یہ اکتیسویں دعا ہے کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ کی جوتالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
إِلٰهِي كَيْفَ اَسْتَعِزُّ وَفِي الذِّلَّةِ ارْ كَز ْ تَنِي
اے میرے اللہ ! میں عزت کیسے طلب کروں ۔ جب کہ تو نے مجھ کو ذلت میں قائم کیاہے؟
یعنی میں تیرے سامنے عزت کیسے طلب کروں جب کہ تو نے مجھ کو عبودیت کی ذلت میں قائم کیا ہے؟
اَمْ كَيْفَ لَا اسْتَعِزُّ وَالَیْكَ نَسَبْتَنِي؟ یا میں عزت کیسے نہ چا ہوں ۔ جب کہ تو نے مجھ کو اپنی طرف منسوب کیا ہے؟
یعنی میں اپنے قلب اور روح اور سر میں عزت کیسے نہ چا ہوں ۔ جب کہ تو نے مجھ کو اس طریقے سے اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ کہ تو نے میرے قلب میں خصوصیت کا راز، اور معرفت کا نور ، اور آزادی کی قوت سپر دفرمائی ۔ پھر تو نے فرمایا اے میرے بندے! اور اے میرے دوست ۔ اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ نسبت وجود پر فکر، اور کل موجود پر بڑائی کا سبب ہے۔ لہذاعارف کی ذلت عبودیت کے سبب اس کے ظاہر میں ہے۔ اور اس کی عزت انوار ربوبیت کے مشاہدے کی بناء پر آزادی کے سبب اس کے باطن میں ہے۔
اس کی طرف ایک عارف نے اپنے ان اشعار میں اشارہ فرمایا
نَحْنُ إِنْ كَنَّابِهِ تُهْنَا دَلَالًا عَلىٰ کُلِّ الْحَرَائِرِ وَالْعَبَیْدِ
ہم اگر اس کے ساتھ ہوتے ہیں تو تمام آزادوں اورغلاموں پر عزت اور وقار سے فخرکرتے ہیں ۔
وَإِنَّ نَحْنُ رَجَعْنَا إِلَيْنَا عَطَّلَ ذُلُّنَا ذُلَّ الْيَهُودُ
اور جب ہم اپنی طرف لوٹ آتے ہیں تو ہماری ذلت یہود کی ذلت کو بھی شکست دے دیتی ہے۔
ایک عارف نے فرمایا ہے: میں نے ہر ذلت والے کی ذلت کو دیکھا۔ تو مجھ کو اپنی ذلت ان کی ذلت سے بڑھی ہوئی نظر آئی۔ اور میں نے ہر عزت والے کی عزت کو دیکھا۔ تو مجھ کو اپنی عزت ان کی عزت سے زیادہ نظر آئی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: میں ایسا ذلیل ہوں کہ میری ذلت کے مقابلے میں ہر ذلیل عزیز ہے۔ اور میں ایسا عزیز ہوں کہ ہر شخص میری نسبت کی وجہ سے عزیز ہے۔ اور اس ذات کی نسبت کی وجہ سے عزیز ہے۔ جس کی نسبت کی وجہ سے میں عزیز ہوں ۔ پھر چونکہ محتاجی ذلت کا بھائی ہے۔