چکی کا گدھا حکمت نمبر42
چکی کا گدھا کے عنوان سے باب چہارم میں حکمت نمبر42 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا :۔
42) لا تَرْحَلْ مِنْ كَوْنٍ إلى كَوْنٍ فَتَكونَ كَحِمارِ الرَّحى؛ يَسيرُ وَالمَكانُ الَّذي ارْتَحَلَ إلَيْهِ هُوَ الَّذي ارْتَحَلَ عَنْهُ. وَلكِنِ ارْحَلْ مِنْ الأَكْوان إلى المُكَوِّنِ، (وَأَنَّ إِلَى رَبِّكَ الْمُنْتَهَى).
تم مخلوق سے مخلوق کی طرف سفر نہ کرو۔ ورنہ تم چکی کے گدھے کی طرح ہو جاؤ گے۔ جو چلتارہتا ہے اور جس مقام کی طرف وہ سفر کرتا ہے وہ وہی مقام ہے جس سے وہ سفر کرتا ہے۔ بلکہ مخلوقات سے خالق کی طرف سفر کر و اور بیشک آخری منزل تمہارے رب کے پاس ہے ۔ میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: مخلوق سے مخلوق کی طرف سفر کرناغیرا اللہ سے غیر اللہ کی طلب کی طرف سفرکرنا ہے اور اس کی مثال اس طرح ہے کہ مثلا: ایک شخص نے دنیا میں زہد اختیار کیا اور اللہ کی طرف متوجہ اور سب سے منقطع ہو گیا لیکن اس عمل سے اس کی خواہش اپنے بدن کو آرام دینا اور دنیا کو اچھی طرف متوجہ کرتا ہے۔ حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے:۔
مَنِ انْقَطَعَ إِلَى اللَّهِ كَفَاهُ اللَّهُ كُلَّ مُؤْنَةٍ، وَرَزَقَهُ مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ
جو شخص سب سے منقطع ہو کر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اس کی سب ضروریات کیلئے کافی ہوتا ہے اور اس کو اس حیثیت سے روزی دیتا ہے جس کو وہ سمجھ بھی نہیں سکتا ہے ۔
و نیز نبی کریم ﷺ نےفرمایا:۔
مَنْ كَانَتِ الْأَخِرَةُ بَيْنَهُ جَمَعَ اللَّهُ عَلَيْهِ أَمْرَهُ وَجَعَلَ غِنَاهُ فِي قَلْبِهِ وَآتْتُهُ الدُّنْيَا وَهِيَ صَاغِرَةٌ
جس شخص کی نیت آخرت ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اس کے سب کاموں کو اپنے ذمے کر لیتا ہے اور اپنی غنا اس کے قلب میں قائم کر دیتا ہے اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہو کر آتی ہے۔
یا مثلا ایک شخص نے دنیا میں زہد اختیار کیا لیکن اس کی خواہش خصوصیت حاصل کرنا ہے جیسے مخلوق میں عزت اور مقبولیت حاصل کرنی اور لوگوں کے دلوں میں رعب پیدا کرنا۔ یا مثلا: ایک شخص نے دنیا میں زہد اختیار کیاا ور اس سے اس کی خواہش کرامت اور خرق عادت کا پیدا ہوتا ہے۔ یا مثلا: ایک شخص نے دنیا میں زہد اختیار کیا اور اس سے اس کی خواہش حور و قصور حاصل کرناہے۔
پس یہ سب مخلوق سے مخلوق کی طرف سفر ہے اور اسکی مثال چکی کے گدھے کی طرح ہے جو دن رات چلتا رہتا ہے اور پھر بھی اپنی جگہ ہی میں رہتا ہے جس مقام سے وہ سفر کرتا ہے سارا دن چلنے کے بعد وہ اسی مقام پر پہنچتا ہے۔ پس جس شخص کا ارادہ نفسانی حظوظ حاصل کرنا ہے اس کا حال رہٹ کے گدھے کی طرح ہے۔ ہمیشہ چلتا ہی رہتا ہے اور پھر بھی اپنی ہی جگہ میں رہتا ہے۔ اور سمجھتا ہے کہ اس نے منزل مقصود کی طرف کچھ راستہ طے کیا ہے۔ حالانکہ اس کو محنت اور تھکن کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔
حضرت شیخ ابوالحسن شاذلی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے۔ تم صرف ایک دروازے پر ٹھہر ۔ لیکن یہ نیت نہ کرو کہ ہمارے لئے دروازہ کھول دیا جائے ۔ تو تمہارے لئے دروازہ کھولد یا جائیگا۔ اور ایک آقا کے سامنے جھکو۔ لیکن تمہاری نیت یہ نہ ہو ، کہ مخلوق کی گردنیں ہمارے سامنے جھکیں۔ تو تمہارے سامنے گرد نیں جھک جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَإِن مِّن شَيۡءٍ إِلَّا عِندَنَا خَزَآئِنُهُۥہر چیز کے خزانے ہمارے پاس ہیں ۔
پس اے مرید ! تمہارے لئے یہ مناسب ہے کہ تم اپنی ہمت کو بزرگ بادشاہ اللہ تعالیٰ کی طرف بلند کرو اور حقوق کے مشاہدہ سے اللہ تعالیٰ کے مشاہدہ کی طلب میں سفر کر ویا دلیل وبر ہان سے شہود عیاں کے مرتبہ کی طرف سفر کرویہی منزل مقصود اور انتہا تک پہنچنا ہے وَأَنَّ إِلَىٰ رَبِّكَ ٱلۡمُنتَهَىٰ بیشک آخری منزل تمہارے رب کے پاس ہے ۔ اور مخلوق سے مخلوق کی طرف سفر نہ کرو اس طریقے پر کہ تم نفس کے حظوظ میں سے ایک حق کودوسرے کیلئے ترک کرو پس تم چکی کے گدھے کی طرح ہو جاؤ۔ اور ایسے شخص کو گدھے کے ساتھ مشابہت دینا اس کی کند ذہنی اور کم سمجھی کی دلیل ہے اس لئے کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کے متعلق سمجھ رکھتا تو اپنے نفس اور اس کی خواہشات کے حظوظ ہے، اللہ تعالیٰ کے حضور میں پہنچنے کے ارادے سے سفر کرتا۔ پس اے مرید! ایک مخلوق کی طرف سے اپنے ہی جیسی دوسری مخلوق کی طرف سفر نہ کرو بلکہ مخلوق سے خالق کی طرف سفر کرو (وَأَنَّ إِلَىٰ رَبِّكَ ٱلۡمُنتَهَىٰ) اور خالق کی طرف سفر تین امور سے ہوتا ہے۔
اول : تمہاری ہمت کا ماسوی اللہ کو ترک کرکے اللہ تعالیٰ پر منحصر ہونا تا کہ جب اللہ تعالیٰ تمہارے قلب کی طرف نظر کرے تو اس کو ماسوی اللہ کی محبت سے خالی پائے ۔
دوم: حقوق کے قائم کرنے اور نفسانی حظوظ سے بھاگنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا ۔
سوم:۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنا اور اس سے مدد چاہنا اور اسی پر توکل کرو اور جو کچھ وہ تمہارے اوپر نازل کرے اس کیلئے سر تسلیم خم کرنا۔
ہر شے بے نیازی کیلئے چار صفات
حضرت شیخ ابو الحسن رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔ جس شخص میں چار صفات ہوں مخلوق اس کی محتاج ہے اور وہ ہرشے سے بے نیاز ہے ۔ (1) اللہ کی محبت ۔ (2) اللہ کے ساتھ فنا۔ (3) صدق۔ (4) یقین۔ عبودیت میں صدق ربوبیت کے احکام میں یقین –
وَمَنْ أَحْسَنُ حُكْمًا لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ الآية – یقین رکھنے والی قوم کیلئے حکم میں اللہ سے بہتر کون ہے؟
یعنی کوئی نہیں ہے۔ یہ حضرت شیخ زروق رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے ماسوی اللہ سے منہ پھیر کر اللہ تعالیٰ کی طرف ہمت کو متوجہ کرنے کی طلب میں حدیث ہجرت سے جو بخاری شریف میں وارد ہے۔ استدلال کیا ہے۔ چنانچہ فرمایا ۔
وَانُظُرُ إِلَى قَوْلِهِ ا : فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَنَ كَانَتْ هِجُرَتُهُ إِلَى الدُّنْيَا يُصِيبُهَا أَوِ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ فَالْهَمْ قَوْلَهُ عَلَيْهِ الصَّلوةُ وَالسَّلَامُ : فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ وَتَامَّلُ هَذَاالْأَمْرَانُ كُنتَ ذَا لَهُم وَالسَّلَامِ)
حضرت نبی کریم ﷺ کی حدیث کی طرف نظر کرو :۔ جس شخص کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہے تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہے۔ اور جس شخص کی ہجرت دنیا کی طرف اس کو حاصل کرنے کیلئے یا عورت کی طرف اس سے شادی کرنے کیلئے ہے تو اس کی ہجرت اس کی طرف ہے۔ جس کی طرف اس نے ہجرت کی ہے تو نبی کریم ﷺ کے اس قول مبارک کو سمجھو۔ تو اس کی ہجرت اس کی طرف ہے جس کی طرف اس نے ہجرت کی ہے ۔ اور اس معاملہ میں غور کرواگر تم سمجھ والے ہو۔ والسلام
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ ہجرت: ایک وطن سے دوسرے وطن کی طرف اس حیثیت سے منتقل ہونے کو کہتے ہیں کہ جس وطن سے نکلا ہے اس کو چھوڑ دے اور جس وطن کی طرف منتقل ہوا ہے اس میں سکونت اختیار کرے۔
ہجرت تین طرح
ہجرت تین طرح سے ہوتی ہے اور ہجرت یہاں تین امور سے ہوتی ہے:۔
(1) معصیت کے وطن سے اطاعت کے وطن کی طرف۔
(2) غفلت کے وطن سے بیداری کے وطن کی طرف ۔
(3) عالم اجسام کے وطن سے عالم ارواح کے وطن کی طرف۔
پس جو شخص ان وطنوں سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی رضا مندی تک پہنچنے، یا اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول کی معرفت تک پہنچنے کا ارادہ کر کے ہجرت کرے تو اس کی ہجرت اس کے ارادہ اور ہمت کے مطابق اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول تک پہنچانے والی ہوگی ۔ پس اے سننے والو ! حضرت رسول کریم ﷺ کا یہ قول مبارک سنو ۔ پس اس کی ہجرت اس کی طرف ہے جس کی طرف سے ہجرت کی ہے اور اس میں غور کرو اور اس کو اپنے قلب اور نفس پر پیش کرو۔ اور دیکھو کہ جس سے تم نے ہجرت کی ہے کیا اس کی طرف تمہاری توجہ کا کوئی شائبہ باقی ہے ۔؟ یا جس کی طرف تم نے ہجرت کی ہے یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی رضا مندی یا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی معرفت کیا اس کے سوا تمہارے اندر نفس کے حظوظ میں سے کوئی حصہ باقی ہے۔
کیونکہ اللہ تعالیٰ غیور ہے وہ اس کو پسند نہیں کرتا ہے کہ اس کا چاہنے والا اس کے سوا کچھ اور بھی چا ہے۔ اور جس کے اندر اس کے نفس اور اس کی خواہشات کا ادنی حصہ بھی باقی ہے وہ ہرگز اللہ تعالیٰ تک نہ پہنچے گا
حضرت ششتری رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:۔
إِنْ تُرِدْ وَصْلَنَا فَمَوْتُكَ شَرْطٌ لَا يَنَالُ الْوِصَالَ مَنْ فِيْهِ فَضْلُهُ
اگر تم مجھ سے ملنا چاہتے ہوتو اس کیلئے تمہارا فنا ہونا شرط ہے جس شخص کے اندر اس کا کوئی فعل باقی ہے وہ میرے وصال تک نہیں پہنچ سکتا ۔
اور حضرت ششتری رضی اللہ عنہ نے یہ بھی فرمایا ہے ۔
لَيْسَ يُدْرِكَ وَصَالِي كُلَّ مِّن فِيهِ بُقْيَا
کوئی بھی شخص جس کے اندر اس کے نفس اور اس کی خواہشات کا کوئی شائبہ باقی ہے وہ میرےوصال کو نہیں پاسکتا ہے ۔
اور میں نے اپنے شیخ بازیدی رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا ۔ اگر تم یہ جاننا چاہتے ہو کہ کیا تمہارے نفس نے اس عالم سے عالم ملکوت کی طرف سفر کیا یا نہیں ، تو اس پر دو امور پیش کرو جن کی وہ خواہش کرتا تھا۔ یا یکے بعد دیگرے ان کی طرف مائل ہوتا تھا تو اگر تم ایسا پاؤ کہ وہ ان امور سے سفر کر گیا ہے اور ان کی محبت اس کے دل سے نکل گئی ہے۔ اور ان میں سے کسی ایک کی طرف بھی اس نے توجہ نہیں کی۔ تو خوش ہو جاؤ کیونکہ بے شک تمہاری ارواح عالم ملکوت کی طرف سفر کر گئی ہیں۔ اور اگر تم ایسا پاؤ کہ اس نے توجہ کی اور اس دنیا سے کسی چیز کی محبت کی طرف مائل ہوا تو اس سے جہاد کرو ۔ اور اس کو اس سے بالکل نکا لو۔ یہاں تک کہ وہ اپنے رب کی طرف سفر کر جائے۔ اس باب کو حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ نے سلام پرختم کیا کیونکہ یہ باب افر اور مقام کےبیان پر شامل ہے پس یہ باب پورے کا پورا خلق کے مشاہدہ سے خالق کے مشاہدہ کی طرف قلب کے سفر کی رہنمائی کرتا ہے پس سلامتی کے ذکر کیلئے سلام پر اس کو ختم کرنا مناسب سمجھا۔
چونکہ سفر میں کسی رہنما کا ہونا لازمی اور ضروری ہے ورنہ سید ھے راستے سے بھٹک جانے کا خطرہ ہے لہذا مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ نے پانچویں باب میں صحبت، شیخ کے لوازمات اور اس آداب بیان فرمائے ۔ چوتھاباب ختم ہوا۔