وجود شیطان کی حکمت کے عنوان سےچوبیسویں باب میں حکمت نمبر 237 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے شیطان کے وجود کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا ۔
237) جَعَلَهُ لَكَ عَدُوَّاً لِيَحُوشَكَ بِهِ إِلَيْهِ ،
اللہ تعالیٰ نے شیطان کو تمہارا دشمن اس لئے بنایا ہے، تا کہ تم کو اس کے ذریعے اپنی طرف رجوع ہونے کے لئے آمادہ کرے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے کوئی شے بے کار نہیں پیدا کی ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:-
رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً سُبْحَانَكَ اے ہمارے رب ! تو نے یہ سب بے کار نہیں پیدا کیا۔ تو اس سے پاک ہے، کہ کوئی شے بے کار پیداکرے۔
شیطان کے پیدا کرنے میں اللہ تعالیٰ کی چند حکمتیں ہیں ۔
پہلی حکمت – اپنے بندوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ کیونکہ کمزور بندہ جب دشمن کو دیکھتا ہے، تو اپنے حقیقی آقا کی طرف بھاگتا ہے۔ اور اس کے قلعہ میں پناہ لیتا ہے تو وہ اس دشمن کے معاملے میں اس کے لئے کافی ہوتا ہے۔
دوسری حکمت – اپنے بندوں پر حجت قائم کرنی ہے۔ تا کہ جب وہ اس کے علم کی مخالفت کریں، تووہ ان سے کہے ۔ تم لوگوں نے میرے دشمن کی پیروی کی ، اور میرے حکم کی نافرمانی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
قُلْ فَلِلَّهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ آپ فرمادیجئے اللہ تعالیٰ کی حجت مکمل ہے۔
تیسری حجت -۔ عیوب کے لئے رومال ہونا ہے۔ تا کہ اس میں گناہوں کے میل پونچھے جائیں ۔ اور اسی طرح نفس اور دنیا بھی رومال ہیں ۔
چوتھی حکمت :۔ اس کے ساتھ مجاہد ہ اور جنگ کرنے میں مومن کی فضیلت اور ترقی ظاہر ہوتی ہے۔ انسان کے اوپر شیطان کے مسلط کرنے میں یہی حکمتیں ہیں ۔
وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ اللہ تعالیٰ اپنے حکم پر غالب ہے۔
وَهُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ اور و و علم اور حکمت والا ہے ۔
حکایت – روایت ہے کہ حضرت سہل بن عبداللہ تسترمی کے سامنے شیطان ہنستا ہوا آیا۔ حضرت سہل نے اس سے کہا :- اے مردودا تو کیوں ہنس رہا ہے۔ جبکہ تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امید ہو چکا ہے؟ شیطان نے جواب دیا ۔ اے سہل میں بھی ایک شے ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ فر مایا ہے۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ اور میری رحمت ہرشے کے لیے وسیع ہے۔
حضرت سہل نے فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے ۔
فَسَاكُتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَمیں عنقریب اپنی رحمت ان لوگوں کے لئے لکھوں گا، جو تقو ے والے ہیں ۔
تو اے مردود ! تیرے اندر تقوی کہاں ہے؟ شیطان نے کہا ۔ تقوی بندے کی صفت ہے اور رحمت ، رب تعالیٰ کی صفت ہے اور بندہ فانی ہے اور رب تعالیٰ باقی ہے۔ تو فانی کو باقی سے کیا نسبت ؟ پھر حضرت سہل سے کوئی جواب نہ بن پڑا اور وہ خاموش ہو گئے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ شبہ فرق کی طرف نظر کرنے کی بنا پر پیدا ہوتا ہے لیکن اگر جمع پر نظر کیا جائے۔ تو رحمت اس کا وصف ہے۔ اور تقوی اس کا فعل ہے اور اس کا فعل ، اس کے وصف کو مقید کرتا ہے اور سب اسی کی طرف سے ہے۔ اور اسی کی طرف ہے۔
لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ تعالیٰ سے سوال نہیں کیا جاسکتا ہے جو وہ کرتا ہے اور لوگوں سے سوال کیا جائے گا ۔
شیعہ کا جنازہ پڑھنے پڑھانے والےکیلئے اعلیٰحضرت کا فتویٰ
دوہرا اجر پانے والے
سواء السبیل کلیمی
خاندانِ نبوی ﷺ کے فضائل و برکات العلم الظاهر في نفع النسب الطاهر
حیلہ اسقاط ایک جلیل القدر نعمت
امر الہی کے تین مراتب
آداب مرشد
تہنیت از سخی مادھو لعل حسین قلندر
مقامات سلوک از ڈاكٹر محمد عبد الرحمن عمیرہ المصری
مفتاح اللطائف
کشکول کلیمی
رسم رسُولی
آداب سماع شیخ کلیم اللہ جہان آبادی چشتی