اس بیان میں کہ علم الیقین اور حق الیقین جو بعض صوفیوں نے مقرر کیے ہوئے ہیں، درحقیقت علم الیقین کے تین حصوں میں سے دو حصے ہیں اورعلم الیقین کا ایک حصہ ابھی آگے ہے۔ پھر عین الیقین اور حق الیقین کا کیا ذکر ہے اور اس بیان میں کہ ان علوم کا صاحب اس ہزار(سال) کا مجدد ہے۔ میر محمد نعمان کی طرف صادر فرمایا ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (الله تعالی کا حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو) مدت گزری ہے کہ آپ نے اپنی خیریت کے احوال سے اطلاع نہیں بخشی۔ آپ کی صحت و استقامت الله تعالی سے مطلوب ہے۔
آپ کو واضح ہو کہ علم الیقین ان آیات کے شہود(قدرت کی نشانیوں کےمشاہدہ) سے مراد ہے جویقین علمی کا فائدہ دیتی ہیں۔ یہ شہود درحقیقت اثر سے مؤثر کی طرف استدلال کا نام ہے۔ پس جو کچھ تجلیات وظہورات آفاق وأنفس کے آئینوں میں دیکھے جاتے ہیں، سب اثر سے مؤثر کی طرف دلالت پانے کی قسم سے ہیں۔ اگرچہ ان تجلیات (غیبی انوار دلوں پر ظاہر ہونا) کوتجلیات ذاتیہ اور ان ظہورات کو بے کیف کہیں کیونکہ آئینے میں کسی شے کا ظہور اس شے کے آثار میں سے ایک اثر ہے نہ کہ اس شے کے عین کا حصول۔
پس سیر آفاق اورا نفسی بتمامہ دائرہ علم الیقین سے قدم باہر نہیں لے جاتا اور اثر سے مؤثر کی طرف استدلال کے سوا کچھ اس کے نصیب نہیں ہوتا۔ اللہ تعالی فرماتا ہے سَنُرِيْهِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ (ہم ان کو آفاق دنیا میں اور ان کے اپنے نفسوں میں نشان دکھائیں گے تا کہ ان پر ظاہر ہو جائے کہ وہ حق ہے)
دوسروں نےسیر آفاق کوعلم الیقین سے جانا ہے اور عین الیقین اورحق الیقین کوسیرانفسی میں ثابت کیا ہے اور اس کے سوا اور کوئی سیر بیان نہیں کیا۔
آں ایشا ند و من چنینم بارب ترجمہ: وہ ایسے ہیں میں ایسا ہوں یارب۔
آپ جانتے ہیں کہ حق تعالی بندہ سےبھی بندہ کی نسبت زیادہ نزدیک ہے پس بندہ سے حق تعالی تک اقربیت کی جانب میں ایک اور سیر درمیان ہے جس کے قطع کرنے پر وصول الی لله منحصر ہے۔ یہ تیسرا سیر بھی حقیقت میں علم الیقین ہی کو ثابت کرتا ہے۔ اگر چہ دائرہ ظلیت سے باہر ہے لیکن ظلیت کی آمیزش سے پاک و صاف نہیں کیونکہ حق تعالی کے اسماء و صفات درحقيقت حضرت ذات تعالی کے ظلال ہیں اور جس میں ظلیت کی ملاوٹ ہو۔ وه آثار وآيات میں داخل ہے۔ پس انہوں نے علم الیقین کے تین سیروں میں سے ایک سیرکوعلم الیقین کے ساتھ مخصوص کیا ہے اورعلم الیقین کے دوسرے سیر کو عین الیقین حاصل کرنے والا سمجھا ہے اور تیسرےسیر(اقربیت)کو بیان ہی نہیں کیا تا کہ علم الیقین کا دائرہ تمام ہو جاتا۔ ابھی عین الیقین اور حق الیقین آگے ہیں۔
قیاس کن ز گلستان من بہار مرا ترجمہ: بہار میری سمجھ لے تو باغ میرے سے
یہ فقیرعین الیقین اورحق الیقین کی نسبت کیا بیان کرے اور اگر کچھ بیان کرے تو کوئی کیا سمجھے گا اور کیا معلوم کرے گا۔ یہ معارف احاطہ ولایت سے خارج ہیں۔ ارباب ولایت علماء ظاہر کی طرح ان کے ادراک سے عاجز اور ان کے سمجھنے سے قاصر ہیں۔یہ علوم انوار نبوت على صاحبها الصلوة والسلام والتحیۃ کی مشکوۃ(قندیل) سے مقتبس ہیں جو الف ثانی کی تجدید کے بعد تبعیت ووراثت کے طور پر تازہ ہوئے ہیں اور تروتازہ ہوکر ظاہر ہوتے ہیں۔ ان علوم و معارف کا صاحب اس الف(ہزار سال) کا مجدد ہے۔ چنانچہ اس کے ان علوم و معارف میں جو ذات و صفات اور افعال اور احوال و مواجید اورتجلیات وظہورات کے متعلق ہیں ،نظر و غور کرنے والوں سے پوشیده نہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ تمام علوم و معارف علماء کے علوم ہیں اور اولیاء کے معارف وراء الوراء (بہت بلند)ہیں بلکہ یہ علوم ان علوم کے مقابلے میں پوست کی طرح ہیں اور یہ معارف اس پوست کی مغز کی مانند والله سبحانہ الھادی (اللہ ہی ہدایت دینے والا ہے) جاننا چاہئے کہ ہر سوسال کے بعد ایک مجددگزرا ہے لیکن سوسال کا مجدد اور ہے اور ہزار کا مجدد اور جس قدرسو اور ہزار کے درمیان فرق ہے۔ اسی قدر بلکہ اس سے زیادہ دونوں مجددوں کے درمیان فرق ہے اور مجدد وہ ہوتا ہے کہ جو فیض اس مدت میں امتوں کو پہنچنا ہوتا ہے۔ اسی کے ذریعےپہنچتا ہے، خواہ اس وقت کے اقطاب واوتاد ہوں اور خواہ ابدال ونجباء۔
خاص کند بنده مصلحت عام را (عام لوگوں کے بھلے کیلئے ایک کو خاص کر لیتا ہے۔ والسلام علی من اتبع الهدى والتزم متابعة المصطفى وعلى اله الصلوات والتسلیمات العلى وعلى جميع اخوته من الأنبياء والمرسلين والملئکۃ المقربین و عباداللہ الصالحین اجمعین سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت کی پیروی کی اور حضرت محمدمصطفے علیہ وعلى اله الصلوات والتسلیمات اور آپ کے تمام بھائیوں انبیاء والمرسمرسلین اور ملائکہ مقربین اور حق تعالی کے نیک بندوں کی متابعت کو لازم پکڑا۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ34 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی