِی وَعَاقِبَۃِ أَمْرِی – أَوْ قَالَ فِی عَاجِلِ أَمْرِی وَآجِلِہِ – فَاصْرِفْہُ عَنِّی وَاصْرِفْنِی عَنْہُ، وَاقْدُرْ لِی الخَیْرَ حَیْثُ کَانَ، ثُمَّ أَرْضِنِی ” قَالَ: وَیُسَمِّی حَاجَتَہُ (بخاری کتاب الدعوات)

                اے میرے اﷲ میں تجھ سے تیرے علم کے ذریعہ خیر طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت کے ذریعہ قدرت طلب کرتا ہوں اور تیرے فضل عظیم کی درخواست کرتا ہوں، تو قادر ہے، لیکن میں قادر نہیں، تو علم رکھتا ہے لیکن مجھے علم نہیں، تو غیب کا سب سے زیادہ جاننے والا ہے، اے میرے اﷲ اگر تو سمجھتا ہے کہ یہ امر میرے دین اور معاش اور انجام کار کے لحاظ سے بہتر ہے تو اسے میرے لئے مقدر فرمادے اور میرے لئے اس میں آسانی پیدا کردے، پھر اس میں میرے واسطے برکت عطا کر اور اگر تو سمجھتا ہے کہ یہ امر میرے لئے میرے دین اور معاش اور انجام کار کے لحاظ سے برا ہے تو اس کو مجھ سے پھیر دے اور مجھ کو اس سے باز رکھ اور میرے لئے بھلائی مقدر فرمادے جہاں بھی ہو پھر مجھے راضی رکھ، آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پھر اپنی حاجت بیان کرے۔

                مستحب یہ ہے کہ اس دعا کے پہلے اور آخر میں سورۃ الفاتحہ اور درود شریف پڑھے ،دعاکرتے وقت جب ہذا الامر پر پہنچے تو اگر عربی جانتا ہے تو اس جگہ اپنی حاجت کا تذکرہ کرے یعنی ہذا الامر کی جگہ اپنے کام کا نام لے،، اور اگر عربی نہیں جانتا تو ہذا الأمر ہی کہہ کر دل میں اپنے اس کام کے بارے میں سوچے اور دھیان دے جس کے لیے استخارہ کررہا ہے۔اگرکسی وجہ سے نماز پڑھنے کا موقع نہ ہو(حیض و نفاس کی حالت وغیرہ) تو صرف دعا پڑھنے پر اکتفاء کرے اور جس طرف یکسوئی و اطمینان ہو اس پر عمل کرے۔ استخارہ اﷲ کی نعمت ہے اوراس نعمت کو اپنانے میں ہی بھلائی اور فائدہ ہے یہی شیوہ صحابہ کرام کا تھا جیسا کہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے ’’حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا انتقال ہوا مدینہ میں ایک صاحب لحد بناتے تھے اور دوسرے صاحب صندوقی قبر۔ تو صحابہ نے کہا ہم اپنے ربّ سے استخارہ کرتے ہیں اور دونوں کی طرف آدمی بھیجتے ہیں سو جو پہلے آیا ہم اسے موقع دیں گے تو لحد بنانے والے صاحب پہلے آئے اور آپ ا کے لئے لحد بنائی‘‘(ابن ماجہ کتاب الجنائز)

استخارہ کتنی بار کیا جائے؟

                بہتر یہ ہے کہ سات بار استخارہ کرے حضرت انس رضی اﷲ تعالی عنہ ایک روایت میں فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ انس ! جب تم کسی کام کا ارادہ کرو تو اس کے بارے میں اﷲ تعالی سے سات مرتبہ استخارہ کرو ، پھر اس کے بعد (اس کا نتیجہ)دیکھو، تمہارے دل میں جو کچھ ڈالا جائے ، یعنی استخارے کے نتیجے میں بارگاہ حق کی جانب سے جو چیز القاء کی جائے اسی کو اختیار کرو کہ تمہارے لیے وہی بہتر ہے۔ استخارہ کا وقت اس وقت تک ہے جب تک رائے ایک طرف پوری جم نہ جائے(بہار شریعت)

                بہتر یہ ہے کہ استخارہ تین سے سات دن تک پابندی کے ساتھ متواتر کیا جائے، اگر اس کے بعد بھی تذبذب اور شک باقی رہے تو استخارہ کاعمل مسلسل جاری رکھے ، جب تک کسی ایک طرف رجحان نہ ہوجائے کوئی عملی اقدام نہ کرے ، عموماسات روز کے اندر اندر قلب میں ایک رجحان پیدا ہوجاتا ہے اورلازمی نہیں کہ خواب میں اشارہ ملے جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے لیکن عموما خواب میں اشارہ مل جاتا ہے ،خواب یا قلبی رجحان حجت شرعیہ نہیں ہیں کہ ضرور ایسا کرناہی پڑے گا ۔

                استخارہ میں صرف یکسوئی اور اطمینان قلب کا حاصل ہونا استخارہ کے مقبول ہونے کی دلیل ہے، اس کے بعد اس پر عمل کرے ۔ اور بکثرت ایسا رجحان ہوجاتا ہے ، لیکن بالفرض اگر کسی ایک طرف رجحان نہ بھی ہو بلکہ دل میں کشمکش موجود ہو تو بھی استخارہ کا مقصد حاصل ہوگیا ، اس لیے کہ بندہ کے استخارہ کرنے کے بعد اﷲ تعالی وہی کرتے ہیں جو اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے ، اس کے بعد حالات ایسے پیدا ہوجاتے ہیں پھر وہی ہوتا ہے جس میں بندے کے لیے خیر ہوتی ہے اور اس کو پہلے سے معلوم بھی نہیں ہوتا ، بعض اوقات انسان ایک راستے کو بہت اچھا سمجھ رہا ہوتا ہے لیکن اچانک رکاوٹیں پیدا ہوجاتی ہیں اور اﷲ تعالی اس کو اس راستے سے پھیر دیتے ہیں ، لہذا اﷲ تعالیٰ استخارہ کے بعد اسباب ایسے پیدا فرمادیتے ہیں کہ پھر وہی ہوتا ہے جس میں بندے کے لیے خیر ہوتی ہے ، اب خیر کس میں ہے ؟ انسان کو پتہ نہیں ہوتا لیکن اﷲ تعالی فیصلہ فرمادیتے ہیں ۔

استخارہ کے باوجود اگرنقصان ہوگیا تو ؟

عَنْ مَکْحُولٍ الْأَزْدِیِّ قَال سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ یَقُولُ إِنَّ الرَّجُلَ یَسْتَخِیرَ اللَّہَ تَبَارَکَ وَتَعَالَی فَیَخْتَارُ لَہُ، فَیَسْخَطُ عَلَی رَبِّہِ عَزَّ وَجَلَّ، فَلَا یَلْبَثُ أَنْ یَنْظُرَ فِی الْعَاقِبَۃِ، فَإِذَا ہُوَ خَیْرٌ لَہُ (کتاب الزہدابن مبارک)

حضرت مکحول ازدی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالی عنہما کا یہ ارشاد سنا ،فرماتے ہیں کہ بعض اوقات انسان اﷲ تعالی سے استخارہ کرتا ہے کہ جس کام میں میرے لیے خیر ہو وہ کام ہوجائے تو اﷲ تعالی اس کے لیے وہ کام اختیار فرمادیتے ہیں جو اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے ،لیکن ظاہری اعتبار سے وہ کام اس بندہ کی سمجھ میں نہیں آتا تو بندہ اپنے پروردگار سے ناراض ہوتا ہے کہ میں نے اﷲ تعالی سے تو یہ کہا تھا کہ میرے لیے اچھا کام تلاش کیجیے ، لیکن جو کام ملا وہ تو مجھے اچھا نظر نہیں آرہا ہے ، اس میں میرے لیے تکلیف اور پریشانی ہے ، لیکن کچھ عرصے بعد جب انجام سامنے آتا ہے تب اس کو پتہ چلتا ہے کہ حقیقت میں اﷲ تعالی نے میرے لیے جو فیصلہ کیا تھا وہی میرے حق میں بہتر تھا ۔

                باوضوہونا ،قبلہ رخ اور دائیں کروٹ پر سونا نیندکے سنن اور آداب میں سے ہے صرف استخارہ کیلئے ان آداب کو نہ بجا لایا جائے بلکہ سنت سمجھ کر ہمیشگی عمل کیا جائے ۔ ضروری نہیں کہ استخارہ ہمیشہ رات کو سوتے وقت ہی کرنا چاہیے یا عشاء کی نماز کے بعد ہی کرنا چاہیے ، بلکہ جب بھی موقع ملے اس وقت استخارہ کرلے ، نہ رات کی کوئی قید ہے اور نہ دن کی کوئی قید ہے، نہ سونے کی کوئی قید ہے اور نہ جاگنے کی کوئی قید ہے ۔

ایک غلطی اور اس کا اصلاح

                استخارہ کے باب میں لوگ ایک غلطی کرتے ہیں اس کی اصلاح بھی ضروری ہے وہ یہ کہ بہت سے لوگ خود استخارہ کرنے کی بجائے دوسروں سے یہ کہتے ہیں کہ آپ ہمارے لیے استخارہ کیجیے گویا جیسے فال نکالی جاتی ہے ویسے ہی استخارہ بھی کروایا جائے، دوسروں سے استخارے کروانے کا مطلب تو وہی عمل ہوا جو جاہلیت میں مشرکین کیا کرتے تھے اور جس کے انسداداور خاتمے کے لیے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو استخارے کی نماز اور دعا سکھائی، اور یہ اسی وجہ سے ہوا کہ لوگوں نے استخارے کو یہ سمجھ لیا ہے کہ اس سے گویا کوئی خبر مل جاتی ہے یایہ الہام ہوجاتا ہے کہ کیا کرنا چاہیے؟ جس طرح جاہلیت میں تیروں پر لکھ کر یہ معلوم کیا جاتا تھا اسی طرح آج کل تسبیح کے دانوں پر اس قسم کے استخارے کیے جارہے ہیں، اور یہ جو پیشہ ور استخارہ کرتے ہیں بڑے بڑے اشتہار شائع کرکے کہ ہم سے استخارہ کرائیں یہ سب فراڈاور فضول ہے ، ہاں دوسروں سے استخارہ کرالینا گناہ تو نہیں لیکن اس دعا کے الفاظ ہی ایسے ہیں کہ خود کرنا چاہیے۔ یہ طریقہ بالکل غلط ہے اور انتہا تو یہ ہوگئی کہ اب عوام میں یہ رواج چل پڑا ہے کہ ٹی وی اور ریڈیو پر استخارے نکلوائے جارہے ہیں،حالانکہ استخارہ اﷲ تعالی سے اپنے معاملے میں خیر اور بھلائی کا طلب کرنا ہے نہ کہ خبر کا معلوم کرنا ۔

                رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے ہدایت یہ ہے کہ جس کا کام ہو وہ خود استخارہ کرے ، دوسروں سے کروانے کا کوئی ثبوت نہیں ،جب حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم دنیا میں موجود تھے اس وقت صحابہ سے زیادہ دین پر عمل کرنے والا کوئی نہیں تھا اور حضورا سے بہتر استخارہ کرنے والا بھی کوئی نہ تھا لیکن کسی طرح ثابت نہیں کہ کسی صحابی نے حضور اسے جا کر یہ کہا ہو کہ آپ میرے لیے استخارہ کردیجیے ، سنت طریقہ یہی ہے کہ صاحب معاملہ خود کرے، اسی میں برکت ہے ۔ لوگ یہ سوچ کر کہ ہم تو گناہ گار ہیں ،ہمارے استخارے کا کیا اعتبار ؟ اس لیے خود استخارہ کرنے کی بجائے فلاں بزرگ اور عالم سے یا کسی نیک آدمی سے کرواتے ہیں کہ اس میں برکت ہوگی ، لوگوں کا یہ زعم اور یہ عقیدہ غلط ہے ، جس کا کام ہو وہ خود استخارہ کرے خواہ وہ نیک ہو یا گناہ گار، دوسرے سے استخارہ کرانے کی کوئی حقیقت نہیں ہے ،دعا کے الفاظ میں متکلم کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے ، استخارہ دوسرے سے کروانا، ناجائز تونہیں لیکن بہتر اور مسنون بھی نہیں ہے ۔سلامتی کا طریقہ وہی ہے جو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا طریقہ ہے کہ صاحب معاملہ خود کرے ۔اﷲ کی بارگاہ میں سب کی دعائیں سنی جاتی ہیں ، ہاں یہ ضرور ہے کہ گناہوں سے بچنا چاہیے تاکہ دعا جلد قبول ہو ۔

                 استخارہ کے لیے شریعت نے تو کوئی ایسی شرط نہیں لگائی کہ استخارہ گناہ گار انسان نہ کرے، کوئی ولی اﷲ ہی کرے ، جو شرط شریعت نے نہیں لگائی آپ اپنی طرف سے اس شرط کو کیوں بڑھاتے ہیں؟ شریعت کی طرف سے تو صرف یہ حکم ہے کہ جس کی حاجت ہو وہ استخارہ کرے خواہ وہ گناہ گار ہو یا نیک ، جیسا بھی ہو ، عوام یہ کہتے ہیں کہ استخارہ کرنا بزرگوں کا کام ہے تو بزرگ حضرات بھی سمجھنے لگے کہ ہاں! یہ صحیح کہہ رہے ہیں ، استخارہ کرنا ہمارا ہی کام ہے ،عوام کا کام نہیں ، عوام کو غلطی پر تنبیہ کرنے کی بجائے خود غلطی میں شریک ہوگئے ، ان کے پاس جو بھی چلا جائے یہ پہلے سے تیار بیٹھے ہیں کہ ہاں لائیں ! آپ کا استخارہ ہم نکال دیں گے اور استخارہ کرنے کو استخارہ نکالناکہتے ہیں ،یاد رکھیں یہ ایک غلط روش ہے اوراس غلط روش کی اصلاح فرض ہے۔مگر آج کے مسلمانوں نے اﷲ تعالی کے ارشاد فرمائے ہوئے طریقے کے مقابلے میں اپنی پسند کے مختلف طریقے گھڑ لیے ہیں ،انہیں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے پر اعتماد نہیں۔ رسول اﷲا کا سنت طریقہ چھوڑ کردوسرے طریقے اختیار کرنا اﷲ تعالیٰ کو کیسے پسند ہوگا۔

استخارے کا دوسرا مسنون طریقہ

                سنت استخارے کا ایک تفصیلی طریقہ تو وہ ہوا جس کو تفصیل سے بیان کردیا گیا لیکن قربان جائیں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے وقت کی کمی اور فوری فیصلے کی صورت میں بھی ایک مختصر سا استخارہ تجویز فرمادیا تاکہ استخارے سے محرومی نہ ہوجائے ،اس سے قبل استخارہ کا جو مسنون طریقہ عرض کیا گیا، یہ تو اس وقت ہے جب آدمی کو استخارہ کرنے کی مہلت اور موقع ہو ، لیکن بسا اوقات انسان کو اتنی جلدی اور فوری فیصلہ کرنا پڑتا ہے، دو رکعت پڑھ کر دعا کرنے کا موقع ہی نہیں ہوتا ، اس لیے کہ اچانک کوئی کام سامنے آگیا اور فوراً اس کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنا ہے ،اتنا وقت ہے نہیں کہ دو رکعت نفل پڑھ کر استخارہ کیا جائے تو ایسے موقع کے لیے خود نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک دعا تلقین فرمائی ،وہ یہ ہے ۔

اَللّٰہُمَّ خِرْ لِیْ وَاخْتَرْ لِیْ (سنن الترمذی کتاب الدعوات)

اے اﷲ میرے لیے خیر پسند فرما اور میرے کام میں برکت پیدا فرما ، بس یہ دعا پڑھ لے ، اس کے علاوہ ایک اور دعا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے تلقین فرمائی ہے ، وہ یہ ہے :

اَللّٰہُمَّ اہْدِنِیْ وَسَدِّدْنِیْ(سنن نسائی وسنن ابو داؤد)

اے اﷲ ! میری صحیح ہدایت فرما اور مجھے سیدھے راستے پر رکھنا۔

اسی طرح ایک اور مسنون دعا ہے :

اَللّٰہُمَ َ أَلْہِمْنِی رُشْدِی وَأَعِذْنِی مِنْ شَرِّ نَفْسِی(سنن الترمذی کتاب الدعوات)

 اے اﷲ مجھے ہدایت دے اور مجھے میرے نفس کے شر سے بچا، ان دعاوئں میں سے جو دعا یاد آجائے اس کو اسی وقت پڑھ لے ، اور اگر عربی میں دعایاد نہ آئے تو اردو ہی میں دعا کر لو کہ اے اﷲ !مجھے یہ کشمکش پیش آئی ہے ،آپ مجھے صحیح راستہ دکھا دیجیے ، اگر زبان سے نہ کہہ سکو تو دل ہی دل میں اﷲ تعالی سے کہہ دو کہ یا اﷲ !یہ مشکل اور یہ پریشانی پیش آگئی ہے ، آپ مجھے صحیح راستے پر ڈال دیں۔

 استخارہ کے فوائد

استخارہ کے بہت سے فوائد میں سے چند فائدے یہ ہیں

 پہلا فائدہ یہ ہے کہ دعائے استخارہ سب سے اعلیٰ وافضل مشورہ ہے اور ایک حاجت مند کا اپنے خالق و مالک کے دروازے پہ دستک دیناہے۔

خیر و برکت کے حصول اور برائی سے بچنے کی دعا بھی ہے۔

 بندہ مومن کیلئے غمی و خوشی میں متوجہ الی اﷲ ہونے اور راضی برضا ہونے کی رغبت بھی ہے۔

 حاجات کیلئے اپنے آقا و مولیٰ سے دعا مانگنے کا طریقہ سکھایا گیا۔

اﷲ کے فضل و کرم کی ضرورت اور اپنی عاجزی کا اظہاریقین کامل کا ذریعہ بھی ہے۔

اﷲ کی رضا پہ راضی ہونے کا بہترین نسخہ اور شیطان کے خلاف ایک کارگر ہتھیارہے۔

اپنے مولا وآقا کے ساتھ کمال ادب اور تعظیم کا تقاضا بھی یہی ہے۔

بطور خلاصہ حضرت سفیان ثوری ؒ کے وہ الفاظ جنہیں ایک نجومی کو فرمایا پیش ہیں جس میں دریا کو کوزے میں بند کردیاگیا ہے اور استخارہ کے متعلق جو فاسدخیالات ہیں ان میں اصلاح کی گئی ہے۔

أنت تغدو بطالع، وأنا أغدو بالاستخارۃ، وأنت تخاف زحل، أنا أخاف ذنبی، وأنت ترجو المشتری، وأنا أرجو اﷲ، تعالی اﷲ عما یقول الظالمون علواً کبیرا

 تیرا ہر کام ستاروں سے میرا ہر کام استخارے ہوتا ہے تجھے زحل خوفزدہ کرتا ہے مجھے اپنے گناہوں سے ڈر رہتا ہے تجھے مشتری سے امید ہے مجھے اپنے اﷲ سے ،وہ اﷲ پاک اور بے نیاز ہے اور ان ظالموں کی باتوں سے بہت زیادہ بلند و بالا ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں