نیند میں انسان جو واقعات دیکھتا ہے ان کی کوئی نہ کوئی تعبیر ہوتی ہے۔
جیسا کہ رب قدوس کا ار شادیا ہے۔
لَقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ (الفتح:27( یقیناً الله تعالی نے اپنے رسول کو سچا خواب دکھایاحق کے ساتھ“
اسی طرح حضورﷺکارشاد گرامی ہے۔ لَمْ يَبْقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا الْمُبَشِّرَاتُ
نبوت میں سے صرف سچے خواب باقی رہ گئے ہیں
یہ خواب انسان دیکھتا ہے یا نہیں دکھائے جاتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے۔
لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ (یونس:64( انہیں کے لیے بشارت ہے دنیوی زندگی میں اور آخرت میں
بعض علماء کے نزدیک اس سے مرادسچے خواب ہیں ایسے ہی حضور ﷺکا ارشاد پاک ہے۔
الرُّؤيا الصَّالحة جُزْءٌ مِنْ سِتَّة وَأَرْبَعِينَ جُزْءاً مِنَ النُّبُوّة سچے خواب نبوت کے چھیالیس اجزاء میں سے ایک جز ہیں ۔
حضورﷺکا ارشاد گرامی ہے۔ مَنْ رَآنِي فِي الْمَنَامِ فَقَدْ رَآنِي فِي الْيَقَظَةِ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ لَا يَتَمَثَّلُ فِي صُورَتِي
جس نے خواب میں میری زیارت کی تو اس نے یقین بید اری میں میری زیارت کی۔ کیونکہ شیطان میری مثالی صورت میں ظاہر نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ان لوگوں کی مثالی صورت میں جنہوں نے میری اتباع کی‘‘
یعنی شریعت و طریقت اور معرفت کے عمل کے نور سے میری فرمانبرداری کی اور حقیقت و بصیرت (وہ قوت جو اولیاء کے دل سے پھوٹتی ہے اور نور قدس سے منور ہوتی ہے۔ اس سے انسان اشیاء کی حقیقت اور ان کے باطن کو دیکھتا ہے۔ اسے قوت قدسیہ بھی کہتے ہیں)کی روشنی میں میری اتباع کرتے رہے۔ جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے۔ أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي (يوسف:108(
میں توبلاتا ہوں صرف اللہ کی طرف۔ واضح دلیل پر ہوں
میں اور وہ بھی جو میری پیروی کرتے ہیں شیطان ان تمام انوار لطیفہ کی مثالی صورت اختیار نہیں کر سکتا۔
صاحب مظہر لکھتے ہیں : یہ چیز نبی کریم کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ جو شیطان رحمت، لطف اور ہدایت کے کسی بھی مظہر کی مثالی شکل اختیار نہیں کر سکتا۔ مثلا تمام انبیاء علیھم السلام اولیاء کرام، کعبۃ اللہ شریف، سورج، چاند سفید بادل، قرآن کریم اور اس قسم کے دوسرے مظاہر رحمت و لطف و ہدایت کیونکہ شیطان صفت قہر کا مظہر ہے۔ اس لیے وہ صرف اسی صورت مثالی میں ظاہر ہو سکتا ہے جس پر گمراہ کا لفظ صادق آسکتا ہو۔ جو شخص مظہر ذات ہادی ہو شیطان بھلا اس کی شکل و صورت کیسے اپنا سکتا ہے۔ ایک چیز اپنی ضد کی صورت میں ظاہر نہیں ہو سکتی کیونکہ اضداد کے درمیان تنافر اور بعد ہوتا ہے اور یہ اس لیے بھی ہے کہ حق اور باطل کے درمیان فرق قائم رہے۔ جیسا کہ رب قدوس کا ارشاد گرامی ہے۔
كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ (الرعد:17 ( یوں اللہ تعالی مثال بیان فرماتا ہے حق اور باطل کی“
رہی یہ بات کہ وہ صفت ربوبیت کی مثالی صورت میں ظاہر بھی ہو سکتا ہے اور دعوی ربوبیت بھی کرتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالی کی ایک صفت جلال کی ہے اور دوسری جمال کی۔ شیطان چونکہ صفت قہر کا گھر ہے اس لیے وہ صفت جلال کی مثالی صورت اپنا سکتا ہے۔ یعنی جب وہ ربوبیت کی مثالی صورت اپنائے گا تو دعوی ربوبیت نہیں کر سکے گا بلکہ ایسی صورت میں بھی ایسا دعوی کرے گا کہ اس پر گمراہ کن کا اسم صادق آئے گا۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے۔ اور شیطان ایسے اسم کی مثالی صورت بھی نہیں اپنا سکتا جو جامع ہو اور اس میں ہدایت کا معنی بھی پایا جاتا ہو۔ اس سلسلے میں گفتگو طوالت کا باعث ہو گی۔ رب قدوس کا ارشاد عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي مرشد کامل کی طرف اشارہ ہے جو ( علوم نبوت کا) وارث ہو۔ یعنی میرے بعد آنے والے وہ لوگ جو مسن و جہ میری باطنی بصیرت کی طرح باطنی بصیرت رکھتے ہوں گے۔ بصیرت سے مراد ولایت کا ملہ ہے جس کی طرف اللہ کریم کا یہ ارشاد بھی اشارہ کر تا ہے۔
وَلِيًّا مُرْشِدًا (الکہف:17( مددگار (اور) رہنما‘‘
خواب کی دو قسمیں ہیں۔ آفاقی اور انفسی۔ پھر ان میں ہر ایک کی دو ، دو قسمیں ہیں۔
انفسی:۔یا تو اخلاق حمیدہ کی مثالی صورت نظر آئے گی یا اخلاق ذمیمہ کی ۔ اخلاق حمیده مثلا جنت اور اس کی نعمتیں حورو قصور ،غلمان اور سفید نورانی صحراء سورج چاند ، ستارے اور اس قسم کی دل سے تعلق رکھنے والے اخلاق کی مثالی صورتیں رہی نفس مطمئنہ (ایسانفس جسے حق سے سکون حاصل ہو اور وہ طمانیت کی کیفیت پا چکا ہو) سے تعلق رکھنے والے اخلاق کی مثالیں صورتیں مثلا حیوانات اور پر ندوں سے تیار شدہ غذا تو اس کے تعلق بھی انفسی خواب سے ہے کیونکہ نفس مطمئنہ کو جنت میں اس قسم کی خوراک دی جائے گی۔ جیسے بکری اور پرندوں کا بھنا ہوا گوشت وغیر ہ گائے بھی جنتی جانور ہے۔ اسے جنت سے دنیا میں اس لیے بھیجا گیا کہ آدم علیہ السلام اس سے زراعت سے متعلقہ کام سر انجام دے سکیں۔ اونٹ بھی جنتی ہے اور کعبہ ظاہر و باطن کی طرف سفر کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔
گھوڑا جنتی جانور ہے۔ اللہ تعالی نے اسے جہاد اصغر و اکبر کا آلہ بنایا ہے۔ یہ تمام چیزیں آخرت سے تعلق رکھتی ہیں۔ حدیث مبارکہ ہے۔
ان الغنم خلق من عسل الجنة والبقر من زعفرانها والابل من نورها والخيل من ريحها بیشک بکری جنت کے شہد سے پیدا کی گئی ہے۔ گائے جنت کے زعفران سے اونٹ جنتی نور سے اور گھوڑا جنتی ہو اسے
رہی بات خچر کی۔ توخچر نفس مطمئنہ کی ادنی صورت مثالی ہے۔ جواسے خواب میں دیکھے تو سمجھ جائے کے خواب دیکھنے والا عبادت میں کوتاہی کر تا ہے اور قیام و قعود میں بوجھ محسوس کرتا ہے۔ ایسے شخص کی عبادت بے کار ہے۔ توبہ کرے تو اس کی کو شش ثمر بار ہو سکتی ہے ورنہ نہیں۔
وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُ جَزَاءً الْحُسْنَى (الکہف:88(
گدھا آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کی مصلحت کے لیے ہے۔ یہ جنت کے پتھروں سے پیدا کیا گیا ہے۔ انسان کو اس سے خد مت لیکر دنیا میں آخرت کے لیے توشہ تیار کرنا چاہیئے۔
اگر کوئی شخص خواب میں روح سے تعلق رکھنے والی چیزوں کو دیکھے مثلا بے ریش نوجوان تو سمجھ لے کہ اس پر انوار خداوندی کی تجلی(غیبی انوار جو دلوں پر منکشف ہوتے ہیں) پڑ رہی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اہل جنت تمام کے تمام اسی صورت میں ہوں گے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔
أَهْلُ الْجَنَّةِ جُرْدٌ» مُرْدٌ كُحْلٌ” “اہل جنت موچھ داڑھی کے بغیر ہوں گے اور ان کی آنکھیں سر مگیں ہوں گی حضور ﷺکا ایک اور ارشاد گرامی ہے۔ رأَيْتُ رَبِّي في صُورَةِ شَابٍّ أَمْرَدٍ
میں نے اپنے رب کو ایسے نوجوان کی صورت میں دیکھا جس کی مسیں نہ بھیگی ہوں۔
بعض تعبیر دهنده فر ماتے ہیں کہ ایسے خواب کی تعبیر یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس شخص کے آئینہ روح پر صفت ربوبیت کی تجلی فرمائی ہے۔ اسے طفل معانی(انسان حقیقی ، عالم لاہوت میں روح کی پہلی صورت جس میں اللہ نے پیدا کیا) کا نام بھی دیتے ہیں۔ کیونکہ وہ جسم کی تربیت کرنے والا ہے۔ اور رب اور بندے کے درمیان و سیلہ ہے حضرت مولا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اگر میر امربی نہ ہوتا تو میں اپنے رب کو نہ پہچانتا ۔ اس مربی سے مراد باطن کا مربی ہے۔ اور باطنی مربی کی تربیت ظاہر ی مربی کی تلقین کے ذریعے ہوتی ہے۔ انبیاء اولیاء کے جسم بھی تربیت یافتہ ہوتے ہیں اور دل بھی جو لوگ ان کی تربیت کرتے ہیں انہیں ایک دوسری روح نصیب ہوتی ہے جیسا کہ پہلے مذکور ہو چکا
ہے۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ يُلْقِي الرُّوحَ مِنْ أَمْرِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ (غافر:15) نازل فرماتا ہے وہی اپنے فضل سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتاہے ۔
مرشد کی تلاش اس لیے ضروری ہے کہ اس کی تربیت میں رہ کر انسان ایک روح حاصل کر لے جو دل کو زندہ کر دے اور مرید اپنے رب کی معرفت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ اس مسئلہ کو سمجھنے کی کو شش کیجئے ۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس تاویل کی بناء پر خواب میں اللہ تعالی کا ایک خوبصورت اخروی صورت میں دیدار جائز ہے ۔ کیونکہ خواب میں نظر آنے والی صورت ایک مثالی صورت ہے جسے اللہ تعالی نے دیکھنے والے کی استعداد اور مناسبت سے تخلیق فرمایا ہے۔ یہ صورت حقیقت ذاتیہ نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالی صورت سے پاک ہے یا وہ بذ اتہ دنیا میں دکھائی دے گا جس طرح نبی کریمﷺکا دیدار ہے۔ اس قیاس کو بنیاد بنا کر یہ نظریہ رکھنا جائز ہے کہ اللہ تعالی دیکھنے والے کی استعداد اور مناسبت کے مطابق مختلف صورتوں میں نظر آسکتا ہے۔ حقیقت محمدیہ(اس سے مراد حیات روی اور حیات حیوی کا مصدر ہے۔ یہ اہل ایمان کے دلوں کی زندگی ہے۔ حقیقت محمد یہ خلق کی پیدائش کا سبب اور ماسوای اللہ کی اصل ہے) کو بھی صرف وہی دیکھ سکتا ہے جو عمل ، علم ، حال اور بصیرت میں ظاہراً باطناً آپ کا وارث کا مل ہو نہ کہ صرف حال میں ۔ اس قیاس کی بناء پر ہر ایک صفت اسی طرح کی تجلی ڈالتی ہے جس طرح موسی علیہ السلام کے لیے انگور کے درخت میں آگ کی صورت میں صفت خداوندی ظاہر ہوئی ۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے۔
فَقَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي آنَسْتُ نَارًا لَعَلِّي آتِيكُمْ مِنْهَا بِقَبَسٍ (طہ:10( تو اپنے گھر والوں کو کہا تم( ذرا یہاں) ٹھہرو میں نے آگ دیکھی ہے شاید میں لے آؤں تمہارے لیے اس سے کوئی چنگاری ۔
اسی طرح صفت کلام سےتجلی فرمائی۔ ارشاد فر مایا وَمَا تِلْكَ بِيَمِينِكَ يَامُوسَى (طہ:17( اور ( ندا آئی)یہ آپ کے دائیں ہاتھ میں کیا ہے اسے موسی؟
یہ آگ دراصل نور تھا۔ لیکن اسے موسی علیہ السلام کے گمان اور طلب کے مطابق آگ کہا گیا ہے۔ درخت کو انسان سے ذرا سی بھی نسبت نہیں۔ تو کیاعجب کہ صفات خداوندی میں سے کوئی صفت حقیقت انسانی میں متجلی ہو جبکہ انسان نے صفات حیوانیہ سے دل کو پاک کرکے صفات انسانی سے متصف کر لیا ہو۔ جیسا کہ بعض اولیاء پر صفاتی تجلی کا ظہور ہوا مثلا بایزید بسطامی نے فرمایا سبحانی ما آعظم شانی جنید نے فرمایا : ليس في جبتي سوى الله ” اور ایسی کئی دوسری مثالیں
اس مقام(اس سے مراد بندے کا دہ مرتبہ ہے جو وہ توبہ ، زهد ، عبادات ، ریاضات اور مجاہدات کے ذریے بارگاہ خداوندی میں حاصل کرتا ہے۔ جب تک وہ ایک مقام کے احکام پر پورا نہیں اتر تا دوسرے مقام کی طرف ترقی نہیں کر سکتا) میں عجیب عجیب لطائف ہیں۔ جنہیں صوفیاء نے بیان کیا ہے۔ ان لطائف کی شرح بہت طویل ہے۔
پھر تربیت میں منا سبت ضروری ہے مبتدی کی پہلے پہل اللہ تعالی اور نبی کر یم ﷺ کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں ہوتی اسی لیے اس کے لیے ولی کی تربیت میں رہنا ضروری ہے کیونکہ مبتدی اور ولی کے درمیان ایک مناسبت ہوتی ہے کیونکہ دونوں بشر ہیں۔ اسی طرح حضور ﷺجب بقید حیات ظاہری تھے تو کسی غیر کی تربیت کی ضرورت نہیں تھی مگر جب عالم آخرت کی طرف منتقل ہو گئے تو یہ صفت تعلق منقطع ہو گئی اور آپ تجرد(اس خیال سے کہ اللہ تعالی کا حق ادا کرنا واجب ہے انسان کا اپنے دل کو
اغراض دین اور حال و مستقبل کی مصلحتوں سے پاک کر لینا تجرد ہے) محض کے مقام پر پہنچ گئے۔ اسی طرح جب اولیاء دار آخرت کور حلت فرما جائیں تو ان کی رہنمائی کسی کو مقصود تک نہیں پہنچا سکتی۔ اگر تو عقل مند ہے تو اسے سمجھنے کی کو شش کر ۔ اور اگر ابل فہم سے نہیں تو پھر ایک نورانی ریاضت (دل کو طبیعت کے تقاضوں اور اس کی خواہشات سے پاک کرنا)کے ذریعے تربیت حاصل کر جو نفسانیت اور ظلمانیت پر غالب آجائے کیونکہ فراست نورانیت سے حاصل ہوتی ہے نہ کہ ظلمانیت سے اور اس لیے کہ نور صرف اس جگہ سے آتا ہے جو قریب ہو اور روشن بھی ہو۔ پس مبتدی کی (صاحب مزارولی ( کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں ہے۔
ایک ولی جب تک اس دنیا میں ہے مبتدی کو اس سے ایک گونہ مناسبت ہے کیونکہ اس کی دو جہتیں ہیں ”تعلقیہ جسمانیہ اور تجرد یہ روحانی‘‘ کیونکہ وہ وراثت کا ملہ رکھتا ہے۔ پس اس روحانیت کی وجہ سے ولی کو نبی کریمﷺ کی مدد مسلسل پہنچتی رہتی ہے اور وہ اس سے دوسرے لوگوں کو روشناس کراتا رہتا ہے۔ اسے سمجھیئے اس سے آگے عمیق راز ہے جسے صرف اہل معرفت ہی سمجھ سکتے ہیں۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔
وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ (المنافقون:8)
حالانکہ (ساری) عزت تو صرف اللہ کے لیے اس کے رسول کے لیے اور ایمان والوں کے لیے ہے ۔
باطن میں تربیت ارواح (کی صورت یہ ہے) کہ روح جسمانی سب سے پہلے جسم میں تربیت پاتی ہے۔ پھر روح روانی(عالم ملکوت میں نورانی ارواح کا لباس اسے روح سیر انی بھی کہتے ہیں) قلب میں تربیت حاصل کرتی ہے۔ اس کے بعد روح سلطانی (اللہ تعالی کا وہ نور جو اس نے دونوں عالم ، عالم لاہوت اور عالم جبروت کے در میان ارواح کو عطا فرمایا ) جان میں تربیت پاتی ہے۔ پھر روح قدسی(عالم لاہوت میں نور کا لباس ) ہے جو سر میں تربیت حاصل کرتی ہے۔ یہ سر اللہ تعالی اور بندے کے در میان واسطہ ہے۔یہی حق اور مخلوق کے درمیان ترجمان ہے کیونکہ یہ اللہ کی محرم اور اس سے خاص تعلق رکھتی ہے۔
رہا خواب جو کہ اخلاق ذمیمہ سے تعلق رکھتا ہے یہ صفت امارہ کی مثالی صورت ہو یا لوامہ کی یا ملہمہ(ایسا نفس الہام خداوندی سے بھلائی کے کام کرتا ہے۔لیکن بتقاضا طبیعت اس سے برے کام بھی ہو جاتے ہیں) کی تو یہ درندوں کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ مثلا چیتا، شیر، ریچھ بھیڑیا کتا اور خنزیر ہے۔ یا یہ مثالی صورت دوسرے جانوروں کی صورت میں نظر آئے گی مثلا لومڑی، تیندوا، بلی، سانپ، بچھو بھڑ وغیرہ۔ یہ چیزیں خواب میں نظر آئیں تو سمجھ لینا چاہیئے کہ یہ صفت ذمیمہ کی مثالی صورت ہے اس سے احتراز ضروری ہے۔ لازم ہے کہ انسان روح کی راہ سے اسے ہٹائے۔
چیتا خود پسندی اور اللہ تعالی پر تکبر کرنے کی صفت کی مثالی صورت ہو گا۔ شیر تکبر اور مخلوق خداسے اپنے آپ کو برا سمجھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ریچھ کا تعلق صفت غضب اور ماتحتوں پر غلبہ جیسے اخلاق ذمیمہ سے ہے۔ بھیڑ یا اکل حرام، حب دنیااور اس کے لیے قہر وغضب کو ظاہر کرتا ہے۔
خنزير :- کینہ ، حسد اور شہوانی خواہشات کی مثالی صورت ہو گی۔
خرگوش :۔ خیانت ، دنیاوی مکر و فریب کا پتہ دیتا ہے۔ لومڑی بھی کبھی
انہیں صفات کو ظاہر کرتی ہے یعنی خرگوش زیادہ غفلت کی علامت ہے۔
تیندوا :۔ جاہلی عزت اور حب ریاست کی مثالی صورت ہو تا ہے۔
بلی :۔بخل اور نفاق کو ظاہر کرتی ہے۔
سانپ : گالی، غیبت اور کذب جیسی صفات ایذاء کی علامت ہے۔ ان دونوں میں کبھی حقیقی معنی بھی ہوتے ہیں جنہیں صرف اہل بصیرت سمجھ سکتے ہیں۔
بچھو : عیب جوئی ، غیبت اور چغلی کی علامت ہے۔
بھڑ چھپ کر مخلوق کو اپنی زبان سے تکلیف دینے کو ظاہر کرتی ہے۔
سانپ بھی عداوت ظاہر ی کو ظاہر کرتا ہے۔ جب سالک خواب میں دیکھے کہ وہ موذی چیز سے لڑ رہا ہے یعنی دیکھ لینے کے باوجود غلبہ نہیں پارہا تو اسے عبادت اور ذکر میں مزید کوشش کرنی چاہیئے۔ تاکہ وہ اس پر غالب آجائے اور اسے قتل کر دے۔ یا پھر اسے بری صورت میں تبدیل کر دے۔ اگر سالک یہ دیکھے کہ وہ کسی موذی چیز پر غالب آگیا ہے یا اسے قتل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے تو سمجھ لے کہ اللہ تعالی نے اس کے تمام گناہوں کو معاف فرما دیا ہے جس طرح اللہ تعالی تائبین کے حق میں ارشاد فرماتا ہے۔
كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بَالَهُمْ (محمد:2)اللہ تعالی نے دور کر دیں ان سے ان کی برائیاں اور سنوار دیا ان کے حالات کو“
اور اگر سالک یہ دیکھے کہ موذی چیز انسانی شکل میں تبدیل ہو گئی ہے تو یہ اس بات کی نشانی ہے کہ اللہ تعالی نے اس کی برائیوں کو نیکیوں سے بدل دیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی توابین کے بارے فرماتا ہے۔
إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ (الفرقان :70)مگر وہ جس نے توبہ کی اور ایمان لے آیا اور نیک عمل کیے تو یہ وہ لوگ ہیں بدل دے گا اللہ تعالی ان کی برائیوں کو نیکیوں سے۔
پس اس مرتبہ تو وہ ان برائیوں سے چھٹکارپا گیا مگر اس کے بعد ان سے غافل نہ رہے کیونکہ جب نفس نافرمانی اور نسیان جیسی خباثتوں سے تقویت حاصل کر لے گا تو وہ نفس مطمئنہ پر غلبہ پالے گا اور اس کے قابو میں نہیں رہے گا۔ اسی لیے اللہ تعالی نے حکم دیا ہے کہ انسان جب تک دنیا میں ہے ایک ایک لمحہ متناہی سے اجتناب کرے ۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ نفس امارہ جو نفس بشری شہوانی طبیعت کے تقاضوں کا مطیع و فرمانبردار ہو نفس امارہ کہلاتا ہے۔ نفس امارہ اوامر و نواہی کی کچھ پرواہ نہیں کرتا اور لذات نفسانی میں منہمک رہتا ہے) کفار کی صورت میں نظر آجاتا ہے۔ نفس لوامہ یہودی کی صورت مثالی میں اور نفس ملہمہ(ایسا نفس الہام خداوندی سے بھلائی کے کام کرتا ہے۔لیکن بتقاضا طبیعت اس سے برے کام بھی ہو جاتے ہیں) نصرانی کی صورت مثالی میں ۔ اسی طرح کبھی یہ بدعتی کی صورت میں نظر آتا ہے۔
سرالاسرار ،شیخ عبد القادر جیلانی صفحہ122 سلطان الفقر پبلیکیشنز لاہور