(حق کے راز کو پاکر روح کا خشوع اختیار کرنا۔ جب انسان ذکر کی حلاوت محسوس کرتا ہے تو اس کے دل میں عشق کی چنگاری بھڑک اٹھتی ہے جسے وہ برداشت نہیں کر سکتا اور ضبط کے باوجود بھی کسی نہ کسی رنگ میں اظہار ہو جاتا ہے۔یہ اظہار کی کیفیت و جد کہلاتی ہے)
رب قدوس کا ارشاد ہے۔ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ (الزمر:23( اور کانپنے لگتے ہیں اس کے (پڑھنے سے)بدن ان کے جوڈرتے ہیں اپنے پروردگار سے پھر نرم ہو جاتے ہیں ان کے بدن اور ان کے دل اللہ کے ذکر کی طرف“ أَفَمَنْ شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَى نُورٍ مِنْ رَبِّهِ فَوَيْلٌ لِلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ (الزمر:22( بھلاوہ ( سعادتمند) کشادہ فرمادیا ہو اللہ نے جس کا سینہ اسلام کےلیے تو وہ اپنے رب کے دئیے ہوئے نور پر ہے پس ہلاکت ہے ان سخت دلوں کے لیے جوذکر خدا سے متاثر نہیں ہوتےجَذْبَةٌ مِنْ جَذَبَاتِ الْحَقِّ تُوَازِي عَمَلَ الثَّقَلَيْنِ حق تعالی ( کے عشق) کا جذبہ جن وانس کے عمل کے برابر ہے“ حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کا ارشاد مبارک ہے۔
من لا وجد له لا دين له جس میں وجد نہیں اس کا کوئی دین نہیں“
حضرت جنید بغدادی فرماتے ہیں الوجد في مصادفة الباطن من الله واردٌ يورث سروراً وحزناً
وجدسے مراد باطن میں اچانک اللہ کریم کے بارے ایک ایسی کیفیت کا پیدا ہو جانا ہے جو سرور یا غم کا وارث بنادے ۔
وجد کی دو قسمیں ہیں۔
(الف) جسمانی نفسانی و جد (ب) روحانی رحمانی وجد
(الف) نفسانی و جد :۔
نفسانی و جد یہ ہے کہ انسان اپنے اوپر بہ تکلف و جد جیسی کیفیت طاری کرلے یعنی کوئی ایسا جذبہ کار فرمانہ ہو جس کا تعلق غلبہ حال اور روحانیت سے ہو۔ یہ وجد محض نمود و نمائش اور شہرت کے جذبے سے کیا جاتا ہے وجد کی یہ صورت باطل ہے کیونکہ اس میں انسان بے اختیار نہیں اور نہ ہی اس کی قوت سلب ہوئی ہے(یہ وجد نہ کسی باطنی شوق کے غلبہ سے ہوتا ہے اور نہ ہی جسم کے اختیار کے سلب ہونے سے ہوتا ہے )۔ ایسے وجد کی موافقت جائز نہیں ہے۔
( ب) روحانی و جد :۔
اس صورت میں عشق کی قوت کار فرما ہوتی ہے۔ مثلا کوئی شخص خوش الحانی سے قرآن کریم کی تلاوت کر تا ہے۔ کوئی موزوں شعر پڑھتا ہے۔ پر تاثیر ذکر کرتا ہے اور دل پر ایک ایسی کیفیت طاری ہوتی ہے کہ جسم پر سے اختیار اٹھ جاتا ہے۔ یہ وجد روحانی اور رحمانی ہے۔ ایسے وجد میں موافقت مستحب ہے۔ آیت کریمہ میں اسی طرف اشارہ ہے۔
فَبَشِّرْ عِبَادِ الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ (الزمر:17،18(
پس آپ مژدہ سنادیں میرے ان بندوں کو جو غور سے سنتے ہیں بات کو پھر پیروی کرتے ہیں اچھی بات کی“
اسی طرح عشاق اور پرندوں کی آواز اورگانوں کی خوش کن لے روح کی قوت کا موجب بنتی ہو شیطان اور نفس ایسے وجد میں دخل اندازی نہیں کر سکتے۔ کیونکہ شیطان ظلمانیت اور نفسانیت میں تصرف کرتا ہے نورانیت اور روحانیت میں اس کا تصرف ممکن نہیں ہے۔ کیو نکہ نورانیت اور روحانیت سے وہ اس طرح پگھل جاتا ہے جس طرح نمک پانی میں۔ حدیث پاک سے بھی یہی ثابت ہے۔ کیونکہ آپ نے فرمایا آیات کریمہ کی تلاوت، حکمت، محبت اور عشق پر مبنی اشعار اور غم بھری آواز میں روح کے لیے نورانی قوت ہیں اس لیے ضروری ہے کہ نور ، نور سے ملے۔ اور یہاں نور سے مراد روح ہے جیسا کہ کلام مجید میں ہے۔
وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ (النور :26)ر جب وجد شیطانی اور نفسانی ہو تو اس میں نورانیت نہیں ہوتی۔ بلکہ اس میں تاریکی اور کفر ہو تا ہے۔ تاریکی ظلمانی یعنی نفس کو پہنچتی ہے اور اس کی سرکشی میں اضافہ کرتی ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے۔
الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ(النور :26) اس وجد میں روح کے لیے کوئی قوت نہیں ہوتی۔ حرکات وجد کی دو صورتیں ہیں۔ ایک اختیاری اور دوسری اضطراری۔
پہلی صورت اختیاری حرکات کی ہے۔ اس کی مثال ایک تندرست و توانا آدمی کی حرکت جیسی ہے جسے نہ کوئی درد ہو اور نہ کوئی بیماری۔ یہ حرکات غیر مشروع ہیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے۔
دوسری صورت اضطراری حرکات کی ہے۔ اس کے سبب کی نوعیت دوسری ہے۔ مثلا روح میں ایک جذبہ پیدا ہوتا ہے جسے نفس روک نہیں سکتا کیونکہ یہ حرکات جسمانی حرکات پر غالب آجاتی ہیں۔ ان کی مثال بخار کی ہے۔ جب بخار شدت اختیار کر جائے تو نفس اسے برداشت کرنے سے عاجز آجاتا ہے اور ایسے میں وہ بے اختیار ہو جاتا ہے۔
وجد میں جب روحانی حرکات غالب ہوں تو ایساوجدحقیقی اور رحمانی ہوتا ہے۔
وجد اور سماع ایک ایسا آلہ ہیں جو جسم میں حرکت پیدا کر دیتے ہیں۔ جس طرح کے عشاق اور عارفوں کے دلوں میں جذبات امنڈ آتے ہیں۔
وجد اہل محبت کی غذا ہے اور طالبین کی قوت کا سبب ہے۔
ایک قول کے مطابق سماع کچھ لوگوں کے لیے فرض ، کچھ لوگوں کے لیے سنت اور کچھ لوگوں کے لیے بدعت ہے۔ خواص کیلئے فرض۔ اہل محبت کے لیے سنت اورغافلوں کیلئے بد عت ہے یہی وجہ ہے کہ داؤد علیہ السلام کے سر پر پرندے ٹھہر جاتے کہ آپ کی آواز سن سکیں۔
حرکت و جد کی دس صورتیں ہیں۔ بعض جلی ہیں جن کا اثر حرکات میں ظاہر ہوتا ہے اور بعض خفی ہیں کہ ان کا اثر جسم میں ظاہر نہیں ہوتا۔ مثلا دل ذکرالہی کی طرف مائل ہو جاتا ہے ۔ آدمی خوبصورت آواز میں قرآن کریم کی تلاوت کرنے لگتا ہے، روتا ہے اور غم و الم کا اظہار کرتا ہے۔ خوف و حزن سے کانپ اٹھتا ہے۔ جب اللہ کا ذکر ہو رہا ہو تاسف اور حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ باطن و ظاہر میں تجرد(اس خیال سے کہ اللہ تعالی کا حق ادا کرنا واجب ہے انسان کا اپنے دل کو اغراض دین اور حال و مستقبل کی مصلحتوں سے پاک کر لینا تجرد ہے) نصرت اور تغیر ظاہر ہوتا ہے۔ طلب، شوق اور سوز و جد ہی کی صورتیں ہیں۔
سرالاسرار ،شیخ عبد القادر جیلانی صفحہ107 سلطان الفقر پبلیکیشنز لاہور