پہلا مقدمہ اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ
اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ تالیف عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی
یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
پہلا مقدمہ تصوف کی تعریف
سید الطائفہ حضرت جنید رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:۔ تصوف، یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھ کو تیری ذات سے فنا کر دے۔ اور تجھ کو اپنی ذات سے متعلق کر کے زندہ رکھے۔ نیز یہ بھی فرمایا:۔ ماسوی اللہ سے تعلق ختم کر کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ رہے۔ یعنی قلب کی تمام توجہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی طرف رہے۔ اور بیان کیا گیا ہے:۔ تصوف ، تمام بہترین صفات اور اعلیٰ اخلاق میں داخل ہونا ، اور تمام بری صفات اور پست اخلاق سے نکل جانا ہے۔ نیز بیان کیا گیا ہے۔ تصوف ، اخلاق حسنہ ہے جو نیک زمانے میں پاکیزہ اور بزرگ لوگوں کے ساتھ ظاہر ہوا۔ نیز بیان کیا گیا ہے ۔ تصوف ، یہ ہے کہ نہ تو کسی شے کا مالک ہو ۔ اور کوئی شے تیری مالک ہو۔ یعنی تو اللہ تعالیٰ کا ہو جائے۔ کسی شے کو اپنا نہ سمجھے۔ اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی شے اور کسی خیال کا غلبہ تیرے اوپر نہ ہو ۔
نیز بیان کیا گیا ہے۔ نفس کا اللہ تعالیٰ کے ارادے کے موافق اللہ تعالیٰ کے ساتھ راضی رہنا ہے۔
نیز بیان کیا گیا ہے ۔ تصوف کی بنیاد تین خصلتوں پر رکھی گئی ہے۔ (اول) فقر، (مال کا نہ ہونا ) اور افتقار (اللہ تعالیٰ کا محتاج ہوتا ) کو مضبوطی سے پکڑنا۔ دوم – بخشش اور ایثار پر قائم ہونا سوم – تدبیر اور اختیار کو ترک کرنا ۔
نیز بیان کیا گیا ہے:۔ تصوف حقیقتوں کا اختیار کرنا، اور مخلوق کی اشیاء سے مایوس ہو جانا ہے۔
نیز بیان کیا گیا ہے۔ تصوف، جمعیت و حضور قلب کے ساتھ ذکر ، گوش قلب کی سماعت کے ساتھ وجدانی کیفیت اتباع سنت کے ساتھ عمل ہے۔
نیز بیان کیا گیا ہے۔ تصوف محبوب کے دروازے پر کھڑار ہنا ہے۔ اگر چہ جھڑک دیا گیا ہو۔ (بھگا دیا گیا ہو )
نیز بیان کیا گیا ہے۔ تصوف، دوری کی کدورت دور ہونے کے بعد قرب کی صفائی اور مقبولیت کا حاصل ہونا۔
نیز بیان کیا گیا ہے:۔ تصوف ، تمام وسوسوں اور خطرات سے پاک ہو کر اللہ تعالیٰ کے ساتھ بیٹھنا ہے۔
نیز بیان کیا گیا ہے۔ تصوف کا ئنات کے دیکھنے سے محفوظ ہو جانا ہے۔
سچے صوفی کی علامت یہ ہے 1 – مالدار ہونے کے بعد محتاج ہو جانا 2- عزت والا ہونے کے بعد ذلیل ہو جانا ۔ 3 – مشہور ہونے کے بعد گمنام ہو جانا ۔
جھوٹے صوفی کی علامت یہ ہے (1) محتاج ہونے کے بعد مالدار ہو جانا (2) ذلیل ورسوا ہونے کے بعد عزت والا ہو جانا ۔ (3) گمنام ہونے کے بعد مشہور ہو جانا۔ یہ علامات حضرت ابو حمزہ بغدادی رحمہ اللہ نے بیان فرمائی ہیں۔
حضرت حسن بن منصور رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے ۔ صوفی اپنی ذات میں تنہا ہے۔ نہ اس کو کوئی شخص قبول اور پسند کرتا ہے۔ نہ وہ کسی شخص کو قبول اور پسند کرتا ہے۔ صوفی کی مثال زمین کی طرح ہے۔ زمین میں کل بری چیزیں ڈالی جاتی ہیں۔ لیکن زمین سے سب اچھی اور مفید چیزیں نکلتی ہیں۔ اور اچھے اور برے سب اس پربستے اور چلتے پھرتے ہیں۔
بزرگوں نے فرمایا ہے۔ سب سے بدترین شخص بخیل صوفی ہے۔
حضرت شبلی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے صوفی وہ ہے جو مخلوق سے تعلق ختم کر کے حق سبحانہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا کرے۔ اور ہمیشہ اس کی طرف متوجہ ر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول کے مطابق
وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِي میں نے تجھ کو اپنی ذات کے لئے بنایا ہے۔
پھر انہوں نے فرمایا۔ صوفیائے کرام حق سبحانہ تعالیٰ کے آغوش میں بچے ہیں۔
نیز بیان کیا گیا ہے نہ زمین صوفی کا بوجھ اٹھاسکتی ہے ۔ نہ آسمان اس پر سایہ کر سکتا ہے۔ یعنی کا ئنات صوفی کا احاطہ نہیں کر سکتی ہے۔ حضرت شیخ زروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:۔ تصوف کی تعریف و تشریح و تفسیر بہت طریقوں سے کی گئی ہے۔ جن کی تعداد دو ہزار کے قریب ہے۔ سب کا مرجع صرف ایک مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سچی اور خالص و کامل توجہ ہو۔ پس یہی ایک مقصد سب طریقوں میں ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔
خالص توجہ کا نام صوف
پھر حضرت زروق نے فرمایا:۔ کسی ایک حقیقت کے اندر اگر اختلاف زیادہ ہو جائے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس حقیقت کا مفہوم عقل و سمجھ سے باہر ہے پھر اگر وہ سارے اختلافات ایک ایسے اصول کی طرف لوٹتے ہوں جو تمام مختلف طریقوں سے بیان کی ہوئی تعریفوں کو شامل ہو ۔ توسب کی تعبیراسی اصولوں کے مفہوم کے ساتھ ہوگی ۔ اختلافات اس کی تفصیلات بیان کرنے میں واقع ہوئی ہیں۔ اور ہر ایک کا اعتبار اس کی مثال کے مطابق علم وعمل، حال و ذوق وغیرہ کے لحاظ سے ہے۔ تصوف کی تشریح میں اختلاف کی حقیقت یہ ہے اور اسی وجہ سے حافظ ابونعیم رحمتہ اللہ علیہ نے اکثر اہل تصوف کے اس قول کو کہ تصوف یہ ہے، کہنے والے کے حال کے مطابق فرمایا ہے۔ اور یہ فیصلہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سچی اورخا لص تو جہ جس کوحاصل ہے ان کو تصوف حاصل ہے۔
اور ہر شخص کا تصوف اس کی سچی اور خالص توجہ الی اللہ ہے۔ لہذا ان تشریحات سے یہ سمجھ لو کہ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف خالص توجہ کا نام تصوف ہے۔
حضرت زروق رضی اللہ عنہ نے یہ بھی فرمایا ہے:۔ قاعدہ:۔ صدق توجہ مشروط ہے اس شرط کے ساتھ کہ حق سبحانہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہو۔ اور اس طریقے پر توجہ ہو ، جو حق سبحانہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہو۔ اور مشروط عمل شرط پوری کئے بغیر صحیح نہیں ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے
وَلَا يَرْضَى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لئے کفر کو نہیں پسند کرتا ہے
لہذا ایمان کی تحقیق کر کے مضبوط اور پختہ کرنا واجب ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔
وَإِن تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ اور اگر تم شکر کروتو اللہ تعالیٰ اس کو تمہارے لئے پسند کرتا ہے
پس اسلام کے احکام پر عمل کرنا واجب ہے۔ لہذا بغیر علم فقہ کے تصوف کا وجود نہیں ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ظاہری احکام فقہ ہی سے معلوم ہوتے ہیں اور بغیر تصوف کے فقہ کا وجود نہیں ہو سکتا ہے۔ کیونکہ بغیر صدق توجہ کے کوئی عمل درست اور مقبول نہیں ہے۔ اور تصوف اور فقہ دونوں، ایمان کے بغیر درست نہیں ہیں۔ لہذا تینوں کا ایک ساتھ پایا جانا لازم ہے۔ اس لئے کہ دونوں ایک دوسرے کے لئے اس طرح لازم ہیں، جس طرح جسم کے لئے روح لازم ہے۔ یعنی روح اور جسم ایک دوسرے کے لئے لازم ہیں۔ جسم کے بغیر روح کا وجود نہیں ہو سکتا ہے اور روح کے بغیر جسم کا کمال نہیں ہو سکتا ہے۔
حضرت امام مالک نے اس بناء پر فرمایا ہے جس شخص نے تصوف اختیار کیا اور فقہ نہیں حاصل کیا وہ زندیق ہو گیا۔ اور جس شخص نے فقہ حاصل کی اور تصوف نہیں حاصل کیا وہ فاسق ہو گیااور جس نے فقہ اور تصوف دونوں کو حاصل کیا وہ حقیقت کو پانے میں کامیاب ہوا۔ میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: پہلے شخص کے زندیق ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ جبر کا قائل ہے۔ جو حکمت اور احکام کی نفی کا سبب ہے یعنی اس کے نزدیک فقہ کی کوئی اہمیت نہ رہی ہے جواحکام کا مجموعہ ہے اور دوسرے کے فاسق ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کا علم صدق توجہ سے خالی ہے جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں سے روکنے والی ہے اور اخلاص سے خالی ہے۔ جو تمام اعمال کے لئے لازمی شرط ہے۔ اور تیسرے کے حقیقت کو پالینے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو مضبوط پکڑنے میں حقیقت کے ساتھ قائم ہے ۔ لہذا اس کو بخوبی پہچانو ۔ کیونکہ تصوف یعنی صدق توجہ و اخلاص کا وجود احکام و اعمال کے بغیر نہیں ہو سکتا ہے۔ اور فقہ یعنی احکام واعمال کا کمال صدق توجہ و اخلاص کے بغیر ناممکن ہے۔ اس کو بخوبی سمجھو ۔
تصوف کا موضوع
اللہ سبحانہ تعالیٰ کی مقدس ذات ہے اس لئے کہ تصوف اللہ تعالیٰ کی معرفت سے بحث کرتا ہے۔ یا دلیل ہے ۔ یعنی دلیل سے اللہ تعالیٰ کی معرفت پر روشنی ڈال کر اس کے وجود کو ثابت کرتا ہے یا شہود و عیان (بصیرت قلبی کے مشاہدہ و معائنہ ) سے پہلا طریقہ – طالبین کے لئے ہے اور دوسرا طریقہ:۔ واصلین کے لئے ہے اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے:۔ تصوف کا موضوع نفس اور قلب اور روح ہے کیونکہ تصوف ان کی صفائی اور درستی سے بحث کرتا ہے اور یہ موضوع بھی پہلے موضوع سے قریب ہے اس لئے کہ :۔
مَنْ عَرَفَ نَفْسَهُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا
علم تصوف کے وضع کرنے والے: حضرت نبی کریم ﷺہیں۔ اللہ تعالیٰ نے وحی والہام کے ذریعے آنحضرت ﷺ کو تعلیم دی۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام پہلے شریعت لے کر نازل ہوئے ۔ جب شریعت قائم و مضبوط ہو گئی تب حقیقت لے کر نازل ہوئے ۔ پھر آنحضرت ﷺ نے یہ علم بعض خاص حضرات کو سکھا یا کیونکہ سب لوگ اس کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے ۔ پہلے سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہ نے تصوف کو ظاہر کیا اور اس کی تعلیم دی اور حضرت علی سے حضرت حسن بصری نے تصوف کی تعلیم حاصل کی ۔ حضرت حسن بصری کی والدہ محترمہ حضرت خیرہ ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی کنیز تھیں ۔ اور ان کے والد بزرگوار حضرت زید بن ثابت کے غلام تھے۔ حضرت خواجہ حسن بصری کی وفات سنہ 110 ایک سودس ہجری میں ہوئی اور حضرت حسن بصری سے حضرت خواجہ حبیب عجمی نے ، اور حضرت حبیب عجمی سے حضرت خواجہ ابو سلیمان داؤد طائی نے ، اور حضرت داؤد طائی سے حضرت ابو محفوظ خواجہ معروف بن فیروز کرخی نے، اور حضرت معروف کرخی سے حضرت ابوالحسن خواجہ سری سقطی نے حاصل کی۔ حضرت سری سقطی کی وفات سن 151ھ ( ایک سو اکاون ہجری )میں ہوئی۔ حضرت سری سقطی سے طریقہ صوفیہ کے امام حضرت خواجہ ابو القاسم محمد بن جنید خزاز نے حاصل کی۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔
حضرت جنید کا آبائی وطن نہاوند تھا۔ اور آپ عراق میں پیدا ہوئے ۔ علم فقہ حضرت امام ابو ثور و حضرت امام شافعی کی صحبت میں رہ کر حاصل کیا۔ حضرت امام ابو ثور رحمتہ اللہ علیہ کے مسلک کے مطابق فتوی دیتے تھے۔ پھر آپ نے اپنے ماموں حضرت سری سقطی اور حضرت ابو الحارث محاسبی اور دوسرے بزرگان دین کی صحبت اختیار کی ۔ آپ کے کلام اور حقائق کتابوں میں جمع کئے گئے ہیں۔ آپ کی وفات 297دوسوستانوے ہجری میں ہوئی ۔ آپ کا مزار مبارک بغداد میں مشہور زیارت گاه خاص و عام ہے۔ پھر ان کے بعد تصوف ان کے اصحاب میں پھیل گیا اور اب تک جاری ہے۔ اور اس وقت تک جاری رہے گا جب تک دین جاری رہے گا اور یہ منقطع نہ ہو گا۔ جب تک دین منقطع نہ ہوگا۔
دوسری روایت یہ ہے:۔ سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ان کے صاحبزادے اول الاقطاب حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے تصوف کی تعلیم حاصل کی۔ پھر ان سے حضرت ابو محمد جابر نے ، پھر قطب سعید غزدانی نے ، پھر قطب فتح السعود نے ، پھر قطب سعد نے ، پھر قطب سعید نے ، پھر قطب سیدی احمد مردانی نے ، پھر ابراہیم بصری نے ، پھر زین الدین قزوینی نے ، پھر قطب شمس الدین نے ، پھر قطب تاج الدین نے ، پھر قطب نور الدین ابوالحسن نے ، پھر قطب فخر الدین نے ، پھر قطب تقی الدین الفقیر نے، پھر قطب سیدی عبدالرحمن المدنی نے ، پھر قطب کبیر مولائے عبدالسلام بن مشیش نے ، پھر مشہور قطب ابوالحسن شاذلی نے ، پھر ابو العباس مرسی نے ، پھر عارف کبیر سیدی احمد بن عطا ء اللہ نے ، پھر عارف کبیر سیدی داؤد باخلی نے ، پھر عارف سیدی محمد بحر الصفاء نے ، پھر ان کے صاحبزادے عارف سیدی علی نے ، پھر مشہور ولی سیدی یحی قادری نے ، پھر مشہور ولی سیدی احمد بن عقبہ حضرمی نے، پھر ولی کبیر سیدی احمد زروق نے ، پھر سیدی ابراہیم افحام نے ، پھر سیدی علی الصنہاجی نے ، جودوار کے نام سے مشہور ہیں، پھر عارف کبیر سیدی ابن عبد الرحمن مجذوب نے ، پھر مشہور ولی سیدی یوسف فاسی نے ، پھر عارف سیدی عبد الرحمن فاسی نے ، پھر عارف سیدی محمد بن عبداللہ نے ، پھر عارف سیدی عربی بن عبداللہ نے ، پھر عارف کبیر سیدی علی بن عبد الرحمن عمرانی حسنی نے ، پھر سیدی شیخ المشائخ مولائے عربی در قاوی حسنی نے ، پھر عارف کامل محقق واصل شیخنا سیدی محمد بن احمد بوزیدی حسنی نے ، پھر کمترین بندہ رب احمد بن محمدعجیبہ حسنی نے ، رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔ پھر اس حقیر سے بہت لوگوں نے علم تصوف حاصل کیا۔ اللہ علی و کبیر کا شکر و احسان ہے۔
تصوف کا نام
اس کا نام علم تصوف ہے۔ اور تصوف کس لفظ سے بنا ہے۔ اس میں بہت سے اقوال کی بناء پر اختلاف ہے اور تمام اقوال کا مرجع پانچ ہیں ۔
پہلا قول
یہ کہ تصوف، لفظ صوف سے بنایا گیا ہے۔ اس لئے کہ صوفی اللہ تعالیٰ کے ساتھ بکھرے ہوئے اون کی طرح ہے۔ جس کی کچھ قدروقیمت نہیں ہے۔ نہ اس اون سے کچھ بنانے کی کوئی تدبیر ہے۔ (صوفی اللہ تعالیٰ کی محبت میں اپنے کو ذلیل بلکہ فنا کر دیتا ہے۔ اس کی نگاہ میں اپنی ذات کی کوئی قدروقیمت نہیں ہوتی ہے۔ وہ اپنے کو بکھرے ہوئے اون کی طرح ہیچ و نا کا رہ سمجھتا ہے۔ )
دوسرا قول
یہ کہ تصوف ، لفظ صَوْفَةُ الْقِفَا سے بنایا گیا ہے ۔ بوجہ مشابہت نرمی کے۔ صوفة القفا – گردن کا بال بہت نرم ہوتا ہے۔ پس صوفی اسی بال کی طرح نرم ہوتا ہے۔
تیسرا قول
یہ کہ تصوف ، لفظ صفت سے بنایا گیا ہے۔ کیونکہ تصوف کا کل مقصد اچھی صفتوں سے موصوف ہونا ، اور بری خصلتوں کو ترک کرنا ہے۔
چوتھا قول
یہ کہ تصوف لفظ صفا سے بنایا گیا ہے۔ صفاء کے معنی ، صفائی ۔ اور یہ قول زیادہ صحیح ہے۔ جیسا کہ حضرت ابو الفتح بسنی رحمتہ اللہ علیہ نے صوفی کے بارے میں فرمایا ہے:
تَخَالَفَ النَّاسُ فِي الصُّوفِي وَاخْتَلَفُوا جَهلاً وظنوا مُشتقا مِّنَ الصُّوف
لوگوں نے صوفی کے بارے میں نادانی سے اختلاف کیا اور انہوں نے خیال کیا کہ صوفی صوف سے بنا ہے ۔
وَلَسْتُ امْنَحُ هَذَا الْإِسمَ إِلَّا فَنِّى صَافِى فَصُوفِيَ حَتَّى سُمِّيَ الصُّوفِي
اور میں یہ نام صوفی ایسے جو ان کو عطا کرتا ہوں جس نے اپنی محبت اور توجہ اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کی۔ پس وہ ہر تعلق سے منقطع ہو کر پاک وصاف ہو گیا۔ تو اس کا نام صوفی رکھا گیا ۔
پانچواں قول
یہ کہ تصوف، مسجد نبوی ﷺ کے صفہ سے بنایا گیا ہے۔ جو اصحاب صفہ کے بیٹھنے اور رہنے کی جگہ تھی ۔ اس لئے کہ صوفی ان اوصاف میں جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ثابت کیا ہے۔ ان کا تابع اور پیرو ہے۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔ وَاصْبِرُ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِيْنَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِي يُرِيدُونَ وَجْهَهُ
آپ اپنی ذات کو ان لوگوں کے ساتھ جو اپنے رب کو صبح و شام اس کے دیدار کا ارادہ کر کے پکارتے ہیں ثابت و قائم رکھئے۔
اور یہ قول ایک ایسا اصول ہے جس کی طرف تمام اقوال رجوع کرتے ہیں۔ ایسا ہی حضرت شیخ زروق نے فرمایا ہے۔ تصوف میں جن چیزوں سے مدد حاصل کی جاتی ہے۔ تصوف کو کتاب اللہ، اور سنت اور صالحین کے الہامات ، اور عارفین کے فتوحات سے مدد حاصل ہوتی ہے۔ اور علم فقہ کی بہت سی اشیاء تصوف میں داخل کی گئی ہیں۔ کیونکہ تصوف میں ان مسائل کی ضرورت پڑتی ہے۔
حضرت امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ نے احیاء العلوم کے کتاب العبادات، و کتاب العادات ، و كتاب المہلكات وکتاب المنجیات میں ان کو تحریر فرمایا ہے۔ ان کو جاننا اور سیکھنا تصوف میں کمال حاصل کرنے کیلئے شرط نہیں ہے مگر عبادات میں جن مسائل کی ضرورت پڑتی ہے ان کا علم حاصل کرناشرط ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔
تصوف کا حکم
تصوف کے متعلق شارع علیہ السلام کا حکم ۔ حضرت امام غزالی نے فرمایا ہے۔ تصوف، فرض عین ہے۔ اس لئے کہ عیب یا مرض سے انبیاء علیہ السلام کے سوا کوئی پاک یعنی معصوم نہیں ہے۔
اور حضرت شاذلی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے :۔ جو شخص ہمارے علم تصوف میں داخل نہیں ہوا۔ وہ کبیرہ گناہوں پر اصرار کرتے ہوئے (قائم رہتے ہوئے ) مرا۔ لیکن اس کو خبر نہیں ہے۔ اور چونکہ علم تصوف فرض عین ہے۔ اس لئے تصوف کی تعلیم دینے والے مشائخ کے پاس سفر کر کے جانا واجب ہے جب کہ وہ تربیت کے لئے مشہور ہوں۔ اور روحانی امراض کے لئے ان کے ہاتھ کی دو امشہور ہو چکی ہو۔ اگر چہ اس کے لئے والدین کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے۔ مشائخ تصوف جیسے امام بلالی اور سنوسی وغیرہ نے اس کو مستند قرار دیا ہے۔
حضرت شیخ سنوسی نے فرمایا ہے:۔ نفس جب غالب ہو کر دشمن کی طرح اچانک سامنے آ جائے ۔ تو اس سے مجاہدہ اور مقابلہ کرنے کے لئے امداد پانی ضروری ہے۔ اگر چہ والدین اس کی مخالفت کریں۔ جیسا کہ دشمن جب مقابلہ کرنے کے لئے سامنے آ جائے ۔ تو اس سے مقابلہ کرنا لازمی ہے۔ شرح جزیری میں اس کی تشریح کی گئی ہے۔
ایک عارف نے یہ حقیقت اپنے اشعار میں بیان فرمائی ہے؟
أَخَاطِرُ فِي مَحْبَتِكُمْ بِرُوحِي وَارْكَبُ بَحْرَكُمْ إِمَّا وَإِمَّا
میں تمہاری محبت میں اپنی روح کے ساتھ محو رہتا ہوں۔ اور تمہاری معرفت کے دریا پر میں سوار ہوں کبھی ایک حال میں کبھی دوسرے حال میں
اسْلُكُ كُلَّ فَجٍّ فِي هَوَاكُمُ وَاشْرَبُ كَاسَكُمْ لَوْ كَانَ سَما
اور میں تمہاری خواہش میں ہر راستے پر چلتا ہوں نزدیک ہو یا دور آرام ہو یا تکلیف اور تمہارا پیالہ پیتا ہوں اگر چہ وہ ز ہر نہ ہو
وَلَا أَضْحَى إِلَى مَنْ قَدْ نَهَانِي وَلِي أُذُنٌ مِنَ الْعِدَّالِ صُمَّا
اور میں اس شخص کی طرف توجہ نہیں کرتا ہوں جو مجھ کو تمہاری محبت سے منع کرتا ہے، اور ملامت کرنے والے کی باتیں سننے سے میرے کان بہرے ہیں۔
أَخَاطِرُ بِالْخَوَاطِرِ فِي هَوَاكُمُ وَاتْرُكُ فِي رِضَاكُمْ آبا و انما
میں اپنے قلب کے کل خیالات کے ساتھ تمہاری محبت میں محور ہتا ہوں اور تمہاری رضا مندی کے لئے باپ اور ماں کو ترک کر دیتا ہوں ۔
تصوف کے مسائل کا خیال رکھنا:
کہ ان اصطلاحات اور کلمات کو معلوم کرنا اور پہچاننا جو حضرات صوفیائے کرام کے طبقے میں مستعمل ہیں۔ جیسے اخلاص ، صدق ، توکل، زہد، ورع، رضا تسلیم ، محبت ، فنا، بقاء۔ اور جیسے ذات صفات ، قدرت، حکمت، روحانیت ، بشریت ۔ اور جیسے حال ، وارد، مقام وغیرہ۔ حضرت قشیری نے اپنے رسالہ کے ابتدائی حصے میں اس کی تشریح فرمائی ہے۔ اور میں نے ایک کتاب تصنیف کی ہے۔ اس کا نام میں نے معراج التشوف الى حقائق التصوف رکھا ہے۔ میں نے اس میں تصوف کی ایک سو حقیقتیں بیان کی ہیں ۔ جو شخص تصوف اور اس کے حقائق و معارف سے واقف ہونا چاہتا ہے ۔ اس کو اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیئے ۔ تا کہ صوفیائے کرام کے کلام کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہو۔ اس کتاب میں میں نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ تصوف کے مسائل میں یہ حقیقت بھی سمجھنی ہے کہ وہ ایسے امور ہیں جن پر سالک اپنی سیر کی حالت میں بحث کرتا ہے ۔ تا کہ ان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرے۔ جیسے اخلاص کےعمل کے لئے شرط ہونا، اور زہد کا طریقت کے لئے رکن ہوتا ، اور گوشہ نشینی اور خاموشی کا مطلوب ہونا ۔ اور انہی امور کی طرح بہت سے امور ہیں۔ جو اس فن کے مسائل ہیں۔ لہذا تصوف میں علمی و عملی طور پر غور خوض کرنے سے پہلے ان کا جاننا اور خیال رکھنا ضروری ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔
تصوف کی فضیلت
پہلے یہ بیان کیا جا چکا ہے کہ تصوف کا موضوع ، اللہ سبحا نہ تعالیٰ کی ذات عالیہ ہے ۔ اور وہ تمام کائنات سے مطلقاً افضل ہے۔ لہذا جو علم اس سے متعلق ہے۔ وہ تمام علوم سے افضل ہے۔ اس لئے کہ وہ ابتداء میں اللہ تعالیٰ کی خشیت (خوف) کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور وسط میں اس کے معاملے کی طرف، اور انتہا میں اس کی معرفت، اور اس کی طرف خالص توجہ، اور کل موجودات سے منقطع ہونے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔
اس بناء پر حضرت جنید رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:۔ اگر ہم کو معلوم ہوتا کہ آسمان کے نیچے اس علم تصوف سے جس کے متعلق ہم اپنے اصحاب سے گفتگو کرتے ہیں ، افضل بھی کوئی علم ہے۔ تو ہم اس کو دوڑ کر حاصل کرتے ۔
حضرت شیخ صقلی رضی اللہ عنہ نے اپنی کتاب انوار القلوب فی علم الموہوب میں فرمایا ہے:۔ جس شخص نے اس علم تصوف کی تصدیق کی۔ وہ خاص لوگوں میں سے ہے۔ اور جس نے اس کو سمجھا۔ وہ خاص الخاص لوگوں میں سے ہے۔ اور جو اسکی انتہا تک پہنچ گیا۔ وہ ایسا روشن ستارہ ہے۔جس کو سمجھا نہیں جا سکتا۔ اور ایسا سمندر ہے جس کا پانی کم نہیں ہو سکتا ہے۔
ایک دوسرے بزرگ نے فرمایا ہے۔ جب تم کسی ایسے شخص کو دیکھو جس کے لئے اس طریقہ کی تصدیق کا دروازہ کھولا گیا ہے۔ تو تم اس کو بشارت دو۔ اور جب تم ایسے شخص کو دیکھو جس کے لئے اس میں فکر اور سمجھ کا دروازہ کھولا گیا ہے۔ تو تم اس کے اوپر رشک کرو۔ اور جب تم ایسے شخص کو دیکھو جس کے لئے حقیقت کے بیان کرنے کا دروازہ کھولا گیا ہے۔ تو تم اس کی تعظیم و توقیر کرو۔ اور جب کسی ایسے شخص کو دیکھو جو تصوف میں عیب جوئی ونکتہ چینی کرتا ہے۔ تو تم اس سے اس طرح بھا گو جس طرح شیر کو دیکھ کر بھاگتے ہو، اور اس سے جدا ہو جاؤ۔ دنیا میں جتنے بھی علوم ہیں۔ کوئی زمانہ ایسا بھی آتا ہے کہ انسان کو اس کی ضرورت باقی نہیں رہتی ہے۔ مگرتصوف ایسا علم ہے، کہ کوئی شخص کسی زمانے میں بھی اس کی ضرورت سے بے نیاز نہیں ہو سکتا ہے۔ (کیونکہ موت کے پل سے گزر کر جس بادشاہ حقیقی کی بارگاہ میں اس کو حاضر ہونا ہے اس بارگاہ کے آداب و لوازمات، اور بادشاہ حقیقی کی رضامندی حاصل کرنا اس علم کا مقصود ہے )
علم تصوف کی نسبت
دوسرے دینی علوم سے علم تصوف کی نسبت یہ ہے کہ علم تصوف کل علوم کی بنیاد اور شرط ہے۔اس لئے کہ کوئی علم اور عمل اللہ تعالیٰ کی طرف سچی توجہ کے بغیر قابل اعتبار نہیں ہے۔ لہذا صدق توجہ و اخلاص سب کے لئے شرط ہے۔ یہ کسی علم وعمل کے صحیح ہونے ، اور جزا و ثواب کے لائق ہونے کی شرعی حیثیت کے اعتبار سے ہے۔ لیکن خارجی وجود کے اعتبار سے ، تو علوم بغیر تصوف کے پائے جاتے ہیں۔ لیکن وہ ناقص اور نا قابل اعتبار ہیں۔
اسی بناء پر حضرت امام جلال الدین سیوطی نے فرمایا ہے:۔ تصوف کی نسبت دیگر علوم سے ایسی ہے جیسے علم بیان کی نسبت علم نحو سے۔ یعنی ان علوم میں تصوف باعث کمال اور ان کو مکمل اور بہتر بنانے والی ہے۔
اور حضرت شیخ زروق نے فرمایا ہے:۔ دین کے ساتھ تصوف کی نسبت ایسی ہے۔ جیسے جسم کے ساتھ روح کی نسبت۔ اس لئے کہ وہ احسان کا مرتبہ ہے۔ جس کی تفسیر حضرت رسول کریم ﷺ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے سوال کے جواب میں اس طرح فرمائی ہے:۔
أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَانَّكَ تَرَاهُ » تو اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرے کہ گویا تو اس کو دیکھ رہا ہے
اس کا معنی اس کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا ہے۔ اس لئے کہ رویت کا انحصار مشاہدہ کے بعد مراقبہ پر ہے۔ یا مراقبہ کے بعد مشاہدہ پر ہے۔ (اور مراقبہ و مشاہدہ تصوف کے بغیر ممکن نہیں ہے )
اور مراقبہ و مشاہدہ کے بغیر نہ کبھی رویت کا وجود قائم ہوا۔ نہ موجود ظا ہر ہوا۔ پس اس کو بخوبی غور کر کے سمجھنا چاہیئے ۔
اور شاید حضرت شیخ رضی اللہ عنہ نے مشاہدہ کے بعد مراقبہ سے اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کے شہود کے ذریعے بقاء کی طرف لوٹنا مرا دلیا ہے.
تصوف کا فائدہ
قلوب کا درست کرنا ، اور علام الغیوب کی معرفت حاصل کرنا ہے۔
یا اس طرح بھی کہہ سکتے ہو۔ تصوف کا فائدہ نفس کی سخاوت اور قلب کی سلامتی، اور کل مخلوق کے ساتھ اچھے اخلاق سےپیش آنا ہے۔ جاننا چاہیئے کہ یہ علم تصوف جس کا ہم نے ذکر کیا ہے۔ یہ زبان کی بکواس نہیں ہے ۔ بلکہ یہ در حقیقت ذوق و وجدان ہے۔ اور اس کو کتاب کے ورقوں سے نہیں حاصل کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ صرف اہل ذوق عارفین کاملین سے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ قیل و قال سے نہیں پایا جاتا ہے۔ بلکہ اہل کمال مشائخ کی خدمت اور محبت سے میسر ہوتا ہے۔ اللہ کی قسم، جو شخص بھی کامیاب ہوا۔ وہ صرف کامیاب ہونے والوں کی صحبت سے کامیاب ہوا ہے۔ اور توفیق اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔