وجود العاشقين
معروف بہ رسالہ عشقیہ
تصنیف قطب الاقطاب سید محمد حسینی گیسو در از خواجہ بندہ نواز رحمہ الله علیہ
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الحمد لله ایسی تعریف جس کی کوئی انتہا نہیں اور ایسی توصیف کہ وہ شمار میں نہیں آتی، گنی نہیں جا سکتی۔ قادر مطلق حاکم برحق، عاشقوں کی جان کی جان، ساری دنیا جہان کے صاحب و مالک ہی کے لائق، اس کو سزاوار ہے۔ احمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حق شناس محب درگاه ،محبوب شہنشاه ،معین العاشقین، مفید المحققين والتابعين المقربين ( احمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حق کے پہچاننے والے، عاشق محبت کرنے والے، اعلیٰ کے اعلیٰ اور بادشاہوں کے بادشاہ کے محبوب، عاشقوں کی مدد کرنے والے کہ آپ محققین اور آپ کی پیروی و اتباع کرنے والوں کے لئے فائدہ مند ) ہیں آپ پر اور آپ کی آل بزرگ پر بے انتہا درود و سلام اما بعد (حمد و ثناء کے بعد) عشق کہ جس کا کوئی کنارہ نہیں اس پاک جان کی جس کی نہایت نہیں چند باتیں هو الله (وہی ہے اللہ ) کی عنایت اور حسبی من الله (بس ہے اللہ ) کے اشارت (اشارہ) سے لکھی جاتی ہیں تا کہ محبت والوں کی محبت ،دوستی رکھنے والوں کی دوستی زیادہ ہو کر محبت اور دوستی کا انہیں راستہ بتلائے ۔ وصول الى الله (اللہ تک پہنچنے اس سے ملنے ) کی امید – لا تقنطوا من رحمة الله (اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہونا ) سے ان میں پیدا ہو جائے ۔
اے عزیز اچھی طرح سے اس کو سمجھ جاؤ کہ دنیا میں جو کچھ ہے وہ یہی تین ہیں جن کو عاشق، عشق ،معشوق کہتے ہیں۔ اس کے سوا جن کو ہیں کہتے ہیں وہ سب ہیچ بیکار و فضول ہیں، کسی کام کے نہیں ۔ یہی ظاہر وظہور، باطن و بطون ہیں۔ ظاہر سے خلق ،باطن سے خالق مراد ہے۔ ظاہر و باطن ذات کے دو مرتبے جو کہے جاتے ہیں وہ حقیقت میں ایک ہی مرتبہ ہے۔ جس کے بہت سارے مراتب ہیں سمجھنے کی بات اس قدر ہے کہ احد (ایک) میں جو الف ہے وہ عشق اور حاء عاشق اور دال معشوق کے معنے لئے ہوئے ہے۔ در حقیقت توحید کی جمع میں یہ تینوں ایک ہیں۔ بلا تمثیل ایسے ہی ہیں جیسے دریا۔ اس کی موج اس کا جھاگ در حقیقت یہ تینوں دریا ہی کے اعتبار ہیں۔ جب کسی پر حقیقت کا دروازہ کھل جاتا ہے تو اس میں ”میں تو باقی نہیں رہتا۔ وہ جان لیتا ہے کہ یہ میں اور تو ایک ہی دم ہے۔ چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان ہے کہ وَ مَاۤ اَمْرُنَاۤ اِلَّا وَاحِدَةٌ (اور ہم نے امر نہ دیا مگر ایک یعنی ہم نے ایک ہی حکم دیا ہے ) اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری صفت ایک ہے یعنی ” ذات جو صفت میں آسکتی صفت لے سکتی صفت ہو سکتی ہے وہ ایک ہے۔ ایک سے زیادہ نہیں نبی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ العشق ناراً اذا يقع يحرق ماسوى المحبوب ( عشق ایک آگ ہے جب وہ ڈالی جاتی ہے تو محبوب کے سوا سب کو جلا ڈالتی ہے ) یعنی محبوب کے سوا جو کچھ ہو اس کو نیست و نابود کر دیتی ہے کسی کو رہنے نہیں دیتی۔ عشق ہی رہ جاتا ہے۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں۔
جہاں عشق است دیگر زرق سازی همه بازیست الا عشق بازی
(دنیا جہان عشق ہے دوسری باتیں دھو کہ سب کھیل کھلونے ہیں کام کی چیز عشق ہی ہے)
جب یہ آگ ہاتھ آ جاتی ہے تو تن کی لکڑی جل جاتی ہے۔ تم تم نہیں رہتے۔عشق ہی عشق رہ جاتا ہے۔ تم نہیں جانتے عشق ہی جانتا ہے۔ تم اپنے آپ کو ہار دیتے ہو۔
اپنی خودی سے آپ ہی چھٹکارا پا جاتے ہو۔ آب و گل (مٹی پانی سے یعنی بدن کی آلائش جسم و جسمانیت) سے دونوں ہی ( عشق اور دل) پاک ہیں۔ مطلب یہ کہ عشق جہاں کہیں سر اٹھاتا ہے۔ اپنی آنکھیں آپ ہی ملتا ہے۔ اپنے میں آپ ہی ہمیشہ روتا رہتا ہے۔
مجنون عشق را دگر امروز حالت است که اسلام عشق لیلی و دیگر ضلالت است
( عشق کے مارے ہونے کی آج اور ہی حالت ہے کل کا عشق اس کا اسلام اس کے سوائے سب کچھ گمراہی ہے)
سچ ہے مجنوں کا بھید مجنوں جانے یعنی دیوانہ کا راز دیوانہ ہی جانتا ہے۔ عقلمند کی یہاں رسائی نہیں اس کی عقل یہاں کام نہیں کرتی۔
عشق میں تین حرف ع۔ ش۔ ق ۔ہیں ۔ ع سے عقل کی نفی ( دور کرنا۔ دور ہونا ) یعنی عقل سے ہاتھ دھونا۔ش سے شرم شرک کی نفی (حیا اور دو ٹھہرانے کو مٹا دینا ) ق سے جسم و جسمانیت کی نفی ( ہونے کے تو ہم کاملیا میٹ کر دینا ) تین کی نفی کا مطلب یہ ہے۔ اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب عشق آ جاتا ہے تو تینوں کی نفی ہو جاتی ہے ان کو فراموش کرا دیتا، بھلا دیتا ہیچ کر دیتا ہے چنانچہ اس کو عاشق ہادی شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ یوں بیان فرماتے ہیں۔
چو عشق آمد از عقل دیگر مگوے که در دست چوگان اسیر است گوے
(جب عشق آ گیا تو پھر عقل کی باتیں نہ کیا کرو کیونکہ گیند بلے کے اختیار و قابو میں آگئی ہے)
عشق کے مراتب پانچ بیان کئے گئے ہیں۔ پہلے مرتبہ کو شریعت یعنی محبوب کے جمال کا شوق پیدا ہونے کے لئے خبر کا سننا۔ دوسرے مرتبہ کو طریقت یعنی محبوب کا طالب ہو جانا۔ معشوق کی پے میں لگ جاتا۔ طلب کا راستہ طے کرنا۔ تیسرے مرتبہ کو حقیقت یعنی محبوب کے حسن اس کی حضوری میں ہمیشہ رہنا۔ چوتھے مرتبہ کو معرفت یعنی اپنی مراد (مطلب – آرزو۔ خواہش) کو محبوب کی مراد میں محو و گم کر دینا۔ مٹ جانا خود ملیا میٹ ہو جانا ۔ پانچویں مرتبہ کو وحدت یعنی اس میں فنا ہونے والے وجود کے ظاہر و باطن کو توڑ کر نابود کر دینا۔ محبوب ہی کو ظاہر و باطن میں موجود مطلق رکھنا۔
یہ پانچ مراتب جن کو مقام بھی کہتے ہیں۔ اس مقام کے پانچ ملحد ہوتے ہیں۔ملحد شریعت اس کو کہتے ہیں جو شرع شریف کے خلاف کام کرتا ہو خود کو محقق جانتا ہے۔
ملحد طریقت وہ ہے جو گزر بسر کی خاطر پیسہ ٹکا حاصل کرنے کے لئے مخلوق کی خدمت کیا کرتا۔ اپنے آپ میں رہا کرتا ہے۔
ملحدحقیقت وہ ہے کہ جو خود کو فقیر کہتا ہے۔ کہلاتا ہے۔ غیروں کی خوشامد کرتا ہے۔
ملحد معرفت وہ ہے جو خود کو عارف جانتا ہے غیر بین (دوسرے کا دیکھنے والا ) ہوتا ہے غیر و غیریت میں۔ تو سے نہیں نکلتا۔
ملحد وحدت وہ ہے کہ اس کو حاضر جانتا پاتا ہے۔ ہاتھ اٹھا کر عرش پر نظر رکھ کر دعا کے لئے ہاتھ اٹھا تا مد دو امداد کا طالب ہوتا ہے۔
جب کوئی اس الحاد سے گزر جاتا ہے ان ملحدوں کو مار لیتا ہے تو اس مرتبہ کا کمال پورا ہونے سے انتہائے کمال کو پہنچ جاتا ہے۔ محبوب ہی محبوب عشق ہی عشق ہو کر رہ جاتا ہے۔ عشق و معشوق کی موج عشق کے دریا میں لاپتہ ہو جاتی ہے۔ یعنی عاشق معشوق عشق میں ڈوب جاتے ہیں۔ ایک بزرگ کا فرمان ہے کہ الوجود بین العشقين كا لطهر بين الدمين وجود دو عشق کے درمیان ایسا ہی ہے جیسا کہ وہ مدت حیض جو دو حیض کے درمیان میں ہوتی ہے۔ اس کہنے کا مطلب یہ ہوا کہ وجود عشق کے دو مراتب کے بیچوں بیچ ہے۔ ابتداء میں بھی عشق ہے۔ انتہا میں بھی عشق ہے۔ یعنی عشق ہی عشق ہے جو ہمیشہ رہتا ہے۔ اتنا سمجھ لو کہ وجود عشق کے سوا نہیں یعنی وجود ہی عشق ہے۔ عشق ہی وجود ہے۔ وجود میں عشق ہی ہے۔ کوئی عشق کے بغیر رہ نہیں سکتا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اول آخر ظاہر باطن عشق ہی ہے۔ جو کچھ ہے عشق ہے۔
چیست آدم چیست حوا عشق بس گرچه آیند صد ہزاراں پیش و پس
(آدم) حوا کیا ہیں عشق ہی تو ہیں اگر ہزارہا ایک کے بعد ایک آئیں)
تم نے عشق کی بنیاد سن لی۔ اب ذرا کان لگا کر عشق کے کمالات بھی سن لو۔ ان کو اچھی طرح سے سمجھ لو۔ عشق وہ تخم (بیج) ہے جس سے ایک درخت پیدا ( ظاہر ) ہوا اس کو وجود جانتے اور جسم کہتے اور تن بولتے ہیں۔ اسی درخت وجود کی پانچ اصل (جڑیں) ہیں۔ جن کو عقل ۔ وہم ۔ روح – علم اور جان بولتے ہیں۔ حقیقت بھی کہتے ہیں۔ ان پانچ میں سے ہر ایک میں سے پانچ شاخ ( ڈالیاں ) نکلی ہیں۔ عقل سے بینائی (دیکھنے کی قوت ) وہم سے شنوائی ( سننے کی قوت ) روح سے گویائی (بات کہنے ۔ کرنے کی قوت ) علم سے دانائی ( سمجھنے کی قوت ) جان سے توانائی ( طاقت قوت ) ان پانچ ڈالیوں میں سے پانچ پتے نکلے بینائی سے حرص ( لالچ ) شنوائی سے کینہ (دل کا کھوٹ ) گویائی سے غضب (غصہ) توانائی سے حسد (ڈہاہ) دانائی سے کبر (بڑا پن اکڑ ) ان پانچوں کو نفس اور ان پانچوں کو دل کہتے ہیں مرتبہ ذات میں یہ ایک ہیں اس کو شریعت کہتے ہیں۔ چنانچہ ایک بزرگ فرماتے ہیں۔۔۔
نفس و روح و عقل و دل جمله یکیست مرد معنی را دریں رہ کے شک ایست
نفس روح عقل دل سب ایک ہیں معنی کے جاننے والے کو اس میں کب شک ہے)
تم نے جڑ، ڈالی۔ پتہ کو سن لیا بلکہ پالیا۔ اب پھول اور میوہ کو بھی سن لو۔ اس کے پھول بھی پانچ ہیں۔ طاعت زہد ۔ تلاوت قناعت اور سخاوت۔ مجموعی طور سے اس کو طریقت کہتے ہیں۔
اے عزیز ۔ میوے بھی پانچ ہیں۔ شفقت – محبت – رحمت – برکت – ہمت۔ جن کو مجموعی طور سے حقیقت کہتے ہیں۔ یہ پانچوں مرتبہ عشق میں، معنی عشق میں ایک ہی ہیں۔ جس کو معرفت کہتے ہیں۔ یہ بھی سن لو کہ میوے میں جو تخم ہے اس کو وحدت کہتے ہیں کہ ابتداء بھی تخم اور انتہا میں بھی تخم ہی ہے۔ اس کو عشق کہتے ہیں ۔ العشق هو الله (عشق وہ اللہ ہی ہے) کہ جس سے سب ظاہر ہوئے ظہور میں آئے ہیں۔ یوں سمجھو کہ وہی وہ ہے جو اس طرح سے اپنے آپ کو جلوہ دیا ہے۔ وہی دائم قائم یعنی ہمیشہ ہمیشہ قائم و بر قرار ہے۔
اے عزیز تم نے جڑے ڈالیاں۔ پتے پھول پھل کو سن لیا۔ جڑ پیڑ کے ساتھ ڈالی ڈالی کے ساتھ پتے پتے کے ساتھ پھول، پھول کے ساتھ پھل اور پھل کے ساتھ تخم کو پالیا یعنی شریعت طریقت حقیقت معرفت ۔ وحدت کو سن کر سمجھ لیا۔ اب دل کی گہرائیوں کے ساتھ یہ بھی سن لو کہ وجود کے درخت کی چار طبیعتیں ہیں۔ جن کو حرارت۔ رطوبت – برودت۔ یبوست ( گرمی سردی تری خشکی ) کہتے ہیں اس کے علاوہ چار عناصر – آتش ،باد ،آب ، خاک (آگ۔ ہوا۔ پانی مٹی ) بھی بتلاتے ہیں۔ یہ آٹھ حقیقتا چارہی ہیں۔ یہ بھی سن لو کہ درخت وجود کے باہر جو کچھ ہے وہ عدم کا درخت ہے۔ جو کچھ ہیں یہی چار ہیں۔ جب تم نے اس کو سن لیا سمجھ لیا تو یہ بھی سن لو سمجھ لو کہ اس درخت کی جنبش (ہلنا ۔ حرکت) شہوت کے لئے۔ قال ( کہنا ) اس درخت کا خیال وصال ( ملنے کی دھن کی استواری کے لئے۔ حیات (زندگی جینا ) اس درخت کی بیداری اور ہوش میں رہنا ہے۔ موت اس درخت کی خواب (نیند ) فراموشی (بھول) ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ النوم اخ الموت (نیند موت کی بہن ہے ) تم نے اس درخت کا رہنا بسنا جینا مرنا سن لیا تو یہ بھی سن لو کہ اس درخت کی نہا (اصلیت) کیا ہے۔ کسی زمین میں یہ درخت اُگا ہے۔ اے عزیز اس درخت کی جڑیں فنا کی زمین میں ہیں۔ جس کو بقا ۔ وجہہ اللہ حرم اللہ دار اللہ بھی کہتے ہیں۔ اس کے متعلق الله تعالی فرماتا ہے کہ كل من عليها فان ويبقى وجهه ربك ذو الجلال والاكرام ( جو کچھ اس پر ہے وہ فنا ہونے والی مٹ جانے والی ہے اور باقی رہنے والی ذات ذو الجلال والاکرام ہی کی ہے ) یہ سمجھ جاؤ کہ فنا بقاہی میں ہے۔ اس درخت کے اندر باہر کو بقا گھیرے ہوئے ہے اس کے ظاہر و باطن سے مل گئی ہے۔ درخت کی عین ہو کر اس طرح ایک ہوگئی ہے کہ دوئی باقی ہی نہ رہی۔ اس درخت میں جو کچھ ہے وہ بقا ہی بقا ہے اس کو عشق کہتے ہیں۔ یہ عشق لاحد ولا نهایت لا مثل ولا غایت (جس کی کوئی حد نہایت مثل غایت نہیں۔ “حد ” انتہا۔ کنارہ۔ فاصلہ دو چیز کا۔ تعریف کسی چیز کی اس کی ذاتیات سے کرنا۔ نہایت انتہا۔ انجام مثل و مانند جو سب صفتوں میں برابر ہو۔ مساوی ہو۔ غایت آخر۔ غرض۔ مطلب کسی چیز کی انتہا ہے۔ سینکڑوں شکلیں، ہزاروں صورتیں بے شمار رنگ بے انتہا خوشبو ر کھتے ہوئے بھی وحدہ لا شريك لہ ( ایک ہے کوئی اس کا ساجھی و شریک نہیں ) جب تم یہ سن چکے تو اس کے کمالات بھی ہوش کے ساتھ سن لو سمجھ لو۔
معشوق و عشق و عاشق هر سه یکست اینجا چوں وصل در نگنجد ہجراں چه کار دارد
( معشوق عشق و عاشق تینوں یہاں ایک ہیں جب ملنے ہی کی گنجائش نہ ہو تو دوری جدائی کا کیا سوال )
اے عزیز یہ درخت جو اپنے آپ سے آپ ہے وہ تمہارا ہی وجود تمہاری ہی ہستی ہے۔ جس کی شکل وصورت تمہارے ہی افعال و اوصاف ( کام خوبیاں ) ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ان الله خلق آدم على صورته (البتہ اللہ نے پیدا کیا آدم کو اپنی صورت پر) اتى على صورة الرحمن (بلکہ رحمن کی صورت پر )اس سے سمجھ جاؤ کہ تم ہی ہو کہ عین بقا۔ عین عشق – مطلق ۔ مقید ہو۔ یہ سب شاہ عشق رضوان اللہ تعالی ہی کا ظہور ہے۔ اللہ کی ذات روح ہے مطلق ہے۔ تم ہی تم ہو۔ تمہارے سوا اور کوئی نہیں۔ تم نے خود کو خود ہی چھوڑ رکھا ہے۔ کسی طرح کی کوئی دوئی جدائی نہیں۔ سمجھنے کی بات یہی ہے کہ تم اسی سے ہو۔
وجود ندارد کے جز خدا ہماں بوده باشد ہمیشہ بجا
(خدا کے سوائے کوئی وجود نہیں رکھتا وہی تھا ہے اور رہے گا )
جب تم نے اپنے نفس یعنی اپنے آپ کو پہچان لیا۔ اپنی حقیقت کو پالیا تو عین بقا ہو گئے۔ نبی کریم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ من عرف نفسه بالعجز والفناء فقد عرف ربه بالقدر والبقاء ( جس نے پہچانا اپنے نفس کو عجز وفنا سے پس پہچان لیا اس نے اپنے رب کو قدر و بقا سے (عزت بزرگی اندازہ عظمت کے ساتھ ) جب کوئی اپنے نفس کو پہچان لیا وہ بقا پا گیا ۔ جیسے ہی فانی فی اللہ( اللہ میں مٹ گیا فنا ہو گیا )ہوا۔ باقی باللہ (اللہ سے باقی ) ہو گیا ۔ چنانچہ ایک بزرگ فرماتے ہیں۔
ہر چند که پر دردی که محرم ما گردی فانی شو فانی شو تا محرم ما گردی
اگر چہ درد سے بھرا ہوا ہے تا کہ ہمارا محرم ہو جائے فنا ہو جافنا ہو جاتا کہ ہمارا محرم ہو جائے)
بیان کرتے ہیں کہ ایک درویش سے یہ کہا گیا کہ جرد جرد ( مجرد ہو جا۔ مجرد ہو جا یعنی اکیلا ۔ تنہا۔ دنیا کا چھوڑنے والا ہو جا) یہ آواز سنتے ہی اس کے بدن کے تمام بال جھڑ گئے ۔ سچ ہے۔ مقام حیرت ۔ بہترین مقام ہے کہ جہاں درویش مقام حیرت محمود میں رہے۔ حدیث میں ہے کہ الحادث اذا قرن بالقديم ليست له أثر جب نو پیدا قدیم سے مل جاتا ہے تو اس کا اپنا کوئی اثر نہیں رہتا یعنی وہ وہ نہیں رہتا ) نمک کو پانی میں ڈالتے ہی وہ پانی پانی ہو جاتا ہے۔ اس کا کوئی نشان نہیں پایا جاتا اس طرح جب تم نہ رہے تو عشق رہ جاتا ہے۔ تم نہ جانو تو عشق جانتا ہے۔
دریائے کہن چو بزند موجے نو موجش خوانند در حقیقت دریا است
پرانا دریا جب موج مارتا ہے تو اس کو موج کہتے ہیں وہ حقیقت میں دریا ہے )
یہی وہ ہے جس میں سب گم ہو جاتے ہیں۔ گفتگو جستجو (بات چیت ۔ تلاش۔ ڈھونڈا ڈھونڈی) نہیں رہتی ۔ رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ من عرف الله كل لسانه (اللہ کو جس نے پہچان لیا۔ اس کی زبان ہند ہوگئی ) عاشق ہادی شیخ سعدی علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں۔
چوبلبل روئے گل بیند و بالش در نوا آید مرا از دیدن رویت فروبست است گویائی
( بلبل جب پھول کا چہرہ دیکھتا ہے تو اس کی زبان چلنے لگتی ہے وہ چہچہانے لگ جاتی ہے مجھ کو تیرے چہرہ کے دیکھنے سے چپ زبان بند ہو جاتی ہے )
یہ بھی سمجھ لو کہ یہاں دوست کے شوق میں جو کچھ کہا جاتا ہے وہ شوق کے کمال کے اعتبار سے ٹھیک ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ من عرف الله طال لسانه (اللہ کو جو پہچان لیتا ہے اس کی زبان بڑھ جاتی یعنی کھل جاتی ہے )
یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے۔ عام قاعدہ یہی ہے کہ جب باد صبا ( تیز ہوا) چلتی ہے تو جو کچھ بند تھے یا ہوتے ہیں وہ کھل جاتے کھول دیئے جاتے ہیں تو یہ شعر زبان پر آ جاتا ہے۔
عجبے نیست که سرگشته بود طالب دوست عجب این است که من واصل و سرگردانم
( دوست کا طالب پریشان سرگرداں ہو جائے تو کوئی تعجب کی بات نہیں تعجب کی بات تو یہ ہے کہ میں ملا ہوا ہوتے ہوئے بھی آوارہ و پریشان ہوں )
جب تم نے یہ سب کچھ پورے طور سے سمجھ لیا تو با ضابطہ و با ہوش رہو۔ ان کونگاہ میں رکھو۔
اے عزیز ۔ تمہارے وجود میں تین مقام ہیں۔ اعلیٰ ۔ اوسط اسفل (اونچا بیچ کا۔ نیچا ) نچلے درجہ میں ہونے سے ناف کو نفس کہتے ہیں۔ اس کا تعلق دوزخ سے ہے۔ دیو ۔ پری۔ سانپ بچھو ۔ گرمی سردی۔ وہ ساری چیزیں جو دوزخ کے لوازمات و متعلقات ہیں۔ وہ اسی میں ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ابلیس کا یعنی نفس کا ظہور ہے۔
مقام اوسط میں ہونے سے دل کو قلب کہتے ہیں۔ اس کا تعلق جنت سے ہے۔ یعنی جنت کے میدان – محلات – حور – قصور پھل پھول – باغ – کیاریاں۔ ناز و نعمت کے وہ سارے ساز و سامان جو اس کے لوازمات ہیں وہ اس مقام میں ہیں۔ شاہ عشق کا اس مرتبہ و مقام میں احمد و محمد کے نام سے ظہور ہے۔ مقام اعلیٰ میں ہونے سے جان کو روح کہتے ہیں۔ اس کا تعلق حق سے ہے۔ یہی احد ہے۔ یعنی اس مقام میں فرشتے۔ عرش ۔ کرسی ۔ لوح و قلم – آسمان – آفتاب – چاند ستارے اور جو کچھ کہ لوازمہ نور حق ہیں وہ سب اسی مقام میں ہیں۔ یہاں شاہ عشق کا اللہ کے وصف سے یعنی روح الروح سے ظہور ہے۔ یہ عشق کے میوے اس کے درخت کا کمال بلکہ عشق کا وصف ہے بلکہ وہ وہی ہے جو اس طرح سے ظہور کیا ظاہر ہوا ہے ۔سچ ہے۔ ہر مقام میں اس کا نام کچھ اور ہی ہے۔ علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ آناً فی وراى العرش احد و في السماء احمد وفي الأرض محمد وفي تحت الثری محمود میں عرش کے پرے احد آسمانوں میں احمد – زمین میں محمد زمین کے سب سے نچلے حصہ میں محمود ہوں ) ہر مقام میں کچھ اور ہی نام ہے۔ یعنی وہی وہ ہے کہ احد احمد محمد محمود نام پایا۔ جب تم نے اس مقام کو اس کے کمال کو اس کے اتمام (پورے ہونے) کو اچھی طرح سے سن سمجھ لیا تو یہ بھی سن لو کہ آدم عالم (انسان ساری کائنات ) سب عشق ہی ہے کہ وہ قِدم ( پرانا۔قدیم – قدامت ) اول آخر ( اگلا پچھلا ۔ پہلا دوسرا نہیں رکھتا۔
ایں جہاں صورت است و معنی دوست وز به معنی نظر کنی ہمہ اوست
یہ دنیا صورت اور دوست معنی ہے اگر معنی میں نظر کریں تو سب وہی وہ ہے )
نقشے نمودم من عیاں در صورت انسان نہاں ظاہر مکن باکس مگو خوش خوش بیا بر دار ما
ایک نقش ظاہر میں انسان کی صورت میں چھپا ہوا دکھلا دیا ظاہر نہ کر کسی سے نہ کہہ ہنسی خوشی سے ہمارے دروازے پر آ )
یہ بھی سمجھ لو کہ وہ آیا ہے نہ جائے گا ۔ دائم قائم ( ہمیشہ برقرار ) ہے۔ خود اللہ تعالی فرماتا ہے۔ لم يلد ولم يولد اى لم يخلق ولم يخلق نہ پیدا ہوا۔ نہ پیدا کیا گیا بلکہ نہ بنا نہ بنايا گيا ) هو هو هو (وه وہى وه ہے ) یہ جو سمجھ گیا وہ سب کچھ سمجھ گیا۔
ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ
عشق سلطان است در هر دو جہاں عقل را مدخل نباشد اندراں
(عشق دونوں جہاں کا بادشاہ ہے عقل کی وہاں رسائی نہیں، عقل کا دخل نہیں )
بات یہ ہے کہ یہ دریا ایسا بھیا نک ہے کہ جس کی تہہ نہیں ملتی کنارا ہاتھ نہیں آتا۔ اس کو جیسا کہ وہ ہے کوئی بیان نہیں کر سکتا۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ بیان میں نہیں آ سکتا۔ اگر تم سے سوال ہو کہ ھی ھی تو مونث کی ضمیر عورت کے لئے بولی جاتی ہے۔ حق تعالیٰ کے ساتھ کسی طرح ٹھیک ہو سکتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ حق سبحانہ تعالیٰ کی تجلیاں حضرت خواجہ عالم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر معراج کی رات میں صورت مونث ہی میں ہوئیں۔ یوں بھی ذات کو مونث جانتے ہیں۔ اس لئے آپ نے ضمیر مونث استعمال فرمائی ۔
اے عزیز ۔ اس پر بھی ذرا غور کر لو کہ تمہارا رہنا بسنا کس میں ہے تم کس میں ہو محبت کی محبت میں۔ اس محبت میں تمہیں رہنا بسنا ہے اس کو عشق کہتے ہیں۔ محبت سے دور اس سے الگ رہنے کی کوئی صورت نہیں۔ رہ بھی نہیں سکتے ۔ جس کسی سے تم محبت کرتے ہو۔ دوست بناتے یا دوست رکھتے ہو۔ محبوب جانتے سمجھتے ہو۔ جس کسی طرف توجہ یا رخ کرتے رہو۔ وہ تم ہی تو ہو۔ تم نے اپنے آپ کو دوست رکھا محبوب بنایا۔ جو چیز تم دیکھتے ہو یا جس چیز سے تم محبت رکھتے ہو۔ وہ تم ہی تو ہو۔ حضرت نبی کریم افضل الصلوة والسلام نے فرمایا کہ رائت ربی بر بی ( دیکھا میں نے اپنے پروردگار کو اپنےپروردگار سے ) یہ بھی فرمایا کہ ما رائت شيئاً الا رأيت الله فيه ( نہیں دیکھی میں نے کوئی چیز مگر دیکھا میں نے اللہ کو اس میں ) یہ بھی فرماتے ہیں۔ رائت ربي في ليلة المعراج في احسن صورة امرد شاب قطط دیکھا میں نے معراج کی رات میں اپنے پروردگار کو اچھی صورت میں گھنگھر والے بال والا )
محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خدائے عز و جل کو اپنے آپ ہی میں دیکھا۔ اس کی سند و دلیل آیت کریمہ و فِي أَنفُسِكُمْ أَفَلا تُبْصِرُونَ ( میں تمہارے نفس تمہاری حقیقت میں ہوں پھر بھی تم مجھ کو دیکھ نہیں پاتے ) ہے۔ اللہ تعالیٰ سبحانہ فرماتا ہے کہ میں تم میں ہوں ۔ تمہاری حقیقت تمہاری ذات میں ہوں۔ میں ایسا ہوں اس کے باوجود ابھی تم مجھ کو دیکھ نہیں پاتے۔ ایک قول ہے کہ نہیں دیکھا میں کسی چیز کو مگر دیکھا میں اللہ کو اس میں وہ بھی اس کی شہادت ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ انا والله في الوحدت واحد میں اور اللہ تعالی یکتائی میں ایک ہیں) بھی اس کی بہترین
دلیل وسند ہے۔ کسی بزرگ نے یہ فرمایا ہے۔۔
احمد است این جا احد اے مرد کار دائماً با عشق باشد بے قرار
(اے کام کے آدمی احمد ہی یہاں احد ہے ہمیشہ عشق سے بے چین بے قرار رہتے ہیں )
اے عزیز ۔ اس سے یہ ثابت ہو گیا کہ وہی وہ ہے۔ جو ہمیشہ اپنی دیکھ بھال میں آپ ہی ہے۔ اپنا آپ ہی دیکھنے والا ہے۔ اس بارے میں ایک بزرگ فرماتے ہیں ۔
اے خدا چون توئی غم و شادی تهمت ما و تو چه بنہادی
اے پروردگار جب رنج و خوشی تو ہے یہ میں تو کی تہمت کیوں لگا دیا)
ہم تو لیلی و ہم تو مجنونی ہم تو شیریں و ہم تو فرہادی
(لیلی بھی تو ہے مجنوں بھی تو ہےشیریں بھی تو ہے فرہاد بھی تو ہے )
ایک اور بزرگ یہ فرماتے ہیں۔
خدا بود عاشق بخود اے گدا جہاں کردہ آئینه و خودنما
(اے مانگنے والے ! خدا اپنے آپ پر آپ عاشق تھا اس نے جہان کو اپنے آپ کو دکھانے والا آئینہ بنایا)
تماشائے خود را بخود وا نمود ہموں عاشق و عشق و معشوق بود
(اپنا تماشا اپنے آپ کو آپ ہی دکھلایا وہی عاشق وہی عشق وہی معشوق تھا )
تم نے محبت کو بھی سن لیا۔ جیسا کہ پانا تھا پالیا۔ یہ بھی سن لو۔ اس کو بھی سمجھ لو کہ محبت ہی کو آب حیات (زندگی کا پانی ) کہتے ہیں۔ یہ ظلمات ( اندھیرے) میں یعنی آنکھ میں ہے۔ آنکھ ہی سے محبت ظاہر ہوتی ہے۔ اس لئے پہلے آنکھ ہی کو پہچان لو کہ وہ کیا ہے۔ کون ہے سنو ۔ تمہارے وجود کا صاحب (حاکم ۔ مالک۔ ساتھی) تمہارے جسم (تن) کا مالک ( متصرف) تخم اول ( پہلا بیج ) ہی تو ہے۔ سب کا ظہور اسی سے ہوا ہے۔
خواجہ عبداللہ انصاری رحمتہ اللہ علیہ اپنی مناجات میں فرماتے ہیں کہ الہی اپنی ہستی وجود پر کیا ناز کروں۔ مجھ کو وہ آنکھ دے جو تیری جنت نگاہ ہو اس کو آنکھوں میں ہمیشہ قائم اور دائم برقرار رکھ ۔ جس کو اپنی آنکھوں کی جنت نگاہ بنالوں ۔ جو ہمیشہ رہے۔ اپنے آپ کو آپ ہی اپنے آپ سے دیکھ ۔ اپنے آپ کو اپنے تفویض و سپرد کر دے۔ اپنے آپ کو اپنا بنا لے۔ کسی بزرگ نے یہ فرمایا کہ
چشم دارم همه پر از صوت دوست تا دیده مرا خوش است چون دوست در اوست
از دیده و دوست فرق کردن نه نکوست یا اوست بجائے دیدہ یا دیده هم اوست
میں وہ آنکھ رکھتا ہوں جو دوست کی صورت سے بھر پور ہے میری آنکھ مجھ کو اس لئے عزیز ہے کہ دوست اس میں ہے
آنکھ اور دوست میں تمیز کرنا جداسمجھنا اچھانہیں یاوہی آنکھ کے بجائے ہے یا آنکھ ہی وہ ہے )
اے دوست ترا بہر مکان می جستم هر دم خبرت ز این و آن می جستم
دیدم به تو خویش را تو خود من بودی خجالت زده ام کز تو نشان می جستم
(اے دوست میں نے تجھ کو ہر جگہ ڈھونڈا ہر وقت تیری خبر اس سے اس سے پوچھا تجھ کو میں نے اپنے آپ میں دیکھا کہ تو میں ہی تھا شرمندہ ہوں کہ تیرا پتہ پوچھتا پھرتا رہا تو مجھ ہی میں تھا)
جب تم نے آنکھ کی خوبی سن لی آب (پانی) کو سمجھ گئے تو یہ سن لو کہ جس کو نور کہتے ہیں وہ در حقیقت ہوا ہے جس کو عربی میں ریح کہتے ہیں۔ روح بھی بولتے ہیں۔ چنانچہ الارواح مرکب من ريح (ارواح یعنی جانیں ترکیب دی گئیں۔ بنائی گئی ہیں، ہوا سے ) اس کا مطلب یہ ہوا کہ دم قدم سے مل گیا ایک ہو گیا جیسے پھول میں خوشبو دودھ میں مکھن ۔
بندہ باحق هم چو شیر و روغن است آمیختہ این همه شیر است و روغن هم توئی لایبصرون
اے عزیز بلا تمثیل یہ سمجھ لو کہ اللہ کے ساتھ بندہ۔ بندہ کے ساتھ اللہ ۔ ایسا ہی ہے جیسے دودھ مکھن۔ یہ سب کچھ دودھ مکھن ہی تو ہے۔ تم دیکھتے نہیں ۔ دم ہی کو روح کہتے ہیں۔ نور بولتے ہیں۔ اللہ تعالی سبحانہ نے اپنے آپ کو آسمانوں اور زمین کا نور ہوں فرمایا ہے۔ نور اور روح ہی کے ذرہ کو عبارت واشارت میں لایا گیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ حقیقتا کوئی نام و نشان (اتہ پتہ ) حد و حصر ( کنارہ گنتی) نہیں رکھتا۔ وہ ایسی ذات ہے جس کی کوئی انتہا نہیں ختم ہی نہیں ہوتی۔ایک دریا ہے جس کا نہ کنارا دکھائی دیتا ہے نہ تہہ ملتی ہے۔ ذات کا نور ہمیشہ اپنی تجلی میں آپ ہے کسی بزرگ نے کیا خوب فرمایا۔
بے نشاں شو از ره نام و نشان تا جمال خویش را بینی عیاں
(اتہ پتہ سے لاپتہ ہوتا جا تاکہ اپنے جمال کو کھلے طور سے کھلا دیکھے)
چنانچہ فرماتے ہیں۔۔
پس کلامی تا ہمین است جمله عالم خاک و باد ظاہر ا صورت چه بینی هر چه بینی یاد باد
گفتگو یہیں تک ہے کہ سارا عالم مٹی اور ہوا ہے ظاہری صورت کو کیا دیکھتا ہے تو کچھ تونے دیکھاوہ تجھ کویادر ہے)
جب تم نے یہ سنا اور سمجھ گئے کہ یہی دم قدم ہے یعنی دم ہی ہے جو قدم سے ملا ہوا ہے اب ہوش کے ساتھ سنو اور سمجھو کہ روح – ریح ۔ خدا۔ رسول۔ نام دیتے ہیں۔
ظلمت و نور ( اندھیرا اجالا ) جانتے ہیں۔ حضرت جبرائیل حضرت میکائیل، حضرت اسرافیل اور حضرت عزرائیل کہتے ہیں۔ جنت ۔ دوزخ – آسمان – زمین – سورج -چاند -رات -دن – جنات – انسان – جاندار – پرند- کفر۔ اسلام – دین۔ دنیا۔ کعبہ -بت خانہ کہا کرتے ہیں۔
مسجد و دیر توئی کعبہ و بت خانه یکیست هر کجا گوش نهادم ہمہ غو غائے تو بود
مسجد مندر تو ہے کعبہ بت خانہ ایک ہے جہاں کہیں کان لگایا تیری ہی چیخ پکارتھی )
جو کچھ کہا گیا۔ وہ حقیقتا عشق کی حقیقت کا بیان ہے۔ وہ خود بخود اپنے آپ سے آپ ہی ایسا ہے۔ وہی وہ ہے جو ظاہر ہے۔ وہی وہ ہے جو باطن ہے۔ جو ہونا چاہتا ہے۔ ہوتا ہے۔ جو کرنا چاہتا ہے کرتا ہے۔ والله على كل شئي قدير (اور اللہ سب چیزوں پر قادر ہے ) عشق کے بارے میں کہا گیا ہے کہ
عشق مشاطه ایست رنگ آمیز که حقیقت کند برنگ مجاز
عشق ایک بہروپیا دلال ہے جو حقیقت کو مجاز کا رنگ دے دیتا ہے )
عشق می بازد خدا با خویشتن شد بہانه در میان مرد و زن
(خدا اپنے آپ سے آپ عشق کرتا ہے عورت و مرد میں بہانہ ہو گیا)
یہ مثنوی عشق کے بارے میں لکھی جارہی ہے۔ تا کہ عشق کو سمجھ سکیں کہ اس کو پا سکیں
عشق گوھر بے بہا و بے نشان بہر عشقش ہر دے تو جان فشان
عشق لاقیمت موتی ہے لا جوب جو ہر ہے لاپتہ ہے اس کے عشق کے لئے تو ہر وقت جان لڑا )
عشق پنج و هفت باشد عشق چار عشق نور و عشق نار وعشق دار
(عشق پانچ سات اور چار ہے عشق نور نار (آگ) اور سولی ہے)
عشق باد و عشق آتش آب و خاک در حقیقت عشق باشد جان پاک
(عشق ہوا آگ پانی مٹی ہے حقیقت میں عشق پاک جان ہے)
عشق اول عشق آخر جاوداں با خودی خود عشق بازد درمیاں
(عشق پہلا پچھلا ہمیشہ کا ہے اپنے آپ سے آپ ہی عشق کرتا ہے )
عشق شاه و عشق ماه و عشق راه بر سر خود عشق پوشد صد کلاه
عشق بادشاه عشق چاند اور عشق راستہ عشق اپنے سر پر سو تاج پہنتا ہے)
عشق عرش و عشق کرسی رازداں ہم قلم ہم لوح محفوظ است داں
(عشق عرش عشق کرسی راز سمجھ عشق قلم ہے لوح محفوظ ہے سمجھ جا)
عشق شمس و ہم سماء و ہم زمیں ہم فرشته در شمار و در مکیں
(عشق سورج بھی آسمان بھی زمین بھی عشق فرشتہ بھی شمار میں بھی گھر والے میں بھی)
عشق روشن هم نجوم و هم بروج با خودی خود نزول و هم عروج
عشق روشنی بھی ہے تارے اور برج بھی اپنے آپ میں آپ ہی اترتا چڑھتا ہے)
عشق پیخ و عشق شاخ و عشق عشق میوه عشق تخم و عشق بل
گل عشق جڑ اور عشق ڈالی اور عشق پھول عشق پھل عشق بیج اور عشق رس و شراب )
عشق در صورت جمال خود نمود جمله اشیا در حقیقت عشق بود
عشق ظاہر میں صورت لے کر اپنا جمال دکھلایا ساری چیزیں سب کچھ حقیقت میں عشق ہی ہے)