وصف کے بغیر دعوی (تیرھواں باب)

وصف کے بغیر دعوی کے عنوان سے تیرھویں باب میں  حکمت نمبر 126 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
بندہ  جب ربوبیت کے اوصاف کو ظاہر کر دیتا ہے تو وہ اپنی حد سے نکل گیا اور اس نے اپنی قدر کو نہیں پہچانا ۔ تب یہ ضروری ہوتا ہے کہ قدرت اس کو تنبیہ کرے اور اس کی طرف مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنےاس قول میں اشارہ فرمایا ہے:۔
126) مَنَعَكَ أَنْ تَدَّعِىَ مَا لَيْسَ لَكَ مِمَّا لِلْمَخْلُوقِينَ ، أَفَيُبِيحُ لَكَ أَنْ تَدَّعِىَ وَصْفَهُ وَهُوَ رَبُّ الْعَالَمِينَ.
اللہ تعالی نے تم کو اس سے منع فرمایا ہے کہ تم اپنے لیے اس چیز کا دعوی کرو، جو تمہارے لیے نہیں ہے بلکہ وہ دوسرے حقوق کیلئے ہے تو کیا وہ تم کو اس کی اجازت دے گا، کہ تم اس کے وصف کا دعوی کرو حالانکہ وہ تمام جہانوں کا رب ہے
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: اللہ تعالی غیرت مند ہے لہذا وہ اپنے بندے کیلئے یہ پسند نہیں کرتا ہے کہ وہ اس کی خصوصیت کے راز کو فاش کرے اور نہ وہ اپنے بندے کیلئے یہ پسند کرتا ہے کہ وہ اس کی ربوبیت کےاوصاف میں اس کا شریک ہو۔ چنانچہ یہ اللہ تعالی کی غیرت کا تقاضا ہے کہ اس نے بشریت کے دصف کو ظا ہر کر کے خصوصیت کے راز کو پوشیدہ کیا۔ اور اگر ایسانہ ہوتا تو ربوبیت کا راز تحقیر اور بے وقعت اور ظاہر ہو جاتا اوریہ اس کی حکمت کے خلاف ہے۔ اور ایسا کیسے ہو سکتا ہے جبکہ وہ فرماتا ہے۔ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ بیشک آپ کا رب حکمت والا اور علم والا ہے اور یہ بھی اللہ تعالی کی غیرت کا تقاضا ہے کہ اس نے ربوبیت کے اوصاف کے ساتھ خاص کیا اور ہم کو اس کے ظاہر کرنے سے ، اور حال اور قول میں اس کے ساتھ موصوف ہونے سے منع کر دیا۔ اور یہ اس طرح جیسے کہ بندے کا عزت ، اور عظمت ، اور کبر (بڑائی) اور سرداری ، اور بلندی سے موصوف ہونا ، یا زبان سے ان کا دعوی کرنا ۔ پس اگر وہ ان میں کسی چیز کا بھی دعویٰ کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے دروازے سے ہٹا دینے اور سزا پانے کا مستحق ہوتا ہے۔
حدیث قدسی میں حضرت محمد ﷺ سے روایت ہے۔
يَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى : الْكِبْرِيَاءُ رِدَائِي ، وَالْعَظْمَةُ إِزارِي ، فَمَنْ نَّازْعَنِى وَاحِدًا مِنْهُمَا قَصَمْتُهُ
اللہ تبارک و تعالی فرماتا ہے :- کبریائی (بڑائی) میری چادر ہے اور عظمت میرا ازار ہے ۔ اس لیے جو شخص مجھ سے ان دونوں میں سے کسی ایک میں لڑائی کرے گا میں اس کو ہلاک کر دوں گا
اور حضرت محمد ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے۔ لَا أَحَدُ أَغْیَرُ مِنَ اللَّهِ فَلِذَالِكَ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ اللہ تعالی سے زیادہ غیرت مند کوئی شخص نہیں ہے اس لیے اس نے ظاہری ، اور باطنی کبیرہ گناہوں کو حرام کر دیا
اور بخاری شریف میں حضرت سیدنا موسیٰ کے قصہ میں ہے۔ انَّه خَطَبَ عَلَى النَّاسِ خُطْبَةٌ ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ ، فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ ، فَقَالَ لَهُ – هَلْ تَعْلَمُ أَحَدًا أَعْلَمُ مِنْكَ ؟ فَقَالَ : لَا ، فَعَتَبَ اللهُ عَلَيْهِ اذْلَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ فَقَالَ لَهُ : بَلَى ، عَبْدُنَا خَضِرٌ هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ ، فَكَانَ مِنْ شَانِهِمَا مَاقَصَّ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے لوگوں کے سامنے ایک خطبہ دیا۔ اس کے اثر سے لوگوں کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے ۔ تو ایک شخص ان کے سامنے کھڑا ہوا اور ان سے دریافت کیا :- کیا آپ کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جو آپ سے زیادہ علم رکھتا ہو، یعنی آپ سے بڑا عالم ہو؟ حضرت موسیٰ نے فرمایا: نہیں، تو اللہ تعالی نے ان کے اوپر عتاب فرمایا ۔ کیونکہ انہوں نے علم کو اللہ تعالی کی طرف منسوب نہیں کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ سے فرمایا: ہاں ، ہمارا بند و خضر تم سے زیادہ علم والا ہے۔ چنانچہ ان دونوں حضرات موسی اور خضر کے حالات میں وہ قصہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے۔
پس تم غور کرو کہ کس طرح اللہ تعالی نے حضرت موسی کو اپنے سوا دوسرے کو تلاش کرنے کےذریعے ادب کی تعلیم دی۔ یہاں تک کہ حضرت موسیٰ نے حضرت خضر کی شاگردی اختیار کی ۔ حضرت خضر حضرت موسی کو طاقت کے ساتھ حکم دیتے تھے ، اور منع کرتے تھے۔ اور حضرت خضر حضرت موسی پر ان کی عظیم قدر و منزلت، اور بلند مرتبہ کے باوجود اپنا رعب قائم کیا۔ علیہما السلام۔ اور ایسا اس لیے ہوا کہ حضرت موسیٰ نے اپنی کچھ آزادی ظاہر فرمادی تھی ۔ پس جو شخص آزادی ظاہر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو جبراًو قہراً بندگی کی طرف لو ٹا تا ہے اور جو شخص بندگی ظاہر کرتا ہے اللہ تعالی اس کے باطن میں آزادی کو قائم کرتا ہے۔ اور اس کو کل ( مخلوق ) کا بالکل مالک بنا دیتا ہے تو جو شخص اپنے مرتبے سے گر کر تواضع کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو اس کے مرتبے سے بھی اوپر اٹھاتا ہے۔
اور یہ بھی اللہ تعالی کی غیرت ہے کہ اس نے فواحش یعنی کبیرہ گناہوں کے ظاہر اور باطن کو حرام فرمایا ۔ فواحش : ۔ ہر اس گناہ کو کہتے ہیں جس کی برائی حد سے زیادہ اور جس کا جرم بہت بڑا ہو جیسے زناءاور غصب اور چوری اور ظلم وستم اوریتیموں کا مال کھانا اور ان کے علاوہ دوسرے حقوق العباد، (بندوں کے حقوق ) تو جب اللہ تعالی نے تم کو دوسری مخلوق کی ان فنا ہونے والی چیزوں پر دعوی کرنے سے منع فرمادیا ہے جو تمہارے لیے نہیں ہے تو وہ اس کی اجازت کیسے دیگا کہ تم اس کے وصف عزت اور کبریائی کا دعوی کرو ۔ جبکہ وہ کل جہانوں کا مالک ہے۔
تو جب تم اس چیز کا دعویٰ کرتے ہو جو تمہارے لیے نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ تم سے وہ چیز چھین لیتا ہے، جس کا اس نے تم کو مالک بنایا تھا اور جب تم اپنے وصف پر قائم رہتے ہو اور اس کا وصف اس کے سپرد کرتے ہو تو وہ تم کو وہ چیز عطا کرتا ہے جو تمہارے پاس نہیں ہے اور تم کو وہ چیز بخشتا ہے جو تمام عالم میں کسی کو نہیں بخشتا ہے جب تم اپنے نفس کو ہر زمین میں اتارو گے تو تمہارا قلب ہر آسمان میں بلند ہوگا، اور اس حقیقت کا ذ کر گمنامی کے بیان میں کیا جا چکا ہے۔ واللہ تعالی اعلم ۔
(تنبیہ) ۔ تم یہ جان لو ، اللہ تعالی تمہارے اوپر رحم کرے اور تم کو اپنے اولیائے کرام کو تسلیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے کہ جب باطن میں آزادی قائم ہو جاتی ہے تو ظاہر پر بھی اس کے آثار کا ظاہر ہونا لازمی ہے۔
فَكُلُّ إِنَاءٍ بِالَّذِي فِيْهِ يَرْشَحُ ہر برتن سے وہی ٹپکتا ہے جو اس میں ہوتا ہے
اور خزانے کے مالک پر خوشی کا ظاہر ہونا لازمی ہے اور دولتمند خوشی اور سرور سے خالی نہیں ہوتا ہے جیسا کہ ایک شاعر نے فرمایا ہے۔
وَمَهُمَا تَكُنْ عِندَ أَمْرِی مِنْ خَلِيقَةٍ وَإِنْ خَالَهَا تَخْفَى عَلَى النَّاسِ تَعْلَمُ
کسی انسان کے اندر جو صفت ہوتی ہے وہ معلوم ہو جاتی ہے ، اگر چہ وہ خیال کرے کہ وہ لوگوں سے پوشیدہ ہے۔
اسی لیے ہم ، اہل باطن کو ظاہر میں بہت طاقت ور پاتے ہیں اور اسی لیے اکثر اوقات ان سے ایسی باتیں صادر ہوتی ہے جو قدرت ان سے نکلواتی ہے۔ لیکن نا واقف ، ان کی اس حالت پرگمان کرتا ہے کہ یہ صرف دعوی اور مشہور ہونے کی کوشش ہے اور در حقیقت ایسا نہیں ہے ۔ بلکہ وہ در حقیقت باطنی قوت کے آثار ہیں جن کو روکنے کی انہیں قدرت نہیں ہے۔ ان میں سے بعض باتیں نعمتوں کے ظاہر کرنے کیلئے ہوتی ہے اور ان میں سے بعض باتیں بندوں کی نصیحت حاصل کرنے کیلئے ہوتی ہیں تا کہ وہ ان کے حال کو پہچانیں اور ہدایت کی راہ میں ان سے فائدہ حاصل کریں۔
اور اسی نا واقفیت کی بنا پر اہل ظاہر میں سے بہت سے لوگوں نے ، اور عبادت میں مشغول رہنے والوں نے ، یا ظاہری شریعت پر قائم رہنے والوں نے یا ان لوگوں نے جن کی صحبت طریقت میں ان کے ساتھ زیادہ دن نہیں رہی ہے۔ اگر چہ وہ بھی کامل میں ان لوگوں کو چھوڑ دیا ہے۔
اور اسی نوعیت کا وہ واقعہ ہے، جو حضرت شیخ زروق کو حضرت شیخ ابوالمواهب تیونسی کے ساتھ پیش آیا۔ جس وقت حضرت شیخ ابوالمواہب پر باطنی قوت کے آثار ظا ہر ہوئے ، یہاں تک کہ ان کے بارے میں حضرت شیخ زروق نے فرمایا:۔ ان کا دعوی ان کے مرتبے سے بہت بڑا ہے ۔ حالانکہ حقیقت ایسا نہیں تھا۔ کیونکہ حضرت شیخ بو المواهب معرفت الہی میں بڑی شان اور مضبو ط قدم رکھتے تھے۔ انہوں نے حضرت ابو عثمان مغربی سے حقیقت حاصل کی تھی اور فرماتے تھے ۔ میں نے خرقہ تصوف حضرت محمد ﷺ سے پہنا ہے اور انہوں نے کتاب الحکم کی ایک بہترین شرح لکھی ہے۔ لیکن وہ مکمل نہیں ہے اور نظم اور نثر میں ان کا کلام بہت بہتر اور روح پرور ہے ان کی ایک نظم میں سے چند اشعار مندرجہ ذیل ہیں :۔ رضی اللہ عنہ
مَنْ فَاتَهُ مِنْكَ وَصْلَّ حَظهُ النَّدَمُ وَمَنْ تَكُن هَمَّه تَسْمُوبه الهمم
، جس شخص نے تیرے وصال کو فوت کر دیا ، اس کا حصہ شرمندگی ہے اور جو شخص تیرے وصل کا ارادہ کرتا ہے اس کی ہمتیں بلند ہوتی ہے
وناظر في سوى معناك حق له يَقْتَصُّ مِنْ جَفْنه بالدَّمْعِ وَهُوَدَم
اور تیری حقیقت کے سوا میں دیکھنے والے کیلئے یہ مناسب ہے کہ وہ اپنی آنکھ سے خون کےآنسو بہائے
وَالسَّمْعُ إِنْ جَالَ فِيهِ مَنْ یُحَدِّثُهُ سِوَى حَدِيثِكَ أمْسَى وَقْرَهُ الصَّمَمُ
اور کان میں اگر تیری بات کے سوا کوئی دوسری بات پہنچے تو اس کو مضبوطی سے بہرا کر دینا چاہے یعنی نہ سننا چاہیئے ۔
فِي كُلِّ جَارِ حَۃعَینْ أَرَاكَ بِهَا مِنِّي وَفِي كُلِّ عُضُو بِالثَنَاءِ فَمُ
میرے ہر عضو میں آنکھ ہے جس سے میں تجھ کو دیکھتا ہوں اور میرے ہر عضو میں منہ ہے جوتیری تعریف کرتی ہے
فَإِن تَكَلَّمْتُ لَمُ انْطِقَ بِغَيْرِكُمْ وَكُل قَلبِي مَشْغُوف بحبکُمْ
تو اگر میں نے بات کی تو تمہارے ذکر کے سوا کوئی بات نہیں کی میرا قلب بالکل تمہاری محبت میں مدہوش ہے
اخذَتُمُ الرُّوحَ مِنِى فِى مُلاطَفَةِ، فَلَسْتُ أَعْرِف غيْرًا مُذعَرَفْتُكُمْ
تم نے محبت میں مجھ سے میری روح کو لے لیا ہے اس لیے جب سے میں نے تم کو پہنچانا ہے تمہارے غیر کو نہیں پہچانتا ہوں
نسِيتُ كُل طَرِيق كُنتُ أَعْرِفُهَا إِلَّا طَرِيقًا تُؤْدينِي لِرَبْعِكُمْ
جتنے راستوں کو میں پہچانتا تھا سب کو میں بھول گیا ہوں مگر صرف وہ راستہ جو مجھ کو تمہارے گھر تک پہنچاتا ہے
فَمَا الْمَنَازِلُ لَوَلَا أَنْ تَحِلُّ بِهَا وَمَا الدِّیَارُ وَمَا الَّا طَلَالُ وَالْخِيَمُ
اگر تم نہیں ہو تو کیسا گھر اور خیمہ ، اور کیسا شہر اور ٹیلہ سب برابر ہے
لو لَاكَ مَا شَاقِنِي رَبِّعٌ وَلَا طَلَلٌ وَلَا سَعَتْ بِي إِلَى نَحْوِ الْحِمَى قَدَم
گرتم نہ ہوتو مجھ کو کسی گھر اور جنگ کا شوق نہ ہوتا اور نہ کسی سبزہ زار کی طرف میرے پاؤں چلتے
اور حضرت شعرانی نے اپنی کتاب ترجمہ الطبقات میں ان کی خصوصیات کے کامل ہونے اور ان کی ولایت کے مکمل ہونے کے دلائل بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ حضرت شیخ زروق کو حضرت شیخ ابو المواهب کے اسی قسم کے مقالوں ( کلاموں ) کی بنا پر جو باطنی قوت کے سبب صادر ہوئے ایسا گمان ہوا۔ کیونکہ ان کی صحبت ان کے ساتھ زیادہ دن نہیں رہی۔ اور اس کے باوجود، جو ان سے حضرت شیخ ابن عباد کے بارے میں صادر ہوا۔ واللہ تعالی اعلم ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں