نماز کے تعدیل ارکان اور طمانیت اور صفوں کی برابری اور اس بیان میں کہ کفار کے جہاد پر جانے کے لیے نیت کو درست کرنا چاہیئے اور نماز تہجد کا حکم کرنے
اورلقمہ میں احتیاط کرنے کے بیان میں محمد مراد بخشی کی طرف صادر فرمایا ہے۔
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ . اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی اللہ تعالیٰ کے لیے حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو۔
صحیفہ شریف جو آپ نے ارسال کیا تھا پہنچا۔ یاروں کی ثابت قدمی اور استقامت کا حال پڑھ کر بہت خوشی ہوئی ۔زادکم الله سبحانہ ثباتا وإستقامة اللہ تعالیٰ آپ کو زیادہ سے زیادہ ثابت قدمی اور استقامت عطا فرمائے۔
آپ نے لکھا تھا کہ خادم جس امر کے بجا لانے کے لیے مامور ہے مع ان یاروں کے جوداخل طریقہ ہیں۔ ہمیشہ بجا لاتا ہے اور پنج وقتی نماز کو پچاس ساٹھ آدمیوں کی جماعت کے ساتھ ادا کرتا ہے اس بات پر اللہ تعالیٰ کے لیے حمدہے۔ یہ کس قدر اعلی نعمت ہے کہ باطن ذکر الہی سے معمور ہو اور ظاہر احکام شرعیہ سے آراستہ ہو چونکہ اکثر لوگ اس زمانہ میں نماز کے اداکرنے میں سستی کرتے ہیں اور طمانیت اور تعدیل ارکان میں کوشش نہیں کرتے۔ اس لیے اس بارہ میں بڑی تاکید اور مبالغہ سے لکھا جاتا ہے غور سے سنیں۔
مخبر صادق علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا ہے کہ چوروں میں سے بڑا چور وہ ہے جو اپنی نماز میں چوری کرتا ہے۔ حاضرین نے عرض کیا یا رسول اللہ نماز سے کس طرح چراتا ہے۔ رسول الله ﷺنے فرمایا کہ نماز میں چوری یہ ہے کہ رکوع وسجود کو اچھی طرح ادا نہیں کرتا۔ رسول الله ﷺنے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کی نماز کی طرف نہیں دیکھتا جورکوع وسجود میں اپنی پیٹھ کو ثابت(سیدھا) نہیں رکھتا۔ رسول الله ﷺنے ایک شخص کو نماز ادا کرتے دیکھا کہ رکوع سجود پورانہیں کر رہا۔ تو فرمایا کہ تواللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا۔ اگر تو اسی عادت پر مر گیا تو دین محمد پر تیری موت نہ ہوگی یعنی تو دین محمد کے برخلاف مرے گا۔ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ تم میں سے کسی کی نماز پوری نہیں ہوگی جب تک رکوع کے بعد سیدھا نہ کھڑا ہو اور اپنی پیٹھ کو ثابت نہ رکھے اور اس کا ہر ایک عضو اپنی اپنی جگہ پرقرار نہ پکڑے ۔ اسی طرح رسول الله ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنے کے وقت اپنی پشت کو درست نہیں کرتا اور ثابت نہیں رکھتا اس کی نماز تمام نہیں ہوتی۔
حضرت رسالت مآب ﷺایک نمازی کے پاس سے گزرے دیکھا کہ احکام و ارکان وقومہ وجلسہ بخوبی ادا نہیں کرتا تو فرمایا کہ اگر تو اسی عادت پرمر گیا تو قیامت کے دن تو میری امت میں نہ اٹھے گا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی الله تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے کہ ایک شخص ساٹھ سال تک نماز پڑھتا رہتا ہے اور اس کی ایک نماز بھی قبول نہیں ہوتی۔ ایسا وہ شخص ہے جو رکوع وسجود کو بخوبی ادا نہیں کرتا۔
لکھتے ہیں کہ زید بن وہب نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز پڑھ رہا ہے اور رکوع وسجود بخوبی ادا نہیں کرتا اس مرد کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ تو کب سے اس طرح نماز پڑھ رہا ہے۔ اس نے کہا کہ چالیس سال سے۔ فرمایا کہ اس چالیس سال کے عرصے میں تیری کوئی نماز نہیں ہوئی۔ اگر تو مر گیا تو نبی ﷺکی سنت پر نہ مرے گا۔
منقول ہے کہ جب بندہ مومن نماز کو اچھی طرح ادا کرتا ہے اور اس کے رکوع وسجود کو بخوبی بجا لاتا ہے اس کی نماز بشاش اور نورانی ہوتی ہے۔ فرشتے اس نماز کو آسمان پر لے جاتے ہیں۔ وہ نماز اپنے نمازی کے لیے دعا کرتی ہے اور کہتی ہے حَفِظَكَ اللَّهُ كَمَا حَفِظْتَنِي (اللہ تعالیٰ تیری حفاظت کرے جس طرح تو نے میری حفاظت کی اور اگر نماز کو اچھی طرح ادا نہیں کرتا۔ وہ نماز سیاه رہتی ہے۔ فرشتوں کو اس نماز سے کراہت آتی ہے اور اس کو آسمان پرنہیں لے جاتے۔ وہ نماز اس نمازی پر بددعا کرتی ہے اور کہتی ہے۔ ضَيَّعَكَ اللَّهُ كَمَا ضَيَّعْتَنِي ۔ (خدا تعالیٰ تجھے ضائع کرے جس طرح تو نے مجھے ضائع کیا)۔ پس نماز کو پوری طرح ادا کرنا چاہیئے۔ تعدیل ارکان رکوع وسجود اور قومہ وجلسہ اچھی طرح بجا لانا چاہیئے۔ دوسروں کو بھی فرمانا چاہیئے کہ نماز کو کامل طور پر ادا کریں اور طمانیت اور تعدیل ارکان میں کوشش کریں کیونکہ اکثر لوگ اس دولت سے محروم ہیں اوریہ عمل متروک ہو رہا ہے۔ اس عمل کا زندہ کرنا دین کی ضروریات میں سے ہے۔
رسول الله ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص میری کسی مردہ سنت کو زندہ کرتا ہے اس کو سو شہیدوں کا ثواب ملتا ہے اور جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کے وقت صفوں کو برابر کرنا چاہیئے۔ نمازیوں میں سے کوئی شخص آگے پیچھے کھڑانہ ہو اور کوشش کرنی چاہیئے کہ سب ایک دوسرے کے برابر ہوں۔ رسول اللہ سب سے پہلے اول صفوں کو درست کرلیا کرتے تھے۔ پھرتحر یمہ کہا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ صفوں کو درست کرنا نماز کی اقامت ہے۔ رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا (یا اللہ تو اپنے پاس سے ہم پر رحمت نازل فرما اور ہمارے کام سے بھلائی ہمارے نصیب کر
. اے سعادت کے نشان والے۔ عمل نیت کے ساتھ درست ہوتا ہے چونکہ آپ دارالحرب کے کافروں کے ساتھ جہاد کرنے جارہے ہیں اس لیے اول نیت کو درست کریں تا کہ اس پرنتیجہ مترتب ہو۔ اس جنگ وجدال سے مقصود یہ ہونا چاہیئے کہ اسلام کا بول بالا ہو اور دین کے دشمن ذلیل ہوں کیونکہ ہم اس امر پر مامور ہیں اور جہاد سے مقصودیہی ہے۔ غازیوں کی رسد یا وظیفہ جو بیت المال سے مقرر ہے۔ جہاد کے منافی نہیں اور غازیوں کے اجر میں کچھ کمی نہیں ہوتی۔ بری نیتیں عمل کو باطل کر دیتی ہیں۔ نیت کو درست کر کے بیت المال سے وظیفہ کھائیں اور جہاد کریں اور غازیوں اور شہیدوں کے اجروں کے امیدواررہیں۔ آپ کے حال پر رشک آتا ہے کہ آپ باطن میں حق تعالیٰ کے ساتھ مشغول ہیں اور ظاہر میں نماز جماعت کثیرہ کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ دارالحرب کے کافروں کے ساتھ جہاد کرنے کی دولت سے بھی مشرف ہو گئے ہیں۔ جوشخص سلامت بچ کرآ گیا وہ غازی اور مجاہد ہے جوہلاک ہو گیا۔ وہ شہید پاک ہے لیکن یہ سب کچھ نیت کے درست کرنے کے بعد متصور ہے۔ اگر نیت کی حقیقت ثابت نہ ہو تو تکلف کے ساتھ اپنے آپ کو اس نیت پر لانا چاہیئےاور حق تعالیٰ کی بارگاہ میں بڑی التجا اور زاری کرنی چاہیئے تاکہ نیت کی حقیقت حاصل ہوجائے۔
رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ یا اللہ ہمارے نور کو کامل کر اور ہم کو بخش۔ تو سب شے پر قادر ہے)دوسری نصیحت جو بیان کے لائق ہے وہ یہ ہے کہ نماز تہجدکو لازم پکڑیں کیونکہ طریقت کی ضروریات میں سے ہے پہلے بھی آپ کو تاکید کی گئی تھی کہ اگر یہ بات آپ کومشکل معلوم ہوتی ہے اور خلاف عادت بیدار نہیں ہو سکتے تو متعلقین میں سے کسی کو اس امر پر مقرر کر دیں تا کہ آپ کو اس وقت جبرا کرھاجگا دیا کریں اور آپ کو خواب غفلت میں نہ پڑارہنے دیں جب چند روز تک اس طرح کریں گے امید ہے کہ بلاتکلف یہ دولت میسر ہو جائے گی اور نصیحت یہ ہے کہ لقمہ میں احتیاط رکھیں یہ اچھا نہیں کہ جو کچھ آیا اور جو جس جگہ سے آیا جھٹ کھالیا اور حلال وحرام شرعی کا کچھ یاد نہ کیا۔ یہ انسان خودار نہیں ہے کہ جو کچھ چاہے کرے۔ نہیں بلکہ اس کا ایک مولا ہے جس نے اس کو امر و نہی پر مکلف فرمایا ہے اور انبیاءعلیہم الصلوة والسلام کے ذریعے اپنی رضامندی اورعدم رضامندی کو بیان کر دیا ہے وہ بہت ہی بد بخت انسان ہے جو اپنے مالک کی مرضی کے خلاف کرے اور مالک کی اجازت کے بغیر اس کے ملک و ملک میں تصرف کرے۔
بڑی شرم کی بات ہے کہ مجازی حاکم کی رضامندی میں اس قدر کوشش کرتے ہیں کہ کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے اور مولائےحقیقی کی رضا جوئی کے لیے جس نے تاکید و مبالغہ کے ساتھ برے کاموں سے منع کیا اور جھڑ کا ہے، کچھ التفات نہیں کرتے۔
غور کرنا چاہیئے کہ یہ اسلام ہے یا کفر ابھی کچھ نہیں بگڑا۔ ابھی گزشتہ کا تدارک ہوسکتا ہے۔ التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ، كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ ۔ ( گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہے کہ اس نے کوئی گناہ نہیں کیا قصور کرنے والوں کے لیے بشارت ہے اور اگر کوئی گناہ پر اصرار کرے اور اس پر خوش رہے تو وہ منافق ہے۔ ظاہری اسلام اس کے عذاب و عقاب کو دور نہیں کر سکے گا۔ اس سے زیادہ کیا تا کید و مبالغہ کیا جائے عاقل کو ایک اشارہ کافی ہے۔
دوسرے واضح ہو کہ دشمن کے غلبہ اور خوف کے وقت امن وامان کے لیے سورت لايلف کا پڑھنا خوب ہے۔ ہر دن اور رات کو کم از کم گیارہ گیارہ بار پڑھا کریں۔ .
حدیث نبوی میں آیا ہے کہ مَنْ نَزَلَ مَنْزِلًا ثُمَّ قَالَ: أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ، لَمْ يَضُرَّهُ شَيْءٌ، حَتَّى يَرْتَحِلَ مِنْ مَنْزِلِهِ ذَلِكَ (جوشخص کسی جگہ اترےاور أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ الخ پڑھے۔ وہاں سے کوچ کرنے تک اس کو کوئی چیزضررنہ دےگی۔
وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى (سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت اختیار کی۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ255ناشر ادارہ مجددیہ کراچی