تصوف میں وجدان سے مراد ذاتِ حق کو ہر جگہ اور ہر شے میں پانا، اس میں مکمل طور پر محو اور گم ہو جانا اور اس سے قلبی لذت حاصل کرنا ہے۔ یہ ایک ایسی باطنی کیفیت ہے جسے حالتِ جذب بھی کہا جاتا ہے۔
وجدان کی چند اہم خصوصیات درج ذیل ہیں:
- ذوقی حقیقت: وجدانی معنی ذوقی ہوتے ہیں جنہیں محض کہنے اور سننے سے پوری طرح بیان نہیں کیا جا سکتا، اور نہ ہی یہ عقل و فکر کے ذریعے مکمل طور پر واضح ہوتے ہیں۔
- حسن سے ماورا: اسے حسن و جمال سے ماورا ایک ایسی وجدانی کیفیت (ملاحت) قرار دیا گیا ہے جو دلوں کو مسخر کر لیتی ہے اور سالک کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔
- قلبی واردات: وجدان کا تعلق احوال سے ہے، جو سالک کے دل پر اللہ کی طرف سے بلا کوشش ‘وہبی’ طور پر وارد ہوتے ہیں اور اس کے باطن کو صاف کر کے اسے مولا کے قریب کر دیتے ہیں،۔
- وجد و خشوع: وجدان کی کیفیت میں جب انسان حق کے راز کو پا لیتا ہے تو اس کی روح پر خشوع طاری ہو جاتا ہے۔ اس حالت میں عاشق کو محبوبِ حقیقی کے ذکر کے بغیر کہیں چین اور قرار نصیب نہیں ہوتا۔
وجدان کی مثال اس شہد کے ذائقے جیسی ہے جسے کوئی شخص کتنا ہی بیان کر لے، دوسرا اسے تب تک نہیں سمجھ سکتا جب تک وہ خود اسے چکھ نہ لے؛ یہ محض الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ روح کا ایک اندرونی تجربہ ہے۔
یقین، اعتماد، تیقن، اعتبار، بھروسا، ایقان
قوت یا حس جو غیبی حقائق کے ادراک کا ذریعہ ہوتی ہے، حواس خمسہ یا عقل کی مدد کے بغیر کسی چیز کو دیکھ یا جان لینے کی صلاحیت، چھٹی حس، کشف، الہام، القا، اشراق
جاننے اور دریافت کرنے کی قوت جو فطری طور پر ودیعت ہوتی ہے، ادراک، آگہی، شعور، بوجھ
(تصوف) ذاتِ حق کو ہر جگہ اور ہر شے میں پانا اور اس میں گم اور محو ہونا، حالت ِجذب
(منطق) اپنی حالت یا کیفیت کا وہبی ادراک جو بغیر کسی واسطے کے ہوتا ہے، ایک قسم کی اندرونی بصیرت جس میں حقیقت بلا کسی تحلیل و تجزیے کے پیش ہوتی ہے، قلبی احساس
اسلام علیکم میں ملک سرفراز احمد۔کائنات میں موجود و عدم کی آگہی اور رہنمائی کے لیے جس چیز کا انسان عموماً سہارا لیتا ہے وہ انسانی شعور ہے جبکہ اس کے برعکس جب انسان ایک نظریہ یا عمل کو عدم سے وجود میں لاتا ہے تو پھر اس موقع پر انسانی شعور ہتھیار ڈال دیتا ہے کیونکہ انسانی عقل یا شعور کسی موجود یا عدم کی آگہی اور اس کا تجزیہ کرنے کے کام آتا ہے اس سے بڑھ کر انسانی عقل کا کوئی کام نہیں، وجدان کا کام پھر یہیں سے شروع ہوتا ہے وجدان کی سادہ تعریف یہ کہ وجدان انسان کے اندر موجود ایک ایسی قوت کا نام ہے جو عدم سے وجود کی جانب سفر کرتی ہے اس قوت کا یہ سفر دو قسم کا ہوتا ہے
ایک کو وجدان وہبی کہتے ہیں
جبکہ دوسرے کو وجدان کسبی کہتے ہیں
وجدان عدم سے وجود کی جانب سفر کرکے متنوع دریافت سامنے لاتا ہے گویا اس قوت کا بنیادی کام دریافت ہے۔
[1] وجدان وہبی سے مراد کسی چیز کی ایسی دریافت جس کا تعلق شعور یا عقل سے نہ ہو اسے وہبی اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں انسانی جہد کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا یہ خالصتاً خداداد قوت ہے وجدان وہبی کو قدیم زمانوں میں انکشاف، القا اور الہام کے ناموں سے یاد کیا جاتا رہا ہے آج بھی لوگ یہ الفاظ استعمال کرتے ہیں اکثر شعرا اسی قوت کے تحت انسانی احساسات و جذبات کو الفاظ کی لڑی میں پرو دیتے ہیں اس کے علاوہ مسلمان صوفیاء نے بھی وجدان وہبی کا دعوی کیا ہے وجدان وہبی کا تصور تمام مذاہب میں مختلف النوع اسلوب سے آج بھی موجود ہے۔
2 وجدان کسبی کا تعلق انسانی شعور یا عقل سے ہے سادہ الفاظ میں اس کی تعریف اس طرح کی جائے گی کہ وجدان وہبی ایک ایسی قوت ہے جو انسان وجود و عدم کو پرکھنے کے بعد پیدا کرتا ہے مکاتب اور افکار وجدان کسبی کی پیداوار ہیں وجدان کسبی کو ہم انسانی غور و فکر کا نتیجہ بھی کہہ سکتے ہیں گویا وجدان کسبی ایک خاص حکمت ہے جس کا ظہور گہرے تدبر کے بعد ہی ممکن ہے۔







