وسیلہ کی شرعی حیثیت.Waseela ki Shari Haseat

حضرت عثمان بن حنیف رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک نابینا نبی ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ دعا کیجیئے کہ اﷲ میری بصارت بحال کر دے ۔آپ ﷺ نے فرمایا، اگر تم چاہو تو میں اس کام کو موخر کر دوں اور یہ تمہارے لئے بہتر ہو گا اور اگر تم چاہو تو (ابھی )دعا کر دوں اس نے کہا آپ دعا کر دیجئے آپ نے فرمایا تم اچھی طرح وضو کرو ، دو رکعت نماز پڑھو اس کے بعد یہ دعا کرو : اللھم انی اسالک واتوجہ الیک بمحمد نبی الرحمۃ یا محمد انی قد توجھت بک الی ربی فی حاجتی ھذہ لتقضی اللھم فشفعہ : ’’ائے اﷲ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور محمد نبی رحمت ﷺ کے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں ۔اے محمد ﷺ میں آپ کے وسیلہ سے اس حاجت میں اپنے رب کی طرف متوجہ ہوا ہوں تاکہ میری یہ حاجت پوری ہو۔ائے اﷲ نبی ﷺ کو میرے لیے شفاعت کرنے والا بنا دے ‘‘ (سنن ابن ماجہ )

حضرت ذکریا علیہ السلام کا حضرت مریم کے حجرہ کے پاس کھڑے ہوکردعا مانگنا،’’یا اﷲ مجھے اولاد نرینہ عطا فرما‘‘ حالانکہ آپ اس وقت بڑھاپے میں تھے اور آپ نے حضرت مریم ؑ کے حجرہ میں بے موسم پھل دیکھے تو خیال آگیا کہ جو کریم رب بے موسم پھل عطا کر سکتا ہے ، وہ بڑھاپے میں اولاد دینے پر بھی قادر ہے ۔ اوریہ خیال آتے ہی وہیں کھڑے کھڑے دعا کر دی ۔

رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کسی ایک شخص کی سواری ویران زمین میں بھاگ جائے تو وہ یہ ندا کرے اے اﷲ کے نیک بندو اس کو روک لو ،اے اﷲ کے نیک بندو اس کو روک لو کیوں کہ زمین میں اﷲ تعالیٰ کے کچھ ایسے روکنے والے ہیں جو اس کو روک لیتے ہیں ۔

اہل اﷲ کی قبور و مزارات خلق خدا کے لئے مرجع فیوض و برکات ہوتے ہیں ۔اہل نظر ان اولیاء اﷲ کے مقامات کو بے وقعت اور محض مٹی کا ڈھیر نہیں سمجھتے بلکہ ان کے بارے میں عقیدہ یہی ہے کہ وہ بارگاہ خداوندی میں محبوب و مقبول ہیں ان میں سے بعض اولیاء کرام صاحب تصرف سمجھے جاتے ہیں ۔بزرگان دین اور پاکان امت کے عمل کے بارے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں وہ انسان جو خود روحانی بصیرت سے محروم ہو اسے ہرگز یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ یہ حکم لگا دے کہ اہل اﷲ کے مزارات سے کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ان کے بارے میں ایسا تصور کرنا بے سند اور بے جواز ہے ۔

بندہ مومن کی زندگی کا مقصد حقیقی اپنے خالق و مالک کی رضا اور خوشنودی ہے ۔وہ اپنی حیات میں ایسے اعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے جن سے اس کا رب اور اس کا محبوب خوش ہو جائے۔ خوش نصیب ہے وہ انسان جس نے اپنی زندگی کے قیمتی لمحات اپنے رب کے پسندیدہ امور بجا لانے میں صرف کئے۔

اسلام میں ایک مسلمان کو فرائض کی بجا اوری کے لئے اﷲ رب العزت کی توفیق کے ساتھ ساتھ بعض دیگر ایسے مستحسن طریقے اور ذرائع بھی میسر ہیں جن سے بلندی درجات اور خداوندکریم کا قرب نصیب ہوتا ہے ان طریقوں میں سے ایک پسندیدہ اور آسان طریقہ توسّل ہے ۔یہ بڑی سادہ اور بنیادی سی حقیقت ہے کہ توسّل قرب خداوندی کے حصول کے لئے دعا کی ایک شکل ہے اور پسندیدہ و جائز طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے ۔اﷲ رب العزت کی بارگاہ میں جس عمل یا شخصیت کو بطور وسیلہ پیش کیا جاتا ہے اس سے مقصود یہ امید ہوتی ہے کہ ہم چونکہ اﷲ کے عاجز ، گناہگار اور خطاکار بندے ہیں جبکہ جس کو بطور وسیلہ پیش کیا جارہا ہے وہ اﷲ تعالیٰ کا محبوب و مقرب ہے اس کے وسیلہ جلیلہ سے اﷲ تعالیٰ ہمیں ہماری پریشانیوں اور آفات و بلیات سے نجات عطا فرمائے گا۔اس عمل کے دوران جسے اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں وسیلہ پیش کیا جا رہا ہے نہ تو وہ اﷲ تعالیٰ کا شریک سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی اﷲ کا ہمسر۔اس لئے کہ حقیقی کارساز اور مشکل کشا تو اﷲ تعالیٰ ہی ہے ۔بدقسمتی سے مسلمانوں کے باہمی اختلافات اور فکری انتشارکے باعث ایسے غیر متنازع اور خیر خواہی پر مبنی اعمال کی بجا آوری کو بھی مسلکی تعصب اور عناد کی بھینٹ چڑھا کر متنازع مسئلہ بنا دیا گیا۔حتیٰ کہ بعض افراط وتفر یط کا شکار لوگ آج اسے شرک و بدعت سمجھنے لگے ہیں۔درحقیقت یہ معاملہ بھی ان دیگر معاملات کی طرح ہے جن میں محض جذبات یا تنگ نظری کی بناء پر غلط فہمی اور کج فکری پیدا ہو جاتی ہے۔لہٰذا قرآن و حدیث کی روشنی میں دیکھنا چاہیے کہ وسیلہ کیا ہے اور اس بارے میں ہمارے اسلاف کا کیا طریقہ کار رہا ہے ۔

وسیلہ کے لغوی معنی:

علامہ ابن اثیر جزری لکھتے ہیں : ھی فی الاصل ما یتوصل بہ الیٰ الشیء ویتقرب بہ : جس چیز سے کسی شے تک رسائی حاصل کی جائے اور اس شے کا تقرب حاصل کیا جائے وہ وسیلہ ہے ۔علامہ ابن منظور افریقی لکھتے ہیں ۔الجوہری : الوسیلۃ ما یتقرب بہ الی الغیر : امام لغت علامہ جوہری نے کہا ہے کہ جس چیز سے غیر کا تقرب حاصل کیا جائے وہ وسیلہ ہے ۔ائمہ لغت کی ان تصریحات سے واضح ہو گیا کہ جس چیز سے غیر کا تقرب حاصل کیا جائے وہ وسیلہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا تقرب اعمال صالحہ اور عبادات سے حاصل ہوتا ہے تاہم انبیاء کرام اور اولیاء کرام کو اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں جو عزت اور وجاہت حاصل ہے اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت دعا کے لئے اس عزت اور وجاہت کو پیش کرنا اور ان سے دعا کی درخواست کرنا بھی جائز ہے ، زندگی میں اور وفات کے بعد بھی ۔

کسی کو بطور وسیلہ پیش کرنے میں ہرگز ہرگز یہ عقیدہ کار فرمانہیں ہوتا کہ وہ مقبول اور مقرب بندہ جس کا وسیلہ دیا جارہا ہے دعا قبول کرے گا یا وہ اﷲ تعالیٰ کی ذات کو ( معاذاﷲ ) اس امر پر مجبور کر دے گا کہ فلاں کام ہونا چاہیے یا فلاں بندے کی بخشش و مغفرت لازماً کر دی جائے۔یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے جو بعض لوگوں کے ذہنوں میں پائی جاتی ہے دراصل وسیلہ پیش کرتے وقت سائل کے ذہن میں یہ تصور ہوتا ہے کہ جب وہ اپنی عاجزی بے بسی اور نیاز مندی کا اظہار کرکے اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثناء کے بعد اس کے کسی مقبول اور مقرب بندے کا نام بطور وسیلہ پیش کرے گا تو اﷲ تعالیٰ اپنے اس اطاعت گزار مقبول اور مقرب بندے کا لحاظ فرماتے ہوئے ضرور اس کی حاجت پوری فرمائے گا۔یہ تصور بھی وسیلہ پیش کرنے والے کے ذہن میں نہیں ہوتا کہ وہ صالح بندہ (معاذاﷲ ) خدائی میں شریک ہے اس لئے ضروری ہے کہ وسیلہ کی حقیقت کو سمجھا جائے تا کہ جو لوگ وسیلہ کے صحیح مفہوم کو سمجھنے میں غلطی کرتے ہیں اپنی اصلاح کر سکیں

وسیلہ اپنے مفہوم کے اعتبار سے کسی شے تک پہنچنے کا سبب اور ذریعہ ہے ، اور یہ کسی کے قرب کے حصول کاباعث بنتاہے ۔ ایک بندہ مومن کا مقصود حیات اﷲ تعالیٰ کی معرفت، قرب ،اور اس کی رضا وخوشنودی ہوتی ہے۔ اس لئے قرآن حکیم میں اﷲ تبارک و تعالیٰ نے جابجا متلاشیانِ حق کو اپنے حضور تک تقرب اور رسائی کا وسیلہ تلاش کرنے کے بارے میں رہنمائی فرمائی ہے ۔اور قرآن مجید میں اﷲ تبارک وتعالیٰ نے صراحت کے ساتھ وسیلہ ڈھونڈنے کا حکم فرمایا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

یا ایھا الذین امنوا اتقوا اﷲ وابتغو الیہ الوسیلۃ وجاھدوا فی سبیلہ لعلکم تفلحون(المائدہ ، ۵:۳۵)

اس آیۃ کریمہ میں چار چیزوں کا بیان ہے ۔ ایمان، تقویٰ، تلاشِ وسیلہ اور جہاد فی سبیل اﷲ ۔ تیسرا حکم آیہ مذکورہ میں تلاش وسیلہ کا ہے ۔ وابتغو الیہ الوسیلۃ اور اس (کے حضور) تک تقرب اور رسائی کا وسیلہ تلاش کرو۔بعض علما ء نے اس آیۃ کریمہ میں تلاش ِ وسیلہ سے فقط ایمان اور اعمال صالحہ مراد لیا ہے۔جبکہ اکثرعلماء نے آیۃ کریمہ کے ان الفاظ سے مراد انبیاء صلحاء اور اولیاء کی ذواتِ مقدسہ کو لیا ہے ۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ اتقواﷲ میں ایمان اعمال صالحہ اور عبادات سب شامل ہے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ اس آیۃ کریمہ میں قرب الہٰی کے لئے تلاش وسیلہ کا عمومی حکم ہے ۔قرب و حضور الہٰی کاوسیلہ جہاں اعمال صالحہ اور ایمان بنتا ہے ۔ وہاں اﷲ تعالیٰ کے انبیا اوراولیاء بطریق اولیٰ ہیں ۔

 ارشادِ باری تعالیٰ ہے :ولو انھم اذ ظلموا انفسہم جاء وک فاستغفروا اﷲ واستغفرلہم الرسول لوجدواﷲ توابا الرحیما۔(النساء ۴:۶۴)

اس آیۃ کریمہ میں اﷲ تعالیٰ نے مومنوں کو ان کے گناہو ں اور لغزشوں کی مغفرت کے لئے بارگاہ مصطفی میں آکر ان کا وسیلہ پکڑنے کا حکم دیا ہے ۔ اور یہ حکم حیات ظاہری تک محدود نہیں بلکہ بعد از وصال بھی ان کا حکم اسی طرح باقی ہے۔

اسی طرح سورت العمران کے اندر بھی حضرت ذکریا علیہ السلام کا حضرت مریم کے حجرہ کے پاس کھڑے ہوکردعا مانگنا،’’یا اﷲ مجھے اولاد نرینہ عطا فرما‘‘ حالانکہ آپ اس وقت بڑھاپے میں تھے اور آپ نے حضرت مریم ؑ کے حجرہ میں بے موسم پھل دیکھے تو خیال آگیا کہ جو کریم رب بے موسم پھل عطا کر سکتا ہے ، وہ بڑھاپے میں اولاد دینے پر بھی قادر ہے ۔ اوریہ خیال آتے ہی وہیں کھڑے کھڑے دعا کر دی ۔ یہاں دعا کے لئے خصوصی طور پر حضرت مریم کے حجرے کا انتخاب کیا ۔اگر آپ نے اتفاقاً وہاں کھڑے کھڑے دعا کی ہوتی تو لفظ ’’ھنالک(وہیں کھڑے ہوکر)‘‘ لانے کا کوئی فائدہ اورمحل نہ ہوتا۔اور توسل بھی ثابت نہ ہوتا، لیکن بدیہی طور پر محبوب مقام پر کھڑے ہوکر دعا کرنا توسل کا آئینہ دار ہے ۔ اور اسی طرح یوسف علیہ السلام کی قمیض کے بارے میں قرآن پاک میں اسطرح ذکر ہے کہ جب وہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی چہرہ پر ڈالی گئی تو اس وقت ان کی بینائی لوٹ آئی۔ جب پیغمبر علیہ السلام کی قمیض سے توسل امر جائز ہے تو اس سے توسل بہ آثارِ الانبیاء اور توسل بالصالحین کا عقیدہ از خود ثابت ہو جاتاہے ۔اس کے علاوہ بھی اور کئی آیات طیبات میں وسیلہ اختیار کرنے کا ذکر ہے لیکن طوالت کے پیش نظر اسی پر اکتفا کر کے حدیث مبارکہ کی روشنی سے بھی کچھ ثبوت آپ کے سامنے لانے کی سعی کرتا ہوں۔جیسا کہ صحابہ کرام اور بزرگان دین کا یہ طریقہ کار رہا ہے اور انہوں نے اپنی زندگیوں میں وسیلہ کو اختیار کیا ہے اور اس پر عمل پیرا ہوئے ہیں جسطرح کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے زمانہ میں قحط پڑ گیا اور جب کافی عرصہ سے بارش نہ ہوئی تو آپ نے سرکار دوعالم ﷺ کے چچا جان حضرت عباس رضی اﷲ عنہ کا وسیلہ پیش کر کے اﷲ تعالیٰ کے حضور دعا مانگی ۔

 صحیح بخاری کتاب الاستسقاء میں ہے : حدیث عمر اللھم انا کنا نتوسل الیک نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم فتسقینا وانا نتوسل الیک بعم نبینا فاسقنا فیسقون

ترجمہ : حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا پہلے ہم اپنے نبی کریم ﷺ کے وسیلہ سے دعا کرتے تھے تو (اے اﷲ تو ) بارش نازل فرماتا تھا اب ہم اپنے نبی ﷺ کے عم محترم کے وسیلہ سے دعا کرتے ہیں ، تو ہم پر بارش نازل فرما، پھر ان پر بارش نازل ہو جاتی۔اس حدیث مبارکہ کی عبارت میں ’’کنانتوسل‘‘ کاجو لفظ ہے اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ حضور ﷺ کے زمانے میں آپ ﷺ کے وسیلہ سے بار بار دعا مانگی جاتی تھی ۔اور آقا دوجہاں ﷺ نے خود اپنے وسیلہ سے دعا مانگنے کی تعلیم بھی ارشاد فرمائی ہے۔

حضرت عثمان بن حنیف رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک نابینا نبی ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ دعا کیجیئے کہ اﷲ میری بصارت بحال کر دے ۔آپ ﷺ نے فرمایا، اگر تم چاہو تو میں اس کام کو موخر کر دوں اور یہ تمہارے لئے بہتر ہو گا اور اگر تم چاہو تو (ابھی )دعا کر دوں اس نے کہا آپ دعا کر دیجئے آپ نے فرمایا تم اچھی طرح وضو کرو ، دو رکعت نماز پڑھو اس کے بعد یہ دعا کرو : اللھم انی اسالک واتوجہ الیک بمحمد نبی الرحمۃ یا محمد انی قد توجھت بک الی ربی فی حاجتی ھذہ لتقضی اللھم فشفعہ : ’’ائے اﷲ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور محمد نبی رحمت ﷺ کے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں ۔اے محمد ﷺ میں آپ کے وسیلہ سے اس حاجت میں اپنے رب کی طرف متوجہ ہوا ہوں تاکہ میری یہ حاجت پوری ہو۔ائے اﷲ نبی ﷺ کو میرے لیے شفاعت کرنے والا بنا دے ‘‘ (سنن ابن ماجہ )

حضرت عثمان بن حنیف رضی اﷲ عنہ نے کہا بہ خدا ابھی ہم اس مجلس سے اٹھے نہیں تھے اور نہ ابھی سلسلہ گفتگو دراز ہوا تھا کہ وہ (نابینا )شخص اس حال میں داخل ہواکہ اس کی آنکھ میں کوئی تکلیف نہیں تھی ۔

بخد ا خدا کا یہی ہے در نہیں اور کوئی مفر مقر

جو وہاں سے ہو یہیں آکے ہو جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں

ان احادیث مبارکہ میں آپ ﷺ کی ظاہری حیات اور آپ کے بعد از وصال دونوں ادوار میں آپ کے وسیلہ سے دعا مانگی گئی ۔اور اسی طرح آقا دو جہاں ﷺ کے اس جہاں میں تشریف لانے سے پہلے بھی سابقہ انبیاء علیہ السلام اور ان کی امم آپ کے وسیلہ سے دعا کرتیں رہیں۔ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی خطا ء کی معافی کے لیے حضور نبی کریم ﷺ کی ذات مبارکہ کو رب کی بارگاہ میں بطور وسیلہ پیش کیا اور رب رحیم نے اپنے حبیب کے صدقے ان کی بھول چوک کو معاف فرمادیا۔ حضرت آدم علیہ السلام ابھی فکر توبہ میں مستغرق تھے کہ اس عالم اضطراب میں آپ کو یاد آیا کہ میں نے اپنی پیدائش کے وقت عرش معلی پر لاالہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ ( اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اﷲ کے رسول ہیں ) لکھا دیکھا تھا جو اس امر کا مظہر ہے کہ بارگاہ الٰہی میں جو مقام حضرت محمد ﷺ کو حاصل ہے وہ کسی اور کو میسر نہیں اسلیے اﷲ تعالیٰ نے عرش پر اپنے نام کے ساتھ ان کا اسم گرامی لکھا ہے ۔اس پر آپ نے دعامیں ان کلمات توبہ کے ساتھ آپ کا وسیلہ پیش کیا ۔ اسالک بحق محمد الا غفرت لی (اے اﷲ میں تجھ سے محمد (ﷺ)کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں کہ میری مغفرت فرما۔اس حدیث مبارکہ کو امام طبرانی ، ابن المنذر، سیوطی اور بیہقی نے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ دونوں سے مرفوعاً روایت کیا ہے ۔ابن المنذر کی روایت میں مندرجہ ذیل کلمات ہیں: اللھم انی اسألک بجاہ محمد عبدک وکرامتہ علیک ان تغفرلی خطیئتی (الدرمنثور ۱،۶۰) ۔ ائے اﷲ میں تجھ سے تیرے محبوب بندے محمد(ﷺ) کے واسطے سے اور اس بزرگی کے وسیلے سے جو انہیں تیری بارگاہ میں حاصل ہے سوال کرتا ہوں کہ تو میری خطا بخش دے ۔

چنانچہ ان کلمات استغفار سے جو حضور ﷺ کے وسیلے سے ادا ہوئے آپ علیہ السلام کی توبہ قبول ہوگئی ۔اس پر اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: ’’واقعۃ‘‘ محمد ﷺ مجھے تمام مخلوق سے زیادہ محبوب ہیں ۔تم نے ان کے واسطہ سے مجھ سے درخواست کی ہے میں نے تمہاری مغفرت کی اور اگر محمد ﷺ نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا ہی نہ کرتا۔طبرانی کی روایت میں مزید الفاظ بھی آئے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا وہ تمہاری اولاد میں سب سے آخری نبی ہوں گے

انبیاء علیہم السلام اور بزرگان دین سے براہ راست استمداد کے متعلق کئی احادیث مبارکہ میں ذکر موجود ہے۔ امام ابن شیبہ روایت کرتے ہیں حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کراماً کاتبین کے علاوہ اﷲ تعالیٰ نے فرشتے مقرر کیے ہیں جو درختوں سے گرنے والے پتوں کو لکھ لیتے ہیں جب تم میں سے کسی شخص کو سفر میں کوئی مشکل پیش آئے تو وہ یہ ندا کرے ’’اے اﷲ کے بندو تم پر اﷲ رحم فرمائے میری مدد کرو(المصنف،جلد۱۰،ص۳۹۰) ۔

حافظ ابو بکر دی نوری معروف بابن السنی اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کسی ایک شخص کی سواری ویران زمین میں بھاگ جائے تو وہ یہ ندا کرے اے اﷲ کے نیک بندو اس کو روک لو ،اے اﷲ کے نیک بندو اس کو روک لو کیوں کہ زمین میں اﷲ تعالیٰ کے کچھ ایسے روکنے والے ہیں جو اس کو روک لیتے ہیں ۔

علامہ نووی امام ابن السنی کی کتاب سے حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کی روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں مجھ سے میرے بعض اساتذہ نے بیان کیا جو بہت بڑے عالم تھے کہ ایک مرتبہ ریگستان میں ان کی سواری بھاگ گئی ان کو اس حدیث کا علم تھا انھوں نے یہ کلمات کہے (اے اﷲ کے بندو رو ک لو) اﷲ تعالیٰ نے اس سواری کو اسی وقت روک دیا(علامہ نووی فرماتے ہیں ) ایک مرتبہ ایک جماعت کیساتھ سفرمیں تھا اس جماعت کی ایک سواری بھاگ گئی وہ اس کو روکنے سے عاجز آگئے میں نے یہ کلمات کہے تو بغیر کسی اور سبب کے صرف ان کلمات کی وجہ سے وہ سواری اسی وقت رک گئی (کتاب الاذکار،ص۲۰۱)۔

 ملا علی قاری یا عباداﷲ کی شرح میں لکھتے ہیں

 المراد بھم الملائکۃ او المسلمون من الجن اورجال الغیب المسمون بالابدال : (الحرز الثمین علی ہامش الدر الغالی ، ص۳۷۸) ۔

ائے اﷲ کے بندو اس سے مراد فرشتے ہیں یا مسلمان جنّ یا اس سے مردانِ غیب مراد ہیں جن کو ابدال کہتے ہیں ( یعنی اولیاء اﷲ )

اسی طرح ائمہ کرام بھی اپنی حاجات میں بزرگان دین کو بطور وسیلہ پیش کرتے رہے ہیں چنانچہ امام شافعی امام ابو حنیفہ کے مزار مبارک کی برکات کے بارے میں خود اپنا تجربہ بیان فرماتے ہیں کہ میں امام ابوحنیفہ کی ذات سے برکت حاصل کرتا ہوں اور روزانہ ان کی قبر کی زیارت کے لئے آتا ہوں جب کوئی ضرورت اور مشکل پیش آتی ہے تو دو رکعت نمازپڑھ کر ان کی قبر پر آتا ہوں اور اس کے پاس (کھڑے ہو کر) حاجت بر آری کے لئے اﷲ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں پس میں وہاں سے نہیں ہٹتا یہاں تک کہ میری حاجت پوری ہو جاتی ہے (تاریخ بغداد ،۱:۱۲۳)

خطیب بغدادی نے یہ واقعہ صحیح سندکے ساتھ روایت کیا ہے یہ اتنے جلیل القدر امام کا ارشاد اور معمول تھاجن کا علمی مرتبہ و مقام پورے عالم اسلام میں تسلیم شدہ ہے ۔جب وہ خود فرما رہے ہیں کہ اہل اﷲ کے مزارات پر حاضری حصول برکت کا ذریعہ ہوتی ہے تو اس پر اعتماد نہ کرنے کی کوئی وجہ ازروئے عقل و منطق نظرنہیں آتی اور امام ابوالقاسم قشیری رحمتہ اﷲ علیہ کا شمار اکابر صوفیاء و محدثین میں ہوتا ہے تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں آپ کی ذات مرجع اہل علم تھی۔آپ مشہور بزرگ اور ولی کامل حضرت معروف کرخی رحمتہ علیہ کے بارے میں اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے الرسالۃالقشیریہ میں لکھتے ہیں:  کان من المشائخ الکبارمجاب الدعوۃ یستشفی بقبرہ ۔یقول البغدادیون : قبرمعروف تریاق مجرب :آپ بزرگ ترین مشائخ میں سے تھے اور آپ کی دعا قبول ہوتی تھی آج بھی آپ کی قبر مبارک کے پاس کھڑے ہو کر شفایابی کی دعا کی جاتی ہے ۔اہل بغداد کہتے ہیں حضرت معروف کرخی(رحمتہ اﷲ علیہ) کی قبر مجرب اکسیر ہے ۔اور اسی طرح مکتوبات میں حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اﷲ علیہ اپنی ایک الجھن کا ذکر کرتے ہیں کہ ایک چیز کے بارے میں بڑا تردّد تھا مگر اسے حل کرنے کی کوشش کارگرنہ ہوئی اسی اثنا میں ایک مدت بیت گئی اور معاملہ جوں کا توں رہا، اب یہ فکر دامن گیر رہنے لگی کہ کہیں قابل مواخذہ نہ ہو اس لئے اس سے جلد خلاصی حاصل کرنی چاہیے اس خیال نے طبیعت پر گرانی طاری کر دی اور فکری اضطراب سے نجات حاصل کرنے کے لئے بارگاہ خداوندی میں دعا کی ۔اور پھر آپ فرماتے ہیں اتفاقاً اس وقت ایک عزیز کے مزار مبارک کے قریب سے گزر ہوا اور اس معاملہ میں اسے بھی اپنا مدد گار بنایا اس دوران اﷲ پاک کی رحمت بھی شامل حال ہوئی اور معاملے کی حقیقت کو اچھی طرح واضح کر دیااور حضور رحمتہ للعالمین خاتم المرسلین ﷺ کی روحانیت نے مہربانی فرمائی اور حاضر ہو کر غمگین دل کو تسلی دی ۔

خلاصہ :

رسول اﷲ ﷺ کے تمام احکام مسلمانوں کے لئے قیامت تک کے لئے حجت ہیں ۔اور آپ کے افعال مسلمانوں کے لئے اسوہ اور نمونہ ہیں اگر آپ کا کوئی حکم آپ کی حیات مبارکہ کے ساتھ مخصوص ہو اور بعد کے لوگوں کے لئے اس کا کرنا ناجائز ہو تو آپ فرمادیتے کہ یہ حکم میری زندگی کے ساتھ خاص ہے اور بعد کے لوگوں کے لئے اس حکم پر عمل کرنا جائز نہیں ہے جیسا کہ رسول اﷲ ﷺ نے حضرت ابو بردہ بن نیار کو ایک شش ماہہ بکرے کی قربانی کرنے کا حکم دیا اور فرما دیا کہ تمہارے بعد کسی کے لئے یہ عمل جائز نہیں ہے ۔امام بخاری روایت کرتے ہیں حضرت براء رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو بردہ نے نماز عید سے پہلے قربانی کر لی نبی ﷺ نے فرمایا اس کے بدلہ میں اور قربانی کرو انہوں نے کہا میرے پاس صرف چھے ماہ کا ایک بکرا ہے جو سال کے بکرے سے فربہ ہے آپ نے فرمایا اس کے بدلہ میں اس کی قربانی کر دو اور تمہارے بعد کسی اور کے لئے شش ماہہ بکرے کی قربانی جائز نہیں ہو گی ۔

نبی ﷺ نے یہ استثناء اس لئے بیان فرمایا کہ نبی ﷺ کے تمام اقوال اور افعال مسلمانوں کے حق میں قیامت تک کے لئے حجت ہیں اگر آپ یہ استثنا ء نہ فرماتے تو چھے ماہ کے بکرے کی قربانی جائز ہو جاتی ۔اور نبی کریم ﷺ اس نابینا صحابی سے فرمادیتے کہ اس طریقہ سے دعا کرنا صرف میری زندگی میں جائز ہے اور میرے وصال کے بعد اس طریقہ سے دعا کرنا جائز نہیں ہے بلکہ شرک کا سبب ہے کیوں کہ آپ کی بعثت کا مقصد ہی شرک کی بیخ کنی کرنا تھا اور جب نبی ﷺ نے بغیر کسی استثناء کے نابینا صحابی کو دعا کا یہ طریقہ تعلیم کیا تو معلوم ہواکہ قیامت تک اس طریقہ سے دعاکرنا جائز ہے ۔

یہ وہ چند مشاہدات و تجربات ہیں جو صدیوں پر محیط ہیں ان سے یہ بات بخوبی ثابت ہے کہ اہل اﷲ کی قبور و مزارات خلق خدا کے لئے مرجع فیوض و برکات ہوتے ہیں ۔اہل نظر ان اولیاء اﷲ کے مقامات کو بے وقعت اور محض مٹی کا ڈھیر نہیں سمجھتے بلکہ ان کے بارے میں عقیدہ یہی ہے کہ وہ بارگاہ خداوندی میں محبوب و مقبول ہیں ان میں سے بعض اولیاء کرام صاحب تصرف سمجھے جاتے ہیں ۔بزرگان دین اور پاکان امت کے عمل کے بارے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں وہ انسان جو خود روحانی بصیرت سے محروم ہو اسے ہرگز یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ یہ حکم لگا دے کہ اہل اﷲ کے مزارات سے کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ان کے بارے میں ایسا تصور کرنا بے سند اور بے جواز ہے ۔

یہ بات بالکل درست ہے کہ اﷲ تعالیٰ شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے اور جو اس حقیقت کا انکار کرے وہ قرآنی حکم کا منکر ہو گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اﷲ تعالیٰ کی سنت پر بھی غور کرنا چاہیے اگر وہ چاہتا توبلاواسطہ اپنے احکام و فرامین اور کتب نازل فرماتا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا اﷲ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ انبیاء و رسل کے ذریعے ہم تک پیغام حق پہنچایا لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اﷲ رب العزت کی سنت کے بر خلاف ان انبیاء و رسل اور ا ن کے پیروکاروں کے وسیلہ و ذریعہ کے بغیر اس تک پہنچ جائیں اور اس کے نازل کردہ احکامات پر اسی طرح عمل کریں جسطرح وہ چاہتا ہے یا اس کے انبیاء و رسل نے کیا ہے۔اگر خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بغیر وسیلہ کے اپنی ذات تک پہنچانا ہوتا اور معرفت و مشاہدہ کرانا ہوتا تو کبھی بھی برگزیدہ پیغمبر نہ بھیجتا اور نہ ہی قرآن مجید میں وسیلہ تلاش کرنے کا حکم دیتا۔

اس کی ایک آسان مثال سے یوں سمجھا جائے کہ بیشک بجلی ڈیموں سے پیدا کی جاتی ہے لیکن وہاں سے براہ راست کارخانوں یا گھروں کو مہیا نہیں کی جاتی اگر کوئی ڈیم سے بلا واسطہ بجلی لینے کی کوشش کرے تو خاکستر ہو جائے بلکہ بجلی کئی طرح کے مراحل سے گزر کر ٹرانسفارمر تک آتی ہے اور پھر اس سے بھی آگے کئی ذریعوں سے جتنی جس کو ضرورت ہوتی ہے اتنی مہیا کی جاتی ہے ۔ بدقسمتی سے آج ہم نے دینی احکام کو بھی اپنی طبیعت و مسلک کے تابع کر لیا ، جو بات ہماری طبیعت اور خاص مسلکی ذوق کی تسکین کا باعث ہو وہ دین ہے جبکہ اس کے علاوہ اگر کوئی امر دینی صحیح اور ثقہ روایات سے ثابت ہو ہماری طبیعتوں اور مسلک سے مطابقت نہ رکھتاہو تو ہم اسے دین سے خارج سمجھتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جملہ دینی عقائد و اعمال کو افراط و تفریط سے ہٹ کر دین کی حقیقی روح کے ساتھ سمجھا جائے اﷲ تعالیٰ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور صحابہ کرام و ائمہ کرام و بزرگان دین کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں