یہ تیسویں دعا ہے کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ کی جوتالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
تیسویں مناجات
اِلٰهِىْ كَيْفَ أَخَيَّبُ وَاَنْتَ اَمَلِيْ
اے میرے اللہ ! میں نا کام کیسے کیا جاؤں گا جب کہ میری امید تو ہے ۔
یعنی میری حرص اور امید کا مقام تو ہے۔ اور کریم، حرص کرنے والوں کی امیدوں کو نا کام نہیں کرتا ہے۔ جب کہ وہ اکرم الاکرمین ہے:
أَمْ كَيْفَ أَهَانُ وَعَلَيْكَ مُتَكَلِي
یا میں ذلیل ورسوا کیسے کیا جاؤں گا جب کہ میرا بھروسہ تیرے اوپر ہے۔
اور تو نے اپنی بزرگ کتاب قرآن کریم میں فرمایا ہے:
وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ
اور جو شخص اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے تو وہ اس کے لئے کافی ہے اور جس کے لئے تو کافی اور مددگار ہو۔ وہ بھی ذلیل و رسوا نہیں کیا جاسکتا ہے۔
حکایت: ایک ولی کے گھر میں ان کی آخری عمر میں ایک لڑکی پیدا ہوئی۔ اور اس لڑکی کی ماں کا انتقال ہو گیا۔ اور ان ولی کی وفات کا وقت آ گیا۔ تو ایک شخص نے ان سے کہا: یا حضرت! آپ لڑکی کے بارے میں مجھ کو وصیت کر دیجئے تا کہ میں اس کی پرورش کا ذمہ دار ہو جاؤں ۔ ولی نےجو اب دیا۔ نہیں، ایسا نہیں ہو سکتا ہے۔ لیکن جب میرا انتقال ہو جائے تو آپ اس لڑکی کو اللہ تعالیٰ کے حرم شریف میں لے جائیے ۔ اور حجر اسود کے پاس چھوڑ کر چلے آیئے ۔ اور اس لڑکی کو اللہ تعالیٰ کی کفالت ( ضمانت ) میں چھوڑ دیجئے ۔ لہذا جب ان ولی کا انتقال ہو گیا تو اس شخص نے ویسا ہی کیا،جیسا انہوں نے فرمایا تھا لیکن دور کھڑا ہو کر لڑکی کی نگرانی کرتا رہا۔ خلیفہ وقت کی ماں طواف کر رہی تھی۔ اس نے اس لڑکی کو دیکھا تو اس نے اپنے لئے اس لڑکی کو اٹھا کرلے چلنے کا حکم دیا۔ پھر اس نے اس کو اپنی متبنی بیٹی بنالیا۔ اور اس کی پرورش کی۔ یہاں تک کہ وہ بالغ ہوگئی ۔ تو اس نے وزیر کے لڑکے سے اس کا نکاح کیا۔ اور اس کا مہر بیس ہزار دینار مقرر کیا۔ لہذا تم اس شخص کے حال پر غور کرو ۔ جس نے اپنے مولائے حقیقی کی کفالت پر بھروسہ کیا۔ اور اس کی حفاظت اور حمایت کے قلعے میں پناہ لی۔�
ایک عارف کے اشعار ہیں:
اَيَحْسُنُ بِيْ فِي دَارِكُمْ وَنُزُولِكُمْ أُوَجِّهُ يَوْمًا لِلْعِبَادِ رِجَائِیَا
تمہارے گھر میں ہونے اور تمہارے یہاں اترنے کی حالت میں کیا میرے لئے یہ بہتر ہو سکتا ہے کہ میں اپنی امیدیں کسی دن بندوں کے سامنے پیش کروں۔
یَحِقُّ لِمِثْلِىْ أن يَعُودَ لِمِثْلِكُمْ وَاَنْ اَتْرُكَنَْ جَمْعَ الْعِبَادِ وَرَائيَا
مجھ جیسے محتاج کے لئے یہی بہتر ہے کہ تم جیسے کریم کی طرف لوٹے ۔ اور سب بندوں کو پیچھے چھوڑ دوں۔
حکایت: ایک شخص نے سفر کا ارادہ کیا۔ اس کی بیوی حاملہ تھی ۔ جب وہ سفر کے لئے روانہ ہوا ۔ تو اس نے کہا: اے اللہ میں اس بچے کو جو اس عورت کے شکم میں ہے تیرے سپرد کرتا ہوں یہ کہہ کر وہ چلا گیا جب وہ سفر سے واپس آیا۔ تو اس نے اپنی بیوی کے متعلق لوگوں سے دریافت کیا ۔ تو اس کو بتایا گیا وہ حاملہ ہونے کی حالت میں انتقال کر گئی ۔ جب رات ہوئی تو وہ قبرستان کی طرف گیا۔۔ اس نے ایک روشنی دیکھی وہ اس روشنی کے پیچھے پیچھے چلا ۔ اور اچانک وہ اپنی بیوی کی قبر میں پہنچ گیا۔ اس نے اس کے اوپر سے کفن ہٹایا ۔ تو دیکھا کہ بچہ اس کے پستان سے دودھ پی رہا ہے۔ بس ہاتف غیب نے اس کو آواز دے کر کہا: اے شخص! تو نے لڑکے کو ہمارے سپرد کیا تھا۔ لہذا تو نے اس کو پا لیا۔ اگر تو اس کی ماں کو بھی ہمارے سپرد کرتا تو دونوں کو تو ایک ساتھ پاتا۔ یہ حکایت تنویر سے نقل کی گئی
لہذا اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اس شخص پر کتنی مہربانی فرمائی جس نے اس کی حفاظت چاہی۔ اور اس شخص کی کتنی حفاظت فرمائی جو اس کی حمایت میں داخل ہو گیا۔ اے اللہ! تو ہم کو ان لوگوں میں شامل کر جنہوں نے تیرے قلعے میں پناہ لی۔ پس تو ان کے لئے کافی ہو گیا۔ اور ان لوگوں میں شامل کر جنہوں نے اپنے ترکے میں تیری حفاظت چاہی۔ لہذا تو نے ان کی حفاظت فرمائی۔ یا ارحم الراحمین
اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جو شخص اللہ عزیز کی حفاظت میں داخل ہو جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ عزیز اور اس کے سامنے ذلیل ہوتا ہے۔
شیعہ کا جنازہ پڑھنے پڑھانے والےکیلئے اعلیٰحضرت کا فتویٰ
دوہرا اجر پانے والے
سواء السبیل کلیمی
خاندانِ نبوی ﷺ کے فضائل و برکات العلم الظاهر في نفع النسب الطاهر
حیلہ اسقاط ایک جلیل القدر نعمت
امر الہی کے تین مراتب
آداب مرشد
تہنیت از سخی مادھو لعل حسین قلندر
مقامات سلوک از ڈاكٹر محمد عبد الرحمن عمیرہ المصری
مفتاح اللطائف
کشکول کلیمی
رسم رسُولی
آداب سماع شیخ کلیم اللہ جہان آبادی چشتی