پوشیدہ بیماری کا علاج (سترھواں باب)

پوشیدہ بیماری کا علاج کے عنوان سے سترھویں باب میں  حکمت نمبر 159 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
چونکہ بندوں کی پوشیدہ باتوں پر آگاہی ، طاعت اور ریاضت کی کثرت سے حاصل ہوتی ہے۔ اس لئے نفس طاعت کرنے میں اس حقیر فائدے کی نیت کرتا ہے اور یہ پوشیدہ بیماری ہے۔ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس پر اپنے قول میں تنبیہ فرمائی ہے۔
159) حَظُّ النَّفْسِ فِى الْمَعْصِيَةِ ظَاهِرٌ جَلِىٌّ ، وَحَظُّهَا فِى الطَّاعَةِ بَاطِنٌ خَفِىٌّ ، وَمُدَاوَاةُ مَا يَخْفَى صَعْبٌ عِلاَجُهُ.
نافرمانی میں نفس کا فائدہ بخوبی ظاہر ہے۔ اور طاعت میں اس کا فائدہ بالکل پوشیدہ ہے اور جو بیماری چھپی ہوتی ہے۔ اس کا علاج دشوار ہوتا ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :- نافرمانی میں نفس کا فائدہ :۔ ظاہری بشریت کے فوائد ہیں ۔ جیسا کہ کھانے اور پینے اور نکاح اور گانے کی لذت اور ان کے علاوہ وہ تمام محسوس لذت کی چیزیں جو حرام ہیں۔
اور طاعت میں نفس کا فائدہ :- کرامات اور خرق عادات اور غیبی امور سے آگاہ ہونے کی خواہش ہے۔ اور جیسے کہ لوگوں کے نزدیک خصوصیت اور قدرومنزلت چاہتا ہے۔ اور اس پوشیدہ بیماری کا علاج پہلی ظاہری بیماری کے علاج سے زیادہ دشوار ہے۔ کیونکہ محسوس پوشیدہ بیماری کا علاج ،ظاہر بیماری کے علاج سے زیادہ مشکل ہے۔
اور ایسے ہی حقیقی باطنی بیماری کا حال ہے۔ جو بیماری ظاہر ہے، نفس سے تعلق رکھتی ہے اس کا علاج ، اس بیماری سے جو پوشیدہ ہے۔ روح سے تعلق رکھتی ہے۔ زیادہ آسان ہے۔ پس پہلی بیماری یعنی جو ظاہر ہے اور نفس سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کا علاج ، گوشہ نشینی اور برے لوگوں کی صحبت سے پر ہیز کرنے اور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے اور طاعت اور اذ کار کی کثرت سے ممکن ہے۔ بخلاف دوسرے کے ، جو پوشیدہ ہے اور روح سے تعلق رکھتی ہے۔ کیونکہ طاعت اس بیماری کو بڑھاتی اور طاقتور کرتی ہے۔ اس لئے طاعت ہی سے نفس اپنا فائدہ چاہتا ہے۔ لہذا طاعت سے اس کا علاج نہیں کر سکتے ہیں۔ بلکہ اس کا علاج ہلا دینے والا خوف ، یا بے قرار کر نے والا شوق ولی اللہ کی محبت ہے۔ جو محبت اور تصدیق کے ساتھ اختیار کی جائے۔
! بعض عارفین نے فرمایا ہے ۔ جس شخص کے اوپر اس کا نفس دشوار یعنی غالب ہو ۔ تو اس کو چاہیئے کہ اپنے نفس کو شیخ تربیت کے حوالے کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
وَإِن ‌تَعَاسَرۡتُمۡ فَسَتُرۡضِعُ لَهُۥٓ أُخۡرَىٰ اور اگر تم لوگ ایک دوسرے کے لئے دشوار ہو جاؤ تو بچے کو دوسری عورت دودھ پلائے ۔
لہذا اگر تمہارے اوپر تمہارا نفس دشوار ہو جائے۔ تو اس کو دوسرا نفس دودھ پلائے ( علاج کرے ) یہاں تک کہ اس کے دودھ پلانے ( علاج کرنے ) کی مدت پوری ہو جائے۔
اور اگر ان علاجوں میں سے کوئی ایک بھی حاصل نہیں ہے۔ تو بیماری ہی کی حالت میں مرجائے گا اور اللہ تعالیٰ سے قلب سلیم کے ساتھ ملاقات نہ کرے گا۔ لہذا بندے پر واجب ہے کہ اپنے نفس کو مجرم قرار دے۔ اور اپنے قلب کی حفاظت کرے۔ تو اگر نفس طاعتوں سے کچھ لذت حاصل کرے اور اس سے مانوس ہو جائے ۔ تو نفس کو اس سے جدا کر کے کسی دوسری شے میں مشغول کر دے۔ اگر چہ وہ شے بظاہر فضول ہو ۔ اور عنقریب اس معاملے پر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کی بحث آئے گی۔ جب تمہارے سامنے دو مشابہ امور پیش ہوں۔ تو تم یہ غور کرو کہ ان میں سے کون نفس پر زیادہ گراں ہے۔ کیونکہ نفس پر وہ شے گراں ہوتی ہے۔ جو حق ہوتی ہے۔
حضرت ابو محمد مرتعش نے فرمایا ہے :۔ میں نے تجرید کی حالت میں (یعنی دنیاوی آلائشوں سے پاک ہو کر ) متعدد حج کئے ۔ بعد میں مجھ پر یہ حقیقت واضح ہوئی کہ سب کے سب نفس کے فوائدسے مخلوط تھے۔ اور یہ بات مجھ کو اس طرح معلوم ہوئی۔ کہ ایک روز میری والدہ محترمہ نے مجھ سے فرمایا:- میرے لئے ایک گھڑا پانی لا دو۔ تو یہ میرے اوپر گراں گزرا۔اس واقعہ سے میں نے یہ جان لیا۔ کہ حج کرنے میں میرے نفس کی موافقت کسی فائدہ اور آمیزش کے لئے تھی۔ کیونکہ اگر میر انفس فنا ہو گیا ہوتا ۔ تو اس کے اوپر وہ شے گراں نہ گز رتی جو شریعت میں حق ہے۔ (یعنی والدہ کے حکم کی اطاعت ) حضرت شیخ احمد بن ارقم رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: مجھ کو میرے نفس نے جہاد میں جانے کے لئے کہا۔ تو میں نے کہا : – سبحان اللہ ( تعجب ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:- إِنَّ النَّفْسَ لَا مَّارَةٌ بِالسُّوءِ نفس برائی کا حکم دینے والا ہے۔
اور یہ مجھ کو بھلائی کا حکم دیتا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نفس تنہائی سے گھبرا گیا ہے۔ وہ لوگوں سے ملنا چاہتا ہے تا کہ ان سے مل کر سکون و آرام حاصل کرے اور اپنی جہاد کی تیاری لوگوں کو سنانا چاہتا ہے تا کہ لوگ تعظیم کے ساتھ اس کا استقبال کریں ۔ لہذا میں نے اس سے کہا: میں آبادی میں نہیں جاؤں گا۔ اور پہچاننے والوں کے ساتھ نہیں ٹھہروں گا۔ اس پر بھی اس نے لبیک کہا اور راضی ہو گیا۔ تو میں اس سے اور زیادہ بدظن ہو گیا۔ اور کہا :- اللہ تعالیٰ کا قول زیادہ سچا ہے۔ پھر میں نے اس سے کہا :- میں دشمن سے بغیر ہتھیار اور ڈھال کے صرف نیزے سے جنگ کروں گا۔ لہذا تو پہلے ہی قتل ہو جائے گا۔ نفس نے اس کو بھی قبول کیا۔ میں نے اور بھی بہت سی چیزیں اس کو شمار کرائی۔ اس نے ان سب کو قبول کر لیا۔ تو میں نے کہا : اے میرے رب تو ہی مجھے نفس کی حالت سے آگاہ فرما۔ بیشک میں اپنے نفس کو مجرم قرار دیتا ہوں ۔ اور تیرے قول کی تصدیق کرتا ہوں ۔ تب مجھ کو یہ الہام کیا گیا ، گویا کہ نفس کہتا ہے اور تم ہر روز کئی مرتبہ میری مخالفت کر کے اور میری خواہشات کو روک کر مجھے کوقتل کرتے ہو۔ اور کسی کو خبر بھی نہیں ہوتی ہے۔ لہذا اگر تم جہاد کرو کے اور قتل کر دیئے جاؤ گے۔ تو یہ صرف ایک مرتبہ قتل ہوگا۔ اور میں تم سے نجات پا جاؤں گا۔ اور لوگ سنیں گے ۔ تو کہیں گے ۔ احمد شہید ہو گئے۔ تو اس سے لوگوں میں میری عزت اور شہرت ہوگی ۔ اس لئے میں بیٹھ گیا اور میں اس سال جہاد کے لئے نہیں گیا۔
حضرت جنید رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے :- ایک رات میرے نفس نے مجھ کو اتنا تنگ کیا کہ میرے اندر صبر کرنے کی طاقت نہیں رہی۔ پھر میں اپنے سامنے کی طرف روانہ ہوا۔ تو میں ایک ایسے شخص کے پاس پہنچا۔ جو قبرستان میں سر چھپائے پڑا تھا۔ جب اس نے میری آہٹ محسوس کی تو اس نے کہا :- کون ، ابوالقاسم؟
میں نے کہا: ہاں۔ اس نے دریافت کیا یہ نفس کی بیماری کب اس کے لئے دوا بن جاتی ہے؟ میں نے جواب دیا: – جب تم نفس کی خواہش کی مخالفت کرتے ہو۔ تو اس کی بیماری اس کے لئے دوا بن جاتی ہے۔ پھر اس نے اپنے نفس سے کہا :۔ تو اس کو سن لے۔ میں نے بہت مرتبہ تجھ کو یہ جواب دیا ہے۔ لیکن تو کہتا رہا ۔ جب تک میں یہ بات جنید سے نہ سنوں گا، نہ مانوں گا۔ تو اب تو نے جنید سے بھی سن لیا ۔ حضرت جنید فرماتے ہیں:۔ پھر میں واپس آیا اور میں نے اس شخص کو نہیں پہچانا۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں